قرآنِ پاک میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:وَ لٰكِنْ رَّحْمَةً مِّنْ رَّبِّكَ(پ20،القصص:46)ترجمہ: ہاں تمہارے رب کی مہر ہے (کہ تمہیں غیب کے علم دئیے)۔

ایک علم وہ ہوتا ہے جو کسی تجربے یا مشاہدےسے حاصل کیا جائے،وہ علمِ غیب نہیں بلکہ تجربے یا مشاہدے کا علم ہوتاہے۔غیب کا علم تووہ ہوتا ہے جو سوچ اور سمجھ سے بالا تر، ذہن میں اس بات کا آنا کسی صورت آسان نہ ہو۔اللہ پاک اپنی مرضی سے غیب کا علم دیتا ہے جس کو چاہے۔پھر وہ بندۂ خاص جس کو غیب کا علم دیا گیا عام عادات سے بالا تر باتیں بیان کرتا ہے جو باتیں کسی تجربے یا مشاہدے کی محتاج نہیں ہوتیں۔یہ ہے غیب کا علم جو اللہ پاک نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دیا تھا اور قربان جائیے ہمارے پیارے آقا،اللہ پاک کے سب سے آخری نبی محمد ﷺپر جو حضرت آدم علیہ السلام سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک ہر نبی سے اعلیٰ و ارفع اور شان میں بلند بالا ہیں! ان کے غیب کے علم کا عالم کیا ہوگا!

اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:قَالُوْا لَوْ لَاۤ اُوْتِیَ مِثْلَ مَاۤ اُوْتِیَ مُوْسٰىؕ-اَوَ لَمْ یَكْفُرُوْا بِمَاۤ اُوْتِیَ مُوْسٰى مِنْ قَبْلُۚ-(پ20،القصص:48) ترجمہ: بولے انہیں کیوں نہ دیا گیا جو موسیٰ کو دیا گیا کیا اس کے منکر نہ ہوئے تھے جو پہلے موسیٰ کو دیا گیا۔

یہ آیت دلیل ہے اس بات کی کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو کتاب،حکمت و کمالات دیے گئے تھے۔حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بہت کچھ عطا کیا گیا تھاجو وہ بنی اسرائیل کے سامنے بیان کرتے تھے۔مگر پھر بھی بنی اسرائیل کے لوگ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی صفات وکمالات کو نہیں مانتے تھے۔پھر جب حضور نبیِ کریم ﷺکا مبارک دور آیا تو وہ بنی اسرائیل (آپس میں لوگوں سے )یہ کہتے تھے محمد(ﷺ)کو وہ کمالات کیوں نہیں عطا کیے گئے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کو عطا کیے گئے تھے۔تو اللہ پاک نے ان کی بات اس آیت میں واضح کر دی کہ تم لوگ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے جیسے کمالات مانگتےہو حالانکہ محمد ﷺحضرت موسیٰ علیہ السلام سے تو شان میں بہت اعلیٰ اور اولیٰ ہیں جبکہ تم تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے کمالات کے بھی منکر تھے!تو آج تمہارا یہ بات کرنا محمد ﷺ کے لیے بنتا ہی نہیں۔

ایک اور جگہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ اٰذَوْا مُوْسٰى فَبَرَّاَهُ اللّٰهُ مِمَّا قَالُوْاؕ-وَ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ وَجِیْهًاؕ(۶۹) (پ22،الاحزاب:69)ترجمہ کنزالعرفان:اے ایمان والو! ان لوگوں جیسے نہ ہونا جنہوں نے موسیٰ کو ستایا تو اللہ نے موسیٰ کااس شے سے بری ہونا دکھادیا جو انہوں نے کہا تھا اور موسیٰ اللہ کے ہاں بڑی وجاہت والا ہے۔

بنی اسرائیل کے کچھ لوگ بے حیائی کے کام کرتے تھے کہ وہ ننگے نہاتے تھےاور حضرت موسیٰ علیہ السلام کو کہتے تھے کہ آؤ تم بھی ہمارے ساتھ ہماری طرح برہنہ ہو کر نہاؤ۔اللہ پاک کے نبی تو خوب حیا والے ہوتے ہیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام )کو ان لوگوں کی یہ بات بہت بُری لگتی تھی۔ وہ لوگ الزام یہ لگاتے تھے کہ موسیٰ(علیہ السلام)کے جسم میں کوئی نقص یا کوئی عیب یا کوئی بیماری ہے جس کی وجہ سے وہ ہمارے ساتھ ہماری طرح ہو کر نہیں نہاتے۔جب ایک روز حضرت موسیٰ علیہ السلام نے غسل کے لیے ایک تنہائی کی جگہ میں پتھر پر کپڑے اتار کر رکھے اور غسل شروع کیا تو وہ پتھر آپ کے کپڑے لے کر حرکت میں آیا(اس جگہ سے دوسری جگہ کی طرف چلا) تو حضرت موسیٰ علیہ السلام اس پتھر کی طرف بڑھے تو بنی اسرائیل نے دیکھ لیا کہ جسم مبارک پر کوئی عیب، نقص یا بیماری نہیں۔

یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ اللہ پاک کے کسی بھی نبی کو عیب دار یا کمالات میں کم تصور کرنا یا ایسا عقیدہ رکھنا جس میں اللہ پاک کے کسی بھی نبی کی ادنیٰ بےادبی کا پہلو بھی ہو تواللہ پاک کے غضب کا سبب بنتا ہے۔


گزشتہ روز فیضان مدینہ جوہر ٹاؤن لاہور میں دعوت اسلامی کے شعبہ جامعۃ المدینہ بوائز، مدرسۃ المدینہ بوائز  اور مدرسۃ المدینہ بالغان کے ناظمین و ذمہ داران کا مدنی مشورہ ہوا ۔

اس موقع پر مرکزی مجلس شوری کے رکن حاجی یعفور رضا عطاری نے ذمہ داران کو آخری عشرہ کا اعتکاف کرنے کی ترغیب دلائی جبکہ ماہ رمضان میں مدنی عطیات جمع کرنے کے اہداف دیئے اور مزید دینی کاموں کی تربیت کی ۔ (کانٹینٹ : محمد مصطفی انیس) 


28 مارچ 2023ء بروز منگل عالمی مدنی مرکز فیضان مدینہ کراچی میں مرکزی مجلس شوری کے رکن حاجی محمد امین عطاری نے شعبہ ڈونیشن سیل اور شعبہ مدرسۃ المدینہ بالغان کے ذمہ داران کا مدنی مشورہ لیا۔

رکن شوریٰ حاجی محمد امین عطاری نے اس مدنی مشورے میں شرکا کی تربیت کرتے ہوئے انہیں دینی ماحول سے ہمیشہ منسلک رہنے کے لئے مدنی پھولوں سے نوازا۔

اس کے علاوہ رکن شوری نے دعوتِ اسلامی کے دینی کاموں کے لئے ڈونیشن جمع کرنےاور دیگر عاشقانِ رسول کو اس کی ترغیب دلانے کا ذہن دیا جس پر اسلامی بھائیوں نے اچھی اچھی نیتوں کا اظہار کیا۔

اس موقع پر رکن شوری حاجی محمد علی عطاری ودیگر ذمہ داران بھی موجود تھے۔ (کانٹینٹ : محمد مصطفی انیس)


اے عاشقانِ رسول!اللہ پاک نے مخلوق کی رشد و ہدایت کےلیے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیائے کرام علیہم السلام اور رُسلِ عظام کو مبعوث فرمایا جن میں سے ایک بلند رتبہ نبی حضرت موسیٰ علیہ السلام ہیں۔آپ علیہ السلام ان انبیائے کرام علیہم السلام میں سے ہیں جنہوں نے حق کے راستے میں بہت زیادہ تکالیف برداشت کیں اور صبر کے ساتھ ڈٹ کر ان مصائب و آلام کا مقابلہ کیا۔آئیے!آپ علیہ السلام کی ذاتِ مبارکہ کے مزید اوصاف جانتی ہیں:

