استاد کے ادب کے فوائد

Tue, 23 Jun , 2020
3 years ago

استاد دنیا کی وہ روشنی ہے جو بچوں کو اندھیروں سے نکال کر روشنی میں لاتا ہے ۔اور انہیں روشنی پھیلانے کی تلقین کرتا ہے۔ دنیا میں ہر وہ انسان یقیناً کامیاب ہے جس نے استاد کا ادب کیا ہو۔ اگر آپ خود بھی کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو استاد کا ادب کرنا سیکھ لیں۔

ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں

کچھ بچے اس سے لا علم ہوتے ہیں بظاہر تو وہ ادب کرتے ہیں لیکن جب کسی کے پاس ہوتے ہیں تو استاذ کی برائیاں شروع کر دیتے ہیں۔ ایسا نہیں کرنا چاہیے ۔۔ادب بظاہر تو لازمی ہے اور پیٹھ پیچھے بھی۔ استاد کا ادب کرنا بھی ضروری ہےعلم جو بھی ہو جیسا بھی ہو۔استاد کا ادب و احترام ضروری ہے۔ انسان جس سے بھی کچھ سیکھے اس کا احترام فرض ہے۔

اگر سیکھنے والا ، سکھانے والے کا احترام نہیں کرتا تو وہ علم محض ’’رٹا‘‘ ہے۔ حفظ بے معرفت گفتار ہے،اس میں اعمال کا حسن نہیں ، گویا وہ علم جو عمل سے بیگانہ ہووہ ایک بے معنی لفظ ہے ۔( ہاں کچھ علم سمجھے بغیر پڑھے جائیں جب بھی بے معنی لفظ نہیں ہوتے جیسے قرآن کی تلاوت)۔ بہر کیف علم کا عطا کرنے والا قابلِ عزت ہے اور جب تک ادب و احترام کا جذبہ دل کی گہرائیوں سے نہیں اٹھے گا  تب تک نہ علم کا گلزار مہک سکے گا اور نہ ہی علم طالب علم کے قلب و نظر کو نورانی بنا سکے گا ۔ باقی تمام چیزیں انسان خود بناتا ہے مگرانسان کو کون بناتاہے۔میری مراد انسان کی تخلیق نہیں انسان کا بشریت سےآدمیت کی طرف سفر ہے۔انسان کو بنانے والے کا نام ہے، ’’معلم‘‘۔ اسی لیے اس کا کام دنیا کے تمام کاموں سے زیادہ مشکل ، اہم اور قابلِ قدر ہے ۔ استاد اور شاگرد کا رشتہ روحانی رشتہ ہے یہ تعلق دل کے گرد گھومتا ہے۔ اور دل کی دنیا محبت ، ارادت کی کہکشاں سے بکھرتی ہے۔

؎ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں

رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے خود کو معلم کہا۔ آپ کے شاگرد یعنی آپ کےصحابہ آپ کا کتنا احترام کرتےتھے ۔ دنیا کی تاریخ ایسی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے۔ دوستو! احترامِ استاد ایک عظیم جذبہ ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ: ’’جس شخص سے میں نے ایک لفظ بھی پڑھا میں اس کا غلام ہوں۔ چاہے وہ مجھے بیچ دے یا آزاد کردے‘‘

 خلیفہ وقت ’’ہارون الرشید ‘‘نے معلم وقت امام مالک سے درخواست کی کہ وہ انہیں حدیث پڑھا دیا کریں۔ امام مالک نے فرمایا : ’’علم کے پاس لوگ آتے ہیں ۔ علم لوگوں کے پاس نہیں جایا کرتا ۔ تم کچھ سیکھنا چاہتے ہو تو میرے حلقہ درس میں آسکتے ہو‘‘ ۔

 خلیفہ آیا اور حلقہء درس میں دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا ۔ عظیم معلم نے ڈانٹ پلائی اورفرمایا:  خدا کی تعظیم میں یہ بھی داخل ہے کہ بوڑھے مسلمان اور اہل علم کا احترام کیا جائے ۔ یہ سنتے ہیں خلیفہ شاگردانہ انداز میں کھڑا ہوگیا ۔

میر ا باپ میرے جسم کی پرورش کرتا ہے اور استاد میری روح کی‘‘۔ استاد کا مرتبہ ایک عظیم الشان مرتبہ ہے۔آج تک جو بھی جس مقام پر ہے وہ استاد کی وجہ سے ہے

اگر آپ یہ عبارت پڑھنے کے قابل ہیں تو اس میں بھی آپ کے استاد کا ہاتھ ہے۔