اسلامی بہنوں  کےڈیپارٹمنٹ مکتبۃ المدینہ کے زیر اہتمام پچھلے دنوں فیصل آباد ریجن کی لیہ زون مکتبہ المدینہ ذمہ دار اسلامی بہنوں نے لیہ کابینہ کی ذمہ داران کا مدنی مشورہ لیا جس میں زون ذمہ دار اسلامی بہن نے مکتبۃ المدینہ کے بستوں کو بڑھانے کا ذہن دیااور ماہنامہ فیضان مدینہ کی بکنگ کروانے کا بھی ذہن دیا جس پر مکتبۃ المدینہ ذمہ دار اسلامی بہن نے مکتبۃ المدینہ کے کام کو بڑھانے کی اچھی اچھی نیتیں بھی پیش کیں۔

اسلامی بہنوں  کےڈیپارٹمنٹ مکتبۃ المدینہ کے زیر اہتمام پچھلے دنوں مکتبۃ المدینہ جھنگ زون ذمہ دار اسلامی بہن نے جھنگ کابینہ اور ڈویژن کی مکتبہ المدینہ ذمہ داران کا مدنی مشورہ لیا جس میں ذمہ دار اسلامی بہنوں نے شرکت کی۔

زون ذمہ دار اسلامی بہن نے ذمہ داران کو ماہانہ کارکردگی شیڈول سمجھایا، مقررہ تاریخ پر جمع کروانے کی نیت کروائی، وقت پر ماہانہ کارکردگی دینے کا ذہن دیامزید کمزوریاں بھی بتائی گئیں، ماہنامہ فیضان مدینہ کی سالانہ بکنگ خود کروانے اور دیگر ذمہ داران کی بھی انفرادی کوشش سے کروانے کی ترغیب دلائی۔ سنتوں بھرے اجتماعات اور مدرسۃالمدینہ بالغات میں بستوں کی تعداد بڑھانے کا ذہن دیا۔

ایک بہترین معاشرے کی تخلیق کے لئے خواتین کا ہر اعتبار سےتربیت یافتہ ہونابہت ضروری ہوتا ہے۔اگر خواتین کی تربیت دینی واخلاقی لحاظ سے کر دی جائے تو صرف گھر ہی نہیں بلکہ پورامعاشرہ سنور جائے گا۔کیونکہ ہمارا پیارا دین اسلام ہمیں ہر ہر موڑ پر رہنمای فرماتا ہے،نیز ہمیں ہمیشہ بھلای کا حکم بھی فرماتاہے۔مزید بھلای کے کاموں پر اجر عظیم کی بشارت عطا کر رہا ہوتا ہے۔

حسن سلوک سے سجی سنوری خواتین جب کسی گھر کی زینت بنتی ہے تو اپنی تربیت کے ذریعے روٹھوں کو منانے والی اور بچھڑے کو ملانے والی بن کر گھر کو امن کا گہوارہ بنا دیتی ہے۔

عورت اپنے ساس کو ماں، نند کو بہن، سمجھ کر اور ساس بھی ماں بن کر، نند، بہن بن کر صلہ رحمی کا مظاہرہ کر سکتی ہے۔

کئی گھروں میں حسن سلوک کی کمی لوگوں کو علیحدگی پر امادہ کر دیتی ہے۔

تھوڑی تھوڑی باتوں میں عدم برداشت ہمیں دوریاں دے جاتی ہیں۔

خواتین اگر حکمت عملی کے ساتھ آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اس بات کو یاد کرتے ہوئے جس کا مفہوم ہے"جس نے اللہ عزوجل کی رضا کے لئےعاجزی کی اللہ پاک اسے بلندی عطا فرماتا ہے۔" (شعب الایمان)

پہل کریں تو ضرور کامیابی ملے گی۔کبھی پکوان بناکر لے جائیں تو کبھی خود حاضر ہو جائیں۔

گلے شکوے مٹا کر معافی مانگ کر حسن اخلاق کا مظاہر کرکے صلہ رحمی کو عام کرنے والی بن سکتی ہیں۔

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں


اسلام جہاں ہمیں زندگی کے کئی پہلوؤں پر ہماری تربیت کرتا ہے وہاں ہمیں صلہ رحمی کا بھی حکم دیتا ہے۔

صلہ رحمی کیا ہے؟:

