غلام نبی انجم رضا عطاری ( درجہ خامسہ مرکزی جامعۃ
المدینہ فیضان مدینہ جڑانوالہ )
دینِ مَتِین کے عطا کردہ وہ پاکیزہ اور مقدس اعمال کہ جن کے سبب بارگاہِ الٰہی عزوجل سے عظیم بشارتوں
، اُخروی و دنیوی رفعتوں اور اجرِ کثیرہ سے نوازہ جاتا ہے ان میں شہادت کا بھی
شمار ہے۔
شہید کسے کہتے ہیں؟ :
اصطلاحِ فقہ میں شہید اس مسلمان عاقل ، بالغ اور طاہر کو کہتے جو بطور ظلم کسی
آلۂ جارِحَہ (زخم لگانے والے ) سے قتل کیا گیا ہو اور اس کے قتل سے مال بھی واجب
نہ ہوا ہو یا معرکۂ جنگ میں مردہ یا زخمی پایا گیا اور دنیا سے نفع نہ اٹھایا ہو ۔
(بہارِ شریعت جلد 1 ، حصّہ 4 ، شہید کا بیان ، ص 860)
حکیمُ الْاُمت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ تفسیر نعیمی میں لکھتے
ہیں :شہید کو بارگاہِ الٰہی عزوجل سے بہت بلند درجات عطا کئے جاتے ہیں ۔شہید کو انبیاء کرام علیہم السلام سے
بہت قُرب حاصل ہوتا ہے ۔شہید بعدِ وفات زندۂ و جاوید ہیں، شہید کو بعدِ وفات رزق دیا جاتا ہے ۔شہید سوالات قبر سے محفوظ
رہتا ہے ، شہید کا جسم زمین نہیں کھا سکتی، شہید دنیا سے
گناہوں سے ایسا پاک ہو کر جاتا ہے جیسے آج ہی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا، شہید موت سے
پہلے جنت دیکھ لیتا ہے ، شہید 70 آدمیوں کی شفاعت کرے گا ، شہید کا عمل و رزق
قیامت تک جاری رہے گا۔شہید قیامت کے دن گھبراہٹ سے محفوظ رہے گا ۔(تفسیر نعیمی ، پ
ج2 ، ص 83)قرآن کریم میں ارشادِباری تعالیٰ ہے:فَرِحِیْنَ بِمَاۤ اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ
فَضْلِهٖۙ- وَ یَسْتَبْشِرُوْنَ بِالَّذِیْنَ لَمْ
یَلْحَقُوْا بِهِمْ مِّنْ خَلْفِهِمْۙ- اَلَّا
خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَۘ(۱۷۰)
ترجَمۂ کنزُالایمان:شاد ہیں اس پر جو
اللہ نے انہیں اپنے فضل سے دیا اور خوشیاں منارہے ہیں اپنے پچھلوں کی جو ابھی ان
سے نہ ملے کہ ان پر نہ کچھ اندیشہ ہے اور نہ کچھ غم ۔ ( آل عمران : 170)
یہاں شہدا ئے کرام کے لئے فرمایا گیا ہے کہ وہ اللہ کے فضل و کرم ، انعام و
احسان ، اعزاز و اکرام اور موت کے بعد اعلی قسم کی زندگی دیے جانے پر خوش ہیں نیز
اس پر خوش ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنا مقرب بنایا ، جنت کا رزق اور اس کی
نعمتیں عطا فرمائیں اور جنت کی منزلیں حاصل کرنے کے لئے شہادت کی توفیق عطا فرمائی
۔
نیز وہ اس بات پر بھی خوشی منا رہے ہیں کہ ان کے بعد دنیا
میں رہ جانے والے ان کے مسلمان بھائی دنیا میں ایمان اور تقویٰ پر قائم ہیں اور جب
وہ بھی شہید ہو کر ان کے ساتھ ملیں گے تو وہ بھی ان کرم نوازیوں کو پائیں گے اور
قیامت کے دن امن اور چین کے ساتھ اُٹھائے جائیں گے۔(صراط الجنان جلد 2 ، پ 4، آل عمران
، ص 101)
حضرت انس بن مالک رضی
اللہُ عنہ سے روایت ہے :تاجدارِ مدینہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا ، اہل جنت
میں سے ایک شخص کو لایا جائے گا تو اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا : اے ابن آدم ! تو
نے اپنی منزل و مقام کو کیسے پایا ۔وہ عرض کرے گا : اے میرے رب عزوجل بہت اچھی منزل ہے اللہ تعالیٰ فرمائے گا : تو مانگ اور کوئی تمنا کر ۔وہ عرض
کرے گا اے اللہ تعالیٰ میں تجھ سے صرف ایک سوال کرتا ہوں کہ تو مجھے دنیا کی طرف
لوٹا دے اور میں دس مرتبہ تیری راہ میں شہید کیا جاؤں ۔وہ یہ سوال اس لئے کرے گا
کیونکہ اس نے شہادت کی فضلیت ملاحظہ کر لی ہوگی ۔(الترغیب و الترہیب ، جلد 2 ،
حدیث : 2108 )
شہادت کی اُخروی
سعادت اور بلندی کا اندازہ پیارے آقا مدینے والے مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اس فرمان سے لگایا جا سکتا ہے
کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے خود
اس کی تمنا فرمائی چنانچہ :حضرت ابو ہریرہ رضی
اللہُ عنہ سے روایت ہے ، جانِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
اس ذات کی قسم ! جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے میری یہ تمنا ہے کہ میں اللہ
تعالیٰ کے راستے میں جہاد کروں ، پھر شہید کیا جاؤں ، پھر جہاد کروں ، پھر شہید
کیا جاؤں ، پھر جہاد کروں پھر شہید کیا جاؤں۔(کنزالعُمّال، حصہ 4 ، حدیث :10636 ،
ص 549)
اللہ عزوجل ہمیں شہادت کے فضائل کو سمجھنے اور اس عظیم
سعادت کو حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ
الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم