اے عاشقانِ
رسول!حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ پاک کے مقبول بندے اور نبی ہیں۔آپ علیہ السلام
حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں۔ آپ علیہ السلام کے والد
کا نام عمران ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام ان انبیائے کرام میں سے ہیں جنہیں اولوا
العزم رسول کہا جاتا ہے۔ربِّ کریم نے قرآنِ کریم میں کئی مقامات پر حضرت موسیٰ علیہ
السلام کے معجزات و صفات کا تذکرہ فرمایا۔آپ علیہ السلام کا نامِ اقدس قرآنِ کریم
میں136 بار ذکر کیا گیا۔ چنانچہ سورۂ بنی اسرائیل آیت نمبر 101 میں فرمایا:وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسٰى تِسْعَ اٰیٰتٍۭ بَیِّنٰت(پ
15، بنی اسرائیل:101) ترجمہ کنزالایمان:اور بے شک ہم نے موسیٰ کو نو روشن نشانیاں
دیں۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا:حضرت موسیٰ علیہ السلام جو
نو نشانیاں عطا کی گئیں وہ یہ ہیں: (1)عصا(2)یدِ
بیضاء(3)بولنے میں دقت:آپ علیہ السلام کی زبان مبارک میں دقت تھی،پھر ربِّ کریم نے
اسے دور فرما دیا۔(4) دریا کا پھٹنا
اور اس میں راستے بننا(5) طوفان(6)ٹڈی (7)گھن(8)مینڈک(9) خون۔ (تفسیر صراط
الجنان، 5/522)
اے عاشقانِ
رسول!حضرت موسیٰ علیہ السلام وہ فضیلت والے نبی ہیں جن کو ربِّ کریم نے اپنے کلام
سننے کا شرف عطا فرمایا، اسی لیے آپ علیہ السلام کلیمُ اللہ کے لقب سے مشہور ہیں۔ اس
بارے میں ربِّ کریم نے قرآنِ کریم میں فرمایا:وَ
كَلَّمَ اللّٰهُ مُوْسٰى تَكْلِیْمًاۚ(۱۶۴) (پ6،
النسآء:164)ترجمہ کنزالایمان:اللہ نے موسیٰ سے حقیقتاً کلام فرمایا۔“قرآنِ مجید میں
ایک اور جگہ اسی واقعے کا تذکرہ فرماتے ہوئے ربِّ کریم نے ارشاد فرمایا:وَ لَمَّا جَآءَ مُوْسٰى
لِمِیْقَاتِنَا وَ كَلَّمَهٗ رَبُّهٗۙ-(پ9،الاعراف: 143) ترجمہ کنزالایمان:جب موسیٰ ہمارے وعدہ پر حاضر ہوا اور
اس سے اس کے رب نے کلام فرمایا۔
اس آیت سے ثابت
ہوا کہ اللہ پاک نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کلام فرمایا،اس پر ہمارا ایمان ہے
اور ہماری کیا حیثیت ہے کہ ہم اس کلام کی حقیقت سے بحث کرسکیں! کتابوں میں مذکور
ہے کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کلام سننے کے لئے حاضر ہوئے تو آپ نے طہارت کی
اور پاکیزہ لباس پہنا اور روزہ رکھ کر طورِ سینا میں حاضر ہوئے۔اللہ پاک نے ایک
بادل نازل فرمایا جس نے پہاڑ کو ہر طرف سے چار فرسنگ(یعنی 12میل)کی مقدار ڈھک لیا۔شیاطین
اور زمین کے جانور حتّٰی کہ ساتھ رہنے والے فرشتے تک وہاں سے علیحدہ کردیئے گئے۔آپ
کے لئے آسمان کھول دیا گیا تو آپ نے ملائکہ کو ملاحظہ فرمایا کہ ہوا میں کھڑے ہیں
اور آپ نے عرشِ الٰہی کو صاف دیکھایہاں تک کہ اَلواح پر قلموں کی آواز سنی اور اللہ
پاک نے آپ سے کلام فرمایا۔آپ علیہ السلام نے
اس کی بارگاہ میں اپنے معروضات پیش کئے،اُس نے اپنا کلام کریم سنا کر نوازا۔ حضرت
جبریل علیہ السلام آپ کے ساتھ تھے لیکن اللہ پاک نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے جو
کچھ فرمایا وہ اُنہوں نے کچھ نہ سنا۔حضرت موسیٰ علیہ السلام کو کلامِ ربانی کی لذت
نے اس کے دیدار کا آرزو مند بنایا۔ (تفسیر صراط الجنان،3/ 425،426 )
ربِّ کریم نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دو عظیم الشان
معجزات عطا فرمائے۔ جن کا تذکرہ قرآنِ مجید میں یوں ہے: قَالَ اِنْ كُنْتَ جِئْتَ بِاٰیَةٍ فَاْتِ بِهَاۤ
اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ(۱۰۶)فَاَلْقٰى عَصَاهُ فَاِذَا هِیَ ثُعْبَانٌ
مُّبِیْنٌۚۖ(۱۰۷) (پ9،الاعراف: 106/107)ترجمہ کنزالایمان:کہا:اگر
تم کوئی نشانی لے کر آئے ہو تو اسے پیش کرو اگرتم سچے ہو۔ تو موسیٰ نے اپنا عصا
ڈال دیا تو وہ فورا ً ایک ظاہر اژدہا بن گیا۔
اس آیت کے تحت
تفسیر صراط الجنان میں ہے:جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی رسالت کی تبلیغ مکمل
فرمائی تو فرعون نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا:اگرآپ کے پاس اپنی صداقت کی کوئی
نشانی ہے تو میرے سامنے اسے ظاہر کریں تاکہ پتا چل جائے کہ آپ اپنے دعوے میں سچے ہیں
یا نہیں تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنا عصا زمین پرڈال دیا، وہ فورا ً ایک
ظاہر اژدہا بن گیا۔(تفسیر صراط الجنان،3/399 )
وَ نَزَعَ یَدَهٗ فَاِذَا هِیَ بَیْضَآءُ
لِلنّٰظِرِیْنَ۠(۱۰۸) (پ9،الاعراف: 108)ترجمہ:اور اپنا ہاتھ گریبان میں
ڈال کر نکا لا تو وہ دیکھنے والوں کے سامنے جگمگانے لگا۔“اس آیت میں حضرت موسیٰ علیہ
السلام کے دوسرے معجزے کا ذکر ہے کہ آپ نے ا پنا ہاتھ گریبان میں ڈال کر نکالا تو
وہ دیکھنے والوں کے سامنے جگمگانے لگا اور اس کی روشنی اور چمک نورِ آفتاب پر غالب
ہوگئی۔ (تفسیر صراط الجنان،3/400)اس کے علاوہ قرآنِ کریم میں حضرت موسیٰ علیہ
السلام کے کئی معجزات کا ذکر موجود ہے۔حضرت موسیٰ علیہ السلام کو سرکارِ دو عالم ﷺ
نے معراج کی رات اپنی قبرِ انور میں نماز پڑھتے ملاحظہ فرمایا۔آپ علیہ السلام کی
بدولت ہی اُمتِ محمدیہ پر یہ احسانِ عظیم کیا گیا کہ پچاس نمازیں کم کر کے پانچ کر
دی گئیں۔