قرآنِ پاک میں
اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:وَ لٰكِنْ رَّحْمَةً
مِّنْ رَّبِّكَ(پ20،القصص:46)ترجمہ: ہاں تمہارے رب کی مہر ہے (کہ تمہیں غیب کے علم دئیے)۔
ایک علم وہ
ہوتا ہے جو کسی تجربے یا مشاہدےسے حاصل کیا جائے،وہ علمِ غیب نہیں بلکہ تجربے یا
مشاہدے کا علم ہوتاہے۔غیب کا علم تووہ ہوتا ہے جو سوچ اور سمجھ سے بالا تر، ذہن
میں اس بات کا آنا کسی صورت آسان نہ ہو۔اللہ پاک اپنی مرضی سے غیب کا علم دیتا ہے
جس کو چاہے۔پھر وہ بندۂ خاص جس کو غیب کا علم دیا گیا عام عادات سے بالا تر باتیں
بیان کرتا ہے جو باتیں کسی تجربے یا مشاہدے کی محتاج نہیں ہوتیں۔یہ ہے غیب کا علم
جو اللہ پاک نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دیا تھا اور قربان جائیے ہمارے پیارے آقا،اللہ
پاک کے سب سے آخری نبی محمد ﷺپر جو حضرت آدم علیہ السلام سے حضرت عیسیٰ علیہ
السلام تک ہر نبی سے اعلیٰ و ارفع اور شان میں بلند بالا ہیں! ان کے غیب کے علم کا
عالم کیا ہوگا!
اللہ پاک
ارشاد فرماتا ہے:قَالُوْا
لَوْ لَاۤ اُوْتِیَ مِثْلَ مَاۤ اُوْتِیَ مُوْسٰىؕ-اَوَ لَمْ یَكْفُرُوْا بِمَاۤ
اُوْتِیَ مُوْسٰى مِنْ قَبْلُۚ-(پ20،القصص:48) ترجمہ: بولے انہیں کیوں نہ دیا گیا جو موسیٰ کو دیا گیا کیا اس کے منکر نہ ہوئے
تھے جو پہلے موسیٰ کو دیا گیا۔
یہ آیت دلیل
ہے اس بات کی کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو کتاب،حکمت و کمالات دیے گئے تھے۔حضرت
موسیٰ علیہ السلام کو بہت کچھ عطا کیا گیا تھاجو وہ بنی اسرائیل کے سامنے بیان
کرتے تھے۔مگر پھر بھی بنی اسرائیل کے لوگ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی صفات وکمالات
کو نہیں مانتے تھے۔پھر جب حضور نبیِ کریم ﷺکا مبارک دور آیا تو وہ بنی اسرائیل (آپس
میں لوگوں سے )یہ کہتے تھے محمد(ﷺ)کو وہ کمالات کیوں نہیں عطا کیے گئے جو حضرت
موسیٰ علیہ السلام کو عطا کیے گئے تھے۔تو اللہ پاک نے ان کی بات اس آیت میں واضح
کر دی کہ تم لوگ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے جیسے کمالات مانگتےہو حالانکہ محمد
ﷺحضرت موسیٰ علیہ السلام سے تو شان میں بہت اعلیٰ اور اولیٰ ہیں جبکہ تم تو حضرت موسیٰ
علیہ السلام کے کمالات کے بھی منکر تھے!تو آج تمہارا یہ بات کرنا محمد ﷺ کے لیے
بنتا ہی نہیں۔
ایک اور جگہ
اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ اٰذَوْا مُوْسٰى فَبَرَّاَهُ
اللّٰهُ مِمَّا قَالُوْاؕ-وَ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ وَجِیْهًاؕ(۶۹) (پ22،الاحزاب:69)ترجمہ کنزالعرفان:اے ایمان والو! ان لوگوں جیسے نہ ہونا
جنہوں نے موسیٰ کو ستایا تو اللہ نے موسیٰ کااس شے سے بری ہونا دکھادیا جو انہوں نے
کہا تھا اور موسیٰ اللہ کے ہاں بڑی وجاہت والا ہے۔
بنی اسرائیل
کے کچھ لوگ بے حیائی کے کام کرتے تھے کہ وہ ننگے نہاتے تھےاور حضرت موسیٰ علیہ
السلام کو کہتے تھے کہ آؤ تم بھی ہمارے ساتھ ہماری طرح برہنہ ہو کر نہاؤ۔اللہ پاک
کے نبی تو خوب حیا والے ہوتے ہیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام )کو ان لوگوں کی یہ بات
بہت بُری لگتی تھی۔ وہ لوگ الزام یہ لگاتے تھے کہ موسیٰ(علیہ السلام)کے جسم میں
کوئی نقص یا کوئی عیب یا کوئی بیماری ہے جس کی وجہ سے وہ ہمارے ساتھ ہماری طرح ہو
کر نہیں نہاتے۔جب ایک روز حضرت موسیٰ علیہ السلام نے غسل کے لیے ایک تنہائی کی جگہ
میں پتھر پر کپڑے اتار کر رکھے اور غسل شروع کیا تو وہ پتھر آپ کے کپڑے لے کر حرکت
میں آیا(اس جگہ سے دوسری جگہ کی طرف چلا) تو حضرت موسیٰ علیہ السلام اس پتھر کی
طرف بڑھے تو بنی اسرائیل نے دیکھ لیا کہ جسم مبارک پر کوئی عیب، نقص یا بیماری
نہیں۔
یہ بات ذہن
میں رکھنی چاہیے کہ اللہ پاک کے کسی بھی نبی کو عیب دار یا کمالات میں کم تصور
کرنا یا ایسا عقیدہ رکھنا جس میں اللہ پاک کے کسی بھی نبی کی ادنیٰ بےادبی کا پہلو
بھی ہو تواللہ پاک کے غضب کا سبب بنتا ہے۔