نبی اس بشر کو
کہتے ہیں جس کی طرف اللہ پاک نے مخلوق کی ہدایت و راہ نمائی کے لئے وحی بھیجی ہو
اور ان میں سے جو نئی شریعت یعنی اسلامی قانون
اور خدائی احکام لے کر آئے اسے رسول کہتے ہیں۔ (سیرت الانبیاء، ص 29 )
اللہ پاک نے انسانوں کی ہدایت کے لئے کئی انبیائے
کرام علیہم السلام مبعوث فرمائے ہیں اور ان میں سے ہر ایک کو کئی خصوصیات سے نوازا
ہے۔ انبیائے کرام علیہم السلام کائنات کی عظیم ترین ہستیاں اور انسانوں میں ہیروں
موتیوں کی طرح جگمگاتی شخصیات ہیں۔قرآن و حدیث میں انبیا و مرسلین عليہم السلام کے
انفرادی اور اجتماعی بے شمار فضائل بیان ہوئے ہیں۔چنانچہ
ارشادِ باری ہے: تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلٰى
بَعْضٍۘ-مِنْهُمْ مَّنْ كَلَّمَ اللّٰهُ وَ رَفَعَ بَعْضَهُمْ دَرَجٰتٍؕ-وَ
اٰتَیْنَا عِیْسَى ابْنَ مَرْیَمَ الْبَیِّنٰتِ وَ اَیَّدْنٰهُ بِرُوْحِ
الْقُدُسِؕ-(پ3،البقرۃ:253)
ترجمہ کنز الایمان:یہ رسول ہیں کہ ہم نے ان میں ایک کو دوسرے پر افضل کیا ان
میں کسی سے اللہ نے کلام فرمایا اور کوئی وہ ہے جسے سب پر درجوں بلند کیا اور ہم
نے مریم کے بیٹے عیسیٰ کو کھلی نشانیاں دیں اور پاکیزہ روح سے اس کی مدد کی۔
اس آیت میں تمام
انبیائے کرام علیہم السلام میں سے بطور ِ خاص تین انبیائے کرام علیہم
السلام کا ذکر فرمایا گیا۔ان میں سے ایک حضرتِ
موسیٰ علیہ السلام بھی ہیں جن سے اللہ پاک نے کوہِ طور پر بلا واسطہ
کلام فرمایا۔ قرآنِ پاک میں کئی جگہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی صفات کو
بیان کیا گیا ہے۔ ان میں سے چند یہ ہیں:
(1،2)حضرت موسیٰ
علیہ السلام اللہ پاک کے چنے ہوئے برگزیدہ بندے اور نبی و رسول تھے:ارشادِ باری
ہے:وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ مُوْسٰۤى٘-اِنَّهٗ كَانَ مُخْلَصًا وَّ
كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا(۵۱)(پ16،مریم:
51)ترجمہ کنز الایمان: اور کتاب میں موسیٰ کو یاد کرو بیشک وہ چنا ہوا تھا اور
رسول تھا غیب کی خبریں بتانے والا۔
(3)آپ علیہ
السلام ربِّ کریم کی بارگاہ میں بڑی وجاہت یعنی بڑے مقام والےاور مستجابُ الدعوات
تھے: ارشادِ باری ہے: وَ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ
وَجِیْهًاؕ(۶۹) (پ22،الاحزاب:69)ترجمہ
کنز الایمان:اور موسیٰ اللہ کے یہاں آبرو والا ہے۔
آیت کے اس حصے
میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شان بیان فرمائی گئی کہ آپ اللہ پاک کی بارگاہ میں
بڑی وجاہت یعنی بڑے مقام والے تھے اور اِس مقام میں یہ بات بھی داخل ہے کہ آپ مستجابُ
الدعوات تھے یعنی آپ کی دعائیں قبول ہوتی تھیں۔(تفسیرخازن، 3/513)
(4
تا 6)آپ
علیہ السلام کسی واسطے کے بغیر اللہ پاک سے ہم کلام ہونے کا شرف رکھتے ہیں اور
بارگاہِ الٰہی میں قرب کے اس مقام پر فائز ہیں کہ آپ کی دعا سے اللہ پاک نے آپ کے
بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کو نبوت جیسی عظیم نعمت سے نوازا: قرآنِ پاک میں ہے:
وَ نَادَیْنٰهُ مِنْ جَانِبِ الطُّوْرِ الْاَیْمَنِ وَ قَرَّبْنٰهُ
نَجِیًّا(۵۲)وَ وَهَبْنَا
لَهٗ مِنْ رَّحْمَتِنَاۤ اَخَاهُ هٰرُوْنَ نَبِیًّا(۵۳)(پ16،مریم:52،53)ترجمہ
کنزالایمان: اور اسے ہم نے طور کی دا ہنی جانب سے ندا فرمائی اور اسے اپنا راز
کہنے کو قریب کیا۔اور اپنی رحمت سے اسے اس کا بھائی ہارون عطا کیا غیب کی خبریں
بتانے والا (نبی)۔
اس سے اللہ
پاک کے پیاروں کی عظمت کا پتہ لگا کہ ان کی دعا سے وہ نعمت ملتی ہے جو بادشاہوں کے
خزانوں میں نہیں۔ تو اگر ان کی دعا سے اولاد یا دنیا کی دیگر نعمتیں مل جائیں تو کیا
مشکل ہے!البتہ اب ختمِ نبوت ہوچکی لہٰذا اب کسی کو نبوت نہیں مل سکتی۔
(7) آپ
علیہ السلام اور آپ کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام اعلیٰ درجے کے کامل ایمان
والے بندے تھے:فرمانِ باری ہے:اِنَّهُمَا مِنْ
عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ(۱۲۲)
(پ22،الصّٰفّٰت:122)ترجمہ کنزالایمان: بے شک وہ دونوں ہمارے اعلیٰ درجہ کے کامل
الایمان بندوں میں ہیں۔
اللہ پاک ہمیں
انبیائے کرام علیہم السلام کا ادب کرنے اور ان کے مقام کو سمجھنے کی توفیق عطا
فرمائے اور ہمیں ان کی ادنیٰ سی بھی بے ادبی کرنے سے محفوظ فرمائے اور ہمیں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے فیض سے مالا مال
فرمائے۔اٰمین بجاهِ خاتمِ النبيين ﷺ