اللہ پاک اور اس کے پیارے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ہمیں حرام کھانے اور حرام کمانے سے بچنے ہی کا حکم ارشاد فرمایا ہے۔ حدیث میں بھی حرام کمانے اور حرام کھانے کے حوالے سے کئی وعیدات وارد ہوئی ہیں جن میں سے چند درج ذیل ہیں :

وَعَنْ جَابِرٍ قَالَ: قَالَ رسولُ الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم: «لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ لَحْمٌ نبَتَ منَ السُّحْتِ وكلُّ لحمٍ نبَتَ منَ السُّحْتِ كَانَتِ النَّارُ أَوْلَى بِهِ» . رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالدَّارِمِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ فِي شُعَبِ الْإِيمَانِ ترجمہ جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : حرام سے پرورش پانے والا گوشت ، جنت میں داخل نہیں ہو گا ، اور حرام سے پرورش پانے والا ہر گوشت جہنم کی آگ ہی اس کی زیادہ حق دار ہے ۔ حسن ، رواہ احمد و الدارمی و البیھقی فی شعب الایمان

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے ، نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : جو بندہ مالِ حرام حاصل کرتا ہے ، اگر اُس کو صدقہ کرے تو مقبول نہیں اور خرچ کرے تو اُس کے لیے اُس میں برکت نہیں اور اپنے بعد چھوڑ کر مرے تو جہنم میں جانے کا سامان ہے ۔ اللہ پاک برائی سے برائی کو نہیں مٹاتا، ہاں نیکی سے برائی کو مٹا دیتا ہے ۔ بے شک خبیث کو خبیث نہیں مٹاتا ۔(مسند امام احمد، مسند عبد الله بن مسعود رضی الله عنہ، 2 / 33، حدیث : 3672 )

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے ، سرورِکائنات صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : اللہ پاک نے اُس جسم پر جنت حرام فرما دی ہے جو حرام غذا سے پلا بڑھا ہو ۔( کنز العمال، کتاب البیوع، قسم الاقوال، 2/ 8، الجزء الرابع، حدیث: 9257)

تاجدارِ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت سعد رضی اللہُ عنہ سے ارشاد فرمایا : اے سعد ! اپنی غذا پاک کر لو! مُستَجابُ الدَّعْوات ہو جاؤ گے ، اس ذاتِ پاک کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں محمد(صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ) کی جان ہے ! بندہ حرام کا لقمہ اپنے پیٹ میں ڈالتا ہے تو اس کے 40دن کے عمل قبول نہیں ہوتے اور جس بندے کا گوشت حرام سے پلا بڑھا ہواس کے لئے آگ زیادہ بہتر ہے ۔ ( معجم الاوسط، من اسمه : محمد، 5 / 34، حدیث : 6495)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں : سرکارِ دوعالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ایک شخص کا ذکر کیا جو لمبا سفر کرتا ہے ، اس کے بال پَراگندہ اور بدن غبار آلود ہے اور وہ اپنے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر یا رب! یارب! پکار رہا ہے حالانکہ اس کا کھانا حرام، پینا حرام، لباس حرام ، اور غذا حرام ہو پھر اس کی دعا کیسے قبول ہو گی ۔ ( مسلم، کتاب الزکاة، باب قبول الصدقة من الکسب الطیب وتربیتها، ص506، حدیث : 1015)

اِلَّاۤ اَنْ تَكُوْنَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْكُمْ : مگریہ کہ تمہاری باہمی رضامندی سے تجارت ہو ۔ )یعنی باہمی رضامندی سے جو تجارت کرو وہ تمہارے لئے حلال ہے ۔ باہمی رضامندی کی قید سے معلوم ہوا کہ خرید و فروخت کی وہ تمام صورتیں جن میں فریقین کی رضامندی نہ ہو درست نہیں جیسے اکثر ضبط شدہ چیزوں کی نیلامی خریدنا کہ اس میں مالک راضی نہیں ہوتا یونہی کسی کی دکان ، مکان، زمین یا جائیداد پر جبری قبضہ کر لینا حرام ہے ۔ یاد رہے کہ مال کا مالک بننے کے تجارت کے علاوہ اور بھی بہت سے جائز اَسباب ہیں جیسے تحفے کی صورت میں ، وصیت یا وراثت میں مال حاصل ہو تو یہ بھی جائز مال ہے ۔ تجارت کا بطورِ خاص اس لئے ذکر کیا گیا کہ یہ مالک بننے کی اختیاری صورت ہے ۔