بدکاری کی مذمت: زنا کرنا حرام اور کبیرہ گناہ ہےاور بدکاری کرنے والوں کو حد لگائی جائے گی۔حد ایک قسم کی سزا ہے جس کی مقدار شریعت کی جانب سےمقرر ہے اور اس میں کمی بیشی نہیں ہوسکتی اور اس کا مقصد لوگوں کو اس کام سے باز رکھنا ہے۔

ترجمہ: وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰۤى اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةًؕ-وَ سَآءَ سَبِیْلًا(۳۲) (پ15، بنی اسرائیل:32) ترجمہ کنز الایمان: اور بدکاری کے پاس نہ جاؤ بےشک وہ بے حیائی ہے اور بہت ہی بُری راہ۔

حدیثِ مبارکہ:

(1) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، حضورِ اقدسﷺنے ارشاد فرمایا: جب مرد زنا کرتا ہے تو اُس سے ایمان نکل کر سر پر سائبان کی طرح ہوجاتا ہے، جب اِس فعل سے جدا ہوتا ہے تواُس کی طرف ایمان لوٹ آتا ہے۔( ترمذی،4/283،حدیث:2634)

(2) حضرت عمرو بن عاص رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا:جس قوم میں زنا ظاہر ہوگا، وہ قحط میں گرفتار ہوگی اور جس قوم میں رشوت کا ظہور ہوگا، وہ رعب میں گرفتار ہوگی۔(مشکاۃ المصابیح،1/656،حدیث:3582)

(3) حضرت عثمان بن ابو العاص رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، حضور انور ﷺ نے ارشاد فرمایا آدھی رات کے وقت آسمانوں کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں، پھر ایک اعلان کرنے والا اعلان کرتا ہے کہ ہے کوئی دعا کرنے والا کہ ا س کی دعا قبول کی جائے، ہے کوئی مانگنے والا کہ اسے عطا کیا جائے،ہے کوئی مصیبت زدہ کہ اس کی مصیبت دور کی جائے۔اس وقت پیسے لے کر زنا کروانے والی عورت اور ظالمانہ ٹیکس لینے والے شخص کے علاوہ ہر دعا کرنے والے مسلمان کی دعا قبول کر لی جائے گی۔( معجم الاوسط، 2 / 133، حدیث: 2769)

اَلزَّانِیْ لَا یَنْكِحُ اِلَّا زَانِیَةً اَوْ مُشْرِكَةً٘-وَّ الزَّانِیَةُ لَا یَنْكِحُهَاۤ اِلَّا زَانٍ اَوْ مُشْرِكٌۚ-وَ حُرِّمَ ذٰلِكَ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ(۳) (پ 18، النور: 3) ترجمہ کنزالعرفان: زنا کرنے والامرد بدکار عورت یا مشرکہ سے ہی نکاح کرے گااور بدکار عورت سے زانی یا مشرک ہی نکاح کرے گااور یہ ایمان والوں پر حرام ہے۔ وضاحت: اس آیت میں فرمایا جا رہا ہے کہ زنا کرنے والامرد بدکار عورت یا مشرکہ سے ہی نکاح کرنا پسندکرے گااور بدکار عورت سے زانی یا مشرک ہی نکاح کرنا پسندکرے گا کیونکہ خبیث کا میلان خبیث ہی کی طرف ہوتا ہے، نیکوں کو خبیثوں کی طرف رغبت نہیں ہوتی۔ اس آيت کا ايک معنی يہ بھی بيان کیا گيا ہے کہ فاسق وفاجر شخص نیک اور پارسا عورت سے نکاح کرنے کی رغبت نہيں رکھتا بلکہ وہ اپنے جیسی فاسقہ فاجرہ عورت سے نکاح کرنا پسند کرتا ہے اسی طرح فاسقہ فاجرہ عورت نیک اور پارسا مرد سے نکاح کرنے کی رغبت نہيں رکھتی بلکہ وہ اپنے جيسے فاسق وفاجر مرد سے ہی نکاح کرنا پسند کرتی ہے۔ (تفسیر سورہ نور،ص19، 20)

شان نزول: اس آيت کا شانِ نزول يہ ہے کہ مہاجرین میں سے بعض بالکل نادار تھے، نہ اُن کے پاس کچھ مال تھا نہ ان کا کوئی عزیز قریب تھا اور بدکار مشرکہ عورتیں دولت مند اور مالدار تھیں، یہ دیکھ کر کسی مہاجر کو خیال آیا کہ اگر اُن سے نکاح کرلیا جائے تو ان کی دولت کام میں آئے گی۔سرکارِ دو عالَم ﷺ سے اُنہوں نے اس کی اجازت چاہی تو اس پر یہ آیت ِکریمہ نازل ہوئی اور انہیں اس سے روک دیا گیا۔ (خازن،3/335)

(وَ حُرِّمَ: اور حرام ہے۔) یعنی بدکاروں سے نکاح کرنا ایمان والوں پر حرام ہے۔ ياد رہے کہ ابتدائے اسلام میں زانیہ عورت سے نکاح کرنا حرام تھا بعد میں اس آیت وَ اَنْكِحُوا الْاَیَامٰى مِنْكُمْ ( ترجمہ کنزالعرفان: اور تم میں سے جو بغیر نکاح کے ہوں ان کے نکاح کردو۔)سے يہ حکم منسوخ ہوگیا۔ (مدارک،3/335)

بد کردار لوگوں کا ساتھی بننے اور بنانے سے بچیں: ایک طبیعت دوسری طبیعت سےا ثر لیتی ہے۔ اگر بدکار لوگوں کے پاس بیٹھیں گے توان کی صحبت سے خود بھی بدکار ہو جائیں گے کیونکہ بُری صحبت جلد اثر کرتی ہے یعنی ایک بدکای شخص کی بدکاری ساتھ رہنے والوں میں بہت جلد سرایت کر جاتی ہے۔

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہُ عنہ سے روايت ہے،حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمايا: بنی اسرائیل میں پہلی خرابی جوآئی وہ یہ تھی کہ ان میں سے ایک آدمی جب دوسرے آدمی سے ملتا تو اس سے کہتا: اے شخص! اللہ پاک سے ڈرو اور جو برا کام تم کرتے ہو اسے چھوڑ دو کیونکہ یہ تیرے لیے جائز نہیں ہے۔ پھر جب دوسرے دن اس سے ملتا تو اسے منع نہ کرتا کیونکہ وہ کھانے پینے اور بیٹھنے میں ا س کاشريک ہو جاتاتھا۔جب انہوں نے ایسا کیا تو اللہ پاک نے ان کے اچھےدلوں کو برے دلوں سے ملا دیا۔ (اور نیک لوگ بروں کی صحبت میں بیٹھنے کی نحوست سے انہی جيسے ہوگئے)۔ (ابو داؤد، 4/ 162، حديث: 4336)

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہُ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا: اے لوگو! عزت داروں کی لغزشیں معاف کر دو،مگر حدودکہ ان کو معاف نہیں کر سکتے۔(ابو داؤد، 4/ 162، حديث: 4375)