فرعونیوں پر
آنے والے عذابات
اللہ پاک نے قرآن کریم میں امت محمدی کی عبرت و نصیحت کیلئے جن سابقہ امتوں کی
نافرمانیوں کے نتیجے میں نازل ہونے والے عذابات کا بیان فرمایا ہے، ان میں فرعون اور
اسکی قوم بھی شامل ہیں۔
اللہ پاک نے حضرت موسیٰ علیہ
السلام کو ان کی صداقت پر
دلالت کرنے والی نشانیوں جیسے روشن ہاتھ اور عصا وغیرہ معجزات کے ساتھ فرعون اور اس
کی قوم کی طرف بھیجا۔ حضرت موسیٰعلیہ السلام جو نشانیاں لے کر آئے تھے وہ بالکل صاف واضح اور ظاہر تھیں لیکن پھر بھی فرعون
اور اس کے درباریوں نے اقرار کی بجائے انکار ہی کیا۔(تفسیر صراط الجنان ، پ 9، الاعراف: 103)
جب فرعونی اپنے کفر وسرکشی پر جمے رہے تو اُن پر اللہ پاک کی نشانیاں پے درپے وارد
ہونے لگیں کیونکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دعا کی تھی کہ اے اللہ پاک! فرعون زمین میں بہت سرکش ہوگیا ہے اور اس کی قوم
نے بھی عہد شکنی کی ہے انہیں ایسے عذاب میں گرفتار کر جو اُن کے لئے سزا ہو اور میری
قوم اور بعد والوں کے لئے عبرت و نصیحت ہو، تو اللہ پاک نے طوفان بھیجا ، ہوا یوں کہ
بادل آیا، اندھیرا ہوا اور کثرت سے بارش ہونے لگی ۔قبطیوں (فرعونیوں) کے گھروں میں پانی بھر گیا یہاں تک کہ وہ اس میں کھڑے رہ گئے اور پانی اُن کی
گردنوں کی ہنسلیوں تک آگیا، اُن میں سے جوبیٹھا وہ ڈوب گیا، یہ لوگ نہ ہل سکتے تھے
نہ کچھ کام کرسکتے تھے۔ ہفتہ کے دن سے لے کر دوسرے ہفتہ تک سات روز اسی مصیبت میں مبتلا
رہے اور باوجود اس کے کہ بنی اسرائیل (حضرت موسیٰ علیہ
السلام کی قوم) کے گھر اُن کے گھروں سے متصل تھے اُن کے گھروں میں پانی نہ
آیا۔ جب یہ لوگ عاجز ہوئے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے دعا کی عرض کی اور کہاکہ یہ مصیبت دور ہو جائے تو ہم آپ پر ایمان لے آئیں گے۔
حضرت موسیٰ علیہ
السلام نے دعا فرمائی تو
طوفان کی مصیبت دور ہو گئی، زمین میں وہ سرسبزی وشادابی آئی جو پہلے کبھی نہ دیکھی
تھی۔ کھیتیاں خوب ہوئیں اور درخت خوب پھلے ۔ یہ دیکھ کر فرعونی کہنے لگے :یہ پانی تو
نعمت تھا اور ایمان نہ لائے۔ ایک مہینہ تو عافیت سے گزرا پھر اللہ پاک نے ٹڈی بھیجی
وہ کھیتیاں اور پھل، درختوں کے پتے، مکان کے دروازے، چھتیں ،تختے، سامان، حتّٰی کہ
لوہے کی کیلیں تک کھا گئیں اور قبطیوں کے گھروں میں بھر گئیں لیکن بنی اسرائیل کے یہاں
نہ گئیں۔ اب قبطیوں نے پریشان ہو کر پھر حضرت موسیٰ
علیہ السلام
سے دعا کی درخواست
کی اور ایمان لانے کا وعدہ کیا، اس پر عہد و پیمان کیا ۔سات روز یعنی ہفتہ سے ہفتہ
تک ٹڈی کی مصیبت میں مبتلا رہے،پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا سے نجات پائی۔ کھیتیاں اور پھل جو کچھ باقی رہ گئے تھے انہیں دیکھ کر کہنے
لگے :یہ ہمیں کافی ہیں ہم اپنا دین نہیں چھوڑتے چنانچہ ایمان نہ لائے، عہد وفا نہ کیا
اور اپنے اعمالِ خبیثہ میں مبتلا ہوگئے ۔ ایک مہینہ عافیت سے گزرا، پھر اللہ پاک نے
قُمَّل بھیجے، اس میں مفسرین کا اختلاف ہے ، بعض کہتے ہیں کہ قُمَّل گُھن ہے، بعض کہتے
ہیں جوں ،بعض کہتے ہیں ایک اور چھوٹا سا کیڑا ہے۔ اس کیڑے نے جو کھیتیاں اور پھل باقی
رہے تھے وہ کھالئے، یہ کیڑا کپڑوں میں گھس جاتا تھا اور جلد کو کاٹتا تھا، کھانے میں
بھر جاتا تھا ،اگر کوئی دس بوری گندم چکی پر لے جاتا تو تین سیر واپس لاتا باقی سب
کیڑے کھا جاتے ۔یہ کیڑے فرعونیوں کے بال، بھنویں ،پلکیں چاٹ گئے، ان کے جسم پر چیچک
کی طرح بھر جاتے حتّٰی کہ ان کیڑوں نے اُن کا سونا دشوار کردیا تھا۔ اس مصیبت سے فرعونی
چیخ پڑے اور اُنہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے عرض کی:ہم توبہ کرتے ہیں ، آپ اس بلا کے دور ہونے کی دعا فرمائیے۔ چنانچہ سات
روز کے بعد یہ مصیبت بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا سے دور ہوئی، لیکن فرعونیوں نے پھر عہد شکنی کی اور پہلے سے زیادہ خبیث
تر عمل شروع کر دئیے۔ ایک مہینہ امن میں گزرنے کے بعد پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دعا کی تو اللہ پاک نے مینڈک بھیجے اور یہ حال ہوا کہ آدمی بیٹھتا تھا تو اس
کی مجلس میں مینڈک بھر جاتے، بات کرنے کے لئے منہ کھولتا تو مینڈک کود کر منہ میں چلا
جاتا، ہانڈیوں میں مینڈک ،کھانوں میں مینڈک ، چولہوں میں مینڈک بھر جاتے تو آگ بجھ
جاتی تھی، لیٹتے تھے تو مینڈک اوپر سوار ہوتے تھے، اس مصیبت سے فرعونی رو پڑے اور حضرت
موسیٰ علیہ السلام سے عرض کی: اب کی بار ہم پکی توبہ کرتے ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اُن سے عہد و پیمان لے کر دعا کی تو سات روز کے بعد یہ مصیبت بھی دور ہوئی اور
ایک مہینہ عافیت سے گزرا ،لیکن پھر اُنہوں نے عہد توڑ دیا اور اپنے کفر کی طرف لوٹے
۔پھر حضرت موسیٰ علیہ
السلام نے دعا فرمائی تو
تمام کنوؤں کا پانی، نہروں اور چشموں کا پانی، دریائے نیل کا پانی غرض ہر پانی اُن
کے لئے تازہ خون بن گیا۔ اُنہوں نے فرعون سے اس کی شکایت کی تو کہنے لگاکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جادو سے تمہاری نظر بندی کردی ہے۔ اُنہوں نے کہا: تم کس نظر بندی کی بات کر
رہے ہو؟ ہمارے برتنوں میں خون کے سوا پانی کا نام و نشان ہی نہیں۔ یہ سن کر فرعون نے
حکم دیا کہ قبطی بنی اسرائیل کے ساتھ ایک ہی برتن سے پانی لیں۔ لیکن ہوا یوں کہ جب
بنی اسرائیل نکالتے توپانی نکلتا ،قبطی نکالتے تو اسی برتن سے خون نکلتا، یہاں تک کہ
فرعونی عورتیں پیاس سے عاجز ہو کر بنی اسرائیل کی عورتوں کے پاس آئیں اور اُن سے پانی
مانگا تو وہ پانی اُن کے برتن میں آتے ہی خون ہوگیا۔ یہ دیکھ کر فرعونی عورت کہنے لگی
کہ تو پانی اپنے منہ میں لے کر میرے منہ میں کلی کردے ۔ مگر جب تک وہ پانی اسرائیلی
عورت کے منہ میں رہا پانی تھا، جب فرعونی عورت کے منہ میں پہنچا تو خون ہوگیا ۔فرعون
خود پیاس سے مُضْطَر ہوا تواس نے تر درختوں کی رطوبت چوسی ، وہ رطوبت منہ میں پہنچتے
ہی خون ہوگئی۔ سات روز تک خون کے سوا کوئی چیز پینے کی میسر نہ آئی تو پھر حضرت موسیٰ
علیہ السلام سے دعا کی درخواست کی اور ایمان لانے کا وعدہ کیا۔ حضرت موسیٰ
علیہ السلام نے دعا فرمائی یہ مصیبت بھی دور ہوئی مگر وہ ایمان پھر بھی نہ
لائے۔(تفسیر بغوی، پ
9، الاعراف، تحت الآیۃ:133 ،2 /159 -161۔ تفسیر صراط الجنان ، پ 9 ، الاعراف 133ماخوذا)
جب بار بار فرعونیوں کو عذابوں سے
نجات دی گئی اور وہ کسی عہد پر قائم نہ رہے اور ایمان نہ لائے اور کفر نہ چھوڑا تو
جو میعاداُن کے لئے مقرر فرمائی گئی تھی وہ پوری ہونے کے بعد اُنہیں اللہ پاک نے دریائے
نیل میں غرق کرکے ہلاک کردیا۔
(تفسیر خازن، پ
9 ، الاعراف، تحت الآیۃ: 136، 2/ 132۔ تفسیر صراط الجنان
، پ 9، الاعراف: 135-137)
اللہ پاک ہمیں
عبرت حاصل کرنے، اپنی نافرمانی سے بچنے، اپنی اور اپنے رسول (صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ) کی اطاعت و فرمانبرداری
میں زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم )