نام
و لقب: آپ
علیہ السلام کا مبارک نام موسیٰ،لقب کلیمُ اللہ،صفیُّ اللہ ہے۔نبیِ کریم ﷺ نے
ارشاد فرمایا: حضرت موسیٰ علیہ السلام صفیُّ اللہ یعنی اللہ پاک کے چنے ہوئے بندے
ہیں۔
مختصر
تعارف: حضرت
موسیٰ علیہ السلام کے والد کا نام عمران اور آپ کی والدہ کا نام ایارخا بھی مذکور
ہے۔ آپ علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں۔حضرت موسیٰ علیہ
السلام حضرت یوسف علیہ السلام کی وفات سے چار سو برس اور حضرت ابراہیم علیہ السلام
سے سات سو برس بعد پیدا ہوئے اور آپ علیہ السلام نے ایک سو بیس برس کی عمر
پائی۔(البدایہ والنہایہ،1/ 326،329)(تفسیرِ صاوی،2/ 692 ملتقطا)
حضرت
موسیٰ علیہ السلام کی صفات:
برگزیدہ
بندے: ارشادِ
باری ہے:وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ مُوْسٰۤى٘-اِنَّهٗ كَانَ مُخْلَصًا وَّ
كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا(۵۱)
(پ16،مریم:51)ترجمہ:اور
کتاب میں موسیٰ کو یاد کرو بیشک وہ چنا ہوا بندہ تھا اور وہ نبی رسول تھا غیب کی
خبریں بتانے والا۔
قرآن کریم میں
حضرت موسیٰ علیہ السلام کی یہ صفات بیان کی گئی ہیں:
1-آپ
علیہ السلام اللہ پاک کے چنے ہوئے اور برگزیدہ بندے تھے۔
2-آپ
علیہ السلام رسول و نبی تھے۔
3-آپ
علیہ السلام سے اللہ پاک نے کلام فرمایا۔
4-آپ
علیہ السلام کو اللہ پاک نے اپنا قرب بخشا۔
5-آپ
علیہ السلام کی خواہش پر آپ کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کو نبوت عطا کی گئی۔ (تفسیرروح
المعانی، 8 /51)
6-شرم
و حیا: شرم
و حیا اور جسم کو چھپا کر رکھنا پسندیدہ اوصاف اور کئی صورتوں میں شریعت کو مطلوب
ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام میں ان اوصاف سے متعلق نبیِ کریم ﷺ نے ارشاد
فرمایا:حضرت موسیٰ علیہ السلام بہت حیا والے اور اپنا بدن چھپانے کا خصوصی اہتمام
کرتے تھے۔(بخاری،2/442،حديث: 3404)
موسیٰ
علیہ السلام کی شان و عظمت: وَ اِذْ قُلْتُمْ یٰمُوْسٰى لَنْ نُّؤْمِنَ لَكَ حَتّٰى
نَرَى اللّٰهَ جَهْرَةً فَاَخَذَتْكُمُ الصّٰعِقَةُ وَ اَنْتُمْ
تَنْظُرُوْنَ(۵۵)ثُمَّ بَعَثْنٰكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَوْتِكُمْ لَعَلَّكُمْ
تَشْكُرُوْنَ(۵۶) ترجمہ کنزالایمان: اور جب تم نے کہا اے
موسیٰ ہم ہرگز تمہارا یقین نہ لائیں گے جب تک علانیہ خدا کو نہ دیکھ لیں تو تمہیں کڑک نے آلیا اور تم دیکھ رہے تھے۔ پھر
مرے پیچھے ہم نے تمہیں زندہ کیا کہ کہیں تم احسان مانو۔ (پ2، البقرۃ:55،56)
اس آیت کی روشنی میں یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جب
حضرت موسیٰ علیہ السلام توریت حاصل کرنے کے لیے کوہِ طور پر تشریف لے گئے تو پیچھے
سے آپ کی قوم نے بچھڑے کو اپنا معبود بنا لیا اور اس بچھڑے کی پوجا کرنے لگے اور
تمام بنی اسرائیل اس میں شامل ہوگئے،سوائے حضرت ہارون علیہ السلام اور 12000 ساتھیوں
کے جو اس شرک سے دور رہے۔ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام واپس تشریف لے آئے تو قوم کی
حالت دیکھ کر انہیں تنبیہ کی اور انہیں ان کے گناہوں کا کفارہ بتایا۔چنانچہ جب
انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق توبہ کی تو اللہ پاک
نے انہیں معاف کر دیا۔ اللہ پاک نے حکم فرمایا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام انہیں اس
گناہ کی معذرت پیش کرنے کے لئے حاضر کریں۔چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام ان میں سے
70 آدمیوں کو اپنے ساتھ کوہِ طور پر لے گئے تو انہوں نے کہا کہ ہم آپ کا یقین نہیں
کریں گے جب تک خدا کو دیکھ نہ لیں!تو اس پر آسمان سے ایک ہولناک آواز آئی، جس کی
ہیبت سے وہ سب مر گئے۔حضرت موسیٰ علیہ السلام نے گڑگڑا کر اللہ پاک کی بارگاہ میں
عرض کی کہ میں بنی اسرائیل کو کیا جواب دوں گا؟ اس پر اللہ پاک نے ان افراد کو
زندہ کردیا۔ اس واقعے سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شان و عظمت معلوم ہوتی ہے کہ”
ہم آپ کا یقین نہیں کریں گے“یہ کہنے کی شامت میں بنی اسرائیل کو ہلاک کر دیا گیا
اور آپ کی دعا کی برکت سے انہیں دوبارہ زندہ کردیا گیا۔
7-مرتبۂ
قربِ الٰہی:وَ نَادَیْنٰهُ مِنْ جَانِبِ الطُّوْرِ
الْاَیْمَنِ وَ قَرَّبْنٰهُ نَجِیًّا(۵۲)(پ16،مریم:52، 53)ترجمہ کنز الایمان:اور اسے ہم نے طور کی
دا ہنی جانب سے ندا فرمائی اور اسے اپنا راز کہنے کو قریب کیا۔
طور: طور ایک پہاڑ کا نام ہے جو مصر
اور مَدْیَن کے درمیان ہے۔حضرت موسیٰ علیہ السلام کو مدین سے آتے ہوئے طور کی اس
جانب سے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دائیں طرف تھی ایک درخت سے ندا دی گئی: یٰمُوْسٰۤى اِنِّیْۤ اَنَا
اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَۙ(۳۰)(پ20،القصص:30)ترجمہ
کنزالعرفان: اے موسیٰ میں ہی اللہ ہوں، تمام جہانوں کا پالنے والا۔ اس کے بعد اللہ
پاک نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے بلاواسطہ کلام فرمایا اور آپ علیہ السلام کلیمُ اللہ
کے شرف سے نوازے گئے۔ آپ علیہ السلام کو مرتبۂ قرب عطا فرمایا گیا۔ حجاب اٹھا
دئیے گئے یہاں تک کہ آپ نے قلموں کے چلنے کی آوازیں سنیں اور آپ علیہ السلام کی
قدرو منزلت بلند کی گئی۔(تفسیر خازن،3/ 237،238)
8-بارگاہِ الٰہی میں مقام: وَ وَهَبْنَا لَهٗ مِنْ رَّحْمَتِنَاۤ اَخَاهُ هٰرُوْنَ نَبِیًّا(۵۳)(پ16،مریم:53)
ترجمہ کنزالایمان: اور اپنی رحمت سے اسے اس کا بھائی ہارون عطا کیا غیب کی خبریں
بتانے والا(نبی)۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اللہ پاک کی بارگاہ
میں قرب کاایسا مقام حاصل ہے کہ اللہ پاک نے ان کی دعا کے صدقے ان کے بھائی حضرت
ہارون علیہ السلام کو نبوت عطافرما دی۔اس سے اللہ پاک کے پیاروں کی عظمت کا پتہ
لگا کہ ان کی دعا سے وہ نعمت ملتی ہے جو بادشاہوں کے خزانوں میں نہ ہو۔تو اگر ان
کی دعا سے اولاد یا دنیا کی دیگر نعمتیں مل جائیں تو کیا مشکل ہے!البتہ اب ختمِ
نبوت ہوچکی لہٰذا اب کسی کو نبوت نہیں مل سکتی۔
9-حضرت
موسیٰ علیہ السلام انبیائے بنی اسرائیل علیہم السلام میں بہت شان والے ہیں کہ ان
کا ذکر خصوصیت سے علیحدہ ہوا۔حضرت موسیٰ علیہ السلام پر یک بارگی کتاب نازل ہوا۔ حضرت
موسیٰ علیہ السلام کو ان کی صداقت پر دلالت کرنے والی نشانیوں جیسے روشن ہاتھ اور
عصا وغیرہ معجزات کے ساتھ فرعون اور اس کی قوم کی طرف بھیجا۔
10-
پتھر سے چشمے جاری: وَ
اِذِ اسْتَسْقٰى مُوْسٰى لِقَوْمِه(پ1،البقرۃ:60)جب میدانِ تِیَہ میں بنی اسرائیل نے پانی نہ
پایا تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی خدمت میں فریاد کی۔حضرت موسیٰ علیہ السلام کو
اللہ پاک کی طرف سے حکم ہوا کہ اپنا عصا پتھر پر مارو،چنانچہ آپ علیہ السلام نے
عصا مارا تو ا س پتھر سے پانی کے بارہ چشمے جاری ہوگئے اور بنی اسرائیل کے بارہ
گروہوں نے اپنے اپنے گھاٹ کو پہچان لیا۔
نیکی
کی جزا:اللہ
پاک نے فرعون کے مَظالِم سے نجات دے کر،قِبطیوں کے مقابلے میں ان کی مدد کر کے، حدود
و اَحکام کی جامع کتاب عطا فرما کر اور قیامت تک ذکرِ خیر باقی رکھ کے حضرتِ موسیٰ
اور حضرتِ ہارون علیہما السلام کو جز اعطا فرمائی۔اسی طرح ہم نیکی کرنے والوں کو
ایسا ہی صلہ دیتے ہیں۔(تفسیر صاوی،5/ 1749
ملخصاً)اس سے معلوم ہوا کہ نیکی کرنے والوں کو دیگر ثوابوں کے علاوہ دنیا میں ذکر
ِخیر اور امن و سلامتی بھی عطا ہوتی ہے۔