صلہ رحمی کے معنی رشتے کو جوڑنا ہے یعنی رشتے والوں کے ساتھ نیکی اور سلوک کرنا۔

یاد رکھیے کہ صلہ رحمی واجب ہے اور رشتہ توڑنا حرام ہے۔(احترام مسلم ،ص ۸)

عورت بھی اپنے مقام کے مطابق صلہ رحمی کا اہم فریضہ ادا کرسکتی ہیں اگر وہ ماں ہے تو بچوں کے ساتھ اگر وہ بیٹی ہے تو ماں باپ کے ساتھ اگر وہ بہن ہے تو اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ وغیرہ۔اگر عورت بھی معاشرے میں صلہ رحمی کا کردار اپنے اپنے طور پر ادا کرے تو معاشرے میں نا اتفاقی ، جھگڑے اور قطع رحمی کا خاتمہ ہوجائے اور معاشرہ محبت اور بھائی چارہ کا نظارہ پیش کرنے لگے۔

فرمانِ مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم :

صدقہ اور صلہ رحمی سے اللہ عزوجل عمر میں برکت دیتا ہے بری موت کو دفع کرتا اور ناپسندیدہ شے کو دور کرتا ہے ۔

(حکایتیں اور نصیحتیں ،ص ۲۳۴)

ہر کوئی چاہتا ہے کہ میری عمر میں برکت ہو بُری موت سے بچوں اسے چاہیے کہ صلہ رحمی کرے۔

خواتین کا کردار صلہ رحمی پر:

ماں اپنے بچوں کے ساتھ حسنِ سلوک کے ساتھ پیش آئے اگر وہ کوئی غلطی کریں تو اس کو سمجھائے اور مار پیٹ سے کام نہ لے اگر بیٹا شادی شدہ ہوجائے اور وہ الگ رہتا ہو تو اس کے گھر جا کر اس سے اس سے ملاقات کرے اس کے بچوں کے لیے تحفہ لے کر جائے، اپنے بیٹے سے کسی بات پر ناراضگی ہو اگر وہ بات شریعت سے نہ ٹکراتی ہو تو اسے معاف کردے یہ سوچ کر کہ میں نے بھی شاید کبھی ماں باپ کو ناراض کیا ہوگا اور انہوں نے معاف کردیا۔

بیٹی:

اگر بیٹی ہے تو ماں باپ کی فرمانبرداری کرے اگر وہ کسی بات پر ڈانٹ دیں حتی کہ ہاتھ بھی اٹھالیں تو ہرگز ہرگز ان سے ناراض نہ ہوں بلکہ یہ سوچیں کہ بچپن میں انہوں نے مجھے کن محنتوں سے پالا اان کے پاس کچھ بھی نہ ہو پھر بھی میری خواہشوں کو پورا کیا، اگر ماں باپ بوڑھے ہوجائیں تو ان کے ساتھ صلہ رحمی یہ ہے کہ ان کی ہر بات خوشی سے مانیں ان کے پاس بیٹھیں ان سے باتیں کریں۔

بہن:

بہن بھی بہت اہم کردار ادا کرسکتی ہے صلہ رحمی کابہن اپنے ہر بہن بھائی کے ساتھ ایک جیسا سلوک کرے اگر بہن بڑی ہے تو ماں کی طرح اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کا خیال رکھے اگر وہ تنگ کریں تو درگزر کرے بہن بھائیوں کو بے جا نہ ڈانٹے نہ مارے اگر بڑی بہن چھوٹے بہن بھائیوں کو کچھ کہہ دے بُرا بھلا کہے تو چھوٹے بہن بھائیوں کو چاہیے کہ معاف کردیں ہر گز ان کی بے ادبی نہ کرے۔

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں


دعوت اسلامی کے زیر اہتمام پچھلے دنوں کراچی نیاآباد کی محفل نعت میں عالمی مجلس مشاورت و کابینہ و دیگر ذمہ داران نے شرکت کی۔سخاوت آقا کریمﷺ کے متعلق  سنتوں بھرا بیان کیا۔ اسلامی بہنوں کو نیکی کی دعوت دیتے ہوئے ٹیلی تھون میں حصّہ لینے و یونٹ جمع کروانے وسنتوں بھرے اجتماع میں شرکت کا ذہن دیا ۔ اسلامی بہنوں نے اچھی اچھی نیتیں کیں۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں اپنے بھائیوں میں سے کسی بھائی کے ساتھ صلہ رحمی کروں یہ چیز بیس درہم صدقہ کرنے سے بھی زیادہ محبوب ہے، قرابت داروں پر خرچ کرنے والا شخص سخی اور صاحب جو وکرم ہے۔

قرآن کی روشنی میں:

اور وہ کہ جوڑتے ہیں اسے جس کے جوڑنے کا اللہ نے حکم دیا اور اپنے رب سے ڈرتے اور حساب کی برائی سے اندیشہ رکھتے ہیں۔ (القرآن ، سورة الرعد، آیت ۲۱۔۱۳)

احادیث کی روشنی میں :

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:صلہ رحمی اہل و عیال اور اہل خاندان میں باہمی محبت ، مال میں فراوانی اور عمر میں درازی کا باعث ہوتی ہے۔(مسند احمد)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جسے یہ بات خوشگوار لگے کہ اس کے رزق میں اضافہ ہو اور اس کی عمر دراز ہو اسے صلہ رحمی کرنی چاہیے۔ (بخاری و مسلم شریف)

ایک اور مقام پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو شخص اللہ پراور روزِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ وہ صلہ رحمی کرے۔(متفق علیہ)

پیارے نبی کر یم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: رشتہ داری رحمن کی ایک شاخ ہے، پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ، اے رشتے داری جو تجھے جوڑے گا میں اس سے جڑوں گا، دراصل اللہ تعالیٰ کا ڈر وہ جس کی وجہ سے ہم رحم کے رشتے کو نبھا سکتے ہیں اور انسانیت کے تقاضوں کو پورا کر سکتے ہیں، اگر میں اپنے خاندان کو جوڑے رکھتی ہوں اور اس کی تربیت پر توجہ دیتی ہوں اگر اپنے خاندان کو رول ماڈل بنانا چاہتی ہوں تو اس لیے کہ میرا اللہ تعالیٰ سے تعلق مضبوط ہوجائے اور اگر ہم اسی سوچ کو بناد بناتے ہیں ، خاندان کی خبر گیری کرتے ہیں تو یقینا وہ سوسائٹی وجود میں آئے گی جسے اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ وجود میں آئے۔

اسلام میں خاندان کا تصور بہت وسیع ہے اور اس میں بنیادی اور کلیدی کردار عورت کا ہے اکثر عورتیں ہی خاندان کے لئے فیصلے اور طریقے متعین کرتی ہیں اور اسی بنا پر اسے قرآن میں گھروں میں رہنے کا حکم فرمایا ہے تاکہ وہ مضبوطی سے اپنے فرائض انجام دے سکے، عورت کے ایمان کا تقاضا ہے کہ وہ کس طرح اپنے گھر اور خاندان کی حفاظت کرتی ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :دنیا کی بہترین متاع نیک بیوی ہے۔(مسلم شریف)

اور نیک بیوی وہ ہے جب تم اسے دیکھو تو وہ تمہیں خوش کردے۔جب کوئی حکم دو تو اطاعت کر ے اور جب تم گھر پر رہو تو وہ تمہارے گھر اور بچو کی حفاظت کرے۔

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں


دعوت اسلامی کے زیر اہتمام پچھلے دنوں کراچی کے علاقے کورنگی ساڑھے پانچ میں محفل نعت  کا سلسلہ ہوا جس میں35 سے زائد اسلامی بہنوں نے شرکت کی۔

زون مشاورت ذمہ دار اسلامی بہن نے سنتوں بھرا بیان کیا۔ بیان میں ٹیلی تھون،نماز کی پابندی، درود شریف کی کثرت کا ذہن دیا ۔شرکاء کی تعداد تقریبا 35 رہی ۔آخر میں انفرادی کوشش کرکے اسلامی بہنوں کو سنتوں بھرے اجتماع میں شرکت کا ذہن دیا۔

معاشرے میں خواتین کا سب سے زیادہ واسطہ لوگوں کو پڑتا ہے، الحمدللہ عزوجل اللہ و رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا انسانیت پر بہت بڑا فضل و احسان ہے کہ اس نے صلہ رحمی کا حکم فرما کر اپنے ماننے والوں کو ایک دوسرے کی عزت و ناموس کا محاظ بنادیا، آئیے، فرمانِ مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسم کی روشنی میں صلہ رحمی کے متعلق سنتے ہیں تاکہ اس کو بڑھانے کا جذبہ بیدار ہو۔

۱۔ ہر حسن سلوک صدقہ ہے غنی کے ساتھ ہویافقیر کے ساتھ۔

(مجمع الزوائد کتاب الزکوة ج ۳، ص ۳۲۳حدیث نمبر4754)

۲۔ جس نے والدین سے حسن سلوک کیا اسے مبارک ہو کہ اللہ اس کی عمر بڑھا دے۔

(مستدرک ،کتاب بالبرو الصلوة ج 5 ص ۲۱۳، حدیث ۷۳۳۹)

۳۔ صلہ رحم واجب ہے اور قطع رحم حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔(بہار شریعت ج۳، ص ۵۵۸حصہ ۱۶)

رشتے داروں کے ساتھ اچھا سلوک اسی کا نام نہیں کہ وہ سلوک کرے تو تم بھی کرو ، یہ چیز تو حقیقت میں مکافات (ادلا بدلہ )کر نا ہے کہ اس نے تمہاری طرف چیز بھیج دی تم نے اس کے پاس بھیج دی، وہ تمہارے یہاں آئی تم اس کے پاس چلی گئی، حقیقۃً صلہ رحمی یہ ہے کہ وہ کاٹے اور تم جوڑو وہ تم سے جدا ہونا چاہتی ہےتم اس کے ساتھ رشتے کے حقوق کی رعایت و لحاظ کرو۔

خواتین صلہ رحمی کو کس طرح بڑھا سکتی ہے اس کی مختلف صورتیں درجِ ذیل ہے۔

۱۔ ان کو صدقہ یا تحفہ دینا

۲۔ انہیں کسی کام میں تمہاری مدد درکار ہو تو اس کام میں ان کی مدد کرنا

۳۔ انہیں سلام کرنا

۴۔ان کی ملاقات کو جانا

(۵) ان کے پاس اٹھنا بیٹھنا

(۶) ان سے بات چیت کرنا

(۷) ان کے ساتھ لطف و مہربانی سے پیش آنا

(۸) محارم رشتے داروں سے ناغہ دے کر ملتے رہیں، (ایک ملنے کو جائیں دوسرے دن نہ جائے کہ اس طرح کرنے سے محبت و الفت زیادہ ہوتی ہے، باقی قرابت داروں سے جمعہ جمعہ ملتی رہیں یا مہینے میں ایک بار۔

ابھی ہم نے صلہ رحمی بڑھانے کے طریقے ملاحظہ کیے۔ اب سنتے ہیں کہ صلہ رحمی سے کیا فائدہ حاصل ہوتا ہے۔؟

صلہ رحمی دنیا و ہ آخرت میں فائدہ مند ہے کنزالعمال میں ہے اللہ عزوجل سے ڈرو اور صلہ رحمی کرو کہ یہ تمہارے لیے دنیا میں زیادہ باقی رہنے والا ہے اور آخرت میں تمہارے لیے بہتر ہے۔(کنزالعمال جلد ۳، ص ۶۳۳)

اللہ عزوجل ہمیں خوب سے خوب صلہ رحمی کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں


ہمارا پیار ا دین اسلام جہاں ہمیں اخوت ( بھائی چارہ) اور برداشت سکھاتا ہے وہی یہ پیار ا دین ہمیں صلہ رحمی کا درس بھی دیتا ہے، آج معاشرے میں نااتفاقی اور محبت و الفت کی کمی کی ایک بہت بڑی وجہ صلہ رحمی کی کمی ہے، جس کے سبب ہمارا معاشرہ بکھر کر جدا جدا ہوگیا ہے اب ہمیں اس اس بکھرے ہوئے معاشرے کو سمیٹ کر ایک بہترین معاشرہ قائم کرنا ہے اور اس میں بہترین کردار ایک عورت ادا کرسکتی ہے کہ ایک عورت ہی ماں، بہن ، بیوی، بہو، بیٹی ساس اور نند کی صورت میں اپنے معاشرے میں بہترین سدھار پیدا کرسکتی ہے، اور اس کا بہترین طریقہ صلح رحمی اور برداشت کو قائم کرنا ہے۔

صلح رحمی کسے کہتے ہیں؟:

صلہ کے لغوی معنی ہے ایک شے کو دوسری شے کے ساتھ ملانا اصطلاحی معنی ، رشتے داریاں قائم رکھنا اور رشتے داروں سے اچھااسلوک کرنا۔ (صلح رحمی اور قطع تعلقی کے احکام ،ص ۲۲۲)

صلہ رحمی اللہ عزوجل کی ایسی اطاعت ہے کہ پچھلی شریعتوں میں بھی اس کے کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور اللہ عزوجل نے قرآن مجید میں اس کی تعریف بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

ترجمہ کنزالایمان: اور وہ کہ جوڑتے ہیں اسے جس کے جوڑنے کا اللہ نے حکم دیا اور اپنے رب سے ڈرتے اور حساب کی برائیوں سے اندیشہ رکھتے ہیں۔(سورة الرعد آیت نمبر:21)

ایک اور مقام پر صلح رحمی کے متعلق اللہ عزوجل نے ارشاد فرمایا: وَاتَّقُوااللّٰهَ الَّذِیْ تَسَآءَلُوْنَ بِهٖ وَالْاَرْحَامَؕ-

ترجمہ کنزالایمان :اور اللہ سے ڈرو جس کے نام پر مانگتے ہو اور رشتوں کا لحاظ رکھو (سورة النسا آیت: ۱)

اس آیت مبارکہ میں رشتوں کا لحاظ رکھنے کا ارشاد فرمایا گیا ہے آج ہمارے معاشرے میں ایک تعداد ایسی ہے جو غیروں کے ساتھ تو اچھا سلوک کرتی ہیں ان سے اچھے انداز ملتی ہیں لیکن اپنے گھر والوں اور رشتے داروں کے لیے ایک مسکراہٹ بھی نہیں ہوتی ان کے پاس بیٹھنے کے لیے چند لمحے نہیں ہوتے، غیروں پر رحم کرنا اگر چہ بہت بڑی نیکی ہے لیکن گھر والوں پر رحم کرنا ضروری ہے اور اس پر زیادہ اجرو ثواب ہے۔

چنانچہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میری امت میں سے قیامت کے دن ایک شخص کولایا جائے گا اور اس کے پاس ایسی کوئی نیکی نہیں ہوگی جس بنا پر جنت کی امید کی جاسکے تو اللہ کریم ارشاد فرمائے گا اس کو جنت میں داخل کردو اس لیے کہ یہ اپنے گھر والوں پر رحم کرتا تھا۔(کنزالعمال، جلد ۱۶، ص ۳۷۹)

رشتے داروں کے ساتھ سلوک اس کا نام نہیں کہ وہ اچھا سلوک کرے تو تم بھی کرو بلکہ یہ تو مکافات یعنی ادلا بدلہ کرنا ہے حقیقتاً صلہ ر حمی پر ہے، کہ وہ کاٹے اور تم جوڑو وہ تم سے جدا ہونا چاہتی ہو اور تم اس کے ساتھ رشتے کے حقوق کی رعایت و لحاظ رکھو۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص یہ چاہتا ہے کہ اس کے رزق میں وسعت اور اس کی عمر دراز ہو تو اسے چاہیے کہ وہ صلح رحمی کرے۔(صحیح بخاری جلد۸، ص ۵)

صلح رحمی کو بڑھانے کی مختلف صورتیں ہیں:

مثلاًایسے رشتے داروں سے وقتا فوقتا ملاقات کو جانا، پریشان اسلامی بہن کی مدد کرنا، ان کی حاجت پوری کرنا، انہیں سلام کرنا، ان کے پاس ا ٹھنا بیٹھنا ہے، ان سے بات چیت کرنا ، ان سے لطف و مہربانی سے پیش آنا، اگر کسی اسلامی بہن کی کوئی بات بُری لگ جائے تو اسے در گزر کرنا، رشتے داروں پر مالی خرچ کرنا یعنی اگر وہ غریب ہیں تو ان کی مدد کرنا کہ غریب کی مدد کرنا بھی صدقہ ہے، ان کی مہمان نوازی کرنا، ان کے دکھ درد میں شریک ہونا، جب انسان رشتوں کو ملاتا ہے تو ان کی عزت و تکریم کرتا ہے تو اس کی رشتے دار بھی عزت کرتے ہیں کہ جب ایسا شخص بیمار ہوتا ہے تو اس کی عیادت کو جاتے ہیں، اور جب مرجاتا ہے تو اس کی نیک ہونے کی گواہی دیتے ہیں۔