اللہ پاک قرآنِ مجید میں فرماتا ہے:وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ مُوْسٰۤى٘-اِنَّهٗ كَانَ مُخْلَصًا وَّ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا(۵۱)(پ16،مریم:51) ترجمہ:اور کتاب میں موسیٰ کو یاد کرو،بےشک وہ چُنا ہوا بندہ تھا اور وہ نبی رسول تھا۔

تفسیر صراط الجنان میں ہے:اس سے پہلی آیات میں حضر ت ابراہیم علیہ السلام کی صِفات بیان کی گئیں اور اب یہاں سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی صفات بیان فرمائی جا رہی ہیں، دوسرے لفظوں میں ہم یہ کہہ سکتی ہیں کہ خلیلُ اللہ علیہ السلام کی صفات بیان کرنے کے بعد اب کلیمُ اللہ علیہ السلام کی صفات بیان کی جارہی ہیں۔ سورۂ مریم میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پانچ صفات بیان کی گئی ہیں:(1)آپ علیہ السلام اللہ پاک کے چُنے ہوئے اور برگزیدہ بندے تھے۔(2)آپ علیہ السلام رسول و نبی تھے۔(3) آپ علیہ السلام سے اللہ پاک نے کلام فرمایا۔(4)آپ علیہ السلام کواپنا قرب بخشا۔(5)آپ علیہ السلام کی خواہش پرآپ کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کونبوت عطاکی۔مزید یہ کہ آپ علیہ السلام حضرت یعقوب علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں۔اس لیے آپ علیہ السلام کا ذکر حضرت اسماعیل علیہ السلام سے پہلے فرمایا گیا تاکہ دادا اور پوتے کےذکر میں فاصلہ نہ ہو۔(تفسیر روح المعانی، ص559)

کس کو دیکھا یہ موسیٰ سے پوچھے کوئی آنکھ والوں کی ہمت پہ لاکھوں سلام (حدائق بخشش)

اللہ پاک نےمخلوق کی ہدایت کے لیے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیائے کرام اور رسول مبعوث فرمائے جو لوگوں کو دین کی دعوت دیتے تھے۔ان میں سے ایک بلند مرتبہ نبی حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی ہیں۔ آپ علیہ السلام نے حق کے راستے میں ڈٹ کر مصیبتوں اور آزمائشوں کا سامنا کیا۔

اللہ پاک نے قرآنِ مجید میں ارشاد فرمایا:وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ مُوْسٰۤى٘-اِنَّهٗ كَانَ مُخْلَصًا وَّ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا(۵۱) (پ16،مریم:51)ترجمہ:اور کتاب میں موسیٰ کو یاد کرو،بے شک وہ چُنا ہوا بندہ تھا اور وہ نبی رسول تھا۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام کی کئی صفات بیان کی گئی ہیں:(1)آپ علیہ السلام اللہ پاک کے چُنے ہوئے اور برگزیدہ بندے تھے۔(2) آپ علیہ السلام رسول و نبی تھے۔(3) آپ علیہ السلام سے اللہ پاک نے کلام فرمایا۔(4)آپ علیہ السلام کواپنا قرب بخشا۔(5)آپ علیہ السلام کی خواہش پرآپ کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کونبوت عطاکی۔اللہ پاک نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے بلا وسطہ کلام فرمایا اور آپ علیہ السلام کلیمُ اللہ کے شرف سے نوازے گئے۔آپ علیہ السلام کو مرتبۂ قرب عطا فرمایا گیا۔حجاب اٹھا دیے گئے یہاں تک کہ آپ نے قلموں کے چلنے کی آواز سنی اور آپ علیہ السلام کی قدرت و منزلت بلند کی گئی۔

(تفسیرصراط الجنان)

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ پیارے آقا ﷺنے ارشاد فرمایا:شبِ معراج حضرت موسیٰ علیہ السلام کےپاس سے ہماراگزر ہوا،وہ سرخ ٹیلے کے پاس اپنی قبر میں نماز پڑھ رہےتھے۔(عقائد و مسائل، ص48)

قرآنِ مجید میں ارشاد ہوتاہے:وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسٰى تِسْعَ اٰیٰتٍۭ بَیِّنٰت15، بنی اسرائیل:101) ترجمہ: اور بے شک ہم نے موسیٰ کو نو نشانیاں دی۔اللہ پاک ہمیں انبیائے کرام علیہم السلام کی سیرت پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کے صدقے ہماری بے حساب بخشش و مغفرت فرمائے۔آمین


حضرت موسیٰ علیہ السلام حضرت اسحاق علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں۔ آپ علیہ السلام کا نام مبارک کئی بار قرآنِ پاک میں آیا ہے۔ہمارا عقیدہ ہے کہ تمام انبیا و مرسلین علیہم السلام معصوم ہیں۔ان سے گناہ صادر نہیں ہوتے۔ان سے گناہ کا صدور محال ہے۔ان کی حفاظت خود اللہ پاک فرماتا ہے۔اللہ پاک نے انسانوں کی ہدایت و راہ نمائی کیلئے اپنے برگزیدہ بندوں کواس دنیا میں مبعوث فرمایا۔اسی طرح اللہ پاک کے پیارے نبی حضرت موسیٰ علیہ السلام لوگوں کی ہدایت کیلئےاس دنیا میں تشریف لائے۔اللہ پاک کے احکامات لوگوں تک پہنچائے۔اللہ پاک نے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر تورات نازل فرمائی۔آپ کا لقب کلیمُ اللہ(اللہ پاک سے کلام کرنے والا) ہے۔اس کے علاوہ اللہ پاک نے آپ کی صفات کو قرآنِ پاک میں ذکر فرمایا ہے۔

(1)آپ علیہ السلام اللہ پاک کے چنے ہوئے اور برگزیدہ بندے تھے:وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ مُوْسٰۤى٘-اِنَّهٗ كَانَ مُخْلَصًا وَّ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا(۵۱) (پ16،مریم:51)ترجمہ کنز الایمان:اور کتاب میں موسیٰ کو یاد کرو بیشک وہ چنا ہوا تھا اور رسول تھا غیب کی خبریں بتانے والا۔

(2) آپ علیہ السلام رسول و نبی تھے۔

(3)آپ علیہ السلام سے اللہ پاک نے کلام فرمایا: فرمانِ باری ہے:یٰمُوْسٰۤى اِنِّیْۤ اَنَا اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَۙ(۳۰) (پ22،القصص:30)ترجمہ کنز العرفان:اے موسیٰ میں ہی اللہ ہوں،تمام جہانوں کا پالنے والا۔

تفسیر صراط الجنان میں ہے:اس کے بعد اللہ پاک نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے بلاواسطہ کلام فرمایا اور آپ کلیمُ اللہ کے شرف سے نوازے گئے۔ آپ علیہ السلام کو مرتبۂ قرب عطا فرمایا گیا۔حجاب اٹھا دئیے گئے یہاں تک کہ آپ نے قلموں کے چلنے کی آوازیں سنیں اور آپ کی قدرو منزلت بلند کی گئی۔

اللہ پاک نے فرمایا:قَالَ یٰمُوْسٰۤى اِنِّی اصْطَفَیْتُكَ عَلَى النَّاسِ بِرِسٰلٰتِیْ وَ بِكَلَامِیْ ﳲ فَخُذْ مَاۤ اٰتَیْتُكَ وَ كُنْ مِّنَ الشّٰكِرِیْنَ(۱۴۴)(پ 9، الاعراف:144)ترجمہ کنز العرفان:(اللہ نے) فرمایا:اے موسیٰ!میں نے اپنی رسالتوں اور اپنے کلام کے ساتھ تجھے لوگوں پر منتخب کرلیا تو جو میں نے تمہیں عطا فرمایا ہے اسے لے لو اور شکر گزاروں میں سے ہوجاؤ۔

تفسیر صراط الجنان میں ہے:میں نے اپنی رسالتوں کے ساتھ تجھے لوگوں پر منتخب کرلیا اور تمہیں مجھ سے بلا واسطہ ہم کلامی کا شرف عطا ہوا۔ جبکہ دیگر انبیا و مرسلین علیہم السلام سے فرشتے کے واسطے سے کلام ہوا۔

(4)اللہ پاک نےآپ کواپنا قرب بخشا:فرمانِ باری ہے: وَ نَادَیْنٰهُ مِنْ جَانِبِ الطُّوْرِ الْاَیْمَنِ وَ قَرَّبْنٰهُ نَجِیًّا(۵۲)(پ 16،مریم:52)ترجمہ کنز العرفان:اور ہم نے اسے طور کی دائیں جانب سے پکارا اور ہم نے اسے اپنا راز کہنے کیلئے مقرب بنایا۔

(5)آپ علیہ السلام کی خواہش پرآپ کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کونبوت عطاکی:فرمانِ باری ہے: وَ وَهَبْنَا لَهٗ مِنْ رَّحْمَتِنَاۤ اَخَاهُ هٰرُوْنَ نَبِیًّا(۵۳)(پ16، مریم: 53) ترجمہ کنز العرفان:اور ہم نے اپنی رحمت سے اسے اس کا بھائی ہارون بھی دیا جونبی تھا۔

تفسیر صراط الجنان میں ہے: یعنی جب حضر ت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ پاک سے دعا کی کہ میرے گھر والوں میں سے میرے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کو میرا وزیر بنا تو اللہ پاک نے ان کی یہ دعا قبول فرمائی اور اپنی رحمت سے حضرت ہارون علیہ السلام کو نبوت عطا کی۔

(6)اللہ پاک نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی اس صفت کو بیان فرمایا کہ آپ علیہ السلام لوگوں کو جہالت اور کفر کے اندھیروں سے علم اور دین کے نور کی طرف نکالنےوالے ہیں: فرمانِ باری ہے:وَ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ وَ جَعَلْنٰهُ هُدًى لِّبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اَلَّا تَتَّخِذُوْا مِنْ دُوْنِیْ وَكِیْلًاؕ(۲)(پ15،بنی اسرآءیل: 2) ترجمہ کنز الایمان:اور ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا فرمائی اور اسے بنی اسرائیل کے لیے ہدایت کیا کہ میرے سوا کسی کو کارساز نہ ٹھہراؤ۔

تفسیر صراط الجنان میں ہے: اس آیت میں اللہ پاک اپنے اس اکرام کا ذکر فرما رہا ہے جو اس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر فرمایا۔چنانچہ ارشاد فرمایا:ہم نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو کتاب تورات عطا فرمائی اور ہم نے اسے بنی اسرائیل کے لیے ہدایت بنادیا کہ وہ اس کتاب کے ذریعے انہیں جہالت اور کفر کے اندھیروں سے علم اور دین کے نور کی طرف نکالتے ہیں تاکہ اے بنی اسرائیل ! تم میرے سوا کسی کو کارساز نہ بناؤ۔

(7) قرآنِ مجید میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو نیک بتایا گیا ہے: ارشادِ خداوندی ہے:وَ وَهَبْنَا لَهٗۤ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَؕ-كُلًّا هَدَیْنَاۚ-وَ نُوْحًا هَدَیْنَا مِنْ قَبْلُ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِهٖ دَاوٗدَ وَ سُلَیْمٰنَ وَ اَیُّوْبَ وَ یُوْسُفَ وَ مُوْسٰى وَ هٰرُوْنَؕ-وَ كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَۙ(۸۴)(پ 7،الانعام: 84) ترجمہ کنز العرفان:اور ہم نے انہیں اسحاق اور یعقوب عطا کیے۔ ان سب کو ہم نے ہدایت دی اور ان سے پہلے نوح کو ہدایت دی اور اس کی اولاد میں سے داود اور سلیمان اور ایوب اور یوسف اور موسیٰ اور ہارون کو(ہدایت عطا فرمائی) اور ایسا ہی ہم نیک لوگوں کو بدلہ دیتے ہیں۔

اللہ پاک اپنے پیاروں کے صدقے ہمیں صراطِ مستقیم پر چلنے اور دین کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہِ النبی الامین ﷺ


نبی اس بشر کو کہتے ہیں جس کی طرف اللہ پاک نے مخلوق کی ہدایت و راہ نمائی کے لئے وحی بھیجی ہو اور ان میں سے جو نئی شریعت یعنی اسلامی قانون اور خدائی احکام لے کر آئے اسے رسول کہتے ہیں۔ (سیرت الانبیاء، ص 29 )

اللہ پاک نے انسانوں کی ہدایت کے لئے کئی انبیائے کرام علیہم السلام مبعوث فرمائے ہیں اور ان میں سے ہر ایک کو کئی خصوصیات سے نوازا ہے۔ انبیائے کرام علیہم السلام کائنات کی عظیم ترین ہستیاں اور انسانوں میں ہیروں موتیوں کی طرح جگمگاتی شخصیات ہیں۔قرآن و حدیث میں انبیا و مرسلین عليہم السلام کے انفرادی اور اجتماعی بے شمار فضائل بیان ہوئے ہیں۔چنانچہ

ارشادِ باری ہے: تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلٰى بَعْضٍۘ-مِنْهُمْ مَّنْ كَلَّمَ اللّٰهُ وَ رَفَعَ بَعْضَهُمْ دَرَجٰتٍؕ-وَ اٰتَیْنَا عِیْسَى ابْنَ مَرْیَمَ الْبَیِّنٰتِ وَ اَیَّدْنٰهُ بِرُوْحِ الْقُدُسِؕ-(پ3،البقرۃ:253) ترجمہ کنز الایمان:یہ رسول ہیں کہ ہم نے ان میں ایک کو دوسرے پر افضل کیا ان میں کسی سے اللہ نے کلام فرمایا اور کوئی وہ ہے جسے سب پر درجوں بلند کیا اور ہم نے مریم کے بیٹے عیسیٰ کو کھلی نشانیاں دیں اور پاکیزہ روح سے اس کی مدد کی۔

اس آیت میں تمام انبیائے کرام علیہم السلام میں سے بطور ِ خاص تین انبیائے کرام علیہم السلام کا ذکر فرمایا گیا۔ان میں سے ایک حضرتِ موسیٰ علیہ السلام بھی ہیں جن سے اللہ پاک نے کوہِ طور پر بلا واسطہ کلام فرمایا۔ قرآنِ پاک میں کئی جگہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی صفات کو بیان کیا گیا ہے۔ ان میں سے چند یہ ہیں:

(1،2)حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ پاک کے چنے ہوئے برگزیدہ بندے اور نبی و رسول تھے:ارشادِ باری ہے:وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ مُوْسٰۤى٘-اِنَّهٗ كَانَ مُخْلَصًا وَّ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا(۵۱)(پ16،مریم: 51)ترجمہ کنز الایمان: اور کتاب میں موسیٰ کو یاد کرو بیشک وہ چنا ہوا تھا اور رسول تھا غیب کی خبریں بتانے والا۔

(3)آپ علیہ السلام ربِّ کریم کی بارگاہ میں بڑی وجاہت یعنی بڑے مقام والےاور مستجابُ الدعوات تھے: ارشادِ باری ہے: وَ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ وَجِیْهًاؕ(۶۹) (پ22،الاحزاب:69)ترجمہ کنز الایمان:اور موسیٰ اللہ کے یہاں آبرو والا ہے۔

آیت کے اس حصے میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شان بیان فرمائی گئی کہ آپ اللہ پاک کی بارگاہ میں بڑی وجاہت یعنی بڑے مقام والے تھے اور اِس مقام میں یہ بات بھی داخل ہے کہ آپ مستجابُ الدعوات تھے یعنی آپ کی دعائیں قبول ہوتی تھیں۔(تفسیرخازن، 3/513)

(4 تا 6)آپ علیہ السلام کسی واسطے کے بغیر اللہ پاک سے ہم کلام ہونے کا شرف رکھتے ہیں اور بارگاہِ الٰہی میں قرب کے اس مقام پر فائز ہیں کہ آپ کی دعا سے اللہ پاک نے آپ کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کو نبوت جیسی عظیم نعمت سے نوازا: قرآنِ پاک میں ہے: وَ نَادَیْنٰهُ مِنْ جَانِبِ الطُّوْرِ الْاَیْمَنِ وَ قَرَّبْنٰهُ نَجِیًّا(۵۲)وَ وَهَبْنَا لَهٗ مِنْ رَّحْمَتِنَاۤ اَخَاهُ هٰرُوْنَ نَبِیًّا(۵۳)(پ16،مریم:52،53)ترجمہ کنزالایمان: اور اسے ہم نے طور کی دا ہنی جانب سے ندا فرمائی اور اسے اپنا راز کہنے کو قریب کیا۔اور اپنی رحمت سے اسے اس کا بھائی ہارون عطا کیا غیب کی خبریں بتانے والا (نبی)۔

اس سے اللہ پاک کے پیاروں کی عظمت کا پتہ لگا کہ ان کی دعا سے وہ نعمت ملتی ہے جو بادشاہوں کے خزانوں میں نہیں۔ تو اگر ان کی دعا سے اولاد یا دنیا کی دیگر نعمتیں مل جائیں تو کیا مشکل ہے!البتہ اب ختمِ نبوت ہوچکی لہٰذا اب کسی کو نبوت نہیں مل سکتی۔

(7) آپ علیہ السلام اور آپ کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام اعلیٰ درجے کے کامل ایمان والے بندے تھے:فرمانِ باری ہے:اِنَّهُمَا مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ(۱۲۲) (پ22،الصّٰفّٰت:122)ترجمہ کنزالایمان: بے شک وہ دونوں ہمارے اعلیٰ درجہ کے کامل الایمان بندوں میں ہیں۔

اللہ پاک ہمیں انبیائے کرام علیہم السلام کا ادب کرنے اور ان کے مقام کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں ان کی ادنیٰ سی بھی بے ادبی کرنے سے محفوظ فرمائے اور ہمیں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے فیض سے مالا مال فرمائے۔اٰمین بجاهِ خاتمِ النبيين ﷺ


ربِّ دو جہاں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بے شمار انعامات عطا فرمائے۔ہدایت و صلاح سے آپ کو نوازا اور ان کے زمانے میں تمام مخلوقات پر آپ کو فضیلت بخشی۔صالحین میں شمار کیا۔بطورِ خاص نبوت کے لیے منتخب کیا اور صراطِ مستقیم کی طرف ہدایت بخشی۔ آپ کا مبارک نام موسیٰ،لقب کلیمُ اللہ،صفیُّ اللہ ہے۔ نبیِ کریم ﷺ نے فرمایا: حضرت موسیٰ بن عمران صفیُّ اللہ یعنی اللہ پاک کے چنے ہوئے بندے ہیں۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اوصافِ مبارکہ:

(1)حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ پاک کے چنے ہوئے برگزیدہ بندے اور نبی رسول تھے:فرمانِ باری ہے: وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ مُوْسٰۤى٘-اِنَّهٗ كَانَ مُخْلَصًا وَّ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا(۵۱)(پ16،مریم:51)ترجمہ: اور کتاب میں موسیٰ کو یاد کرو، بے شک وہ چنا ہوا بندہ تھا اور نبی رسول تھا۔

(2)آپ علیہ السلام ربِّ کریم کی بارگاہ میں بڑی و جاہت یعنی بڑے مقام والے اور مستجابُ الدعوات تھے: فرمانِ باری ہے:وَ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ وَجِیْهًاؕ(۶۹) (پ22،الاحزاب:69)ترجمہ: اور موسیٰ اللہ کے ہاں بڑی و جاہت والا ہے۔بنی اسرائیل کے طرزِ عمل پر اللہ پاک نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا اس سے بری ہونا دکھا دیا جو انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں کہا تھا۔

(3)آپ علیہ السلام اعلیٰ درجے کے کامل ایمان والے بندے تھے:اِنَّهُمَا مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ(۱۲۲) (پ22،الصّٰفّٰت:122)ترجمہ:بے شک وہ دونوں ہمارے اعلیٰ درجے کے کامل ایمان والے بندوں میں سے ہیں۔“اس آیت سے اس بات پر تنبیہ کرنا مقصود ہے کہ سب سے بڑی فضیلت اور سب سے اعلیٰ شرف کامل ایمان سے حاصل ہوتا ہے۔ (تفسیرِ کبیر)

(4)اللہ پاک نے آپ علیہ السلام سے بلا واسطہ کلام فرمایا:وَ كَلَّمَ اللّٰهُ مُوْسٰى تَكْلِیْمًاۚ(۱۶۴)(پ6،النسآء: 164) ترجمہ: اور اللہ نے موسیٰ سے حقیقتاً کلام فرمایا۔

(5)اللہ پاک نے حضرت ہارون علیہ السلام کی صورت میں آپ کو وزیر اور مددگار عطا فرمایا:وَ وَهَبْنَا لَهٗ مِنْ رَّحْمَتِنَاۤ اَخَاهُ هٰرُوْنَ نَبِیًّا(۵۳)(پ16،مریم:53)ترجمہ:اور ہم نے اپنی رحمت سے اس کا بھائی ہارون بھی دیا جو نبی تھا۔

(6)اللہ پاک نے آپ علیہ السلام کو فرقان عطا فرمایا:وَ اِذْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ وَ الْفُرْقَانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ(۵۳)(پ1،البقرۃ:53)ترجمہ:اور یاد کرو جب ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا کی اور حق و باطل میں فرق کرنا تاکہ تم ہدایت پاجاؤ۔

(7)اللہ پاک نے آپ علیہ السلام کو نبوت و رسالت پر دلالت کرنے والی 9 روشن نشانیاں عطا کیں:وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسٰى تِسْعَ اٰیٰتٍۭ بَیِّنٰت(پ15،بنی اسرآءیل:101)ترجمہ:اور بے شک ہم نے موسیٰ کو نورِ روشن نشانیاں دیں۔

(8)اللہ پاک نے آپ علیہ السلام کو روشن غلبہ و تسلط عطا فرمایا:وَ اٰتَیْنَا مُوْسٰى سُلْطٰنًا مُّبِیْنًا(۱۵۳) (پ6،النسآء:153)ترجمہ: اور ہم نے موسیٰ کو روشن غلبہ عطا فرمایا۔

(9)اللہ پاک نے بنی اسرائیل کو ان کے زمانے میں تمام جہان والوں پر فضیلت عطا کی:وَ لَقَدِ اخْتَرْنٰهُمْ عَلٰى عِلْمٍ عَلَى الْعٰلَمِیْنَۚ(۳۲)25،الدخان:32)ترجمہ:اور بے شک ہم نے انہیں جانتے ہوئے اس زمانے والوں پر چن لیا۔

(10)اللہ پاک نے آپ علیہ السلام کو لوگوں کے دلوں کی آنکھیں کھولنے والی باتوں،ہدایت اور رحمت پر مشتمل کتاب تورات عطا فرمائی:وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ مِنْۢ بَعْدِ مَاۤ اَهْلَكْنَا الْقُرُوْنَ الْاُوْلٰى بَصَآىٕرَ لِلنَّاسِ وَ هُدًى وَّ رَحْمَةً لَّعَلَّهُمْ یَتَذَكَّرُوْنَ(۴۳) (پ20،القصص:43)ترجمہ: اور بے شک ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا فرمائی اس کے بعد کہ ہم نے پہلی قوموں کو ہلاک فرما دیا(موسیٰ کو وہ کتاب دی)جس میں لوگوں کے دلوں کی آنکھیں کھولنے والی باتیں اور ہدایت اور رحمت ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔

یاد رہے! اللہ پاک نے اس کے علاوہ بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بہت سے عظیم معجزات سے مزین فرمایا اور آپ علیہ السلام کو خاص عظمتیں بخشی ہیں۔ اللہ پاک ہمیں ان کی سیرت پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کے صدقے ہماری بے حساب مغفرت فرمائے۔اٰمین بجاہِ خاتمِ النبی الامین ﷺ


حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ پاک کے انتہائی برگزیدہ پیغمبر اور اولواالعزم رسولوں میں سے ایک رسول ہیں۔ آپ کلیمُ اللہ کے لقب سے اس لیے مشہور ہوئے کہ آپ نے اللہ پاک سے بلاواسطہ کلام کیا تھا۔آپ علیہ السلام کا نام موسیٰ اور لقب صفیُّ الله، کلیمُ اللہ ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام شرم و حیا کے پیکر تھے۔نبیِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:حضرت موسیٰ علیہ السلام بہت حیا والے اور اپنا بدن چھپانے کا خصوصی اہتمام کیا کرتے تھے۔(بخاری،2/442،حدیث:3404)

اوصافِ حضرت موسیٰ علیہ السلام:

(1)آپ علیہ السلام ربِّ کریم کی بارگاہ میں بڑی وجاہت یعنی بڑے مقام والے اور مستجابُ الدعوات تھے: ارشادِ باری ہے: وَ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ وَجِیْهًاؕ(۶۹) (پ22،الاحزاب:69)ترجمہ: اور موسیٰ اللہ کے ہاں بڑی وجاہت والا ہے۔

(2)آپ علیہ السلام اور آپ کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام اعلیٰ درجے کے کامل ایمان والے بندے تھے:فرمانِ باری ہے:اِنَّهُمَا مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ(۱۲۲)(پ22،الصّٰفّٰت:122) ترجمہ: بیشک وہ دونوں ہمارے اعلیٰ درجہ کے کامل ایمان والے بندوں میں سے ہے۔

(3)آپ علیہ السلام کو لوگوں کے دلوں کی آنکھیں کھولنے والی باتوں،ہدایت اور رحمت پر مشتمل کتاب تورات عطا فرمائی:فرمانِ باری ہے:وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ مِنْۢ بَعْدِ مَاۤ اَهْلَكْنَا الْقُرُوْنَ الْاُوْلٰى بَصَآىٕرَ لِلنَّاسِ وَ هُدًى وَّ رَحْمَةً لَّعَلَّهُمْ یَتَذَكَّرُوْنَ(۴۳)(پ20، القصص:43) ترجمہ: اور بیشک ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا فر مائی اس کے بعد کہ ہم نے پہلی قوموں کو ہلاک فرما دیا تھا( موسیٰ کووہ کتاب دی) جس میں لوگوں کے دلوں کی آنکھیں کھولنے والی باتیں اور ہدایت اور رحمت ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔

(4) آپ علیہ السلام کو فرقان عطا کیا:ارشادِ باری ہے:وَ اِذْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ وَ الْفُرْقَانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ(۵۳)(پ1،البقرۃ:53)ترجمہ:اور یاد کرو جب ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا کی اور حق و باطل میں فرق کرنا تاکہ تم ہدایت پا جاؤ۔

(5)آپ علیہ السلام کو نبوت و رسالت پر دلالت کرنے والی 9 روشن نشانیاں عطا کیں:فرمانِ باری ہے:وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسٰى تِسْعَ اٰیٰتٍۭ بَیِّنٰت15،بنی اسرآءیل:101)ترجمہ:اور بیشک ہم نے موسی کو نو روشن نشانیاں دیں۔

(6)بنی اسرائیل کو ان کے زمانے میں تمام جہان والوں پر فضلیت عطا کی:ارشاد فرمایا:وَ لَقَدِ اخْتَرْنٰهُمْ عَلٰى عِلْمٍ عَلَى الْعٰلَمِیْنَۚ(۳۲)25،الدخان:32)ترجمہ:اور بیشک ہم نے انہیں جانتے ہوئے اس زمانے والوں پرچن لیا۔

(7) اللہ پاک نے پہلے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر 10 صحیفے نازل فرمائے،پھر آپ علیہ السلام کو کتابِ الٰہی تورات عطا کی اور آپ کے واسطے سے حضرت ہارون علیہ السلام کو عطا ہوئی:اس کتاب سے متعلق ارشادِ باری ہے:وَ اٰتَیْنٰهُمَا الْكِتٰبَ الْمُسْتَبِیْنَۚ(۱۱۷)(پ23،الصّٰفّٰت:117)ترجمہ: اور ہم نے ان دونوں کو روشن کتاب عطا فرمائی۔

(8)حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ پاک کے برگزیدہ بندے اور نبی رسول تھے:ارشادِ باری ہے:وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ مُوْسٰۤى٘-اِنَّهٗ كَانَ مُخْلَصًا وَّ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا(۵۱)(پ16،مریم:51) ترجمہ: اور کتب میں موسیٰ کو یاد کرو بےشک وہ چنا ہوا بندہ تھا اور وہ نبی رسول تھا۔

(9)اللہ پاک نے آپ علیہ السلام سے بلا واسطہ کلام فرمایا:ارشادِ باری ہے:وَ كَلَّمَ اللّٰهُ مُوْسٰى تَكْلِیْمًاۚ(۱۶۴) (پ6، النسآء: 164)ترجمہ: اور اللہ نے موسیٰ سے حقیقتاً کلام فرمایا۔

(10) اللہ پاک نے حضرت ہارون علیہ السلام کی صورت میں آپ کو وزیر اور مددگار عطا فرمایا:چنانچہ ارشادِ باری ہے:وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ وَ جَعَلْنَا مَعَهٗۤ اَخَاهُ هٰرُوْنَ وَزِیْرًاۚۖ(۳۵)(پ19،الفرقان: 35)ترجمہ: اور بیشک ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا فرمائی اور اس کے ساتھ اس کے بھائی ہارون کو وزیر بنایا۔

اللہ پاک نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بلانے کے لیے آنے والی دُخترِ شعیب کی شرم و حیا کا بطور خاص ذکر فرمایا۔ کیونکہ شرم و حیا اور پردے کا خیال رکھنا پچھلے زمانوں میں بھی شریف لوگوں کی خاص علامت تھی۔ معلوم ہوا کہ قرآن وحدیث کی تعلیم شرم و حیا ہے۔قرآنِ مجید کے اس درسِ حیا میں ان عورتوں کے لئے نصیحت ہے جو بے پردہ حالت میں سڑکوں،بازاروں اور دوکانوں پر پھرتی ہیں۔ سج دھج کر دفتروں میں مَردوں کے ساتھ کام کرتی ہیں۔


حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ پاک کے انتہائی برگزیدہ پیغمبر اور رسولوں میں سے ایک رسول ہیں۔اللہ پاک سے بلا واسطہ ہم کلام ہونے کی سعادت پانے کے سبب کلیمُ اللہ کے لقب سے یاد کیے جاتے ہیں۔ آپ کا مبارک نام موسیٰ اور لقب کلیمُ اللہ اور صفیُّ اللہ ہے۔

10 اوصافِ موسیٰ:

(1) حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ پاک کے چنے ہوئے برگزیدہ بندے اور رسول ہیں: وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ مُوْسٰۤى٘-اِنَّهٗ كَانَ مُخْلَصًا وَّ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا(۵۱) (پ16،مریم:51) ترجمہ کنزالایمان: اور کتاب میں موسیٰ کو یاد کرو بیشک وہ چنا ہوا تھا اور رسول تھا غیب کی خبریں بتانے والا۔

(2) آپ علیہ السلام کسی واسطے کے بغیر اللہ پاک سے ہم کلام ہونے کا شرف رکھتے ہیں اور بارگاہِ الٰہی میں قرب کے اس مقام پر فائز ہیں کہ آپ کی دعا سے اللہ پاک نے آپ کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کو نبوت جیسی عظیم نعمت سے نوازا: وَ نَادَیْنٰهُ مِنْ جَانِبِ الطُّوْرِ الْاَیْمَنِ وَ قَرَّبْنٰهُ نَجِیًّا(۵۲) وَ وَهَبْنَا لَهٗ مِنْ رَّحْمَتِنَاۤ اَخَاهُ هٰرُوْنَ نَبِیًّا(۵۳) (پ16،مریم:52،53) ترجمہ کنزالایمان:اور اسے ہم نے طور کی داہنی جانب سے ندا فرمائی اور اسے اپنا راز کہنے کو قریب کیا اور اپنی رحمت سے اسے اس کا بھائی ہارون عطا کیا غیب کی خبریں بتانے والا۔

(3) اللہ پاک نے آپ علیہ السلام سے بلا واسطہ کلام فرمایا:وَ كَلَّمَ اللّٰهُ مُوْسٰى تَكْلِیْمًاۚ(۱۶۴)(پ6، النسآء: 164)ترجمہ کنزالایمان:اور اللہ نے موسیٰ سے حقیقتاً کلام فرمایا۔

(4)اللہ پاک نے حضرت ہارون علیہ السلام کی صورت میں آپ کو وزیر اور مددگار عطا فرمایا:وَ وَهَبْنَا لَهٗ مِنْ رَّحْمَتِنَاۤ اَخَاهُ هٰرُوْنَ نَبِیًّا(۵۳)(پ16، مریم: 53) ترجمہ کنزالایمان:اور اپنی رحمت سے اسے اس کا بھائی ہارون عطا کیا غیب کی خبریں بتانے والا۔

(5)اللہ پاک نے آپ علیہ السلام کو روشن غلبہ و تسلط عطا فرمایا:وَ اٰتَیْنَا مُوْسٰى سُلْطٰنًا مُّبِیْنًا(۱۵۳) (پ6، النسآء:153) ترجمہ کنزالایمان:اور ہم نے موسیٰ کو روشن غلبہ عطا فرمایا۔

(6) آپ علیہ السلام کو فرقان عطا کیا:وَ اِذْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ وَ الْفُرْقَانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ(۵۳) (پ1،البقرۃ:53) ترجمہ کنزالایمان:اور جب ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا کی اور حق و باطل میں تمیز کردینا کہ کہیں تم راہ پر آؤ۔

(7) آپ علیہ السلام ربِّ کریم کی بارگاہ میں بڑی و جاہت یعنی بڑے مقام والے اور مستحابُ الدعوات تھے:

وَ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ وَجِیْهًاؕ(۶۹)(پ22،الاحزاب:69)ترجمہ کنزالایمان:اور موسیٰ اللہ کے ہاں بڑی وجاہت والا ہے۔

(8)آپ علیہ السلام اعلیٰ درجے والے اور کامل ایمان والے بندے تھے:اِنَّهُمَا مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ (۱۲۲) (پ22،الصّٰفّٰت:122)ترجمہ کنزالایمان:بے شک وہ دونوں ہمارے اعلیٰ درجے کے کامل ایمان والے بندوں میں سے ہیں۔ “اس آیت سے اس بات پر تنبیہ کرنا مقصود ہے کہ سب سے بڑی فضیلت اور سب سے اعلیٰ شرف کامل ایمان سے حاصل ہونا ہے۔ (تفسیرِ کبیر)

(9)اللہ پاک نے آپ علیہ السلام کو لوگوں کے دلوں کی آنکھیں کھولنے والی باتوں،ہدایت اور رحمت پر مشتمل کتاب تورات عطا فرمائی:وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ مِنْۢ بَعْدِ مَاۤ اَهْلَكْنَا الْقُرُوْنَ الْاُوْلٰى بَصَآىٕرَ لِلنَّاسِ وَ هُدًى وَّ رَحْمَةً لَّعَلَّهُمْ یَتَذَكَّرُوْنَ(۴۳)(پ20،القصص:43)ترجمہ کنزالایمان: اور بے شک ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا فرمائی اس کے بعد کہ ہم نے پہلی قوموں کو ہلاک فرما دیا (موسیٰ کو وہ کتاب دی)جس میں لوگوں کے دلوں کی آنکھیں کھولنے والی باتیں اور ہدایت اور رحمت ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔

(10)اللہ پاک نے بنی اسرائیل کو ان کے زمانے میں تمام جہان والوں پر فضیلت عطا کی:وَ لَقَدِ اخْتَرْنٰهُمْ عَلٰى عِلْمٍ عَلَى الْعٰلَمِیْنَۚ(۳۲)25،الدخان:32)ترجمہ کنزالایمان:اور بے شک ہم نے انہیں جانتے ہوئے اس زمانے والوں پر چن لیا۔

اللہ پاک نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بلانے کیلئے آنے والی دُخترِ شعیب کی شرم و حیا کا بطور خاص ذکر فرمایا۔کیونکہ شرم و حیا اور پردے کا خیال رکھنا پچھلے زمانوں میں بھی شریف لوگوں کی خاص علامت تھا۔ قرآنِ مجید کے اس درسِ حیا میں ان عورتوں کیلئے نصیحت ہے جو بے پردہ حالت میں سڑکوں،بازاروں اور دکانوں پر پھرتی ہیں۔ یاد رکھیے! قرآن و حدیث کی تعلیم شرم و حیا ہے۔اللہ پاک ہمیں ان کی سیرت پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمین بجاہِ خاتمِ النبی الامین ﷺ 


نام و لقب: آپ علیہ السلام کا مبارک نام موسیٰ،لقب کلیمُ اللہ،صفیُّ اللہ ہے۔نبیِ کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: حضرت موسیٰ علیہ السلام صفیُّ اللہ یعنی اللہ پاک کے چنے ہوئے بندے ہیں۔

مختصر تعارف: حضرت موسیٰ علیہ السلام کے والد کا نام عمران اور آپ کی والدہ کا نام ایارخا بھی مذکور ہے۔ آپ علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں۔حضرت موسیٰ علیہ السلام حضرت یوسف علیہ السلام کی وفات سے چار سو برس اور حضرت ابراہیم علیہ السلام سے سات سو برس بعد پیدا ہوئے اور آپ علیہ السلام نے ایک سو بیس برس کی عمر پائی۔(البدایہ والنہایہ،1/ 326،329)(تفسیرِ صاوی،2/ 692 ملتقطا)

حضرت موسیٰ علیہ السلام کی صفات:

برگزیدہ بندے: ارشادِ باری ہے:وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ مُوْسٰۤى٘-اِنَّهٗ كَانَ مُخْلَصًا وَّ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا(۵۱) (پ16،مریم:51)ترجمہ:اور کتاب میں موسیٰ کو یاد کرو بیشک وہ چنا ہوا بندہ تھا اور وہ نبی رسول تھا غیب کی خبریں بتانے والا۔

