اللہ عزوجل کی راہ میں شہید ہوجانا یہ جنت  میں لے جانے والے اعمال میں سے ایک بہت اعلیٰ اور اطمینان بخش عمل صالح ہے، قرآ ن مجید میں اللہ تعالیٰ نے شہید وں کے لیے جنت الفردوس میں ہمیشہ کی زندگی کی خوش خبری دی ہے، شہادت کے فضائل میں کئی حدیثیں لکھی ہوئی ہیں، جن میں ایک حدیث اور اس کی کچھ تشریح ، کو بغور پڑھ ئے اور اپنے اندر جوش جہاد اور شہاد ت کا جذبہ پیدا کریں۔

حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ کہ اللہ تعالیٰ ان دو آدمیوں سے بہت خوش ہوجاتا ہے کہ ان میں سے ایک دوسرے کو قتل کردیتاہے، پھر وونوں جنت میں داخل ہوجاتے ہیں ایک اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہوئے قتل ہوجاتا ہے، پھر اللہ تعالی قاتل کی توبہ قبول فرمالیتا ہے اور پھر وہ بھی شہید ہوجاتا ہے ۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر کسی کافر نے کسی مسلمان کو شہید کردیا تو شہید سے اللہ تعالیٰ خوش ہو کر اس کو جنت عطا فرمادے گا، پھر وہ کافر مسلمان ہوجائے گا اور وہ بھی کفار سے جہاد کرتے ہوئے شہید ہوجائے تو اس سے بھی اللہ تعالیٰ خوش ہو کراس کو جنت میں بھیج دے گا۔

اس طرح قاتل و مقتول دونوں جنت میں گئے اور دونوں سے خدا عزوجل خوش ہوگیا۔

یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا

ہر مدعی کے واسطے درو سن کہاں


شہید کامل زندگی والے ہیں، شہید اللہ تبارک و تعالیٰ کے پاس ہیں، شہیدوں کو روزی ملتی ہے وہ دنیا اور دنیا دار وں کے انجام سے باخبر ہیں، شہدا کی تمام قوتیں اعلیٰ اور کامل ہیں، شہدا کی روحیں سبز پر ندوں کی شکل میں جنت میں سیر کرتیں ہیں، اور جو چاہیں کھاتی ہیں۔

(تفسیر نور العرفان ، صفحہ ۱۱۴۔ پارہ ۴)

شہید کے لغوی معنی : (۱) اللہ کی راہ میں مارا جانے والا ۔(۲) حاضر وباخبر جس کے علم سے کوئی چیز پوشیدہ نہ ہو، اور گواہ ۔ (القاموس الوحید عربی اردو، صفحہ ۸۹۴)

اصطلاح فقہ میں شہید اس مسلمان عاقل بالغ طاہر کو کہتے ہیں جو بطور ِ ظلم کسی آلہ جارحہ سے قتل کیا گیا اور نفس قتل سے مال نہ واجب ہوا ہو اور دنیا سے نفع نہ اٹھایاہو۔

(بہار شریعت ، حصہ چہارم ۴، شہید کا بیان ، صفحہ ۸۶۰۔ مکتبہ المدینہ مجلس مدینہ العلمیہ)

شہادت کے فضائل:

شہید کے بہت بڑے درجات ہیں شہید کو نبی سے قرب حاصل ہے ۔

۱۔ کہ انبیا کر ام علیہم الصلوة والسلام کی نیند وضو نہیں توڑتی اور شہید کی موت غسل نہیں توڑتی۔

2۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بعد وفات رزق ایسے ملتا ہے اور شہید کو بھی۔

3۔ نبی بعد وفات زندہ شہید بھی زندہ۔

4۔ شہید کا گوشت اور خون زمین نہیں کھاسکتی، نبی کا بھی نہیں کھاسکتی زمین کے لیے حرام ہے۔(تفسیر نعیمی جلد دوم ، آیت : ۱۵۴ ، سورة البقرہ ، صفحہ ۸۸)

ترجمہ : روایت ہے حضرت مقدم بن معدیکر ب سے فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے کہ شہید کی اللہ کے ہاں چھ خصلتیں (درجے) ہیں۔۱۔ پہلی ہی دفعہ میں اسے بخش دیا جاتا ہے۔

۲۔اور اسے جنت کا ٹھکانہ دکھادیا جاتا ہے۔

۳۔ اور اسے قبر کے عذاب سے امان دی جا تی ہے۔

۴۔ اور وہ بڑی گھبراہٹ سے امن میں رہے گا۔

۵۔ اور اس کے سر پر عزت کا تاج رکھا جائے گا، جس کا ایک یاقوت دنیا اور دنیا کی چیزوں سے بہتر ہوگا۔

۶۔اوربہتر(۷۲) حوروں سے اس کا نکاح کرایا جائے گا۔ (۷) اور اس کے ستر (۷۰) اہل قرابت میں اس کی شفاعت قبول کی جائے گی۔

بعض غازی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے شہید ہونے سے پہلے حضور علیہ الصلوة والسلام کی خدمت اقدس میں عرض کیا کہ جنت وہ ہے یارسول اللہ میں دیکھ رہا ہوں پھر شہید ہوئے ( مر اة المناجیح، جلد ۵، صفحہ ۵۰۶، حدیث ۳۳۳۴ نعیمی کتب خانہ )


شہداء کے فضائل کے بارے میں اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے :

وَ لَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتٌؕ-بَلْ اَحْیَآءٌ وَّ لٰكِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ ترجَمۂ کنزُالایمان: اور جو خدا کی راہ میں مارے جائیں انہیں مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں ہاں تمہیں خبر نہیں ۔ (البقرہ : 154)

اس آیت میں شہدا کو مردہ کہنے سے منع کیا گیا ہے نہ زبان سے انہیں مردہ کہنے کی اجازت ہے اور نہ دل میں انہیں مر دہ سمجھنے کی اجازت ہے۔

احادیث میں اس کے فضائل بکثرت وارد ہیں، حدیث شریف میں ہے کہ شہدا کی روحیں سبز پرندوں کے بدن میں جنت کی سیر کرتی اور وہاں کے میوے اور نعمتیں کھاتی ہیں۔

۳۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اہل جنت میں سے ایک شخض کولایا جائے گا تو اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا، اے ابن آدم تو نے اپنی منزل و مقام کو کیسا پایا ؟ وہ عرض کرے گا، اے میرے ر ب بہت اچھی منزل ہے، اللہ تعالیٰ فرمائے گا، تو مانگ اور کوئی تمنا کر، وہ عرض کرے گا، میں تجھ سے اتنا سوال کرتا ہوں کہ تو مجھے دنیا کی طرف لوٹا دے اور میں دس مرتبہ تیری راہ میں شہید کیا جاوں( وہ یہ سوال اس لیے کرے گا) کہ اس نے شہادت کی فضیلت ملاحظہ کر لی ہوگی۔(ّماخوذ، تفسیر صراط الجنان ، جلد۱، ص ۲۴۸)

اللہ پاک ہمیں اپنی راہ میں شہادت عطا فرمائے، اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


دینِ مَتِین کے عطا کردہ وہ پاکیزہ اور مقدس اعمال کہ  جن کے سبب بارگاہِ الٰہی عزوجل سے عظیم بشارتوں ، اُخروی و دنیوی رفعتوں اور اجرِ کثیرہ سے نوازہ جاتا ہے ان میں شہادت کا بھی شمار ہے۔

شہید کسے کہتے ہیں؟ :

اصطلاحِ فقہ میں شہید اس مسلمان عاقل ، بالغ اور طاہر کو کہتے جو بطور ظلم کسی آلۂ جارِحَہ (زخم لگانے والے ) سے قتل کیا گیا ہو اور اس کے قتل سے مال بھی واجب نہ ہوا ہو یا معرکۂ جنگ میں مردہ یا زخمی پایا گیا اور دنیا سے نفع نہ اٹھایا ہو ۔

(بہارِ شریعت جلد 1 ، حصّہ 4 ، شہید کا بیان ، ص 860)

حکیمُ الْاُمت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ تفسیر نعیمی میں لکھتے ہیں :شہید کو بارگاہِ الٰہی عزوجل سے بہت بلند درجات عطا کئے جاتے ہیں ۔شہید کو انبیاء کرام علیہم السلام سے بہت قُرب حاصل ہوتا ہے ۔شہید بعدِ وفات زندۂ و جاوید ہیں، شہید کو بعدِ وفات رزق دیا جاتا ہے ۔شہید سوالات قبر سے محفوظ رہتا ہے ، شہید کا جسم زمین نہیں کھا سکتی، شہید دنیا سے گناہوں سے ایسا پاک ہو کر جاتا ہے جیسے آج ہی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا، شہید موت سے پہلے جنت دیکھ لیتا ہے ، شہید 70 آدمیوں کی شفاعت کرے گا ، شہید کا عمل و رزق قیامت تک جاری رہے گا۔شہید قیامت کے دن گھبراہٹ سے محفوظ رہے گا ۔(تفسیر نعیمی ، پ ج2 ، ص 83)قرآن کریم میں ارشادِباری تعالیٰ ہے:فَرِحِیْنَ بِمَاۤ  اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖۙ- وَ یَسْتَبْشِرُوْنَ بِالَّذِیْنَ  لَمْ  یَلْحَقُوْا  بِهِمْ  مِّنْ  خَلْفِهِمْۙ- اَلَّا  خَوْفٌ  عَلَیْهِمْ  وَ  لَا  هُمْ  یَحْزَنُوْنَۘ(۱۷۰)

ترجَمۂ کنزُالایمان:شاد ہیں اس پر جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے دیا اور خوشیاں منارہے ہیں اپنے پچھلوں کی جو ابھی ان سے نہ ملے کہ ان پر نہ کچھ اندیشہ ہے اور نہ کچھ غم ۔ ( آل عمران : 170)

یہاں شہدا ئے کرام کے لئے فرمایا گیا ہے کہ وہ اللہ کے فضل و کرم ، انعام و احسان ، اعزاز و اکرام اور موت کے بعد اعلی قسم کی زندگی دیے جانے پر خوش ہیں نیز اس پر خوش ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنا مقرب بنایا ، جنت کا رزق اور اس کی نعمتیں عطا فرمائیں اور جنت کی منزلیں حاصل کرنے کے لئے شہادت کی توفیق عطا فرمائی ۔

نیز وہ اس بات پر بھی خوشی منا رہے ہیں کہ ان کے بعد دنیا میں رہ جانے والے ان کے مسلمان بھائی دنیا میں ایمان اور تقویٰ پر قائم ہیں اور جب وہ بھی شہید ہو کر ان کے ساتھ ملیں گے تو وہ بھی ان کرم نوازیوں کو پائیں گے اور قیامت کے دن امن اور چین کے ساتھ اُٹھائے جائیں گے۔(صراط الجنان جلد 2 ، پ 4، آل عمران ، ص 101)

حضرت انس بن مالک رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے :تاجدارِ مدینہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا ، اہل جنت میں سے ایک شخص کو لایا جائے گا تو اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا : اے ابن آدم ! تو نے اپنی منزل و مقام کو کیسے پایا ۔وہ عرض کرے گا : اے میرے رب عزوجل بہت اچھی منزل ہے اللہ تعالیٰ فرمائے گا : تو مانگ اور کوئی تمنا کر ۔وہ عرض کرے گا اے اللہ تعالیٰ میں تجھ سے صرف ایک سوال کرتا ہوں کہ تو مجھے دنیا کی طرف لوٹا دے اور میں دس مرتبہ تیری راہ میں شہید کیا جاؤں ۔وہ یہ سوال اس لئے کرے گا کیونکہ اس نے شہادت کی فضلیت ملاحظہ کر لی ہوگی ۔(الترغیب و الترہیب ، جلد 2 ، حدیث : 2108 )

شہادت کی اُخروی سعادت اور بلندی کا اندازہ پیارے آقا مدینے والے مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اس فرمان سے لگایا جا سکتا ہے کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے خود اس کی تمنا فرمائی چنانچہ :حضرت ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے ، جانِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اس ذات کی قسم ! جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے میری یہ تمنا ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کروں ، پھر شہید کیا جاؤں ، پھر جہاد کروں ، پھر شہید کیا جاؤں ، پھر جہاد کروں پھر شہید کیا جاؤں۔(کنزالعُمّال، حصہ 4 ، حدیث :10636 ، ص 549)

اللہ عزوجل ہمیں شہادت کے فضائل کو سمجھنے اور اس عظیم سعادت کو حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


جنہوں نے جنم لیا اور بالآخر موت نے انہیں اپنی آغوش میں لے کیا ان کا نام و نشان تک مٹا دیا گیا لیکن جنہوں نے دینِ اسلام کی بقا و سر بلندی کے لیے اپنی جان ،مال ، او ر اولاد کی فربانیاں دیں اور جن کے دلی جذبات اسلام کے نام پر مر مٹنے کے لیے ہمہ وقت پختہ تھے، تاریخ کے اوراق پر انکے تذکرے سنہری حروف سے کندہ ہیں ۔ ان اکابرین کے کارناموں کا جب جب ذکر کیا جاتا ہے ، دلوں پر رقت کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے اور ان کی شہادت کے واقعات آج بھی ہمارے لیے مشعلِ راہ ہیں، بالخصوص جب کبھی شہادتِ امام عالی مقام امام حسین اور آپ کے رفقاء نے جس شان کے ساتھ اسلام کی خاطر اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے تاریخ اس کی مثال بیان کرنے سے قاصر ہے ان حضرات نے شہادت کا جام پینا تو گوارہ کیا مگر شوکتِ اسلام پر حرف نہ آنے دیا۔

شہید کی تعریف:

اصطلاحِ فقہ میں شہید اس مسلمان عاقل ، بالغ اور طاہر کو کہتے جو بطور ظلم کسی آلۂ جارِحَہ (زخم لگانے والے آلے ) سے قتل کیا گیا ہو اور اس کے قتل سے مال بھی واجب نہ ہوا ہو یا معرکۂ جنگ میں مردہ یا زخمی پایا گیا اور دنیا سے نفع نہ اٹھایا ہو ۔

(بہارِ شریعت ،جلد 1 ، حصّہ 4 ، شہید کا بیان ، ص 860)

شہادت کے فضائل:

شہادت کے بے شمار فضائل قرآن و حدیث میں آئے ہیں اور اس کا بہت زیادہ ثواب ہے ،شہید کی ارواح کو سبز پرندوں کے قالب عطا کئے جاتے ہیں، وہ جنتی نہروں پر سیر کرتے پھرتےہیں ،جنتی میوے کھاتے ہیں، طلائی قنادیل جو زیر عرش معلّق ہیں ان میں رہتے ہیں ، شہید زندہ ہوتے ہیں، اور زندوں کی طرح کھاتے پیتے عیش کرتے ہیں ۔چنانچہ اللہ تعالی ارشاد فرما تا ہے:

(1) شہید زندہ ہوتے ہیں اور انہیں رزق دیا جاتا ہے:

وَ لَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتٌؕ-بَلْ اَحْیَآءٌ وَّ لٰكِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ ترجمہ کنز الایمان: اور جو خدا کی راہ میں مارے جائیں انہیں مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں ہاں تمہیں خبر نہیں ۔ (البقرہ : 154)

وَ  لَا  تَحْسَبَنَّ  الَّذِیْنَ  قُتِلُوْا  فِیْ  سَبِیْلِ  اللّٰهِ  اَمْوَاتًاؕ-بَلْ  اَحْیَآءٌ   عِنْدَ  رَبِّهِمْ  یُرْزَقُوْنَۙ ترجَمۂ کنزُالایمان: اور جو اللہ کی راہ میں مارے گئے ہرگز انہیں مردہ نہ خیال کرنا بلکہ وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں روزی پاتے ہیں۔ (البقرۃ : 169)

(3)شہید کی آرزو:

شہادت کی اُخروی سعادت اور بلندی کا اندازہ پیارے آقا مدینے والے مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اس فرمان سے لگایا جا سکتا ہےجس میں حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے خود اس کی تمنا فرمائی چنانچہ حضرت عبد الرحمٰن بن ابن ابی عمیرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایاکوئی مسلمان جان جسے اللہ تعالیٰ قبض فرمائے ایسی نہیں جو تمہاری طرف لوٹنا چاہے اگر چہ اس کے لئے دنیا اور دنیا کی ساری چیزیں ہو جائیں سوائے شہید کے۔

ابن ابی عمیرہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرما یا مجھے اللہ کی راہ میں مارا جانا(شہید کیا جانا) اس سے زیادہ پیارا ہے کہ میری مِلک اون والے( دیہاتی) اور ڈھیلے والے (شہری) ہوں۔ (یعنی مقصد یہ ہے کہ تمام جہاں کی بادشاہت سے اللہ کی راہ میں شہید ہونا مجھے زیادہ پیارا ہے) (مراۃ المناجیح، الحدیث :3657، ج 5 ص 473 مطبوعہ قادری پبلشرز 2009ء)

(4) شہید کے لیےشہادت کا ثواب:

شہید کو کتنا ثواب ملتا ہے اس بارے میں حدیث مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں ہے جو کہ حضرت سیدنا مقدام بن مَعدِی رضی اللہُ عنہ سے روا یت ہے کہ رسو ل اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:" بیشک اللہ عزوجل شہید کو چھ انعام عطا فرماتاہے:(1) اس کے خون کا پہلا قطرہ گرتے ہی اس کی مغفرت فرما دیتا ہے اور جنّت میں اسے اس کا ٹھکانا دکھا دیتا ہے۔

1۔ اسے عذاب ِ قبر سے محفوظ فرماتا ہے۔

2۔ قیامت کے دن اسے بڑی گھبراہت سے امن عطا فرمائے گا۔

3۔ اس کے سر پر وقار کا تاج رکھے گا جس کا یاقوت دنیا اور اس کی ہر چیز سے بہتر ہوگا۔

4۔ اس کا حوروں میں سے 72 حوروں کے ساتھ نکاح کرائے گا۔

5۔ اس کی 70 رشتہ داروں کے حق میں شفاعت قبول فرمائے گا۔

(مراۃ المناجیح، الحدیث:3657، ج 5، ص 458 مطبوعہ قادری پبلشرز 2009ء)

(5) تما م گناہوں کا کفّارہ:

حضرت عبد اللہ بن عمر و بن عاص رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ:" اللہ تعالیٰ کی راہ میں قتل(شہید) کیا جانا قرض کے علاوہ ہر گناہ کو مٹا دیتا ہے۔

(صحیح مسلم کتاب الامارۃ، باب من قتل فی سبیل اللہ۔۔۔ الخ ، الحدیث 1886، ص1047، فضانِ چہل احادیث ص 84 مطبوعہ : مکتبۃ المدینہ دعوتِ اسلامی)

بیشک راہِ خدا میں شہید ہونا قرض کے سوا ہر گنا ہ کا کفارہ بن جاتا ہے امام جلال الدین سیوطی نے اشعۃ اللمعات ج3 ص357 پر بیان کیا کہ سمندر کے شہید اس سے مستثنیٰ ہیں کیوں کہ ان کی شہادت قرض کا بھی کفارہ بن جاتی ہے۔

(6) شہادت طلب کرنے کا ثواب:

حضرت سہل بن حنیف رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:" جوشخص اللہ سے سچے دل سے شہادت طلب کرے تو اللہ تعالی اسے شہید کا مرتبہ عطا فرما دیتا ہے اگر چہ اپنے بستر پر مرے۔

( سنن ابن ماجہ کتاب الجہاد ،باب قتل القتال فی سبیل اللہ، الحدیث 2797،ج3ص359)


اصطلاح فقہ میں  شہید اس مسلمان عاقل بالغ طاہر کو کہتے ہیں جو بطور ظلم کسی آلۂ جارحہ سے قتل کیا گیا اور نفس قتل سے مال نہ واجب ہوا ہو اوردنیا سے نفع نہ اٹھایا ہو۔ شہادت صرف اسی کا نام نہیں  کہ جہاد میں  قتل کیا جائے بلکہ ایک حدیث میں  فرمایا: اس کے سوا سات شہادتیں  اور ہیں ۔  (۱)  جو طاعون سے مرا شہید ہے۔ (۲) جو ڈوب کر مرا شہید ہے۔ (۳) ذات الجنب میں مرا شہید ہے۔ (۴) جو پیٹ کی بیماری میں مرا شہید ہے۔ (۵) جو جل کر مرا شہید ہے۔ (۶) جس کے اوپر دیوار وغیرہ ڈہ پڑے اور مر جائے شہید ہے۔ (۷) عورت کہ بچہ پیدا ہونے یا کوآرے پن میں مر جائے شہید ہے۔‘‘ (بہار شریعت)

ان کے سوا اور بہت صورتیں ہیں جن میں شہادت کا ثواب ملتا ہے، امام جلال الدین سیوطی وغیرہ ائمہ نے ان کو ذکر کیا ہے، بعض یہ ہیں ۔ (۹) سِل کی بیماری میں مرا (۱۰) سواری سے گِر کر یا مر گی سے مرا (۱۱) بخار میں مرا (۱۲) مال یا (۱۳) جان یا (۱۴) اہل یا (۱۵) کسی حق کے بچانے میں قتل کیا گیا (۱۶) عشق میں مرا بشرطیکہ پاکدامن ہو اور چھپایا ہو۔ (۱۷) کسی درندہ نے پھاڑ کھایا۔ (۱۸) بادشاہ نے ظلماً قید کیا یا (۱۹) مارا اور مر گیا (۲۰) کسی موذی جانور کے کاٹنے سے مرا (۲۱) علم دین کی طلب میں مرا (۲۲) مؤذن کہ طلب ثواب کے لیے اذان کہتا ہو (۲۳) تاجر راست گو (۲۴) جسے سمندر کے سفر میں متلی اور قے آئی (۲۵) جو اپنے بال بچوں کے لیے سعی کرے، ان میں امر الہی قائم کرے اور انہیں حلال کھلائے (۲۶) جو ہر روز پچیس بار یہ پڑھے اَللّٰھُمَّ بِارِکْ لِیْ فِی الْمَوْتِ وَفِیْمَا بَعْدَ الْمَوْتِ ۔ (۲۷) جو چاشت کی نماز پڑھے اور ہر مہینے میں تین روزے رکھے اور وتر کو سفر و حضر میں کہیں ترک نہ کرے۔ (۲۸) فسادِ اُمّت کے وقت سنت پر عمل کرنے والا، اس کے لیے سو شہید کا ثواب ہے۔ (بہار شریعت)

قران مجید میں اللہ پاک فرماتا ہے : اور جو اللہ کی راہ میں  مارے گئے اللہ ہرگز ان کے عمل ضائع نہ فرمائے گا۔ جلد اُنہیں  راہ دے گا اور اُن کا کام بنادے گا اور اُنہیں  جنت میں  لے جائے گا انہیں  اس کی پہچان کرادی ہے ۔ (سورہ محمد، آیت: 4 سے 6)

ایک اور جگہ پر فرمایا :جو اﷲ (عزوجل) کی راہ میں قتل کیے گئے، انہیں مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں مگر تمہیں خبر نہیں ۔

اس کے علاوہ احادیث میں  بھی شہید کے بہت فضائل بیان کئے گئے ہیں،یہاں  ان میں  سے دو احادیث ملاحظہ ہوں ۔

(1) حضرت مِقْدام بن مَعدیکَرِب رضی اللہُ عنہ  سے روایت ہے: رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّمنے ارشاد فرمایا: : اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  شہید کی چھ خصلتیں  ( یعنی درجے) ہیں،(1) پہلی ہی دفعہ میں  اسے بخش دیا جاتا ہے۔(2) اسے جنت کا ٹھکانا دکھادیا جاتا ہے(3) اسے قبر کے عذاب سے امان دی جاتی ہے اور وہ بڑی گھبراہٹ سے امن میں  رہے گا۔(4) اس کے سر پر عزت کا تاج رکھا جائے گا جس کا ایک یا قوت دنیا اور دنیا کی چیزوں  سے بہتر ہوگا۔ (5) 72حورِعِین سے اس کا نکاح کیا جائے گا ۔(6) او راس کے 70 قریبی رشتہ داروں  کے بارے میں  اس کی شفاعت قبول کی جائے گی۔

(2) حضرت قیس رضی اللہُ عنہ  سے روایت ہےرسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے ارشاد فرمایا: شہید کو چھ خصلتیں  عطا کی جاتی ہیں  (1)اس کے خون کا پہلا قطرہ گرتے ہی ا س کے گناہ مٹا دئیے جاتے ہیں ۔ (2)اسے جنت کا ٹھکانا دکھادیا جاتا ہے۔ (3)حورِ عِین سے اس کا نکاح کیا جائے گا۔(4،5) بڑی گھبراہٹ اور قبر کے عذاب سے امن میں  رہے گا۔ (6)اسے ایمان کا حُلّہ پہنایا جائے گا۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں دین کی سمجھ اور دین کے لیے مر مٹنے کا جذبہ عطا فرمائے ۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


شہادت ایک عظیم مرتبہ اور بہت بڑا مقام ہے۔قرآن و حدیث میں شہادت کے بہت سارے فضائل وارد ہوئے ہیں جن میں سے کچھ درج ذیل ہیں۔

آیت مبارکہ :

وَ لَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتٌؕ-بَلْ اَحْیَآءٌ وَّ لٰكِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ(۱۵۴) ترجمہ : اور جواللہ کی راہ میں مارے جائیں انہیں مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تمہیں اس کا شعور نہیں ۔(سوره بقره ، ۱۵۴)

اس آیت میں شہداء کو مردہ کہنے سے منع کیا گیا نہ زبان سے مردہ کہنے کی اجازت ہے نہ دل میں۔

شہادت کے متعلق احادیث مبارکہ :

شہادت سے محبت:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے ہے میں یہ پسند کرتا ہوں کہ میں اللہ کی راہ میں شہید کیا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں پھر شہید کیا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں پھر شہید کیا جاؤں۔

(صحیح بخاری ،جلد 1، ص 392 مطبوعہ نور محمد اصح المطابع کراچی 1381ھ)

سب سے پہلے جنت میں داخلہ:

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا مجھ پر تین قسم کے لوگ پیش کئے گئے جو سب سے پہلے جنت میں جائیں گے شہید، پاک دامن اور وہ غلام جس نے اچھی طرح اللہ تعالی کی عبادت کی اور اپنے مالکوں کی خیرخواہی بھی کی۔

(جامع ترمذی ج 4،ص 176،الحدیث 1642،مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت)

جنتی نعمتیں:حدیث شریف میں ہے کہ شہداء کی روحیں سبز پرندوں کے بدن میں جنت کی سیر کرتی اور وہاں کے میوے اور نعمتیں کھاتی ہیں۔(شعب الایمان 115/7 الحدیث : 9686)

حکمی شہدا:حضرت جابر بن عتیک رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام سے پوچھا تم لوگ کس چیز کو شہادت شمار کرتے ہو ؟ صحابہ نے عرض کیا اللہ کی راہ قتل ہونے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قتل فی سبیل اللہ کے علاوہ شہادت کی سات قسمیں ہیں طاعون میں مرنے والا شہید ہے، نمونیے میں مرنے والا شہید ہے ،پیٹ کی بیماری میں مرنے والا شہید ہے،جل کر مرنے والا شہید ہے،کسی چیز کے نیچے دب کر مرنے والا شہید ہے،اور حاملہ درد زہ میں مبتلا ہو کر مر جائے تو شہید ہے۔(سنن داؤد، ج 2،ص 87)


اصطلاح فقہ میں شہید اس مسلمان عاقل بالغ طاہر کو کہتے ہیں   جو بطورِ ظلم کسی آلہٕ جارحہ سے قتل کیا گیا اور نفسِ قتل سے مال نہ واجب ہو ا ہو اور دنیا سے نفع نہ اٹھا یا ہو ۔

( الدر المختار ،ج ٣ ، ص ١٨٧ - ١٨٩ )

شہادت کے بے شمار فضائل ہیں جن میں سے چند ایک مندرجہ ذیل ہیں :

شہید زندہ ہوتا ہے :

اللہ فرماتا ہے : وَ لَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتٌؕ-بَلْ اَحْیَآءٌ وَّ لٰكِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ(۱۵۴) ترجمہ کنزالعرفان : اور جواللہ کی راہ میں مارے جائیں انہیں مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تمہیں اس کا شعور نہیں ۔ ( پارہ ٢ ، سورہ بقرہ : ١٥٤ )

گناہ معاف :

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ ” دَین کے علاوہ شہید کے تمام گناہ بخش دیے جائیں گے ۔

( صحیح مسلم ، الحدیث : ١٨٨٦ ، ص ١٠٤٦ )

شفاعت کا حق :

حضور نبی کریم رؤف الرحیم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ شہید اپنے اہل ِ خانہ میں سے ستر لوگوں کی شفاعت کرے گا۔ ( سنن ابو داؤد ، الحدیث : ٢٥٢٢ ، ج ٣ ، ص ٢٣ )

خون پاک : شہید فقہی ( یعنی وہ جسے غسل نہیں دیا جاتا ) کا خون جب تک اس کے بدن سے جدا نہ ہو پاک ہے ۔ ( الفتاوی الھندیہ ، الفصل الثانی ، ج ١ ، ص٤٦ )

جنت کی سیر : روایت ہے مسروق رضی اللہ عنہ سے فرماتے ہیں کہ ہم نے عبداللہ ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ سے اس آیت کےمتعلق پوچھا کہ اللہ کی راہ میں مقتولوں کو مردہ نہ سمجھو بلکہ وہ زندہ ہیں اور روزی دیے جاتے ہیں۔۔ الخ ۔ فرمایا : ہم نے اس کےمتعلق پوچھا تو فرمایا کہ روحیں سبز پرندوں کے پوٹوں میں ہوتی ہیں ان کے لیے عرش میں قندیلیں لٹک رہی ہیں جنت میں جہاں چاہتی ہیں جاتی ہیں پھر ان قندیلوں کی طرف لوٹ آتی ہیں۔ ( مراة المناجیح ، الحدیث : ٣٦٢٩ ، ج ٥ ، ص ٤٤٠ )

اللہ تعالٰی ہمیں بھی شہادت والی موت سے سرفراز فرمائے ۔ آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


:  فَاُولٰٓىٕكَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیْقِیْنَ وَ الشُّهَدَآءِ وَ الصّٰلِحِیْنَۚ-وَ حَسُنَ اُولٰٓىٕكَ رَفِیْقًاؕ(۶۹)

تو ایسے اشخاص بھی ان حضرات کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ تعالی نے انعام فرمایا یعنی انبیاء اور صدیقین اور شہداء اور صالحین اور یہ حضرات بہت اچھے رفیق ہیں۔

ارشادِباری تعالیٰ ہے:’’اورجولوگ اللہ کی راہ میں قتل کیے جاتے ہیں، انہیں مُردہ مت کہو (وہ مردہ نہیں) بلکہ وہ زندہ ہیں، لیکن تمہیں(ان کی زندگی کا) شعور نہیں ہے‘‘۔(سورۃ البقرہ)

اسی طرح ایک اورمقام پرارشادہوا:’’اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کیے گئے ہیں، تم انہیں مردہ مت خیال کرو، بلکہ وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں اور انہیں رزق بھی دیاجاتا ہے‘‘۔

(سورۂ آل عمران)

شہید کا لغوی معنی ہے : گواہ ، کِسی کام کا مشاہدہ کرنے والا۔

اور شریعت میں اِسکا مفہوم ہے: اللہ تعالی کے دِین کی خدمت کرتے ہوئے اپنی جان قُربان کرنے والا ، میدانِ جِہاد میں لڑتے ہوئے یا جِہاد کی راہ میں گامزن یا دِین کی دعوت و تبلیغ میں، اور جِس موت کو شہادت کی موت قرار دِیا گیا ہے اُن میں سے کوئی موت پانے والا۔

شہادت کی قِسمیں : (1) شہیدءِ المعرکہ :یعنی اللہ کے لئے نیک نیتی سے میدانِ جِہاد میں کافروں ، مُشرکوں کے ساتھ لڑتے ہوئے قتل ہونے والا ۔

(2)فی حُکم الشہید:شہادت کی موت کا درجہ پانے والا، یعنی میدان جِہاد کے عِلاوہ ایسی موت پانے والا جسے شہادت کی موت قرار دِیا گیا ۔

اپنے آخری رسول مُحمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اُمت پر اللہ تعالی کی خصوصی رحمتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ سابقہ اُمتوں کے شہیدوں کی طرح اُمتِ مُحمدیہ الصلاۃُ و السلام علی نبیھا ، میں درجہِ شہادت پر صِرف اللہ کی راہ میں لڑتے ہوئے قتل ہونے والوں تک ہی محدود نہیں رکھا بلکہ دوسروں کو بھی اِس درجہ پر فائزفرمایا ہے ۔

مندرجہ بالا صحیح احادیث میں ہمیں اللہ کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بتا یا کہ شہادت کی موت کون کون سی ہے ، اگر ہم اِن احادیث میں بیان کی گئی اموات کو ایک جگہ اکٹھا بیان کریں تو مندرجہ ذیل بنتی ہیں :

اللہ کی راہ میں قتل کیا جانے والا ، یعنی شہیدِ معرکہ ، اور مسلمانوں کے یقینی اجماع کے مطابق یہ افضل ترین شہادت ہے۔

اللہ کی راہ میں مرنے والا ، یعنی جو اللہ کی راہ میں نکلا اور موت واقع ہو گئی ، مثلاً غازی ، مہاجر ، وغیرہ (سورۃ النساء، آیت : 100)

مطعون ، طاعون کی بیماری سے مرنے والا

پیٹ کی بیماری سے مرنے والا

ڈوب کر مرنے والا

ملبے میں دب کر مرنے والا

ذات الجنب ( بیماری کا نام جِس میں پیٹ کے پھلاؤ ، ابھراؤ کی وجہ سے پسلیوں کی اندرونی اطراف میں ورم (سوجن) ہو جاتی ہے جو موت کا سبب بنتی ہے ) سے مرنے والا ۔

آگ سے جل کر مرنے والا

حمل کی وجہ سے مرنے والی ایسی عورت جس کے پیٹ میں بچہ بن چکا ہو

ولادت کے بعد ولادت کی تکلیف سے مرنے والی عورت،

پھیپھڑوں کی بیماری (سل) کی وجہ سے مرنے والا

جو اپنے مال کی حفاظت کرتے ہوئے قتل کِیا گیا

جو اپنے گھر والوں کی حفاظت کرتے ہوئے قتل کِیا گیا

جو اپنی جان کی حفاظت کرتے ہوئے قتل کِیا گیا

جواپنے دِین کی حفاظت کرتے ہوئے قتل کیا گیا

شہادت ایک عظیم رتبہ اور بہت بڑا مقام ہے جو قسمت والوں کو ملتا ہے اور وہی خوش قسمت اسے پاتے ہیں جن کے مقدر میں ہمیشہ کی کامیابی لکھی ہوتی ہے شہادت کا مقام نبوت کے مقام سے تیسرے درجے پر ہے جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے :  فَاُولٰٓىٕكَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیْقِیْنَ وَ الشُّهَدَآءِ وَ الصّٰلِحِیْنَۚ-وَ حَسُنَ اُولٰٓىٕكَ رَفِیْقًاؕ(۶۹)

تو ایسے اشخاص بھی ان حضرات کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ تعالی نے انعام فرمایا یعنی انبیاء اور صدیقین اور شہداء اور صالحین اور یہ حضرات بہت اچھے رفیق ہیں۔(سورہ النساء ۔ 69)

اللہ تعالی کے راستے میں قتل ہونے والوں کو شہید کیوں کہتے ہیں ؟ اس بارے میں کئی اقوال ہیں۔

1۔ کیونکہ اس کے لیے جنت کی شہادت ( یعنی گواہی ) دے دی گئی ہے (کہ وہ یقیناً جنتی ہے )

2۔ کیونکہ ان کی روحیں جنت میں شاہد ( یعنی حاضر ) رہتی ہیں ۔

3۔ کیونکہ وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں جبکہ دوسرے لوگوں کی روحیں قیامت کے دن جنت میں حاضر ہوں گی۔ نضر بن شمیل فرماتے ہیں کہ شہید بمعنی شاہد ہے اور شاہد کا مطلب جنت میں حاضر رہنے والا ۔ علامہ قرطبی فرماتے ہیں یہی قول صحیح ہے ۔ ( التذکرۃ للقرطبی )

4۔ ابن فارس کہتے ہیں الشہید بمعنی القتل یعنی اللہ کے راستے میں قتل کیا جانے والا ۔

5۔ کیونکہ فرشتے اس کے پاس حاضر ہوتے ہیں ۔

6۔ جب اللہ تعالی نے جنت کے بدلے اس کی جان کو خرید لیا اور اس پر لازم کیا کہ وہ اس عہد کو پورا کرے تو شہید نے جان دے کر گواہی دے دی کہ اس نے یہ عہد پورا کردیا ہے اور اس کی گواہی اللہ کی گواہی کے ساتھ مل گئی اللہ کے حضور اپنی جان پر گواہی( شہادت) کی وجہ سے اسے شہید کہا جاتا ہے ۔

( 7 ) ابن انبار رحمۃُ اللہِ علیہفرماتے ہیں کہ اللہ تعالی اور فرشتے اس کے لیے جنت کی شہادت (یعنی گواہی )دیتے ہیں اسی لیے اسے شہید کہا جاتا ہے ۔

( 8 ) اس کی روح نکلتے وقت اس کا اجر اور مقام اس کے سامنے حاضر ہو جاتا ہے اس وجہ سے اسے شہید کہتے ہیں ۔

( 9 ) کیونکہ رحمت والے فرشتے اس کی روح لینے کے لیے شاہد ( یعنی حاضر)ہوتے ہیں ۔

( 10 ) اس کے پاس ایک شاہد [ گواہ ] ہے جو اس کی شہادت کی گواہی دیتا ہے اور وہ ہے خون کیونکہ قیامت کے دن شہید جب اٹھے گا تو اس کی رگوں میں سے خون بہہ رہا ہوگا ۔

شہداء کی زندگی( یعنی حیاۃ الشہداء ) کے بارے میں علماء کرام کے مختلف اقوال ہیں ۔

( 1 ) علامہ قرطبی اور اکثر علماء کرام فرماتے ہیں کہ شہداء کی حیات یقینی چیز ہے اور بلا شبہہ وہ جنت میں زندہ ہیں جیسا کہ اللہ تعالی نے خبر دی ہے اور ان کی موت بھی ہو چکی ہے اور ان کے جسم مٹی میں ہیں اور ان کی روحیں دوسرے ایمان والوں کی ارواح کی طرح زندہ ہیں البتہ شہداء کو یہ فضیلت حاصل ہے کہ ان کے لیے شہادت کے وقت سے جنت کی روزی جاری کر دی جاتی ہے تو گویا کہ ان کے لیے ان کی دنیوی زندگی جاری ہے اور وہ ختم نہیں ہوئی

( 2 ) علماء کی ایک جماعت کا فرمانا ہے کہ قبروں میں شہداء کرام کی ارواح ان کے جسموں میں لوٹا دی جاتی ہیں اور وہ عیش و آرام کے مزے کرتے ہیں جیسا کہ کافروں کو ان کی قبروں میں زندہ کر کے عذاب دیا جاتا ہے ۔

( 3 ) مجاہد رحمۃُ اللہِ علیہ کہتے ہیں کہ ان کی روحیں سبز پرندوں میں ڈال دی جاتی ہیں اور وہ جنت میں رہتے ہیں اور وہ کھاتے پیتے اور عیش کرتے ہیں ۔ قرطبی رحمۃُ اللہِ علیہنے اسے صحیح قول قرار دیا ہے۔

(4)ایک قول یہ بھی ہے کہ ان کے لیے ہر سال ایک جہاد کا اجر لکھا جاتا ہے اور وہ اپنے بعد قیامت کے دن تک کے جہاد میں شریک رہتے ہیں ۔

( 5 ) ایک قول یہ ہے کہ ان کی روحیں عرش کے نیچے قیامت تک رکوع سجدے میں مشغول رہتی ہیں جیساکہ ان زندہ مسلمانوں کی روحیں جو باوضو سوتے ہیں ۔

( 6 ) ایک قول یہ ہے کہ ان کے جسم قبر میں خراب نہیں ہوتے اور انہیں زمین نہیں کھاتی یہی ان کی زندگی ہے ۔

شہداء کی حیات کا مطلب یہ ہے کہ شہداءکو ایک طرح کی جسمانی زندگی بھی حاصل ہوتی ہے جو دوسرے مردوں کی زندگی سے زیادہ ممتاز ہوتی ہے اور ان کی ارواح کو بھی اللہ کے ہاں مختلف مقامات حاصل ہوتے ہیں یعنی ان کی روحوں کا تعلق ان کے جسموں سے بھی رہتا ہے اور ان کی ارواح کو اللہ تعالی کے ہاں بھی مختلف مقامات ملتے ہیں ان میں سے بعض کی ارواح سبز پرندوں میں ہوتی ہیں اور وہ جنت میں کھاتے پیتے ہیں اور عرش کے سائے میں بنی ہوئی قندیلوں میں بیٹھتے ہیں جیسا کہ صحیح احادیث کے حوالے سے ان شاء اللہ آگے آئے گا اوران میں سے کچھ جنت کے دروازے کے پاس دریا کے کنارے والے محل میں ہوتے ہیں اور جنت سے صبح اور شام ان کی روزی آتی ہے جیسا حضرت ابن عباس رضی اللہُ عنہ کی روایت میں گذر چکا ہے اور کچھ ان میں سے فرشتوں کے ساتھ جنت میں اور آسمانوں میں اڑتے پھرتےہیں جیسا کہ حضرت جعفر رضی اللہُ عنہ کی روایت میں آئے گا اور کچھ ان میں سے جنت کی اونچی مسہریوں پر ہوتے ہیں جیسا کہ حضرت ابن رواحہ رضی اللہُ عنہ کی روایت میں آئے گا ان کے مقامات کا یہ فرق دنیامیں ان کے ایمان اخلاص اور جان دینے کے جذبے کے فرق کی وجہ سے ہوگا شہادت سے پہلےجس کا ایمان و اسلام میں جتنا بلند مقام ہوگا شہادت کے بعد اللہ کے ہاں اس کا اتنا بلند مقام ہوگا آیئے اب شہداء کی جسمانی زندگی پر کچھ دلائل پڑھتے ہیں ۔

٭ حضرت امام مالک رحمۃُ اللہِ علیہ عبدالرحمٰن بن ابی صعصعہ رحمۃُ اللہِ علیہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہیں یہ خبر پہنچی ہے کہ حضرت عمرو بن جموع رضی اللہُ عنہ اور حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہُ عنہ دونوں انصاری صحابی تھے ۔ سیلاب کی وجہ سے ان کی قبریں کھولی گئیں تاکہ ان کی جگہ بدلی جاسکے یہ دونوں حضرات ایک قبر میں تھے جب ان کی قبریں کھولی گئیں تو ان کے جسموں میں کوئی فرق نہیں آیا تھا گویا کہ انہیں کل دفن کیا گیا ہو، ان میں سے ایک کا ہاتھ شہادت کے وقت ان کے زخم پر تھا اور وہ اسی حالت میں دفن کئے گئے تھے دیکھا گیا کہ اب تک ان کا ہاتھ اسی طرح ہے لوگوں نے وہ ہاتھ وہاں سے ہٹایا مگر وہ ہاتھ واپس اسی طرح زخم پر چلا گیا غزوہ احد کے دن یہ حضرات شہید ہوئے تھے اور قبریں کھودنے کا یہ واقعہ اس کے چھیالیس سال بعد کا ہے ۔ ( مؤطاامام مالک، سیر اعلام النبلاء )

یہ روایت حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے براہ راست بھی آئی ہے جیسا کہ حضرت عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب الجہاد میں سند کے ساتھ ذکر فرمایا ہے ۔ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما ارشاد فرماتے ہیں کہ جب حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے نہر کظامہ جاری کرنے کا اردہ فرمایا تو اپ نے اعلان کروایا کہ جس شخص کا کوئی شہید ہوتو وہ پہنچ جائے پھر ان شہداء کے اجسام نکالے گئے تو وہ بالکل تر و تازہ تھے یہاں تک کہ کھودنے کے دوران ایک شہید کے پاؤں پر کدال لگ گئی تو خون جاری ہو گیا ۔ ( کتاب الجہاد لابن المبارک )

٭ عبدالصمد بن علی رحمۃُ اللہِ علیہ( جو بنو عباس کے خاندان میں سے ہیں )کہتے ہیں کہ میں اپنے( رشتے کے ) چچا حضرت حمزہ رضی اللہُ عنہ کی قبرپر آیا قریب تھا کہ سیلاب کا پانی ان کو ظاہر کر دیتا میں نے انہیں قبر سے نکالا تو وہ اپنی سابقہ حالت پر تھے اور ان پر وہ چادر تھی جس میں انہیں رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کفنایا تھا اور ان کے قدموں پر اذخر(گھاس ) تھی ۔ میں نے ان کا سر اپنی گود میں رکھا تو وہ پتیل کی ہانڈی کی طرح ( چمک رہا) تھا میں نے گہری قبر کھدوائی اور نیا کفن دے کر انہیں دفنا دیا ۔ ( ابن عساکر )

٭ قیس بن حازم فرماتے ہیں کہ حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ کو ان کے کسی رشتہ دار نے خواب میں دیکھا تو انہوں نے فرمایا تم لوگوں نے مجھے ایسی جگہ دفن کر دیا ہے جہاں پانی مجھے تکلیف پہنچاتا ہے میری جگہ یہاں سے تبدیل کرو ۔ رشتے داروں نے قبر کھو دی تو ان کا جسم نرم و نازک چمڑے کی طرح تھا اور داڑھی کے چند بالوں کے علاوہ جسم میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی۔ ( مصنف عبدالرزاق )

ترمذی [ حدیث کی کتاب ] میں اصحاب الاخدود ( خندوقوں میں شہید کئے جانے والے جن کا تذکرہ قرآن مجید کی سورہ بروج میں ہے ] کا واقعہ مذکور ہے اس میں یہ بھی ہے کہ لڑکا جسے بادشاہ نے شہید کرکے دفن کر دیا تھا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں قبر سے نکالا گیا تو اس کی انگلی اس کی کنپٹی پر تھی [ کیونکہ یہیں اس کو تیر لگا تھا ] ۔ ( ترمذی )

مصنف رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ واقعہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیانی فترۃ والے زمانے کا ہے ۔

علامہ قرطبی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ تمام اہل کوفہ یہ بات نقل کرتےہیں کہ جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے روضۂ اقدس کی دیوار گر گئی اور یہ ولید بن عبدالمالک کا دور حکومت تھا اور حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ اس وقت مدینہ منورہ کے گورنر تھے تو روضہ مبارک سے ایک پاؤں کھل گیا لوگ ڈر گئے کہ شاید یہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا پاؤں مبارک ہے چنانچہ لوگ سخت غمگین ہوئے اس وقت حضرت سالم بن عبداللہ بن عمر نے آکر وہ پاؤں دیکھا تو فرمایا یہ میرے دادا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا پاؤں مبارک ہے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ شہید ہوئے تھے ۔ ( التذکرۃ للقرطبی )

حضرت ثابت بن قیس بن شماس کا واقعہ بہت مشہور ہے اور یہ واقعہ کئی صحابہ کرام اورمفسرین نے ذکر فرمایا ہے حضرت ثابت کی بیٹی فرماتی ہیں کہ جب قرآن مجید میں یہ آیت نازل ہوئی : ترجمہ : اے اہل ایمان ! اپنی آوازیں پیغمبر کی آواز سے اونچی نہ کر و ۔ ( الحجرات، 2 )

تو میرے والد گھر کے دروازے بند کرکے اندر بیٹھ گئے اور رونے لگے جب اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں نہ پایا تو بلا کر گھر بیٹھ رہنے کی وجہ پوچھی انہوں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول میری آواز ( طبعی طورپر )بلند ہے میں ڈرتا ہوں کہ میرے اعمال ضائع نہ ہو جائیں ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : آپ ان میں سے نہیں ہیں بلکہ آپ خیر والی زندگی جئیں گے اور خیر والی موت مریں گے ان کی بیٹی کہتی ہیں کہ پھر جب یہ آیت نازل ہوئی : ترجمہ : اللہ تعالی کسی اترانے والے خودپسند کو پسند نہیں کرتا ۔ ( لقمان ۔ 18 )

تو میرے والد نے پھر دروازہ بند کر دیا گھر میں بیٹھ گئے اور روتے رہے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب انہیں نہ پایا تو انہیں بلوایا اور وجہ پوچھی تو انہوں نے کہا اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں تو خوبصورتی کو پسند کر تا ہوں اور اپنی قوم کی قیادت کو بھی ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آپ ان میں سے نہیں (جن کے بارے میں آیت نازل ہوئی ہے)بلکہ آپ تو بڑی پسندیدہ زندگی گزاریں گے اور شہادت کی موت پاکر جنت میں داخل ہوں گے۔ جنگ یمامہ کے دن جب خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی قیادت میں مسلمانوں نے مسیلمہ کذاب پر حملہ کیا تو ابتداء میں مسلمانوں کو پیچھے ہٹنا پڑا اس وقت حضرت ثابت بن قیس اور حضرت سالم رضی اللہ عنہما نے فرمایا ہم لوگ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تو اس طرح نہیں لڑتے تھے۔ پھر دونوں حضرات نے اپنے لیے ایک ایک گڑھا کھودا اور اس میں کھڑے ہوکر ڈٹ کر لڑتے رہے یہاں تک کہ شہید ہوگئے اس دن حضرت ثابت رضی اللہ عنہ نے ایک قیمتی زرہ پہن رکھی تھی ان کی شہادت کے بعد ایک مسلمان نے وہ زرہ اٹھالی ۔

اگلے دن ایک مسلمان نے خواب میں دیکھاکہ حضرت ثابت رضی اللہ عنہ اسے فرما رہے ہیں میں تمہیں ایک وصیت کر رہا ہوں تم اسے خیال سمجھ کر ضائع نہ کر دینا میں جب کل شہید ہوا تو ایک مسلمان میرے پاس سے گزرا اور اس نے میری زرہ اٹھالی وہ شخص لوگوں میں سب سے دور جگہ پر رہتا ہے اور اس کے خیمے کے پاس ایک گھوڑا رسی میں بندھا ہوا کود رہا ہے اور اس نے میری زرہ کے اوپر ایک بڑی ہانڈی رکھ دی ہے اور اس ہانڈی کے اوپر اونٹ کا کجاوہ رکھا ہوا ہے تم خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے پاس جاؤ اور انہیں کہو کہ وہ کسی کو بھجوا کر میری زرہ اس شخص سے لے لیں پھر جب تم مدینہ منورہ جانا تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ ( حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ) سے کہنا کہ میرے ذمے اتنا اتنا قرضہ ہے اور میرے فلاں فلاں غلام آزاد ہیں ( پھر اس خواب دیکھنے والے کو فرمایا ) اور تم اسے جھوٹا خواب سمجھ کر بھلا مت دینا ۔ چنانچہ (صبح ) وہ شخص حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور ان تک پیغام پہنچایا تو انہوں نے آدمی بھیج کر زرہ وصول فرمالی ۔ پھر مدینہ پہنچ کر اس شخص نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو پورا خواب سنایا تو انہوں نے حضرت ثابت رضی اللہ عنہ کی وصیت کو جاری فرما دیا ۔ ہم کسی ایسے شخص کو نہیں جانتے جس نے مرنے کے بعد وصیت کی ہو اور اس کی وصیت کو پورا کیا گیا ہو سوائے حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کے ۔ ( المستدرک )

مصنف رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں کہ اسی طرح کا ایک واقعہ علامہ حزولی رحمۃ اللہ علیہ نے ابو محمد عبد اللہ بن زید رحمۃُ اللہِ علیہ کے بارے میں لکھا ہے یہ واقعہ کچھ معتمد لوگوں نے حضرت ابو محمد رحمۃ اللہ علیہ سے خود سناہے ابومحمد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں میں عبدالرحمن بن ناصر اندلسی کے زمانے میں خندق والے سال جہاد میں نکلا ۔ لڑائی میں مسلمانوں کو شکست ہوگئی اور بچ جانے والے مختلف اطراف میں بکھر گئے میں بھی بچ جانے والوں میں شامل تھا میں دن کو چھپ جاتا تھا اور رات کو چلتا تھا ایک رات اچانک میں ایک ایسے لشکر میں پہنچ گیا جس نے پڑاؤ ڈالا تھا ۔

ان کے گھوڑے بندھے ہوئے تھے آگ جل رہی تھی اور جگہ جگہ قرآن پاک کی تلاوت ہو رہی تھی میں نے شکر ا دا کہ مسلمانوں کے لشکر میں پہنچ گیا ہوں چنانچہ میں ان کی طرف چل پڑا اچانک میری ملاقات ایک نوجوان سے ہوئی اس کا گھوڑا قریب بندھا ہوا تھا اور وہ بنی اسرائیل کی تلاوت کر رہاتھا میں نے اسے سلام کیا اس نے جواب دیکر کہا کیا آپ بچ جانے والوں میں سے ہیں میں نے کہا جی ہاں اس نے کہا آپ بیٹھے اور آرام کیجئے پھر وہ میرے پاس بے موسم کے انگور دو روٹیاں اور پانی کا پیالہ لے آیا میں نے ایسا لذیذ کھانا کبھی نہیں کھایا تھا پھر اس نے کہا کیا آپ سونا چاہتے ہیں میں نے کہا جی ہاں اس نے اپنی ران پر میرا سر رکھا اور میں سو گیا یہاں تک کہ سورج کی شعاعوں نے مجھے جگایا میں نے دیکھا کہ اس میدان میں کوئی بھی نہیں ہے اور میرا سر ایک انسانی ہڈی کے اوپر پڑا ہوا ہے میں سمجھ گیا کہ وہ سب شہداء کرام تھے میں اس دن چھپا رہا جب رات ہوئی تو پھر میں نے دیکھا کہ ایک لشکر وہاں سے گزر رہا ہے اور وہ گزرتے ہوئے مجھے سلام کرتے تھے اور اللہ کا ذکر کرتے ہوئے آگے بڑھ جاتے تھے ان سب کے آخر میں ایک آدمی لنگڑے گھوڑے پر سوار تھا اس نے مجھے سلام کیا تو میں نے کہا اے بھائی یہ کون لوگ ہیں اس نے کہا یہ شہداء ہیں اور اپنے گھر والوں سے ملنے جا ر ہے ہیں میں نے کہا تمہارا گھوڑا لنگڑا کیوں ہے اس نے کہا اس گھوڑے کی قیمت میں سے میرے ذمے دو دینار باقی ہیں میں نے کہا اللہ کی قسم اگر میں مسلمانوں کے ملک پہنچ گہا تو تمہارے یہ دو دینار ادا کروں گا یہ گوڑ سوار گھوڑا چلاتا ہوا لشکر میں شامل ہو گیا پھر وہ واپس لوٹا اور اس نے مجھے اپنے پیچھے بٹھالیا جب صبح مرغوں کی اذان سنائی دی تو ہم مدینہ سالم نامی جگہ پہنچ چکے تھے اس شہر اور اس جگہ جہاں سے میں سوار ہوا تھا کے درمیان دس دن کی مسافت تھی اس شہید نے مجھے کہا تم اس شہر میں چلے جاؤ میں اسی میں رہتا تھا وہاں جاکر تم محمد بن یحییٰ غافقی کے گھر کا پوچھنا اس گھر میں جاکر تم میری بیوی جس کا نام فاطمہ بنت سالم ہے کہ میرا سلام کہنا اور اسے یہ پیغام دینا کہ طاق میں ایک تھیلی ہے جس میں پانچ سو دینار رکھے ہوئے ہیں تم ان میں سے دو دینار فلاں آدمی کو پہنچا دو کیونکہ میرے ذمے گھوڑے کی قیمت میں سے یہ دو دینار باقی ہیں میں شہر میں داخل ہوا اور میں نے اس کے کہنے کے مطابق کیا ۔ اس کی بیوی نے وہ تھیلی نکالی پھر مجھے کھانا کھلایا اور دس دینار دے کر کہا یہ سفر میں آپ کے کام آئیں گے۔ ( شرح دیباجۃ الرسالہ )

محمود وراق رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ہمارے ساتھ ایک کالے رنگ کا مبارک نامی شخص تھا ہم اسے کہتے تھے کہ اے مبارک کیا آپ شادی نہیں کرتے تو وہ کہتے تھے میں اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ حورعین سے میری شادی کر دے ۔ محمود رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ہم جہاد میں نکلے ہوئے تھے کہ دشمنوں نے ہم پر حملہ کردیا اس میں مبارک شہید ہوگیا ہم نے اسے دیکھا تو اس کا سر الگ پڑا ہواتھا اور باقی جسم الگ اور اس کے ہاتھ اس کے سینے کے نیچے تھے ۔ ہم اس کے پاس کھڑے ہوئے اور ہم نے کہا اے مبارک اللہ تعالی نے کتنی حوروں سے آپ کی شادی کرائی ہے انہوں نے اپنا ہاتھ سینے کے نیچے سے نکالا اور تین انگلیاں بلند کرکے اشارہ کیا ( کہ تین حوروں سے شادری ہوئی ہے ) ( روض الریاحین )

سعیدالعجمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ہم سمندر میں جہاد کے لیے نکلے ہمارے ساتھ ایک بہت عبادت گزار نوجوان بھی تھا جب سخت لڑائی شروع ہوئی تو وہ بھی لڑتا ہوا شہید ہو گیا اور اس کی گردن کٹ گئی ہم نے دیکھا کہ وہ سر پانی کے اوپر آیا اور ہماری طرف متوجہ ہو کر یہ آیت پڑھنے لگا:ترجمہ: وہ ( جو) آخرت کا گھر ( ہے ) ہم نے اسے ان لوگوں کے لیے ( تیار ) کر رکھا ہے جو ملک میں ظلم اور فساد کا ارادہ نہیں رکھتے اور انجام ( نیک ) تو پرہیزگاروں ہی کا ہے ۔

(قصص ۔ 38 ، شوق العروس و انس النفوس )

عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ملک شام میں اندر [ نامی مقام ] پر ایک شخص اپنی بیوی کے ساتھ رہتا تھا اس کا ایک بیٹا شہید ہو چکا تھا ایک بار اس نے دیکھا کہ اس کا وہی بیٹا گھوڑے پر بیٹھ کر آرہا تھا اس نے اپنی بیوی کو بتایا تو بیوی نے کہا توبہ کرو کیونکہ شیطان تمہیں ورغلا رہا ہے ہمارا بیٹا تو شہید ہو چکا ہے وہ توبہ کرنے لگا مگر اس نے پھر دیکھا کہ واقعی اس کا بیٹا آرہا ہے اس نے بیوی کو بتایا تو اس نے بھی دیکھ کر کہا بخدا یہ تو ہمارا بیٹا ہے وہ نوجوان جب ان کے پاس پہنچا تو انہوں نے پوچھا بیٹا آپ تو شہید ہو چکے تھے اس نے کہا جی ہاں لیکن ابھی ابھی حضرت عمر بن عبدالعزیز کا انتقال ہوا ہے اور کچھ شہداء نے اللہ تعالی سے ان کے جنازے میں شرکت کی اجازت لے لی ہے میں بھی ان میں سے ہوں اور میں نے آپ دونوں کو سلام کرنے کی اجازت بھی لے لی تھی پھر اس نے ان دونوں کے لیے دعا کی اور لوٹ گیا۔ اسی دن حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کا انتقال ہوا تھا اور اس بستی والوں کو ان کے انتقال کی خبر اسی بزرگ( یعنی شہید کے والد) نے دی ورنہ انہیں معلوم نہیں تھا۔

ایسا ہی ایک واقعہ علامہ ابو علی حسین بن یحییٰ بخاری حنفی رحمۃ اللہ علیہ نے اپبی کتاب " روضۃ العلماء " میں ذکر فرمایا ہے کہ ایک کوفی نوجوان جہاد میں نکلا پھر اس نے خواب میں اپنا محل اور حوریں دیکھیں پھر رومیوں نے اسے مسجد میں گھس کر شہید کر دیا کچھ عرصے کے بعد اس کے والد نے اسے گھوڑے پر سوار دیکھا تو پوچھا بیٹے آپ تو شہید ہوئے تھے اس نے کہا جی ہاں مگر آج ہم لوگ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کے جنازے میں شرکت کے لیے آئے ہیں ۔

( روضۃ العلماء)

ابو عمران الجونی فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے والد سے سنا انہوں نے فرمایا مسلمانوں میں ایک شخص بطال نامی تھا وہ رومیوں کے علاقے میں چلا جاتا اور ان کا حلیہ اپنا لیتا اور اپنے سر پر انہیں کی ٹوپی پہن کر انجیل گلے میں لٹکا لیتا تھا پھر اگر اسے دس سے پچاس تک رومی کہیں مل جاتے تو انہیں قتل کر دیتا تھا اور اگر اس سے زیادہ ہوتے تو انہیں کچھ نہیں کہتا تھا چونکہ رومی اسے اپنا پادری سمجھتے تھے اس لیے انہیں کچھ نہیں کہتے تھے اس طرح سے سالہا سال تک وہ رومیوں کے اندر گھس کر [ یہ خفیہ ] کاروائیاں کرتا رہا ۔ ہارون الرشید کے زمانے میں وہ واپس آیا تو ہارون الرشید نے اسے بلایا اور فرمایا اے بطال رومیوں کے ملک میں جو سب سے عجیب واقعہ تمہارے ساتھ پیش آیا ہو وہ سناؤ اس نے کہا حاضر اے امیر المؤمنین (لیجئے سنئے )

میں ایک بار کسی سبزہ زار سے گزر رہا تھا کہ ایک نیزہ بردار مسلح شہسوار میرے پاس آیا اور اس نے مجھے سلام کیا میں سمجھ گیا کہ یہ مسلمان ہے میں نے اسے جواب دیا اسے نے مجھے کہا کیا آپ بطال کو جانتے ہیں میں نے کہا میں بطال ہوں تمہیں کیا کام ہے اس نے گھوڑے سے اتر کر مجھے گلے لگایا اور میرے ہاتھ پاؤں چومے اور کہا میں اس لیے آیا ہوں تاکہ زندگی بھر آپ کا خادم بن کر رہوں میں نے اسے دعا دی اور ساتھ لے لیا ایک بار ہم جارہے تھے کہ رومیوں نے ہمیں دور سے ایک قلعے سے دیکھ لیا وہاں سے چار مسلح سپاہی گھوڑے دوڑاتے ہوئے ہمارے طرف بڑھے اس نوجوان نے کہا اے بطال مجھے اجازت دیجئے کہ میں ان کا مقابلہ کروں میں نے اجازت دے دی وہ ان کے مقابلے پر نکلا اور تھوڑی دیر بعد شہید ہوگیا وہ چاروں میری طرف حملہ کرنے کے لیے بڑھے اور کہنے لگے تم خود کو بچاؤ اور جو کچھ تمہارے پاس ہے وہ چھوڑ جاؤ میں نے کہا میرے پاس تو یہی ٹوپی اور انجیل ہے اگر تم مجھ سے لڑنا چاہتے ہو تو مجھے مہلت دو تاکہ میں اپنے ساتھی کا اسلحہ پہن لوں اور اس کے گھوڑے پر سوار ہو جاؤں انہوں نے کہا ٹھیک ہے تمہیں اجازت ہے میں جب تیار ہو گیا تو وہ پھر آگے بڑھے میں نے کہا یہ کیسا انصاف ہے کہ چاروں مل کر ایک پر حملہ کر رہے ہو تم بھی ایک ایک کرکے میرا مقابلہ کرو ۔

انہوں نے کہا تم ٹھیک کہتے ہو چنانچہ وہ ایک ایک کرکے میرے مقابلے پر آتے رہے میں نے تین کو تو مار گرایا مگر چوتھے کے ساتھ مقابلہ سخت رہا لڑتے لڑتے ہمارے نیزے تلواریں اور ڈھالیں ٹوٹ گئیں پھر دونوں میں کشتی شروع ہوگئی مگر کوئی غالب نہ آسکا میں نے اسےکہا اے رومی میری نماز قضا ہو رہی ہے اور تمہاری عبادت بھی چھوٹ رہی ہوگی کیوں نہ ہم اپنی اپنی عبادت کو ادا کریں اور رات کو آرام کریں اور کل صبح پھر مقابلہ کریں اس نے کہا یہ ٹھیک ہے وہ خود ایک پادری تھا ہم نے ایک دوسرے کو چھوڑ دیا میں نے اپنی نمازیں پڑھیں اور وہ کافر بھی کچھ کرتا رہا ۔ سوتے وقت اس نے کہا تم عرب لوگ دھوکے باز ہوتے ہو پھر اس نے دو گھنٹیاں نکا لیں ایک اپنے کان پر اور ایک میرے کان پر باندھ دی اور کہا تم اپنا سر میرےاوپراور میں اپنا سر تمہارے اوپر رکھوں گا ہم میں سے جو بھی حرکت کرے گا اس کی گھنٹی بجے گی تو دوسرا متنبہ ہو جائے گا ۔ میں نے کہا ٹھیک ہے۔ صبح میں نے نماز پڑھی اور کافر بھی کچھ کرتا رہا ۔ پھر ہم کشتی میں مشغول ہو گئے میں نے اسے پچھاڑ دیا اور اس کے سینے پر بیٹھ کر اسے ذبح کرنے کا ارادہ کیا ۔ اس نے کہا اس بار مجھے چھوڑ دو تاکہ ہم پھر مقابلہ کریں میں نے اسے چھوڑ دیا جب دوبارہ مقابلہ ہوا تو میرا پاؤں پھسل گیا وہ مجھے گرا کر میرے سینے پر بیٹھ گیا اور اس نے خنجر نکال لیا میں نے کہا میں تمہیں ایک بار موقع دے چکا ہوں کیا تم مجھے موقع نہیں دو گے اس نے کہا ٹھیک ہے اور مجھے چھوڑ دیا ۔

تیسری بار کی لڑائی میں اس نے مجھے پھر گرا دیا اور میرے کہنے پر مجھے چھوڑ دیا جب چوتھی بار اس نے مجھے گرا یا تو کہنے لگا میں تمہیں پہچان چکا ہوں کہ تم بطال ہو اب میں تمہیں لازماً ذبح کروں گا اور زمین کو تجھ سے راحت دوں گا۔ میں نے کہا اگر میرے اللہ نے مجھے بچانا چاہا تو تم نہیں مار سکو گے اس نے کہا تم اپنے رب کو بلاؤ کہ وہ تمہیں مجھ سے بچائے یہ کہہ کر اس نے خنجر بلند کیا تاکہ میری گردن پر وار کرے اے امیر المؤمنین اسی وقت میرا شہید ساتھی اٹھا اور اس نے تلوار مار کر اس رومی کا سر اڑا دیا اور اس نے یہ آیت پڑھی:

وَ لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتًاؕ ترجمہ : شہیدوں کو مردہ گمان نہ کرو بلکہ وہ تو زندہ ہیں۔ پھر وہ دوبارہ گر گیا یہ وہ عجیب ترین واقعہ ہے جو میں نے اپنی زندگی میں دیکھا ہے ۔ ( روضۃ العلماء )

مصنف رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ بطال کا نام عبداللہ تھا ۔ اور ان کی کنیت ابو محمد یا ابو یحییٰ تھی اور وہ تابعی تھے علامہ ابن ذہبی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ بطال بہادروں اور جانبازوں کے سردار اور شامی امراء میں ممتاز مقام رکھتے تھے ۔ رومی ان کے نام سے خوف اور ذلت محسوس کرتے تھے چنانچہ انہوں نے حضرت بطال کی طرف بہت غلط اور جھوٹی باتیں مشہور کر رکھی ہیں ۔ ان کے عجیب و غریب واقعات مشہور ہیں ان میں سے ایک واقعہ وہ خود بیان فرماتے ہیں کہ ایک بار ہم ایک بستی پر حملہ کرنے کے لیے آئے تو ایک گھر میں چراغ جل رہا تھا اور ایک بچہ رو رہا تھا اس بچے کی ماں نے کہا چپ ہو جاؤ ورنہ تمہیں بطال کو دے دوں گی بچہ پھر بھی روتا رہا تو عورت نے اسے چار پائی سے اٹھا کر کہا اے بطال اسے لے لو میں اندر داخل ہوا اور میں نے کہا لاؤ دے دو۔

شہداء کی حیات کے واقعات بے شمار ہیں ہم نے ان میں سے چند واقعات ذکر کئے ہیں ۔ اور ان کی اسی حیات کو دیکھتے ہوئے کئی ائمہ فرماتے ہیں کہ چونکہ شہید زندہ ہے اس لیے اس پر نمازجنازہ نہیں پڑھی جائے گی جبکہ دوسرے ائمہ فرماتے ہیں کہ برکت کے لیے نماز جنازہ پڑھی جائے گی اسی طرح اکثر [بلکہ تقریبا تمام ] ائمہ کے نزدیک شہید کو غسل نہیں دیا جائے گا بلکہ ان کے خون کے ساتھ انہیں دفن کیا جائے گا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے شہداء احد کے بارے میں فرمایا تھا کہ انہیں خون کے ساتھ دفن کر دو چنانچہ انہیں غسل نہیں دیا گیا۔ ( بخاری )

اور اس کی وجہ دوسری حدیث میں بیان کی گئی ہے کہ قیامت کے دن شہداء اپنے خون کے ساتھ اٹھائے جائیں گے۔ شہید کے فضائل اور مقامات بے شمارہیں یہاں میں نے وہ فضائل بیان کیے ہے جن تک میراقلیل علم اور ناقص سمجھ کی رسائی ہوئی ہے۔