جس مؤمن کے اچھے ہونے کی گواہی اس کے مرنے کے بعد لوگ دیں تو نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ایسے مومن کے لیے جنت کی بشارت دی ہے۔(صلح رحمی اور قطع تعلقی کے احکام، ص ۴۱)

اللہ کریم ہمیں صلح رحمی قائم کرنے اور قطع تعلقی سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں


مسلمانوں کو گناہوں سے بچانے ،نیک بنانے ،خوف ِخدا  و عشقِ مصطفےٰﷺ کی لازوال دولت دلانے کے عظیم جذبہ کے ساتھ شیخ طریقت امیر اہل سنت دامت برکاتہم العالیہ کے عطا کردہ 63 نیک اعمال کو اپنی زندگی میں عملی طور پر نافذ کرنے کے لئے اسلامی بہنوں کی مجلس نیک اعمال کے زیر اہتما م پچھلے دنوں عرب شریف کے عطارى کابینہ میں بذریعہ اسکائپ Skype اصلاح اعمال اجتماع کا انعقاد کیا گیا جس میں تقريبا 35 اسلامی بہنوں نے شرکت کی۔

مبلغہ اسلامی بہن نے اسکائپ کے ذریعے سنتوں بھرا بیان کیا اور اجتماع میں شریک اسلامی بہنو ں کو روزانہ اپنے اعمال کا جائزہ لینے کا ذہن دیا جس پر شرکاء نے نیتیں کی۔

ہمارے معاشرے میں امن و سکون کی کمی پائی جاتی ہے ہر کوئی اپنی اپنی میں لگا ہوا ہے گویا ہر طرف نفسی نفسی کا عالم ہے کسی گھر میں لڑائی جھگڑا ہے تو کسی جگہ بدامنی و بے برکتی ہے، اس کی ایک بڑی وجہ صلہ رحمی کا نہ پایا جانا بھی ہے اگراگر ہماری خواتین صلہ رحمی میں اپنا کر دار ادا کرے تو کتنے ہی مسائل حل ہوجائیں گے اور امن چین کی فضا قائم ہوجائے گی۔

صلہ رحمی میں خواتین کا کردار:

ایک عورت کبھی ماں کبھی بیوی ، کبھی بہو، بہن بیٹی ، پھوپھی خالہ وغیرہ کی صورت میں ہوتی ہے اگر ہر عورت اپنے اپنے حقوق ادا کرنے میں اپنا کردار ادا کرے ہمارا معاشرہ ایک پُر امن معاشرہ بن جائے گا۔مثلا اگر بیوی ہے تو اپنے شوہر کے حقوق ادا کرنے کے ساتھ ساتھ اس گھر والوں کے ساتھ بھی حسن سلوک کا مظاہرہ کرے بچو ں کی اچھی پرورش کرے انہیں ادب سکھائے اس طرح پیارو محبت کی فضا قائم ہوگی اورگھر امن کا گہوارا بھی بن جائے گا۔

اسلامی بہنوں کو چاہیے صلہ رحمی کے معاملے میں اپنی صحابیات و صالحات رضی اللہ عنھن کی سیرت کا بھی مطالعہ کیجئے تاکہ معلوم ہو ہماری نیک بیبیوں کے کیا انداز ہوا کرتے تھے چنانچہ ام المومنین حضرت سیدنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: میں نے حضرت زینب رضی اللہ عنہا سے زیادہ دیندار زیادہ پرہیزگار ، زیادہ سچی ، زیادہ صلہ رحمی اور زیادہ صدقہ کرنے والی کوئی عورت نہیں دیکھی۔(مسلم ص ۳۱۵، حدیث ۲۴۴۲)

فضیلت:

اسی طرح صلح رحمی کے فضائل پر غور کرے کہ فرمانِ مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم :قیامت کے دن اللہ عزوجل کے عرش کے سائے میں تین قسم کے لوگ ہوں گے، ( ان میں سے ایک ہے) صلہ رحمی کرنے والا۔

(الفردوس با ثور۔۔ الخطاب، ج۲، ص ۹۹، حدیث ۲۵۶۲)

قیامت کے دن جب سورج سوا میل پر آگ برسا رہا ہوگا لوگ اپنے پسینے میں سینے تک یا کان تک ڈوبے ہوں گے ان جان کنی کے حالات میں صلہ رحمی کرنے والے کو عرش کا سایہ ملے گا۔

صلہ رحمی نہ کرنے سے کیا نقصان ہوگا ؟:

وعیدات:

حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا : ر شتہ کاٹنے والا جنت میں نہیں جائے گا۔

( بخاری ج ۴، ص ۹۸، حدیث ۵۹۸۴)

غور کیجئے اس سے زیادہ نقصان کس کو ہوگا جس کے بارے میں آقا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرمادیں وہ جنت میں نہیں جائے گا،اللہ کریم سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنی مسلمان اسلامی بہنوں کے ساتھ خیر خواہی حسنِ سلوک اور صلہ رحمی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں


معاشرے میں محبت و الفت کی کمی، نااتفاقی اور قطع رحمی کی ایک بڑی وجہ حسد جیسی باطنی بیماری ہے، اور بدقسمتی سے اس مرض سے خواتین دو چار ہیں، اگر خواتین حسد و جلن کی بیماری کو اپنے اندر سے ختم کردیں تو معاشرے میں صلہ رحمی بڑھ سکتی ہے، اس بیماری کے خاتمہ سے عورت کسی بھی شعبے میں ہو کسی بھی رشتے میں ہو وہ خود بھی سکون سے رہ سکتی ہے، اور دوسروں کے لیے بھی راحت کا باعث بن سکتی ہے، حسد کی مذمت احادیث مبارکہ میں بھی ملتی ہے، فرمانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم آپس میں حسد نہ کرو ، آپس میں بغض و عداوت نہ رکھو، پیٹھ پیچھے ایک دوسرے کی برائی بیان نہ کرو اور اے اللہ کے بندو!بھائی بھائی ہو کر رہو۔ (صحیح بخاری کتاب الادب ج ۴، ص ۶۰۶۶ ص ۱۷۷)

مفسر شہیر حکیم الامت حضرت مفتی احمد یار خان اس حدیث پاک کے تحت فرماتے ہیں ، یعنی بدگمانی ، حسد، بغض وغیرہ وہ چیزیں ہیں جن سے محبت ٹوٹتی ہے، اور اسلام بھائی چارہ اور محبت چاہتا ہے۔لہذا یہ عیوب چھوڑ دو تاکہ بھائی بھائی بن جاؤ۔ (مراة المناجیع ۶، صحیح ۶۰۸)

تکبر ریا کاری ، جھوٹ غیبت

سے بھی اور حسد سے بچایا الہی

اگر اس معاشرے میں صلہ رحمی کو بڑھانا ہے تو حسد کا علاج ضروری ہے، عورت ایک ماں ہوتی ہے ماں اپنی اولاد کی تربیت کرتی ہے، وہی ماں اپنی ساس اور نند کی برائی کرے گی تو اپنی اولاد کے دلوں میں دادی اور پھپھو کی محبت کو کم کرے گی اور آگے جا کر یہ محبت کی کمی ان میں قطع تعلقی کا باعث بنے گی اسی طرح عورت آپس میں حسد، و بغض کی وجہ سے ایک دوسرے کی دشمن ہوجاتی ہے اور پھر ان کی نفرت پروان چڑھ کر دو بھائیوں کے درمیان جدائی کا سبب بن جاتی ہے، اسی طرح ساس بہو کی لڑائیاں ایک عورت کو اس کے گھر سے بے گھر کردیتی ہے اور یوں معاشرے میں فساد برپا ہوجاتا ہے، اگر یہی عورت حسد کو ختم کرکے اپنے رب پر بھروسہ کرے تو صلہ رحمی فروغ پاسکتی ہے، اگر عورت ماں ہونے کی حیثیت سے رشتوں کا احترام اپنی اولاد کی تربیت کا حصہ بنائے تو وہی اولاد رشتوں کو مضبوط کرے گی ، صلہ رحمی فروغ پائے گی، اگر ددو عورتیں دل سے کدورت و بغض کو نکال دے اور اللہ کے دیئے پر راضی ر ہے تو دو خاندانوں میں جدائی نہ ہو اسی طرح اگر ساس بہو کی غلطیوں کو در گزر کرے تو طلاق جیسے معاشرے کے بڑے فساد سےبچاسکتا ہے۔(المعجم الکبیر ،حدیث ۲۳۳۷،ص ۲۲۸)

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں