شعب الایمان جلد3 صفحہ نمبر 303 ،حدیث نمبر 3603 میں حضرت  جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رحمتِ عالمیان، سرورِ دوجہان صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ ذی شان ہے : میری امت کو ماہِ رمضان میں پانچ چیزیں ایسی عطا کی گئی جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہ ملیں۔جب رمضان المبارک کی پہلی رات ہوتی ہے تو اللہ پاک نظرِ رحمت فرماتا ہے اور جس کی طرف اللہ پاک نظرِ ر حمت فرمائے اسے کبھی بھی عذاب نہ دے گا۔2۔ شام کے وقت ان کے منہ کی بو (جو بھوک کی وجہ سے ہوتی ہیں)اللہ پاک کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بھی بہتر ہو۔3۔ فرشتے ہر رات اور دن ان کے لیے مغفرت کی دعائیں کرتے رہتے ہیں۔4۔ اللہ پاک جنت کو حکم فرماتا ہے: میرے نیک بندوں کے لئے مزین ( یعنی آراستہ) ہوجا عنقریب وہ دنیا کی مشقت سے میرے گھر اور کرم میں راحت پائیں گے۔ جب ماہِ رمضان کی آخری رات آتی ہے تو اللہ پاک سب کی مغفرت فرمادیتا ہے۔( فیضانِ رمضان،1/25،26)خلاصہ: فرمانِ نبی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے مطابق امتِ محمدیہ کو رمضان کے خاص پانچ وہ فضائل جو کسی اور امت کو عطا نہ ہوئے جیسے اللہ پاک کی خصوصی رحمت کہ منہ کی بو مشک سے بڑھ کراور فرشتوں کا دعائے مغفرت کرنا۔وغیرہ


رمضان المبارک ایک بھٹی ہے جیسے کہ بھٹی گندے لوہے کو صاف اور صاف لوہے کی مشین کا پرزہ بنا کر قیمتی کردیتی ہے اور سونے کو زیور بنا کر استعمال کے لائق کردیتی ہے ایسے ہی ماہِ رمضان گنہگاروں کو  پاک کرتا ہے اور نیک لوگوں کے درجے بڑھاتا ہے ۔ 2۔ رمضان میں نفل کا ثواب فرض کے برابر اور فرض کا ثواب ستر گنا ملتا ہے۔3۔بعض علمائے کرام فرماتے ہیں:جو رمضان المبارک میں مرجائے اس سے سوالاتِ قبر بھی نہیں ہوتے۔4۔ رمضان کے کھانے پینے کا حساب نہیں۔5۔قیامت میں رمضان و قرآنِ پاک روزہ دار کی شفاعت کریں گے۔ رمضان تو کہے گا:مولا ! میں نے اسے دن میں کھانے پینے سے روکا تھا اورقرآنِ پاک عرض کرے گا: یارب! میں نے اسے رات میں تلاوت ، تراویح کے ذریعے سونے سے روکا۔ فیضام رمضان،ص27تا29


پاک ہے وہ جس نے زمانوں کو ایک حساب سے رکھا اور موسموں کو مقرر فرمایا:اس نے اپنی معرفت کے سمندر میں عقلوں اور سوچوں کو مستغرق کیا ، اس کی حقیقت میں عقلیں حیر ان ہیں، اس کی بلندی کی معرفت تک پہنچنے والا کوئی نہیں۔ اس نے ماہِ رمضان کو عفو، مغفرت، بشارت، رضا، سرور اور قبولیت کے ساتھ خاص کیا۔ اس نے روزے رکھنے والے کو اس کی مراد تک پہنچانے کا وعدہ کیا، اس کے لیے خوشخبری ہے جس نے اپنے اعضاء کو شک و شبہ سے پاک کیا اور نیک اعمال کے ساتھ ماہِ رمضان کا استقبال کیا۔(حکایتیں اور نصیحتیں،ص77)رمضان کا لغوی معنی جلانے والا رمضان یہ رمض سے بنا ہے جس کے معنی ہیں: گرمی سے جلنا۔ کیونکہ جب مہینوں کے نام قدیم عربوں کی زبان سے نقل کیے گئے تو اس وقت جس قسم کا موسم تھا اس کے مطابق مہینوں کے نام رکھ دیے گئے۔ اتفاق سے اس وقت رمضان سخت گرمیوں میں آیا تھا اسی لیے یہ نام ر کھ دیا گیا۔خاصة الشیء مایوجد فیہ ولا یوجد فی غیرہ کہ کسی چیز کی خصوصیت وہ ہے جو اس میں پائی جائے اور اس کے غیر میں نہ پائی جائے۔کسی چیز کی خصوصیت اسے اس جیسی دوسری چیز سے ممتاز کرتی ہے اسی طرح ماہِ رمضان الکریم کی بھی ایسی بہت سی خصوصیات ہیں جو اسے دوسرے مہینوں سے ممتاز کرتی ہیں۔ماہِ رمضان کی منفرد خصوصیات ملاحظہ ہوں:1:قرآنِ پاک میں صرف رمضان شریف ہی کا نام لیا گیا اور اسی کے فضائل بیان ہوئے کسی دوسرے مہینے کا نہ صراحتاً نام ہے نہ ایسے فضائل ۔مہینوں میں صرف ماہِ رمضان کا نام قرآن میں آیا ،صحابہ میں صرف حضرت زیدابنِ حارثہ رضی اللہ عنہ کا نام قرآن میں لیا گیااور عورتوں میں صرف حضرت بی بی مر یم رضی اللہ عنہا کا نام قرآن میں آیا جس سے ان تینوں کی عظمت معلوم ہوئی۔(فضائل رمضان شریف،ص30)چنانچہ قرآن میں اللہ پاک کا نزولِ قرآن اور ماہِ رمضان کے بارے میں فرمانِ عالیشان ہے: شہر رمضان الذی انزل فیہ القران ھدًی للناس و بینت من الھدیٰ والفرقان (پ 2، البقرہ 185) ترجمۂ کنزالایمان:رمضان کا مہینہ جس میں قرآن اترا لوگوں کے لیے ہدایت اور رہنمائی اور فیصلہ کی روشن باتیں۔ حضرت شعیب حریفیش رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کے تحت فرماتے ہیں:مہینے کو مشہور ہونے کی وجہ سے شہر کہا جاتا ہے اور ماہِ رمضان کو رمضان اس لیے کہتے ہیں کہ یہ گناہوں کو مٹا دیتا ہے، اللہ پاک کے فرمان: انزل فیہ القران سے مراد یہ ہے کہ اس کے فرض روزوں میں قرآنِ کریم اتارا گیا۔(حکایتیں اور نصیحیں ص 80)(2)شام کے وقت ان کے منہ کی بُو (جو بھوک کی وجہ سے ہوتی ہے)اللہ پاک کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بھی بہتر ہے۔(فضائل رمضان شریف ص25)ایک نیک شخص مسجد کی طرف جارہا تھا، اس نے مسجد میں دو آدمی دیکھے جن میں سے ایک نماز پڑھ رہا تھا اور دوسرا مسجد کے دروازے پر سویا ہوا تھا جبکہ شیطان باہر حیران وپریشان کھڑا آگ میں جل رہا تھا۔اس مردِ صالح نے شیطان سے پوچھا: میں تجھے حیران کیوں دیکھ رہا ہوں؟ شیطان نے جواب دیا:اس مسجد میں ایک شخص نماز پڑھ رہا ہے جب بھی میں اس کو نماز سے بہکانے اور غافل کرنے کے لیے داخل ہونے کا ارادہ کرتا ہوں تو مسجد کے دروازے پر سونے والے شخص کے سانس مجھے روک دیتے ہیں۔(حکایتیں اور نصیحتیں ص 85)

ہر گھڑی رحمت بھری ہے ہرطرف ہیں برکتیں ماہِ رمضاں رحمتوں اور برکتوں کی کان ہے

3۔ اس امت کے علاوہ کسی امت کو ایامِ رمضان جیسے افضل دن اور راتیں عطا نہ کی گئیں۔ کیا سابقہ امتیں اس فرمان پر فخر کرسکتی ہیں:الصوم لی و انا اجزی بہ یعنی روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزا ہوں۔اس کی جزا یہ ہے کہ آنکھیں نورِ باری کے دیدار سے لطف اندوز ہوں گی۔ کیا سابقہ امتوں کے لیے یہ اعلان کیا گیا ؟جسے ہر دور و نزدیک والے نے سنا:للصائم فرحتان، یعنی روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں۔(حکایتیں اور نصیحتیں صفحہ 93)

وقد صمت عن الذات دھری کلھا ویوم لقاکم ذاک فطر صیامی

ترجمہ: بے شک میں نے اپنی ساری زندگی لذات سے روزہ رکھا ( یعنی انہیں چھوڑے رکھا) اور تیرے دیدار کے دن ہی میر ا روزہ افطار ہوگا۔4: حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ عنہ فرماتے ہیں:میں نے آخری نبی علیہ الصلوة والسلام کو فرماتے ہوئے سنا: یہ ر مضان تمہارے پاس آگیا ہے اس میں جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں اور شیاطین کو قید کردیا جاتا ہے۔ محروم ہے وہ شخص جس نے رمضان کو پایا اور اس کی مغفرت نہ ہوئی کہ جب اس کی رمضان میں مغفرت نہ ہوئی تو پھر کب ہوگی۔(فضائل رمضان شریف صفحہ 55) 5۔ رمضان کے کھانے پینے کا حساب نہیں(یعنی سحر و افطار کے کھانے پینے کا ) (فضائل رمضان شریف ص29)

عاصیوں کی مغفرت کا لے کر آیا ہے پیام جھوم جاؤ مجرمو! رمضان مہ غفران ہے(غفران یعنی بخشش ، مغفرت)


صوم عربی زبان کا لفظ ہے جس کے لغوی معنیٰ ہیں:باز رہنا۔شریعت میں صبح سے شام تک بہ نیت عبادت صحبت سے اور کسی چیز کے پیٹ یا دماغ میں داخل کرنے سے باز رہنے کو صوم اور روزہ کہا جاتا ہے جس کا مقصد نفس کا زور توڑنا، دل میں صفائی پیدا کرنا، فقرا اور مساکین کی موافقت کرنا، مساکین  پر اپنے دل کو نرم بنانا ہے۔( بحوالہ مراة المناجیح جلد 3)1۔ ماہِ رمضان المبارک میں نیکیوں کا اجر بہت بڑھ جاتا ہے:حضرت ابراہیم نخعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ماہِ رمضان کے ایک دن کا روزہ رکھنا ایک ہزار دن کے روزوں سے افضل ہے اور ماہِ رمضان میں ایک مرتبہ تسبیح کرنا اس ماہ کے علاوہ ایک ہزار مرتبہ تسبیح کرنے( یعنی سبحن اللہ) کہنے سے افضل ہے، اور ایک رکعت پڑھنا غیر رمضان کی ایک ہزار رکعتوں سے افضل ہے۔(بحوالہ فیضانِ رمضان)2۔ شیاطین زنجیروں میں جکڑ دیئے جاتے ہیں: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:حضور اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشا دفرمایا: جب رمضان آتا ہے تو آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں ۔ایک اور روایت میں ہے: جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں،اور شیاطین زنجیروں میں جکڑ دیئے جاتے ہیں۔(بحوالہ فیضانِ ر مضان)3۔ سحری و افطاری :اللہ پاک کے کروڑ ہا کروڑ احسان کہ اس نے ہمیں روزہ جیسی عظیم الشان نعمت عطا فرمائی اور ساتھ ہی ساتھ قوت کے لیے سحری کی نہ صرف اجازت مرحمت فرمائی بلکہ اس میں ہمارے لیے ڈھیروں ثواب بھی رکھ دیا۔ سحری کے متعلق پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نےارشاد فرمایا:1۔ سحری کھایا کرو کیونکہ سحری میں برکت ہے۔(بخاری 17، ص ، 22 ، حدیث 1922)2۔سحری برکت کی چیز ہے جو اللہ پاک نے تم کو عطا فرمائی اس کو مت چھوڑنا۔(سنن الکبریٰ للنسائی ، ج 2، ص 79، حدیث ، 2463)ان تمام فرامین سے ہمیں یہی درس ملتا ہے کہ سحری ہمارے لیے ایک عظیم نعمت ہے اور رمضان شریف کی خصوصیت ہے۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: سرکار صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم فرماتے ہیں:اللہ پاک نے فرمایا: میرے بندوں میں مجھے زیادہ پیارا وہ ہے جو افطار میں جلدی کرتا ہے۔(ترمذی ج 2، ص 164، حدیث 700)سبحان اللہ! یقیناً افطار اللہ پاک کی عطا کردہ نعمت ہے اور اللہ پاک کا پیارا بننے کا ریعہ بھی ۔اللہ پاک نے رمضان المبارک کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ بھی عطا کی ہے کہ افطار میں جلدی کی جائے۔4۔ تراویح:رمضان المبارک کی خصوصیات میں ایک خصوصی نعمت تراویح کی سنت بھی شامل ہے۔ تراویح سنتِ مؤکدہ ہے اور اس میں کم از کم ایک بار ختمِ قرآن بھی سنتِ مؤکدہ۔ تراویح رمضان المبارک کی خصوصیت ہے کیونکہ یہ عبادت صرف رمضان المبارک میں ادا کی جاتی ہے، تراویح ترک کرنا جائز نہیں۔ تراویح کی بیس (20) رکعتیں ہیں۔(فیضانِ رمضان)5۔ لیلۃ القدر: شبِ قدر اس امتِ محمدیہ کی خصوصیات سے ہے ہم سے پہلے کسی کو نہ ملی،اس رات میں سال بھر کے ہونے والے واقعات فرشتوں کے صحیفوں میں لکھ کر انہیں دے دیئے جاتے ہیں، اس رات میں اتنے فرشتے زمین پر اترتے ہیں کہ زمین تنگ ہوجاتی ہے۔ اس رات میں عبادت کرنے والا رب کریم کے ہاں عزت والا ہے۔اس میں بہت اختلاف ہے کہ یہ رات کب ہوتی ہے؟ بعض کے خیال میں رمضان کے آخری عشرےمیں ہے۔بعض کہتے ہیں:آخری عشرے کی طاق تاریخوں میں ہے۔ اکیسویں تئیسویں وغیرہ مگر زیادہ قوی قول یہ ہے کہ ا ن شاء اللہ شبِ قدر ہمیشہ ستائیسویں رمضان کی شب ہے۔حضرتِ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے،رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:شبِ قدر رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں ڈھونڈو۔( بخاری)اس حدیث سے معلوم ہوا! شبِ قدر ہر سال ماہِ رمضان میں ہوتی ہے اور ہوتی بھی ہے آخری عشرہ میں اور طاقت تاریخوں میں، شبِ قدر کو رب کریم نے ہم سے چھپالیا تاکہ ہم اس کی تلاش میں راتوں میں عبادت کریں۔ اللہ پاک نے حضور پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو شبِ قدر کا علم دیا مگر اس کے اظہار کی اجازت نہ دی، اس کو چھپائے رکھا تاکہ اس کی تلاش رہے اور اچھی چیز کی تلاش بھی عبادت ہے لہٰذا یہ چھپانا ہمارے لیے بہتر ہے۔(مراة المناجیح جلد 3)اللہ کریم ہمیں رمضان المبارک کی برکتیں لوٹنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین


رمضان المبارک کی خصوصیات:حضرت جابر بن عبدالله  رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور پرنور،شافعِ یوم النشور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمان عالیشان ہے:میری امت کو رمضان کے مہینے میں پانچ چیزیں ایسی عطا کی گئی ہیں جو میرے سے پہلے کسی نبی کو نہ دی گئیں ۔ (1) جب رمضان کی پہلی شب ہوتی ہے تو اللہ ان کی طرف نظرِ رحمت فرماتا ہے اور جس کی جانب اللہ پاک رحمت کی نظر فرماتا ہے اس پر کبھی عذاب نہیں ہوتا۔(2) شام کے وقت ان کے منہ کی بو (جو بوجہ بھوک آتی ہے) اللہ پاک کے نزدیک مشک کی مہک سے بھی افضل ہے۔(3) فرشتے ہر دن اور رات ان کے لیے دعائے بخشش کرتے ہیں۔ (4) الله پاک بہشت (جنت) کو حکم دیتا ہے: میرے نیک بندوں کیلئے آراستہ ہو جا بہت جلد وہ دنیا کی سخت محنت سے میرے گھر اور کرم میں سکون پائیں گے۔(5) جب رمضان کے مہینے کی آخری شب ہوتی ہے تو اللہ پاک تمام لوگوں کی بخشش فرما دیتا ہے۔ قوم میں سے ایک آدمی کھڑے ہو کر پوچھتا ہے:يا رسول الله صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم ! کیا یہ لیلۃ القدر ہے؟ فرمایا:نہیں! کیا تمھیں معلوم نہیں کہ مزدور جب اپنا کام مکمل کرتا ہے تو اسے اس کی اجرت دی جاتی ہے۔(فیضان سنت،جلد 1 ،صفحہ 21 تا 22) رمضان کے 5 حروف کی نسبت سے 5 مدنی پھول:(1) رمضان المبارک میں نفل کا اجر فرض جتنا اور فرض کا ستر گنا ملتا ہے ۔(2) بعض علما سے روایت ہے:جس شخص کا انتقال رمضان میں ہو اس سے قبر کے سوالات نہیں ہوتے۔(3)اس ماہ میں شبِ قدر ہے۔قرآن رمضان کے مہینے میں نازل ہوا۔انا انزلنه في ليلة القدر ترجمۂ کنزالایمان: بےشک ہم نے اسے شبِ قدر میں اتارا ۔(4) رمضان میں جہنم کے دروازے بند ہو جاتے ہیں اور شیطان قید ہو جاتا ہے۔جنت مزین (آراستہ) ہو جاتی ہے اور جنت کے دروازے کھولے جاتے ہیں اسی وجہ سے ان دنوں میں نیکیوں کی زیادتی اور گناہوں میں کمی ہوتی ہے۔ان دنوں میں جو لوگ گناہ بھی کرتے ہیں وہ بھی اپنے ساتھی ابلیس کے بہکاوے میں کرتے ہیں۔(5)رمضان المبارک میں سحری اور افطار کے وقت مانگی جانے والی دعا مقبول ہوتی ہے یعنی سحری کر کے اور افطار کے وقت ۔یہ درجہ اور کسی مہینے کو حاصل نہیں۔ (فیضانِ سنت ، جلد 1 ، صفحہ 30،28،29)

جب کہا عصیاں سے سخت لاچاروں میں ہوں جن کے پلے کچھ نہیں ان خریداروں میں ہوں

تیری رحمت کیلیے شامل گنہگاروں میں ہوں بول اٹھی رحمت نہ گھبرا میں مدگاروں میں ہوں

صلوا علی الحبیب صلی اللہ علی محمد


خدائے رحمن  کے کروڑ ہا کروڑ احسان کہ اس نے ہمیں ماہِ رمضان جیسی عظیم الشان نعمت سے سرفراز فرمایا: ماہِ رمضان کے فیضان کے کیا کہنے! اس کی تو ہر گھڑی رحمت بھری ہے، رمضان المبارک میں ہر نیکی کا ثواب دس گنا یا اس سے بھی ز یادہ ہے ۔نفل کا ثواب فرض کے برابر اور فرض کا ثواب 70 گنا یا اس سے بھی زیادہ ہے، نفل کا ثواب فرض کے برابر اور فرض کا ثواب 70 گناکردیا جاتا ہے۔عرش اٹھانے والے فرشتے روزہ داروں کی دعا پر آمین کہتے ہیں۔فرمانِ مصطفٰے کے مطابق رمضان کے روزہ دار کے لیے مچھلیاں افطار تک دعائے مغفرت کرتی رہتی ہیں۔(فیضانِ ر مضان صفحہ نمبر21)1:نزولِ قرآن:اس ماہِ رمضان مبارک کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اللہ پاک نے اس میں قرآنِ پاک نازل فرمایا ہے، جیسا کہ اللہ پاک کا فرمان ہے:شہر رمضان الذی انزل فیہ القران ھدی للناس وبینت من الھدیٰ والفرقانترجمہ: رمضان کا مہینہ جس میں قرآن اترا، لوگوں کے لیے ہدایت اور رہنمائی اور فیصلے کی روشن باتیں۔2 ۔ صغیرہ گناہوں کا کفارہ :حضرت ابوہریرہ ر ضی اللہ عنہ سے مروی ہے، حضور پرنور،شافعِ یوم النشور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمان پر اثر ہے: پانچویں نمازیں اور جمعہ اگلے جمعے تک اور ماہِ رمضان اگلے ماہِ رمضان تک گناہوں کا کفارہ ہیں جب تک کہ کبیرہ گناہوں سے بچا جائے۔3۔رمضان المبارک کے چار نام: حکیم الامت حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ تفسیر ِنعیمی میں فرماتے ہیں:اس ماہِ مبارک کے کل چار نام ہیں:1:ماہِ رمضان۔2:ماہِ صبر۔3: ماہِ مواسات ۔اور4:ماہِ وسعتِ رزق۔مزید فرماتے ہیں:روزہ صبر ہے جس کی جزا رب ہے اور وہ اسی مہینے میں رکھا جاتا ہے، اس لیے اسے ماہِ صبر کہتے ہیں۔مواسات کے معنیٰ ہیں: بھلائی کرنا، چونکہ اس مہینے میں سارے مسلمانوں سے خاص کر اہلِ قرابت یعنی رشتے داروں سے بھلائی کر نا زیادہ ثواب ہے۔اس لیے اسے ماہِ مواسات کہتے ہیں۔اس میں رزق کی فراخی( یعنی زیادتی)بھی ہوتی ہے کہ غریب بھی نعمتیں کھالیتے ہیں،اسی لیے اسے ماہِ وسعتِ رزق بھی کہتے ہیں۔(تفسیر نعیمی ج2 ، ص 208)4۔ لیلۃ القدر:اس مہینے میں شبِ قدر ہے، گزشتہ آیت (یعنی پارہ 20 سورة البقرہ آیت نمبر185) سے معلوم ہوا! قرآن رمضان میں آیا اور دوسری جگہ فرمایا:انا انزلنا فی لیلۃ القدرترجمۂ کنزالایمان:بے شک ہم نے اسے شبِ قدر میں اتارا۔دونوں آیتوں کے ملانے سے معلوم ہوا! شبِ قدر رمضان میں ہی ہے اور وہ غالباً ستائیسویں شب ہے کیونکہ لیلۃ القدر میں نو حروف ہیں اور یہ لفظ سورة القدر میں تین بار آیا ہے جس سے ستائیس حاصل ہوئے۔ معلوم ہوا! وہ ستائیسویں شب ہے۔(ص 29)5۔ پانچ خصوصی کرم :حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ،سرکار ِ مدینہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمان ِ ذی شان ہے: میری امت کو ماہِ رمضان میں پانچ ایسی چیزیں عطا کی گئیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہ ملیں۔1:جب رمضان المبارک کی پہلی رات ہوتی ہے تو اللہ پاک ان کی طرف رحمت کی نظر فرماتا ہے اور جس کی طرف نظر ِرحمت فرمائے اسے کبھی بھی عذاب نہ دے گا۔2: شام کے وقت ان کے منہ کی بو(جو بھوک کی وجہ سے ہوتی ہے) اللہ پاک کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بھی بہتر ہے۔3۔فرشتے ہر رات اور دن ان کے لیے مغفرت کی دعائیں کرتے رہتے ہیں۔4۔اللہ پاک جنت کو حکم فرماتا ہے: میرے نیک بندوں کے لیے مزین ہو، یعنی آراستہ ہوجا عنقریب وہ دنیا کی مشقت سے میرے گھر اور کرم میں راحت پائیں گے۔5: جب ماہِ رمضان کی آخری رات آتی ہے تو اللہ پاک سب کی مغفرت فرمادیتا ہے۔قوم میں سے ایک شخص نے کھڑے ہو کر عرض کی:یارسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کیا وہ لیلۃ القدر ہے؟ارشاد فرمایا: نہیں،کیا تم نہیں دیکھتے کہ مزدور جب اپنے کاموں سے فارغ ہوجاتے ہیں تو انہیں اجرت دے جاتی ہے؟(فیضانِ رمضان ص نمبر26)ہر مہینے میں خاص تاریخیں اور تاریخوں میں خاص وقت میں عبادت ہوتی ہے ۔ مگر ماہِ رمضان میں ہر دن اور ہر وقت عبادت ہوتی ہے، اللہ پاک ہمیں ماہِ رمضان میں خوب خوب عبادت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔امین۔مجھے اپنی اور ساری دنیا کے لوگوں کی اصلاح کی کوشش کرنی ہے۔ان شاءاللہ


الحمدللہ  خدائے رحمن کا کروڑ ہا کروڑ احسان کہ اس نے ہمیں ماہِ ر مضان جیسی عظیم الشان نعمت سے سرفراز فرمایا۔ر ب کریم نے اس ماہِ مبارک کو بہت سی خصوصیات سے نوازا ہے جن میں سے چند خصوصیات درجِ ذیل ہیں:نزولِ قرآن: اس ماہِ مبارک کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اللہ پاک نے اس میں قر آن ِپاک کا نزول فرمایا،چنانچہ مقدس قرآن میں خدائے رحمن کا نزولِ قرآن اور ماہِ ر مضان کے بارے میں فرمانِ عالیشان ہے:شہررمضان الذی انزل فیہ القران ھدی للناس وبینت من الھدیٰ والفرقان(پ 2، البقرہ: 185)شبِ قدر: نبیِ رحمت،شفیعِ امت صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:تمہارے پاس ایک مہینا آیا ہے جس میں ایک رات ایسی ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ جو شخص اس ر ات سے محروم رہ گیا، گویا وہ تمام کی تمام خیر سے محروم رہ گیا اور اس کی خیر سے محروم نہیں رہتا مگر وہ شخص جو حقیقتاً محروم ہے۔(ابن ماجہ 2،/298، حدیث: 1644)الحمدللہ اس مہینے کی ایک خصوصیت یہ بھی معلوم ہوئی کہ ہمیں اس میں شبِ قدر جیسی عظیم نعمت عطا ہوئی۔قرآنِ کریم میں رمضان المبار ک کا نام :اس ماہِ مبارک کی خصوصیت یہ بھی ہے کہ قرآنِ کریم میں صر ف رمضان المبارک ہی کا نام لیا گیا ہے اور اسی کے فضائل بیان ہوئے کسی دوسرے مہینے کا نہ صراحتاً نام ہے نہ ایسے فضائل ، اسی سے اس مبارک ماہ کی عظمت معلوم ہوتی ہے۔ماہِ رمضان میں مر نے کی فضیلت :جو خوش نصیب مسلمان ماہِ رمضان میں انتقال کرتا ہے اس کو سوالات ِ قبر سے امان دی جاتی ہے، وہ عذابِ قبر سے بچ جانا اور جنت کا حق دار قرار پاتا ہے۔ حضرات محدثینِ کرام رحمۃُ اللہِ علیہم کا قول ہے: جو مومن اس مہینے میں مرتا ہے وہ سیدھا جنت میں جاتا ہے،گویا اس کے لیے دوزخ کا دروازہ بند ہے۔(انیس الواعظین،ص25)ہروقت عبادات :اس مبارک ماہ کی ایک منفرد خصوصیت یہ بھی ہے کہ ہر مہینے میں خاص تاریخوں اور تاریخوں میں بھی خاص وقت میں عبادات ہوتی ہے جیسا کہ محرم کی دسویں تاریخ اور ذوالحج میں بقرہ عید افضل ہے، مگر ماہِ رمضان میں ہر دن اور ہر وقت عبادت ہوتی ہے، روزہ عبادت، افطار عبادت، تراویح عبادت،سحری کا انتظار عبادت،پھر سحری کھانا بھی عبادت، الغرض ہر آن میں خدا کی شان نظر آتی ہے۔اللہ پاک ہم سب کو بھی رمضان المبارک برکتوں سے مالا مال فرمائے۔امین


اللہ  پاک نےقر آنِ کریم میں اشاد فرمایا:شہر رمضان الذی انزل فیہ القران(ماہ ِ ر مضان جس میں قرآن اتارا گیا)اس مہینہ یعنی رمضان المبارک کو امام الانبیا ،شہنشاہ ِ دو جہاں،حضرت محمد مصطفٰے صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اللہ پاک کا مہینہ فرمایا ہے،چنانچہ تاریخ ابنِ عساکر میں ہے: اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، رسولِ پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:شھررمضان شھراللّٰہ ( ماہِ رمضان اللہ پاک کا مہینہ ہے) حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی گجراتی رحمۃ اللہ علیہ اپنی تفسیرِ نعیمی میں ماہِ ر مضان کی وجہ تسمیہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:رمضان رمضسے بنا ہے، جس کے معنی ہیں: گرمی یا جلنا،چونکہ اس میں مسلمان بھوک پیاس کی تپش برداشت کرتے ہیں یا یہ گناہوں کو جلا ڈالتا ہے، اس لیے اسی رمضان کہا جاتا ہے۔جامع الشمل جلد 2 کے صفحہ نمبر 250 پر علامہ محمد بن یوسف رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمان ہے:انما یسمی رمضان لانہ یرمض الذنوب (بے شک اسے رمضان کا نام دیا گیا ہے کیونکہ یہ گناہوں کو جلا دیتا ہے۔)بعض مفسرین نے فرمایا ہے:جب مہینوں کے نام رکھے گئے تو جس موسم میں جو مہینہ تھا اس سے اس کا نام ہوا، جو مہینہ گرمی میں تھا اسے رمضان کہہ دیا گیا۔یا یہ رمضاء سے مشتق ہے ، رمضاء موسم خریف کی بارش کو کہتے ہیں جس سے زمین دھل جاتی ہے اورر بیع کی فصل خوب ہوتی ہے، چونکہ یہ مہینہ بھی دل کے گردو غبار دھو دیتا ہے اور اس سے اعمال کی کھیتی ہری بھری رہتی ہے اس لیے اسے رمضان کہتے ہیں۔رمضان کی خصوصیات :اس ماہِ مبارک کی بہت سی خصوصیات ہیں :1۔اس ماہِ مبارک کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اللہ پاک نے اس میں قرآنِ پاک نازل فرمایا ہے، چنانچہ پارہ 2 سورة البقرہ کی آیت نمبر 185 میں خدائے رحمن کا فرمانِ عالی شان ہے:شہر رمضان الذی انزل فیہ القران ھدًی للناس وبینت من الھدیٰ والفرقان رمضان کا مہینہ جس میں قرآن اترا، لوگوں کے لیے ہدایت اور رہنمائی اور فیصلے کی روشن باتیں۔2۔ کعبہ معظمہ مسلمانوں کو بلا کر دیتا ہے اور یہ آکر رحمتیں بانٹتا ہے،گویا وہ ( یعنی کعبہ) کنواں ہے اور یہ ( یعنی رمضان شریف) دریایا وہ (کعبہ) دریا ہے اور یہ (رمضان) بارش۔3۔ہر مہینے میں خاص تاریخوں میں بھی خاص وقت میں عبادت ہوتی ہے، مثلاً بقرعید کی چند (مخصوص) تاریخوں میں حج محترم کی دسویں تاریخ افضل مگر ماہِ رمضان میں ہر دن اور ہر قت عبادت ہوتی ہے۔روزہ عبادت،افطار عبادت، افطار کے بعد تراویح کا انتظام عبادت، تراویح پڑھ کر سحری کے انتظار میں سونا،پھر سحری کھانا بھی عبادت ہے۔الغرض ہر آن میں خدا کی شان نظر آتی ہے۔4۔ اس مہینے میں شبِ قدر ہے، کیونکہ پارہ 2 سورة البقرہ کی آیت نمبر 185 میں ہے:شہر رمضان الذی انزل فیہ القران ھدی للناس وبینت من الھدیٰ والفرقان(رمضان کامہینہ جس میں قرآن اترا ، لوگوں کے لیے ہدایت اور رہنمائی اور فیصلے کی روشن باتیں)اور دوسری جگہ پارہ 30 سورة القدر آیت نمبر1میں ار شاد فرمایا:اناانزلنہ فی لیلۃ القدر(بے شک ہم نے اسے شبِ قدر میں اتارا) دونوں آیتوں کے ملانے سے معلوم ہوا! شبِ قدر رمضان میں ہی ہے، شبِ قدر کے متعلق نبیِ رحمت،شفیعِ امت صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:تمہارے پاس ایک مہینہ آیا ہے، جس میں ایک رات ایسی ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے، جو شخص اس رات سے محروم رہ گیا گویا وہ تمام کی تمام خیر سے محروم رہ گیا، اور اس کی خیر سے محروم نہیں رہتا، مگر وہ شخص جو حقیقتاً محروم ہے۔5۔ رمضان میں دوزخ کے دروازے بند ہوجاتے ہیں اور جنت آراستہ کی جاتی ہے اس کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں،اس لیے ان دنوں میں نیکیوں کی زیادتی اور گناہوں کی کمی ہوتی ہے۔جو لوگ گناہ کرتے بھی ہیں وہ نفس امارہ یا اپنے ساتھی شیطان (ہمزاد) کے بہکانے سے کرتے ہیں۔

تجھ پہ صدقے جاؤں ر مضان تو عظیم الشان ہے تجھ میں نازل حق تعالیٰ نے کیا قر آن ہے

ابرِ رحمت چھا گیا ہے اور سماں ہے نور نور فضل ِرب سے مغفرت کا ہوگیا سامان ہے

ہر گھڑی رحمت بھری ہے ہر طرف ہیں برکتیں ماہِ رمضان رحمتوں اور برکتوں کی کان ہے

بھائیو بہنو گناہوں سے سبھی توبہ کرو خلد کے در کھل گئے ہیں داخلہ آسان ہے

یا الہٰی تو مدینے میں کبھی رمضان دکھا مدتوں سے دل میں یہ عطار کے ارمان ہے(وسائل بخشش)


خدائے  رمضان کے کروڑ ہا کروڑ احسان کہ اس نے ہمیں ماہِ ر مضان جیسی عظیم الشان نعمت سے سر فراز فرمایا: ماہِ رمضان کے فیضان کے کیا کہنے! اس کی تو ہر گھڑی رحمت بھری ہے۔رمضان المبارک میں ہر نیکی کا ثواب 70 گناہ یا اس سے بھی زیادہ ہے۔(مراة ج، 3، ص138)نفل کا ثواب فرض کے برابر اور فرض کا ثواب 70 گنا کردیا جاتا ہے۔عرش اٹھانے والے فرشتے روزہ دار کی دعا پر آمین کہتے ہیں۔فرمانِ مصطفٰے کے مطابق رمضان کے روزہ دار کے لیے مچھلیاں افطار تک دعائے مغفرت کرتی رہتی ہیں۔(الترغیب والترھیب ج 2، ص 55، حدیث مبارکہ 56)1۔ نزولِ قرآن :اس ماہِ مبارک کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اللہ پاک نے اس میں قرآنِ پاک نازل فرمایا:چنانچہ پارہ 2، سورة البقرہ آیت نمبر 185 میں اس مقدس قرآن میں خدائے رحمن کا فرمانِ عالیشان ہے:آیتِ مبارکہ :شہر رمضان الذی انزل فیہ القران ھدی للناس وبینت من الھدی والفرقان فمن شھد منکم الشھر فلیصمہ ومن کان مریضا او علی سفر فعدۃ من ایام اخر یرید اللہ بکم الیسرولا یرید بکم العسر ولتکمل العدۃ ولتکبر وااللہ علی ما ھدکم ولعلکم تشکرون 0ترجمۂ کنزالایمان: رمضان کا مہینہ جس میں قرآن اترا ، لوگوں کے لیے ہدایت اور رہنمائی اور فیصلے کی روشن باتیں ہیں، تم میں جوکوئی یہ مہیناپائے ضرور اس کے روزے رکھے اور جو بیمار یا سفر میں ہو تو اتنے روزے اور دنوں میں ، اللہ تم پر آسانی چاہتا ہے اور تم پر دشواری نہیں چاہتا، اور اس لیے کہ تم گنتی پوری کرو، اور اللہ کی بڑھائی بولو، اس پر کہ اس نے تمہیں ہدایت کی اور کہیں تم حق گزار ہو۔(فیضان رمضان ص 22)2۔ شیاطین زنجیروں میں جکڑ دیئے جاتے ہیں:رمضان المبارک کی بے شمار خصوصیات ہیں۔اللہ پاک نے اس ماہِ مبارک کو بہت سی خصوصیات سے نواز ا ہے کہ رمضان المبارک میں شیاطین زنجیروں میں جکڑ دیئے جاتے ہیں،چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی ا للہ عنہ فرماتے ہیں:سلطانِ دو جہاں، رحتِ عالمیان صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ عالیشان ہے:جب رمضان آتا ہے تو آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں اور شیاطین زنجیروں میں جکڑ دیئے جاتے ہیں۔(بخاری ، ج1، ص 399، حدیث 3277)شبِ قدر: رمضان المبارک میں شبِ قدر ہے: گزشتہ آیت سے معلوم ہوا ! قرآن رمضان المبارک میں آیا اور دوسری جگہ فرمایا:ترجمۂ کنزالایمان:انا انزلنہ فی لیلۃ القدر0بے شک ہم نے اسے (قر آنِ مجید) کو شبِ قدر میں اتارا۔(پ 30، القدر 1)دونوں آیتوں کے ملانے سے معلوم ہوا ! شبِ قدر رمضان میں ہی ہے اور وہ غالباً ستائیسویں شب ہے کیونکہ لیلۃ القدر میں نو حروف ہیں اور یہ لفظ سورة قدر میں تین بار آیا، جس سے ستائیس حاصل ہوئے معلوم ہوا ! وہ ستائیویں شب ہے۔4۔ رمضان المبار ک کی پانچ عبادات خصوصی:رمضان میں پانچ حروف ہیں:ر۔م۔ ض۔ ا۔ن ۔ رسے مراد رحمتِ الہٰی، میم سے مراد محبتِ الہٰی ض سے مراد ضمانِ الہٰی الف سے مرا د امانِ الہٰی ن سے مراد نورِ الہٰی۔ رمضان میں پانچ عبادات مخصوص ہوتی ہیں: روزہ، تراویح،تلاوتِ قرآن،اعتکاف،شبِ قدر میں عبادات۔تو جو کوئی صدقِ دل سے پانچ عبادات کرے وہ ان پانچ انعاموں کا مستحق ہے۔(تفسیر نعیمی ج 2، ص 208)5۔ اعتکاف: رمضان المبارک کی برکتوں کے کیا کہنے! یوں تو ہر ہر گھڑی رحمت بھری اور ہر ہر ساعت اپنے چلو میں بے پایاں برکتیں لیے ہوئے ہے، مگر اس ماہِ محترم میں شبِ قدر سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے ،اسے پانے کے لیے ہمارے پیارے آقا،مدینے والے مصطفے صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ماہِ مبارک رمضان کا پورا مہینا بھی اعتکاف فرمایا ہے اور آخری دن کا بہت زیادہ اہتمام تھا۔پچھلی امتوں میں بھی اعتکاف کی عبادت موجود تھی چنانچہ پارہ اول سورۂ بقرہ کی آیت نمبر 125 میں اللہ پاک کا فرمانِ عالیشان ہے:وعھدنا الی ابرہیم واسمعیل ان طہر ا بیتی للطائفین والعکفین والرکع السجود ترجمۂ کنزالایمان :ہم نے تاکید فرمائی ابراہیم و اسماعیل کو کہ میرا گھر خوب ستھرا کرو طواف والوں اور اعتکاف والوں اور رکوع و سجود والوں کے لیے ۔(فیضانِ رمضان 228)اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں اس ماہِ مبارک کی تمام برکتیں لوٹنے کی توفیق عطا فرمائےاور ہمیں اس ماہِ محترم میں نیکیاں کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


رمضان المبارک نہایت ہی عظمت و شان والا مہینہ ہے۔ یہ ماہِ مبارک دیگر تمام مہینوں سے افضل ہے اور اس میں ایسی بےشمار منفرد خصوصیات ہیں جو دوسرے مہینوں میں نہیں۔ ان میں سے 5 درج ذیل ہیں۔1:نزولِ قرآن:قرآنِ کریم اسی مہینے میں نازل کیا گیا۔ ارشاد باری ہے:شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ فِیْهِ الْقُرْاٰنُ (پارہ 2 البقرة 185)ترجمۂ کنز العرفان: رمضان کا مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا۔لہٰذا رمضان المبارک میں خصوصیت کے ساتھ تلاوتِ قرآن کی کثرت کرنی چاہئے اور اب تک درست قواعد کے ساتھ قرآنِ پاک نہ پڑھا ہو تو اس رمضان میں یہ سعادت بھی حاصل کر ہی لینی چاہئے کہ اتنی تجوید جس سے تصحیحِ حروف ہو(قواعدِ تجوید کے مطابق حروف کو درست مخارج سے ادا کرسکے) اور غلط خوانی (یعنی غلط پڑھنے)سے بچے،فرضِ عین ہے۔(فتاوی رضویہ،6/ 343) یاد رہے!تلاوتِ قرآن کا ثواب اسی صورت میں ملے گا جبکہ درست تلفظ کے ساتھ پڑھا جائے ورنہ بسا اوقات ثواب کے بجائے بندہ عذاب کا مستحق بن جاتا ہے۔ (سنتوں بھرے بیانات ج 1 ص 151)قواعد کے ساتھ قرآنِ کریم پڑھنے کیلئے دعوتِ اسلامی کے اسلامی بہنوں کے مدرسۃ المدینہ یا پھر فیضان آن لائن اکیڈمی گرلز میں داخلہ لیا جاسکتا ہے۔2:رحمت ہی رحمت:سرکارِ دو عالم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جب رمضان آتا ہے تو آسمان کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں۔ (بخاری ج 1 ص 626 حدیث 1899)ایک روایت میں ہے :جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کردئیے جاتے ہیں، شیاطین زنجیروں میں جکڑ دئیے جاتے ہیں۔ (ایضا ص 399 حدیث 3277) اور ایک روایت میں ہے :رحمت کے دروازے کھولے جاتے ہیں۔ (مسلم ص 543 حدیث 1079)(فیضان رمضان ص 56) 3:نیکیوں کا اجر بڑھ جانا:حدیث ِمبارکہ میں ہے:جو اس (ماہِ مبارک) میں نیکی کا کوئی کام کرے تو ایسا ہے جیسے اور کسی مہینے میں فرض ادا کیا اور اس میں جس نے فرض ادا کیا تو ایسا ہے جیسے اور دنوں میں ستّر فرض ادا کیے۔(شعب الایمان،حدیث: 3608، ج 3، ص 305)حضرت ابراہیم نخعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ماہِ رمضان میں ایک دن کا روزہ رکھنا ایک ہزار دن کے روزوں سے افضل ہے اور ماہِ رمضان میں ایک مرتبہ تسبیح کرنا (سبحٰن اللہ کہنا) اس ماہ کے علاوہ ایک ہزار مرتبہ تسبیح کرنے (سبحٰن اللہ کہنے) سے افضل ہے اور ماہِ رمضان میں ایک رکعت پڑھنا غیر رمضان کی ایک ہزار رکعتوں سے افضل ہیں۔ (تفسیر در منثور ج 1 ص 454)البتہ یہ امر پیشِ نظر رکھنا ضروری ہے کہ اس ماہِ مبارک میں دوسرے مہینوں کے مقابلے میں جس طرح نیکیاں بڑھادی جاتی ہیں،اسی طرح گناہوں کی ہلاکت خیزیاں بھی بڑھ جاتی ہیں۔(فیضان رمضان ص 63) گناہوں سے بچنا تو ویسے بھی مسلمان پر لازم ہے لہٰذا اس مہینے میں بالخصوص گناہوں سے بچنے کی مشق کرتے ہوئے سارا ہی سال اللہ پاک کی نافرمانیوں سے بچنا چاہئے۔4:رمضان میں مرنا باعثِ فضیلت:حدیثِ پاک میں ہے: جس کو رمضان کے وقت موت آئی وہ جنت میں داخل ہوگا۔(حلیة الاولیاء ج 5 ص 26 حدیث 6187)بعض علما فرماتے ہیں: جو رمضان میں مرجائے اس سے سوالاتِ قبر بھی نہیں ہوتے۔(فیضان رمضان ص 29)5:قرآنِ مجید سے نسبت:قرآنِ کریم میں صرف رمضان المبارک ہی کا نام لیا گیا اور اسی کے فضائل بیان ہوئے کسی دوسرے مہینے کا نہ صراحتاً نام ہے نہ ایسے فضائل۔(فیضان رمضان ص 30)


رمضان ماہِ غفران کے فیضان کے کیا کہنے!اس کی ہر گھڑی رحمت بھری ہے،اسلامی سال کا عظیم الشان مہینا ہے،رمضان مبارک اسلامی سال کا نواں مہینا ہے۔رمضان رمضسے بنا ہے جس کا معنی ہے: گرمی سے جلنا، اس میں مسلمان بھوک پیاس کی تپش برداشت کرتے ہیں یا یہ گناہوں کو جلا دیتا ہے اس لیے بھی اسے رمضان کہا جاتا ہے، جیسا کہ حدیثِ پاک میں ہے:نبیِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:اس مہینے کا نام رمضان رکھا گیا ہے کیونکہ یہ گناہوں کو جلا دیتا ہے۔(کنزالعمال کتاب الصوم، باب فی م جز8۔4، /217، حدیث ، 23683)

عاصیوں کی مغفرت کا لیکر آیا ہے پیام جھوم جھاؤ مجرمو! رمضان ماہِ غفران ہے۔(وسائل بخشش)

رمضان المبارک وہ مہینہ ہے جس کو تمام مہینوں کا سردار کہا گیا ہے چنانچہ تمام مہینوں کا سردار :حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا:سید الشھور رمضان،وسیدالایام یوم الجمعہ یعنی تمام مہینوں کا سردار رمضان ہے اور تمام دنوں کا سردار جمعہ کا دن ہے۔(معجم کبیر، خطبۃ ابن مسعود من کلامہ 19/205 ، حدیث 9000)رمضان کریم وہ مقدس مہینہ جس کا ذکر قرآنِ کریم میں آیا ہے۔اس ماہِ مبارک کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اللہ کریم نے اس میں قرآنِ کریم نازل فرمایا: چنانچہ ارشاد باری ہے:شہر رمضان الذی انزل فیہ القران ھدی للناس وبینت من الھدیٰ والفرقانترجمۂ کنزالایمان: رمضان کا مہینہ جس میں قرآن اترا لوگوں کے لیے ہدایت اور رہنمائی اور فیصلے کی روشن باتیں۔(پ2،البقرہ ، 185)حضرت شعیب حریفیش رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کے تحت فرماتے ہیں:مہینے کو مشہور ہونے کی وجہ سے شہر کہا جاتا ہے اور ماہِ رمضان کو رمضان اس لیے بھی کہتے ہیں کہ یہ گناہوں کو مٹا دیتا ہے، اللہ پاک کا فرمانِ عالیشان :انزل فیہ القران سے مراد یہ ہے کہ اس کے فرض روزوں میں قرآن اتارا گیا۔حضرت ابنِ عباس وابنِ شہاب رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: مکمل قرآنِ کریم لوحِ محفوظ سے آسمانِ دنیا پر ایک ہی دفعہ ماہِ رمضان، شبِ قدر میں نازل کیا گیا، پھر حضرت جبرائیل علیہ السلام وقتا فوقتاً واقعات و حوادثات کے مطابق اسے حضور اقدس صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم و صحابہ کرام کے پاس لاتے ر ہے۔(حکایتیں اور نصیحتیں، ص 80) ماہِ رمضان کے فضائل کے کیا کہنے!یہ رحمت، مغفرت اور جہنم سے آزادی کا مہینہ ہے۔عظمت اور برکت والا مہینہ :منقول ہے :اللہ کریم نے ماہِ رمضان کو بہت سی خصوصیات کے ساتھ خاص فرمایا:ان میں سے ایک یہ کہ اس کو عظمت و برکت والا مہینہ بنایا، اس میں ایک رات ایسی ہے جو ہزار مہینوں سے بہترہے۔اللہ کریم نے اس مہینے کے روزے فرض فرمائے اور راتوں کے قیام کو نفل بنایا، اس میں فرض ادا کرنا (ستر70) فرض کے برابر ۔یہ ایسا مہینہ ہے جس کا پہلا عشرہ رحمت،درمیانہ مغفرت اور آخر ی جہنم سے آزادی ہے۔(حکایتیں اور نصیحتیں ص 86، ملخصاً)صغیرہ گناہ کا کفار ہ :جنتی صحابی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم و صحابہ وسلم نے فرمایا: پانچوں نمازیں اور جمعہ اگلے جمعہ تک اور رمضان اگلے رمضان تک کے گناہوں کا کفارہ ہے، جب کہ بندہ کبیرہ گناہوں کا ارتکاب نہ کرے۔(مسلم کتاب الطہارة ، باب الصلوات الخمس الخ رقم 233۔ ص 144)وہ مقدس ماہ جس میں شیاطین جکڑے جاتے ہیں۔شاطین زنجیروں میں جکڑ دیئے جاتے ہیں :حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور اقدس صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے صحابہ کر ام علیہم الرضوا ن کو بشارت دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:تمہارے پاس برکت والا مہینہ آچکا ہے، اللہ کریم نے تم پر اس کے روزے فرض فرمائے ہیں اور تمہارے لیے اس مہینے کا قیام سنت ہے، جب ماہِ رمضان آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں، شاطین جکڑدیئے جاتے ہیں اور اس میں ا یک رات ایسی ہے جو ہزاروں مہینوں سے افضل ہے۔(جامع الترمذی ابواب الصوم، باب ماجا فی فضل شہر رمضان، الحدیث 612،ص 1714)ہر آن خدا کی شان نظر آتی ہے :مفسرِ قرآن مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:ہر مہینے میں خاص تاریخیں اور تاریخوں میں بھی خاص وقت میں عبادت ہوتی ہے، مگر ماہِ رمضان میں ہردن اور ہررات عبادت ہوتی ہے،روزہ افطار،تراویح،سحری میں عبادت، الغرض ہر آن میں خدا کی شان نظر آتی ہے۔ماہِ ر مضان گنہگاروں کو پاک کرتا اور نیک لوگوں کے درجے بڑھاتا ہے، رمضان کے کھانے پینے(یعنی سحر و افطارکے کھانے پینے ) کا حساب نہیں، رمضان شریف میں افطار اور سحری کے وقت دعا قبول ہوتی ہے یعنی افطار کرتے وقت اور سحری کھاکر یہ مرتبہ کسی اور مہینے کو خاص نہیں۔بعض علما فرماتے ہیں: جو رمضان میں مرجائے اس سے سوالات قبر بھی نہیں ہوتے۔(تفسیر نعیمی جلد 2، ص 205) ملخصاً) اللہ کریم ہمیں اس ماہِ مبارک کی قدر نصیب کرے اور اس کی بے ادبی سے بچائے۔ امین


اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ماہِ رمضان المبارک نہایت ہی رحمتوں اور برکتوں والا مہینہ ہے۔اس کی فضیلت کا اندازہ سرکار صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے اس فرمان سے لگایا جاسکتا ہے کہ اگر بندوں کو معلوم ہوتا کہ رمضان کیا ہے؟ تو میری امت تمنا کرتی کہ کاش! پورا سال رمضان ہی ہو۔(ابن خزیمہ ج 3 ص 190 حدیث 1886) اس مقدس مہینے کی بےشمار منفرد خصوصیات میں سے 5 درج ذیل ہیں۔ 1:ماہِ صیام:روزوں کے لئے اس مہینے کا انتخاب ہوا۔ قرآنِ پاک میں ہے:فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْیَصُمْهُ ؕ(پارہ 2 البقرة 185)ترجمۂ کنز العرفان: تو تم میں جو کوئی یہ مہینہ پائے تو ضرور اس کے روزے رکھے۔اس مبارک مہینے میں روزے رکھنے کے بہت سے فضائل ہیں،جبکہ بلا اجازتِ شرعی روزہ چھوڑ دینا سخت گناہ و حرام ہے۔حدیثِ پاک میں ہے:جس نے رمضان کے ایک دن کا روزہ بغیر رخصت و بغیر مرض افطار کیا (یعنی نہ رکھا) تو زمانے بھر کا روزہ بھی اس کی قضا نہیں ہوسکتا اگرچہ بعد میں رکھ بھی لے۔(ترمذی ج 2 ص 175 حدیث 723) یعنی وہ فضیلت جو رمضان المبارک میں روزہ رکھنے کی تھی اب کسی طرح نہیں پاسکتا۔(بہار شریعت ج 1 ص 985 ملخصا)(فیضان رمضان ص 88) 2:دعاؤں کی قبولیت:رمضان المبارک میں افطار اور سحری کے وقت دعا قبول ہوتی ہے یعنی افطار کرتے وقت اور سحری کھاکر۔یہ مرتبہ کسی اور مہینے کو حاصل نہیں۔(فیضان رمضان ص 30)3:وسعتِ رزق:حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:اس مہینے (رمضان المبارک) میں مومن کا رزق بڑھادیا جاتا ہے، جو اس میں روزہ دار کو افطار کرائے، اُس کے گناہوں کے لیے مغفرت ہے اور اس کی گردن آگ سے آزاد کردی جائے گی۔(شعب الایمان، باب فی الصیام، فضائل شہر رمضان، الحدیث: 3608، ج 3، ص 305)نیز فرمایا:ماہِ رمضان میں (گھر والوں کے) خرچ میں کشادگی کرو کیونکہ ماہِ رمضان میں خرچ کرنا اللہ کریم کی راہ میں خرچ کرنے کی طرح ہے۔(فضائل شہر رمضان مع موسوعة ابن ابی الدنیا ج 1 ص 368 حدیث 24)4:ماہِ اعتکاف:رمضان المبارک کے آخری عشرے یعنی آخر کے دس دن میں اعتکاف کیا جاتا ہے جو کہ سنتِ مؤکدہ اور اجر و ثواب کا باعث ہے۔ حدیثِ پاک میں ہے:جس نے رمضان میں دس دنوں کا اعتکاف کرلیا تو ایساہے جیسے دو حج اور دو عمرے کیے۔(شعب الایمان، باب فی الاعتکاف، الحدیث 3966، ج 3، ص 425)5:لیلۃ القدر:حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ عنہ  سے روایت ہے : رمضان کا مہینہ آیا توحضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:بے شک تمہارے پاس یہ مہینہ آیا ہے اور اس میں  ایک رات ایسی ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے ،جوشخص اس رات سے محروم رہ گیا وہ تمام نیکیوں  سے محروم رہا۔(ابن ماجہ، کتاب الصیام، باب ما جاء فی فضل شہر رمضان، 2/298، الحدیث: 1644)لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ یہ رات عبادت میں  گزارے اور اس رات میں کثرت سے اِستغفار کرے۔کثیر روایات سے ثابت ہے کہ شبِ قدر رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں ہوتی ہے اور اکثر اس کی بھی طاق راتوں میں سے کسی ایک رات میں ہوتی ہے۔بعض علما کے نزدیک رمضان المبارک کی ستائیسویں رات شبِ قدر ہوتی ہےاور یہی حضرتِ امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے۔(مدارک، القدر، تحت الآیۃ: 1، ص 1364)(تفسیر صراط الجنان، القدر، تحت الآیۃ: 1)