قرآن کریم میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی یہ صفات بیان کی گئی ہیں:

1-آپ علیہ السلام اللہ پاک کے چنے ہوئے اور برگزیدہ بندے تھے۔

2-آپ علیہ السلام رسول و نبی تھے۔

3-آپ علیہ السلام سے اللہ پاک نے کلام فرمایا۔

4-آپ علیہ السلام کو اللہ پاک نے اپنا قرب بخشا۔

5-آپ علیہ السلام کی خواہش پر آپ کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کو نبوت عطا کی گئی۔ (تفسیرروح المعانی، 8 /51)

6-شرم و حیا: شرم و حیا اور جسم کو چھپا کر رکھنا پسندیدہ اوصاف اور کئی صورتوں میں شریعت کو مطلوب ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام میں ان اوصاف سے متعلق نبیِ کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:حضرت موسیٰ علیہ السلام بہت حیا والے اور اپنا بدن چھپانے کا خصوصی اہتمام کرتے تھے۔(بخاری،2/442،حديث: 3404)

موسیٰ علیہ السلام کی شان و عظمت: وَ اِذْ قُلْتُمْ یٰمُوْسٰى لَنْ نُّؤْمِنَ لَكَ حَتّٰى نَرَى اللّٰهَ جَهْرَةً فَاَخَذَتْكُمُ الصّٰعِقَةُ وَ اَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ(۵۵)ثُمَّ بَعَثْنٰكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَوْتِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ(۵۶) ترجمہ کنزالایمان: اور جب تم نے کہا اے موسیٰ ہم ہرگز تمہارا یقین نہ لائیں گے جب تک علانیہ خدا کو نہ دیکھ لیں تو تمہیں کڑک نے آلیا اور تم دیکھ رہے تھے۔ پھر مرے پیچھے ہم نے تمہیں زندہ کیا کہ کہیں تم احسان مانو۔ (پ2، البقرۃ:55،56)

اس آیت کی روشنی میں یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام توریت حاصل کرنے کے لیے کوہِ طور پر تشریف لے گئے تو پیچھے سے آپ کی قوم نے بچھڑے کو اپنا معبود بنا لیا اور اس بچھڑے کی پوجا کرنے لگے اور تمام بنی اسرائیل اس میں شامل ہوگئے،سوائے حضرت ہارون علیہ السلام اور 12000 ساتھیوں کے جو اس شرک سے دور رہے۔ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام واپس تشریف لے آئے تو قوم کی حالت دیکھ کر انہیں تنبیہ کی اور انہیں ان کے گناہوں کا کفارہ بتایا۔چنانچہ جب انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق توبہ کی تو اللہ پاک نے انہیں معاف کر دیا۔ اللہ پاک نے حکم فرمایا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام انہیں اس گناہ کی معذرت پیش کرنے کے لئے حاضر کریں۔چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام ان میں سے 70 آدمیوں کو اپنے ساتھ کوہِ طور پر لے گئے تو انہوں نے کہا کہ ہم آپ کا یقین نہیں کریں گے جب تک خدا کو دیکھ نہ لیں!تو اس پر آسمان سے ایک ہولناک آواز آئی، جس کی ہیبت سے وہ سب مر گئے۔حضرت موسیٰ علیہ السلام نے گڑگڑا کر اللہ پاک کی بارگاہ میں عرض کی کہ میں بنی اسرائیل کو کیا جواب دوں گا؟ اس پر اللہ پاک نے ان افراد کو زندہ کردیا۔ اس واقعے سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شان و عظمت معلوم ہوتی ہے کہ” ہم آپ کا یقین نہیں کریں گے“یہ کہنے کی شامت میں بنی اسرائیل کو ہلاک کر دیا گیا اور آپ کی دعا کی برکت سے انہیں دوبارہ زندہ کردیا گیا۔

7-مرتبۂ قربِ الٰہی:وَ نَادَیْنٰهُ مِنْ جَانِبِ الطُّوْرِ الْاَیْمَنِ وَ قَرَّبْنٰهُ نَجِیًّا(۵۲)(پ16،مریم:52، 53)ترجمہ کنز الایمان:اور اسے ہم نے طور کی دا ہنی جانب سے ندا فرمائی اور اسے اپنا راز کہنے کو قریب کیا۔

طور: طور ایک پہاڑ کا نام ہے جو مصر اور مَدْیَن کے درمیان ہے۔حضرت موسیٰ علیہ السلام کو مدین سے آتے ہوئے طور کی اس جانب سے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دائیں طرف تھی ایک درخت سے ندا دی گئی: یٰمُوْسٰۤى اِنِّیْۤ اَنَا اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَۙ(۳۰)(پ20،القصص:30)ترجمہ کنزالعرفان: اے موسیٰ میں ہی اللہ ہوں، تمام جہانوں کا پالنے والا۔ اس کے بعد اللہ پاک نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے بلاواسطہ کلام فرمایا اور آپ علیہ السلام کلیمُ اللہ کے شرف سے نوازے گئے۔ آپ علیہ السلام کو مرتبۂ قرب عطا فرمایا گیا۔ حجاب اٹھا دئیے گئے یہاں تک کہ آپ نے قلموں کے چلنے کی آوازیں سنیں اور آپ علیہ السلام کی قدرو منزلت بلند کی گئی۔(تفسیر خازن،3/ 237،238)

8-بارگاہِ الٰہی میں مقام: وَ وَهَبْنَا لَهٗ مِنْ رَّحْمَتِنَاۤ اَخَاهُ هٰرُوْنَ نَبِیًّا(۵۳)(پ16،مریم:53) ترجمہ کنزالایمان: اور اپنی رحمت سے اسے اس کا بھائی ہارون عطا کیا غیب کی خبریں بتانے والا(نبی)۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اللہ پاک کی بارگاہ میں قرب کاایسا مقام حاصل ہے کہ اللہ پاک نے ان کی دعا کے صدقے ان کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کو نبوت عطافرما دی۔اس سے اللہ پاک کے پیاروں کی عظمت کا پتہ لگا کہ ان کی دعا سے وہ نعمت ملتی ہے جو بادشاہوں کے خزانوں میں نہ ہو۔تو اگر ان کی دعا سے اولاد یا دنیا کی دیگر نعمتیں مل جائیں تو کیا مشکل ہے!البتہ اب ختمِ نبوت ہوچکی لہٰذا اب کسی کو نبوت نہیں مل سکتی۔

9-حضرت موسیٰ علیہ السلام انبیائے بنی اسرائیل علیہم السلام میں بہت شان والے ہیں کہ ان کا ذکر خصوصیت سے علیحدہ ہوا۔حضرت موسیٰ علیہ السلام پر یک بارگی کتاب نازل ہوا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ان کی صداقت پر دلالت کرنے والی نشانیوں جیسے روشن ہاتھ اور عصا وغیرہ معجزات کے ساتھ فرعون اور اس کی قوم کی طرف بھیجا۔

10- پتھر سے چشمے جاری: وَ اِذِ اسْتَسْقٰى مُوْسٰى لِقَوْمِه(پ1،البقرۃ:60)جب میدانِ تِیَہ میں بنی اسرائیل نے پانی نہ پایا تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی خدمت میں فریاد کی۔حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اللہ پاک کی طرف سے حکم ہوا کہ اپنا عصا پتھر پر مارو،چنانچہ آپ علیہ السلام نے عصا مارا تو ا س پتھر سے پانی کے بارہ چشمے جاری ہوگئے اور بنی اسرائیل کے بارہ گروہوں نے اپنے اپنے گھاٹ کو پہچان لیا۔

نیکی کی جزا:اللہ پاک نے فرعون کے مَظالِم سے نجات دے کر،قِبطیوں کے مقابلے میں ان کی مدد کر کے، حدود و اَحکام کی جامع کتاب عطا فرما کر اور قیامت تک ذکرِ خیر باقی رکھ کے حضرتِ موسیٰ اور حضرتِ ہارون علیہما السلام کو جز اعطا فرمائی۔اسی طرح ہم نیکی کرنے والوں کو ایسا ہی صلہ دیتے ہیں۔(تفسیر صاوی،5/ 1749 ملخصاً)اس سے معلوم ہوا کہ نیکی کرنے والوں کو دیگر ثوابوں کے علاوہ دنیا میں ذکر ِخیر اور امن و سلامتی بھی عطا ہوتی ہے۔


اے عاشقانِ رسول!حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ پاک کے مقبول بندے اور نبی ہیں۔آپ علیہ السلام حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں۔ آپ علیہ السلام کے والد کا نام عمران ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام ان انبیائے کرام میں سے ہیں جنہیں اولوا العزم رسول کہا جاتا ہے۔ربِّ کریم نے قرآنِ کریم میں کئی مقامات پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے معجزات و صفات کا تذکرہ فرمایا۔آپ علیہ السلام کا نامِ اقدس قرآنِ کریم میں136 بار ذکر کیا گیا۔ چنانچہ سورۂ بنی اسرائیل آیت نمبر 101 میں فرمایا:وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسٰى تِسْعَ اٰیٰتٍۭ بَیِّنٰت(پ 15، بنی اسرائیل:101) ترجمہ کنزالایمان:اور بے شک ہم نے موسیٰ کو نو روشن نشانیاں دیں۔

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا:حضرت موسیٰ علیہ السلام جو نو نشانیاں عطا کی گئیں وہ یہ ہیں: (1)عصا(2)یدِ بیضاء(3)بولنے میں دقت:آپ علیہ السلام کی زبان مبارک میں دقت تھی،پھر ربِّ کریم نے اسے دور فرما دیا۔(4) دریا کا پھٹنا اور اس میں راستے بننا(5) طوفان(6)ٹڈی (7)گھن(8)مینڈک(9) خون۔ (تفسیر صراط الجنان، 5/522)

اے عاشقانِ رسول!حضرت موسیٰ علیہ السلام وہ فضیلت والے نبی ہیں جن کو ربِّ کریم نے اپنے کلام سننے کا شرف عطا فرمایا، اسی لیے آپ علیہ السلام کلیمُ اللہ کے لقب سے مشہور ہیں۔ اس بارے میں ربِّ کریم نے قرآنِ کریم میں فرمایا:وَ كَلَّمَ اللّٰهُ مُوْسٰى تَكْلِیْمًاۚ(۱۶۴) (پ6، النسآء:164)ترجمہ کنزالایمان:اللہ نے موسیٰ سے حقیقتاً کلام فرمایا۔“قرآنِ مجید میں ایک اور جگہ اسی واقعے کا تذکرہ فرماتے ہوئے ربِّ کریم نے ارشاد فرمایا:وَ لَمَّا جَآءَ مُوْسٰى لِمِیْقَاتِنَا وَ كَلَّمَهٗ رَبُّهٗۙ-(پ9،الاعراف: 143) ترجمہ کنزالایمان:جب موسیٰ ہمارے وعدہ پر حاضر ہوا اور اس سے اس کے رب نے کلام فرمایا۔

اس آیت سے ثابت ہوا کہ اللہ پاک نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کلام فرمایا،اس پر ہمارا ایمان ہے اور ہماری کیا حیثیت ہے کہ ہم اس کلام کی حقیقت سے بحث کرسکیں! کتابوں میں مذکور ہے کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کلام سننے کے لئے حاضر ہوئے تو آپ نے طہارت کی اور پاکیزہ لباس پہنا اور روزہ رکھ کر طورِ سینا میں حاضر ہوئے۔اللہ پاک نے ایک بادل نازل فرمایا جس نے پہاڑ کو ہر طرف سے چار فرسنگ(یعنی 12میل)کی مقدار ڈھک لیا۔شیاطین اور زمین کے جانور حتّٰی کہ ساتھ رہنے والے فرشتے تک وہاں سے علیحدہ کردیئے گئے۔آپ کے لئے آسمان کھول دیا گیا تو آپ نے ملائکہ کو ملاحظہ فرمایا کہ ہوا میں کھڑے ہیں اور آپ نے عرشِ الٰہی کو صاف دیکھایہاں تک کہ اَلواح پر قلموں کی آواز سنی اور اللہ پاک نے آپ سے کلام فرمایا۔آپ علیہ السلام نے اس کی بارگاہ میں اپنے معروضات پیش کئے،اُس نے اپنا کلام کریم سنا کر نوازا۔ حضرت جبریل علیہ السلام آپ کے ساتھ تھے لیکن اللہ پاک نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے جو کچھ فرمایا وہ اُنہوں نے کچھ نہ سنا۔حضرت موسیٰ علیہ السلام کو کلامِ ربانی کی لذت نے اس کے دیدار کا آرزو مند بنایا۔ (تفسیر صراط الجنان،3/ 425،426 )

ربِّ کریم نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دو عظیم الشان معجزات عطا فرمائے۔ جن کا تذکرہ قرآنِ مجید میں یوں ہے: قَالَ اِنْ كُنْتَ جِئْتَ بِاٰیَةٍ فَاْتِ بِهَاۤ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ(۱۰۶)فَاَلْقٰى عَصَاهُ فَاِذَا هِیَ ثُعْبَانٌ مُّبِیْنٌۚۖ(۱۰۷) (پ9،الاعراف: 106/107)ترجمہ کنزالایمان:کہا:اگر تم کوئی نشانی لے کر آئے ہو تو اسے پیش کرو اگرتم سچے ہو۔ تو موسیٰ نے اپنا عصا ڈال دیا تو وہ فورا ً ایک ظاہر اژدہا بن گیا۔

اس آیت کے تحت تفسیر صراط الجنان میں ہے:جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی رسالت کی تبلیغ مکمل فرمائی تو فرعون نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا:اگرآپ کے پاس اپنی صداقت کی کوئی نشانی ہے تو میرے سامنے اسے ظاہر کریں تاکہ پتا چل جائے کہ آپ اپنے دعوے میں سچے ہیں یا نہیں تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنا عصا زمین پرڈال دیا، وہ فورا ً ایک ظاہر اژدہا بن گیا۔(تفسیر صراط الجنان،3/399 )

وَ نَزَعَ یَدَهٗ فَاِذَا هِیَ بَیْضَآءُ لِلنّٰظِرِیْنَ۠(۱۰۸) (پ9،الاعراف: 108)ترجمہ:اور اپنا ہاتھ گریبان میں ڈال کر نکا لا تو وہ دیکھنے والوں کے سامنے جگمگانے لگا۔“اس آیت میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دوسرے معجزے کا ذکر ہے کہ آپ نے ا پنا ہاتھ گریبان میں ڈال کر نکالا تو وہ دیکھنے والوں کے سامنے جگمگانے لگا اور اس کی روشنی اور چمک نورِ آفتاب پر غالب ہوگئی۔ (تفسیر صراط الجنان،3/400)اس کے علاوہ قرآنِ کریم میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے کئی معجزات کا ذکر موجود ہے۔حضرت موسیٰ علیہ السلام کو سرکارِ دو عالم ﷺ نے معراج کی رات اپنی قبرِ انور میں نماز پڑھتے ملاحظہ فرمایا۔آپ علیہ السلام کی بدولت ہی اُمتِ محمدیہ پر یہ احسانِ عظیم کیا گیا کہ پچاس نمازیں کم کر کے پانچ کر دی گئیں۔