قیامت
کے دن جب لوگوں کا حساب کتاب ہوگا تو مجرمین اپنے گناہوں کو قبول کرنے کے بجائے
انکار کر بیٹھیں گے اللہ پاک ان کے اعضا کو حکم دے گا کہ وہ ان کے خلاف گواہی دیں۔
اللہ
پاک قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:
﴿اَلْیَوْمَ نَخْتِمُ عَلٰۤى اَفْوَاهِهِمْ
وَ تُكَلِّمُنَاۤ اَیْدِیْهِمْ وَ تَشْهَدُ اَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوْا
یَكْسِبُوْنَ(۶۵) ﴾
ترجمۂ
کنزالایمان: آج ہم ان کے مونہوں پر مُہر کردیں گے اور ان کے ہاتھ ہم سے بات کریں گے اور ان کے
پاؤں ان کے کیے کی گواہی دیں گے ۔ (پ: 23، یٰس: 65)
اس
کی تفسیر میں شیخ الحدیث والتفسیر مفتی
قاسم صاحب فرماتے ہیں ابتدا میں کفار اپنے کفر اوررسولوں علیہم السّلامکو جھٹلانے کا انکار کریں گے اور کہیں گے ہمیں اپنے رب
اللہ کی قسم کہ ہم ہرگز مشرک نہ تھے اللہ تعالی ان کے منہ پر مہر لگا دے گا تاکہ
وہ بول نہ سکے پھر ان کے دیگر اعضاء بول اٹھیں گے اور جو کچھ ان سے صادر ہوا سب بیان
کر دیں گے۔
(صراط
الجنان جلد8 صفحہ 273)
آ
گے چل کر مفتی صاحب مزید فرماتے ہیں معلوم ہوا بندہ اپنے جسم کے جن اعضاء سے گناہ
کرتا ہے وہی اعضاء قیامت کے دن اس کے خلاف گواہی دیں گے اور اس کے تمام اعمال بیان
کردیں گے اور اس کی حکمت یہ ہے کہ بندے کی ذات خود اس کے خلاف حجت ہوگی۔
(صراط
الجنان جلد8 صفحہ 274)
حضرت
ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ایک طویل حدیث کے آخر میں ہے کہ بندہ کہے گا
اے میرے رب میں تجھ پر، تیری کتاب پر اور تیرے رسولوں پر ایمان لایا میں نے نماز
پڑھی، روزہ رکھا اور صدقہ دیا وہ بندہ اپنی استطاعت کے مطابق اپنی نیکیاں بیان کرے
گا اللہ تعالیٰ فرمائے گا "ابھی پتا چل جائے گا" پھر اس سے کہاجائے گا ہم ابھی تیرے خلاف اپنی گواہ بھیجتے
ہیں وہ بندہ اپنے دل میں سوچے گا میرے خلاف کون گواہی دے گا پھر اس کے منہ پر مہر
لگا دی جائے گی اور اس کی ران اس کے گوشت اور اس کی ہڈیوں سے کہا جائے گا کہ تم
بولو پھر اس کی ران ،اس کا گوشت اور اس کی ہڈیاں اس کے اعمال بیان کریں گے اور یہ اس لیے کیا جائے گا کہ خود اس کی ذات
اس کے خلاف حجت ہوں اور یہ بندہ وہ منافق ہوگا جس پر اللہ تعالی ناراض ہو گا
(مسلم
شریف كتاب الزهد والرقائق صفحہ 587 الحدیث16 (2968)
اللہ
پاک ہمیں اپنے اعضاء سے نیکیاں کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین