شہادت
ایک عظیم رتبہ اور بہت بڑا مقام ہے جو قسمت والوں کو ملتا ہے اور وہی خوش قسمت اسے
پاتے ہیں جن کے مقدر میں ہمیشہ کی کامیابی
لکھی ہوتی ہے شہادت کا مقام نبوت کے مقام سے تیسرے درجے پر ہے جیسا کہ اللہ تعالی
کا ارشاد گرامی ہے :
فَأُولَئِكَ
مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ
وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ وَحَسُنَ أُولَئِكَ رَفِيقًا (سورہ النساء
۔ 69)
تو
ایسے اشخاص بھی ان حضرات کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ تعالی نے انعام فرمایا یعنی
انبیاء اور صدیقین اور شہداء اور صالحین اور یہ حضرات بہت اچھے رفیق ہیں۔
٭
ایک صحیح حدیث میں بھی آیا ہے کہ انبیاء علیہم السلام شہداء سے صرف درجہ نبوت کی
وجہ سے افضل ہیں ۔
ممکن
ہے یہ حدیث کچھ مخصوص شہداء کے بارے میں ہو جبکہ آیت کریمہ میں عام شہداء کا مقام
بیان کیا گیا ہے ۔ واللہ اعلم ۔
اللہ
تعالی کے راستے میں قتل ہونے والوں کو شہید کیوں کہتے ہیں ؟ [ اس بارے میں کئی
اقوال ہیں ]
( 1 ) کیونکہ اس کے
لیے جنت کی شہادت [ یعنی گواہی ] دے دی گئی ہے [ کہ وہ یقیناً جنتی ہے ]
( 2 ) کیونکہ ان کی
روحیں جنت میں شاہد [ یعنی حاضر ] رہتی ہیں کیونکہ وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں
جبکہ دوسرے لوگوں کی روحیں قیامت کے دن جنت میں حاضر ہوں گی نضر بن شمیل فرماتے
ہیں کہ شہید بمعنی شاہد ہے اور شاہد کا مطلب جنت میں حاضر رہنے والا ۔ علامہ قرطبی
فرماتے ہیں یہی قول صحیح ہے ۔ ( التذکرہ للقرطبی )
( 3 ) ابن فارس کہتے
ہیں الشہید بمعنی القتل یعنی اللہ کے راستے میں قتل کیا جانے والا ۔
( 4 ) کیونکہ فرشتے
اس کے پاس حاضر ہوتے ہیں ۔
( 5 ) جب اللہ تعالی
نے جنت کے بدلے اس کی جان کو خرید لیا اور اس پر لازم کیا کہ وہ اس عہد کو پورا
کرے تو شہید نے جان دے کر گواہی دے دی کہ اس نے یہ عہد پورا کردیا ہے اور اس کی
گواہی اللہ کی گواہی کے ساتھ مل گئی اللہ کے حضور اپنی جان پر گواہی [ شہادت ] کی
وجہ سے اسے شہید کہا جاتا ہے ۔
( 6 ) ابن انبار
رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی اور فرشتے اس کے لیے جنت کی شہادت [ یعنی
گواہی ] دیتے ہیں اسی لیے اسے شہید کہا جاتا ہے ۔
( 7 ) اس کی روح
نکلتے وقت اس کا اجر اور مقام اس کے سامنے حاضر ہو جاتا ہے اس وجہ سے اسے شہید
کہتے ہیں ۔
( 8 ) کیونکہ رحمت
والے فرشتے اس کی روح لینے کے لیے شاہد [ یعنی حاضر] ہوتے ہیں ۔
( 9 ) اس کے پاس ایک
شاہد [ گواہ ] ہے جو اس کی شہادت کی گواہی دیتا ہے اور وہ ہے خون کیونکہ قیامت کے
دن شہید جب اٹھے گا تو اس کی رگوں میں سے خون بہہ رہا ہوگا ۔
شہید
کے فضائل اور مقامات بے شمار ہیں یہاں میں ان میں سے وہ فضائل بیان کروں گی جن تک
میری قلیل علم اور ناقص سمجھ کی رسائی ہوئی ہے ۔ ( 1 ) شہداء زندہ ہیں
اللہ
تعالی کا فرمان ہے :
وَلا
تَقُولُوا لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَكِنْ
لا تَشْعُرُونَ
(سورہ البقرہ ۔ 154 )
اور
جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کئے جاتے ہیں ان کے بارے میں یہ نہ کہو کہ وہ مردہ ہیں
بلکہ وہ تو زندہ ہیں لیکن تمھیں خبر نہیں۔
دوسری
جگہ ارشاد باری تعالی ہے :
وَلا
تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَاءٌ
عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ فَرِحِينَ بِمَا آتَاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ
وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ أَلا
خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّهِ
وَفَضْلٍ وَأَنَّ اللَّهَ لا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُؤْمِنِينَ ( سورہ آل
عمران ۔ 169۔171 )
جو
لوگ اللہ کی راہ میں قتل کئے گئے ان کو مردہ نہ سمجھو بلکہ وہ تو زندہ ہیں اپنے
پروردگار کے مقرب ہیں کھاتے پیتے ہیں وہ خوش ہیں اس چیز سے جو ان کو اللہ تعالی نے
اپنے فضل سے عطاء فرمائی اور جو لوگ ان کے پاس نہیں پہنچے ان سے پیچھے رہ گئے ہیں
ان کی بھی اس حالت پر وہ خوش ہوتےہیں کہ ان پر بھی کسی طرح کا خوف واقع ہونے والا
نہیں اور نہ وہ مغموم ہوں گے وہ خوش ہوتے ہیں اللہ کی نعمت اور فضل سے اور اس بات
سے کہ اللہ تعالی ایمان والوں کا اجر ضائع نہیں فرماتے ۔
٭
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ
وسلم نے ارشاد فرمایا : شہداء جنت کے دروازے پر دریا کے کنارے ایک محل میں رہتے
ہیں اور ان کے لیے صبح شام جنت سے رزق لایا جاتا ہے ۔ ( مسنداحمد ۔ مصنف ابن ابی
شیبہ ۔ المستدرک ۔ صحیح علی شرط مسلم )
٭
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے
ارشاد فرمایا : جب بندے قیامت کے دن حساب کتاب کے لیے کھڑے ہوں گے تو کچھ لوگ اپنی
تلواریں گردنوں پر اٹھائے ہوئے آئیں گے ان سے خون بہہ رہا ہوگا وہ جنت کے دروازوں
پر چڑھ دوڑیں گے پوچھا جائے گا یہ کون ہیں ۔ جواب ملے گا یہ شہداء ہیں جو زندہ تھے
اور انہیں روزی ملتی تھی ۔ ( الطبرانی۔ مجموعہ الزوائد )
٭
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم احد کے دن حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ پر کھڑے
ہوئے تھے اور حضرت مصعب زمین پر شہید پڑے تھے اس دن انہی کے ہاتھ میں حضور اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی
:
مِنَ
الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ فَمِنْهُمْ مَنْ
قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَنْ يَنْتَظِرُ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِيلا (
الاحزاب 23)
ایمان
والوں میں کچھ مرد ایسے ہیں کہ انہوں نے جس بات کا اللہ سے عہد کیاتھا اسے سچ کر
دکھلایا پھر بعض تو ان میں سے وہ ہیں جنہوں نے اپنا ذمہ پورا کر لیا اور بعض ان
میں سے ( اللہ کی راستے میں جان قربان کرنے کے لیے ) راہ دیکھ رہے ہیں اور وہ ذرہ
(برابر ) نہیں بدلے ۔
بے
شک اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تمھارے لیے گواہی دیتے ہیں کہ تم قیامت کے دن
اللہ کے سامنے شہداء میں سے ہو پھر آپ لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا اے
لوگوں تم ان کے پاس آیا کرو ان کی زیارت کیا کرو ان کو سلام کیا کرو قسم ہے اس ذات
کی جس کے قبضے میں میری جان ہے قیامت کے دن تک جو بھی انہیں سلام کہے گا یہ اسے
جواب دیں گے ۔ ( کتاب الجہاد لابن المبارک مرسلا )
٭
حضرت محمد بن قیس بن مخرمہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ انصار میں سے ایک شخص
جوحضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کیا کرتے تھے احد کے دن ان کو کسی نے
بتایا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہوچکے ہیں تو انہوں نے کہا میں گواہی
دیتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دین پہنچا دیا چنانچہ اب تم سب [مسلمان ] ان
کے دین کے لیے جہاد کرو پھر وہ تین بار اٹھے اور ہر بار موت کے منہ تک پہنچے اور
بالآخر تیسرے حملے میں شہید ہو گئے جب ان کی اللہ تعالی سے ملاقات ہوئی اور اپنے [
شہداء ] ساتھی بھی ملے تو وہ وہاں کی نعمتیں دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور کہنے لگے اے
ہمارے پروردگار کیا کوئی قاصد نہیں ہے جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہماری
یہ حالت بتا سکے اللہ تعالی نے فرمایا میں تمھارا قاصد ہوں ۔ پھر اللہ تعالی نے
جبرئیل کو حکم دیا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاکر یہ آیات سنائیں
ولاتحسبن سے آخر تک ۔ ( اخرجہ المنذری فی تفسیرہ )
مصنف
رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ان آیات کی شان نزول میں اور بھی کئی صحیح احادیث ہیں جو
ان شاء آگے آئیں گی۔
٭
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے
ایک دن مجھے دیکھا تو فرمایا اے جابر کیا بات ہے تم فکر مند نظر آتے ہو میں نے عرض
کیا اے اللہ کے رسول میرے والد شہید ہو گئے ہیں اور اپنے اوپر قرضہ اور اہل و عیال
چھوڑ گئے ہیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا میں تمھیں نہ بتاؤں کہ
اللہ تعالی نے جب بھی کسی سے بات کی تو پردے کی پیچھے سے کی لیکن تمھارے والد سے
آمنے سامنے بات فرمائی اور کہا مجھ سے جو مانگو میں دوں گا تمھارے والد نے کہا
مجھے دنیا میں واپس بھیج دیجئے تاکہ دوبارہ شہید ہو سکوں ۔ اللہ تعالی نے ارشاد
فرمایا میری طرف سے پہلے ہی فیصلہ ہو چکا ہے کہ کسی کو واپس نہیں جانا تمھارے والد
نے کہا اے میرے پروردگار پیچھے والوں کو ہماری حالت کی اطلاع دے دیجئے اس پر اللہ
تعالی نے یہ آیات نازل فرمائیں : ولا تحسبن الذین سے آخر تک ۔ ( ترمذی۔ ابن ماجہ ۔
المستدرک ) سرکار دوعالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے شہدائے اسلام کی عظمت بیان
کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ’’شہید کے لئے اللہ عزل و جل کے نزدیک چھ خوبیاں ہیں
(۱) خون کا پہلا قطرہ گرتے ہی اسے بخش دیا جاتا ہے اور روح نکلتے ہی اس کو جنت میں
اس کا ٹھکانہ دکھا دیا جاتا ہے (۲) شہید عذاب قبر سے محفوظ رہتا ہے (۳) اسے جہنم
کے عذاب کا خوف نہیں رہتا (۴) اس کے سرپر عزت و وقار کا تاج رکھا جائے گا، جو
دنیاوی یاقوت اور دیگر تمام چیزوں سے بہتر ہوگا (۵) اس کے نکاح میں بڑی بڑی آنکھوں
والی بہتر (۷۲) حوریں دی جائیں گی (۶) شہید کے عزیز و اقارب میں سے ستر (۷۰)
آدمیوں کے لئے اس کی شفاعت قبول کی جائے گی‘‘۔ (ترمذی شریف)
جو
لوگ لڑائی میں قتل کئے جاتے ہیں، حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ان کی تین
قسمیں بیان فرمائی ہیں۔ ان میں سے ایک وہ بندۂ مؤمن ہے، جو اپنی جان اور اپنے مال
سے اللہ کی راہ میں لڑے اور دشمن سے خوب مقابلہ کرے، یہاں تک کہ قتل کردیا جائے
گا۔ یہ وہ شہید ہے، جو صبر اور مشقت کے امتحان میں کامیاب ہوا۔ یہ شہید اللہ تعالی
کے عرش کے نیچے خیمۂ خداوندی میں ہوگا۔ انبیاء کرام اس سے صرف درجۂ نبوت میں
زیادہ ہوں گے۔
مسلمان
کا مقصدِ حقیقی اللہ کی رضا حاصل کرنا ہے اور جس کو اللہ کی رضا حاصل ہو
جائے، اس کا دارین میں بیڑا پار ہے، اللہ کی رضا حاصل کرنے کے ذرائع میں سے ایک
ذریعہ شہادت ہے، احادیث میں اس کے فضائل
بکثرت وارد ہیں، شہادت صرف اسی کا نام
نہیں کہ جہاد میں قتل کیا جائے، بلکہ اس
کے سوا شہادت کی بہت ساری صورتیں ہیں:مثلاً سواری سے گر کر یا مِرگی سے مرا، کسی درندے نے پھاڑ کھایا، وغیرہ
لیکن
میرا موضوع شہادت کے فضائل ہے، اس لئے شہادت کی صورتیں جاننے کے لئے بہارِ شریعت،
جلد 1، حصّہ4 میں شہید کا بیان ملاحظہ فرمائیں۔
شہادت
کے چند فضائل درج ذیل ہیں:
1۔حضرت
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم
نے ارشاد فرمایا:زمین سے شہید کا خون خشک ہونے سے پہلے ہی اس کی دو بیویاں آکر اس
طرح اٹھاتی ہیں، گویا وہ بچوں کی دائیاں ہیں، جنہوں نے اپنے شیر خوار بچے کو کسی جنگل
میں گم کر دیا ہو اور ہر ایک بی بی کے ہاتھ میں ایک ایک جوڑا ہوتا ہے، جو دنیا و مافیہا سے بہتر ہوتا ہے۔(شرح الصدور مترجم، صفحہ 349)
2۔حضرت سیّدنا مقدام بن معدِ کَرب رضی اللہ عنہ سے
روایت ہے کہ شہنشاہِ خوش خصال، پیکرِ حُسن
و جمال، دافعِ رنج و ملال، صاحبِ جودونوال ، رسولِ بے
مثال، بی بی آمنہ کے لال صلی اللہ علیہ
وسلم نے فرمایا:بے شک اللہ عزوجل شہید کوچھ انعام عطا فرماتا ہے:
1۔اس
کے خون کا پہلا قطرہ گرتے ہی اس کی مغفرت فرما دیتا ہے اور جنت میں اسے اس
کا ٹھکانہ دکھادیتا ہے۔
2۔اسے
عذابِ قبر سے محفوظ فرماتا ہے۔
3۔قیامت
کے دن اسے بڑی گھبراہٹ سے امن عطا فرمائے گا۔
4۔اس
کے سر پر وقار کا تاج رکھے گا کہ جس کا
یاقوت دنیا اور اس کی ہر چیز سے بہتر
ہوگا۔
5۔اس
کا حوروں میں بہتّر حوروں کے ساتھ نکاح کرائے گا۔
6۔اس
کی ستّر رشتہ داروں کے حق میں شفاعت قبول فرمائے گا۔(فیضان چہل احادیث، ص26)
3۔حضرت
عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ اللہ عزوجل کے رسول صلی
اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:کہ اللہ تعالی کی راہ میں قتل کیا جانا، قرض کے علاوہ ہر گناہ کو مٹا دیتا ہے۔ (فیضان
چہل احادیث، ص84)
امام
جلال الدین سیوطی علیہ رحمۃ اللہ القوی نے بیان فرمایا: کہ سمندر کے شہید اس سے
مستثنٰی ہیں کہ ان کی شہادت قرض کا بھی کفارہ بن جاتی ہے۔(فیضان چہل احادیث، ص84)
شہادت کے فضائل کو حاصل کرنے کا آسان طریقہ اس کی سچے دل سے تمنا کرنا ہے، جیسا کہ
حدیث پاک ہے:جو شخص اللہ تعالی سے سچے دل سے شہادت طلب کرے تو اللہ تعالی اسے شہید
کا مرتبہ عطا فرما دیتا ہے، اگرچہ وہ اپنے
بستر پر مرے۔(فیضان چہل احادیث، صفحہ 86)
حق
کیلئے حق کی حمایت میں قتل کیا جانا بڑے نصیب کی بات ہے اور ایسے شخص کو شہادت کا
درجہ ملتا ہے البتہ جہاد کے علاوہ بعض اموات کی صورتیں ایسی بھی ہیں جن میں شہادت
کا درجہ مل جاتا ہے.
اللہ
پاک فرماتا ہے:
ترجمہ:
اور جو خدا کی راہ میں مارے جائیں انہیں مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں ہاں تمہیں
خبر نہیں. (۲،البقرہ: ١٥٤)
اس
آیت میں شہداء کو مردہ کہنے سے منع کیا گیا ہے، نہ زبان سے انہیں مردہ کہنے کی
اجازت ہے اور نہ دل میں انہیں مردہ سمجھنے کی اجازت ہے.
شہید
کی تعریف اور احکام
شہید
وہ مسلمان، مکلّف، طاہِر ہے جو تیز ہتھیار سے ظلماً مارا گیا ہو اور اس کے قتل سے
مال بھی واجب نہ ہوا ہو یا معرکۂ جنگ میں مردہ یا زخمی پایا گیا اور اس نے کچھ
آسائش نہ پائی ، اس پر دنیا میں یہ احکام ہیں کہ نہ اس کو غسل دیا جائےنہ کفن، اسے
اس کے کپڑوں میں ہی رکھا جائے،اسی طرح اس پر نماز پڑھی جائےاور اسی حالت میں دفن
کیا جائے۔ (بہارِ شریعت،شہید کا بیان، ۸٦۰/١)
شہادت
کے فضائل
قرآن
و حدیث میں شہادت کے فضائل بکثرت وارد ہیں.
1.
ارشاد
باری تعالی ہے:
ترجمہ
کنز العرفان: اور جو اللہ کی راہ میں شہید کیے گئےہر گز انہیں مردہ خیال نہ کرنا
بلکہ وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں،انہیں رزق دیا جاتا ہے. (آلِ عمرٰن: 169)
موت
کے بعد اللہ تعالی شہداء کو زندگی عطا فرماتا ہے، ان کی ارواح پر رزق پیش کیا جاتا
ہے، انہیں راحتیں دی جاتی ہیں، ان کے عمل جاری رہتے ہیں، ان کا اجر و ثواب بڑھتا
رہتا ہے.
2.
حدیث
شریف میں ہے کہ شہداء کی روحیں سبز پرندوں کے بدن میں جنت کی سیر کرتی اور وہاں کے
میوے اور نعمتیں کھاتی ہیں. (شعب الایمان،السبعون من شعب الایمان، ١١٥/٧، الحدیث:
۹٦۸٦)
3.
حضرت
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: "اہلِ جنت
میں سے ایک شخص کو لایا جائے گا تواللہ تعالی اس سے فرمائے گا: اے ابنِ آدم! تو نے
اپنی منزل و مقام کو کیسا پایا؟ وہ عرض کرے گا: اے میرے رب عزوجل بہت اچھی منزل
ہے. اللہ تعالی فرمائے گا: تو مانگ اور کوئی تمنا کر. وہ عرض کرے گا: میں تجھ سے
اتنا سوال کرتا ہوں کہ تو مجھے دنیا کی طرف لوٹا دے اور میں دس مرتبہ تیری راہ میں
شہید کیا جاؤں. (وہ یہ سوال اس لیے کرے گا) کہ اس نے شہادت کی فضیلت ملاحظہ کرلی
(دیکھ لی) ہوگی. (سنن نسائی، کتاب الجھاد، ما یتمنی اھل الجنۃ، ص ٥١٤، الحدیث:
٣١٥٧)(تفسیر صراط الجنان، جلد اول، ص 282-283)
4.
حضرت
سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسولِ خدا ﷺ کو ارشاد فرماتے
سنا: شہید اپنے گھر والوں میں سے 70 افراد کی شفاعت کرے گا۔(ابوداود، کتاب الجھاد،
باب فی الشھید یشفع، ۲۲/٣، حدیث: ۲٥۲۲)(آخرت کے حالات, ص 439)
شہادت
کی تعریف:
اصطلاح
فقہ میں شہید اس مسلمان ،عاقل و طاہر ،مسلمان کو کہتے ہیں جو بطور ظلم کسی آلہ
جارحہ سے قتل کیا گیا ہو اور نفس قتل سے مال نہ واجب ہوا ہو اور دنیا سے نفع نہ
اٹھایا ہو۔۔
(یعنی اتنا زندہ نہ رہا ہو کہ کچھ کھا پی لیا ہو
یا علاج کیا ہو یا نماز کا ایک پورا وقت ہوش میں گزرا)
حوالہ:بہار
شریعت، جلد اول ،حصہ چہارم، صفحہ نمبر 343
بطور
ظلم قتل کئے جانے کا مطلب یہ ہے کہ بغاوت یا قتل کرنے کی سزا میں قتل نہ کیا گیا
ہو بلکہ ناحق کسی نے مار ڈالا ہو۔
آلہ
جارحہ سے مراد:وہ چیز ہے جس سے قتل کرنے سے قاتل پر قصاص لازم آتا ہے،وہ چیز جو
عضو کو جدا کردے۔حوالہ:قانون شریعت ،صفحہ نمبر 183
قرآن
مجید فرقان حمید کی روشنی میں شہادت کے فضائل
اللہ
عزوجل ارشاد فرماتا ہے
1️⃣ وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ
یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتٌ بَلْ اَحْیَاءٌ وَّ لٰکِنْ لَّا
تَشْعُرُوْنَ۔
ترجمہ
کنز الایمان:اورجو خدا کی راہ میں مارے جائیں انہیں مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں ہاں
تمہیں خبر نہیں۔
حوالہ:
سورہ بقرہ آیت نمبر:154
2️⃣ وَ لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتًا ؕبَلْ اَحْیَآءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ یُرْزَقُوْنَۙ(۱۶۹) فَرِحِیْنَ بِمَاۤ اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖۙ وَ یَسْتَبْشِرُوْنَ بِالَّذِیْنَ لَمْ یَلْحَقُوْا بِهِمْ مِّنْ خَلْفِهِمْۙ اَلَّا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَۘ(۱۷۰) یَسْتَبْشِرُوْنَ بِنِعْمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ فَضْلٍۙ وَّ اَنَّ اللّٰهَ لَا یُضِیْعُ اَجْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ(۱۷۱)
ترجمہ
کنز الایمان:اور جو اللہ کی راہ میں مارے
گئے ہرگز انہیں مردہ نہ خیال کرنا بلکہ وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں روزی پاتے ہیں
شاد ہیں اس پر جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے دیا اور خوشیاں منا رہے ہیں اپنے
پچھلوں کی جو ابھی ان سے نہ ملےکہ ان پر نہ کچھ اندیشہ ہے اور نہ کچھ غم خوشیاں
مناتے ہیں اللہ کی نعمت اور فضل کی اور یہ کہ اللہ ضائع نہیں کرتا اجر مسلمانوں
کا۔
حوالہ:پارہ
نمبر:4، سورہ آل عمران، آیت نمبر:169 تا 171
علماء
کرام نے فرمایا:شہدا کے جسم قبروں میں محفوظ رہتے ہیں۔مٹی انکو نقصان نہیں
پہنچاتی۔صحابہ کرام علیھم الرضوان کے زمانے میں اور اسکے بعد اس بات کا بکثرت
معائنہ ہوا ہے کہ اگر کبھی شہداء کی قبریں کھل گئیں تو انکے جسم تر وتازہ پائے
گئے۔
3️⃣ وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَ فَاُولٰٓىٕكَ مَعَ الَّذِیْنَ
اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیْقِیْنَ وَ
الشُّهَدَآءِ وَ الصّٰلِحِیْنَ ۚوَ حَسُنَ اُولٰٓىٕكَ رَفِیْقًا ؕ(۶۹)
ترجمہ
کنز الایمان ::اور جو اللہ اور اس کے رسول کا
حکم مانے تو اسے ان کا ساتھ ملے گا جن پر اللہ نے فضل کیا یعنی انبیاء اور صدیق
اور شہید اور نیک لوگ اور یہ کیا ہی اچھے ساتھی ہیں۔
حوالہ:پارہ
نمبر:5 سورہ نساء آیت
نمبر:69
علما
نے فرمایا کہ مندرجہ بالا آیت کریمہ میں شہدا سے مراد وہ حضرات ہیں جنہوں نے راہ
خدا میں جانیں دیں۔
مندرجہ
بالا آیات سے شہدا کے فضائل روز روشن کی طرح واضح ہوئے کہ ان پر بروز قیامت خصوصی
عنایت و اکرام ہوگا۔ اور بہت اچھی رفاقت
سے نوازا جائے گا اس کے ساتھ جنت کی بشارتوں سے بھی نوازا گیا۔
احادیث
سے ثابت شہادت کے فضائل
جس
طرح کثیر آیات میں شہادت کے فضائل مفصل طور پر واضح ہوئے دریں اثنا کثیر احادیث
مطہرہ بھی فضائل شہادت پہ دلالت کرتی ہیں ۔
چنانچہ
فرمان
مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہے :
1️⃣ و عن عبداللہ عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ قال:ان رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم قال: یُغْفَرُ
لِشَھِیْدٍ کُلُّ ذَنْبٍ اِلَّا الدَّینِ
حضرت
عبداللہ عمرو بن عاص سے روایت ہے فرماتے ہیں رسول اللہ نے فرمایا : قرض کے علاوہ شہید
کے تمام گناہ محو کردیئے جاتے ہیں۔
حوالہ:جد
الممتار ، 2/ 271
2️⃣ عن جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ قال :قال رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم:مَن مَاتَ لَیلَةَ الجُمعَةِ اَوْ یَومَ الجُمعَةِ اُجِیْرَ مِن
عَذَابِ القَبرِ وَجَاء یَومَ القِیَامَةِ
وَ عَلَيْهِ طَابَعُ الشُهْدَا ء
حضرت
جابر بن عبد اللہ سے روایت ہے فرماتے ہیں رسول اللہ نے فرمایا :جو شخص جمعہ کے دن
یا رات انتقال کرے اس کو عذاب قبر سے محفوظ کر دیا جاتا ہے اور وہ قیامت کے دن اس
حال میں آئے گا کہ اس پر شہدا کی مہر لگی ہوگی۔
حوالہ:
جد الممتار : 1/408
مندرجہ
بالا حدیث سے ثابت ہوا کہ شہادت کی موت عذاب قبر سے حفاظت کا ذریعہ ہے
3️⃣ عن عباده بن صامت رضی اللہ عنہما
قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : اِنَّ لشَھِیْدٍ عِندَ اللہِ سَبْعَ
خِصَالٍ ، اَنْ یُغْفَرَ لَہُ فِی اَوَّلِ دَفْعَةٍ مِن دَمْعِہ وَيَری مَقْعَدَہ
فِی الجَنَّةِ وَ یُحَلّی حُلَّةَ الِایْمَانِ وَ یُزوَّجَ مِنَ الحُورِ العِیْنِ
وَ یُجَارُ مِن عَذَابِ القَبْرِ وَیَامَنَ مِنْ یَوْمِ الفَزَعِ الْاَکْبَرِ
وَیُوْضَعَ عَلی رَاسِہ تَاجُ الوَقَارِ الْیَا قُوْتَةُ مِنْہ خَیْرٌ مِنَ
الدُنْیَا وَمَا فِیْھَا وَ یُزَوَّجَ اِثْنَتَیْنِ وَ سَبْعِینَ زَوْجَةً مِنَ
الحُوْرِ العِینِ وَیُشَفَّعُ فِیْ سَبْعِینَ اِنْسَانًا مِنْ اَقَارِبِہ۔
حضرت
عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ وسلم نے ارشاد فرمایا
: بے شک اللہ کے یہاں شہید کے لئے 7 کرامتیں ہیں ۔ پہلی بار اسکے بدن سے خون نکلتے
ہی اسکی بخشش فرمادی جاتی ہے جنت میں وہ اپنا ٹھکانہ دیکھ لیتا ہے ایمان کے زیور
سے آراستہ کردیا جاتا ہے حوروں سے اسکی شادی کردی جاتی ہے عذاب قبر سے محفوظ رہتا
ہے قیامت کی ہولناکیوں سے مامون رکھا جاتا ہے اسکے سر پر یاقوت کا تاج عزت رکھا
جاتا ہے جو دنیا و ما فیھا سے بہتر ہوتا ہے بَہتَّر حوروں سے شادی کردی جاتی ہے
اسکے اقربا سے ستر شخصوں کے حق میں اسے شفیع بنایا جائے گا۔
حوالہ:
اراءة الادب : صفحہ نمبر 43
اللہ
کریم سے دعا ہے کہ ہمیں بھی شہادت کی موت عطا ہو۔آمین بجاہ طہ و یسین صلی اللہ
علیہ وسلم۔۔
اللہ عزوجل کی راہ میں شہید ہونا جنت میں لے جانے والے اعمال میں سے ایک
بہت اعلیٰ اور اطمینان بخش عمل صالح ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے شہیدوں کے
لیے حیات جاودانی کی بشارت اور جنۃ الفردوس کی خوشخبری دی ہے۔ چنانچہ ارشاد ہوتا
ہے :اور جوخدا کی راہ میں مارے جائیں انہیں مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں ہاں
تمہیں خبر نہیں ۔ (پ2، البقرۃ: 154)
شہید
وہ مسلمان ،مُکَلَّف ،طاہر ہے جو تیز ہتھیار سے ظلماً مارا گیا ہو اور اس کے قتل
سے مال بھی واجب نہ ہوا ہو یا معرکہ جنگ میں مردہ یا زخمی پایا گیا اور اس نے کچھ
آسائش نہ پائی۔ اس پر دنیا میں یہ احکام ہیں کہ نہ اس کو غسل دیا جائے نہ کفن، اسے
اس کے کپڑوں میں ہی رکھا جائے، اسی طرح اس پر نماز پڑھی جائے اور اسی حالت میں دفن
کیا جائے۔(بہار شریعت، شہید کا بیان،۱/۸۶۰)
شہادت
صرف اسی کا نام نہیں کہ جہاد میں قتل کیا جائے بلکہ بعض شہداء وہ ہیں کہ ان پر
دنیا کے یہ احکام تو جاری نہیں ہوتے لیکن آخرت میں ان کے لیے شہادت کا درجہ ہے
جیسے ڈوب کر یا جل کر یا دیوار کے نیچے دب کر مرنے والا،طلب ِعلم اورسفرِحج غرض
راہ خدا میں مرنے والا یہ سب شہید ہیں۔ حدیثوں میں ایسے شہداء کی تعداد چالیس سے
زائد ہے۔
شہید
کی فضیلت میں سے یہ بھی ہے کہ :
۱راہِ
خدا میں شہید ہونے والاقیامت کے دن اس طرح آئے گا کہ ا س کے خون سے مشک کی خوشبو
آ رہی ہو گی۔(بخاری، کتاب الجہاد والسیر، باب من یجرح فی سبیل اللہ عزّ وجلّ،
۲/۲۵۴، الحدیث: ۲۸۰۳۔)
۲شہید ہونے والا شہادت کی فضیلت دیکھ لینے کی
وجہ سے یہ تمنا کرے گا کہ اسے دنیا میں لوٹادیا جائے تاکہ اسے دوبارہ اللہ تعالیٰ
کی راہ میں شہید کیا جائے۔(بخاری، کتاب الجہاد والسیر، باب الحور العین وصفتہنّ۔۔۔
الخ، ۲/۲۵۲، الحدیث: ۲۷۹۵۔)
۳راہِ خدا میں شہید ہونے سے (مخصوص گناہوں کے
علاوہ) تمام گناہ بخش دئیے جاتے ہیں۔
(ترمذی،
کتاب فضائل الجہاد، باب ما جاء فی ثواب الشہید، ۳/۲۴۰، الحدیث: ۱۶۴۸۔)
۴راہِ خدا میں شہید ہونے والے کو غسل نہیں
دیا جاتا جبکہ راہِ خدا میں طبعی موت مرنے والے کو غسل دیا جاتا ہے۔(روح البیان،
الحج، تحت الآیۃ: ۵۹، ۶/۵۲-۵۳، ملخصاً۔)
رسول
اللہ عزوجل وﷺ نے فرمایا ہے کہ شہید کے لیے چھ فضیلتیں حاصل ہیں۔(۱) خون کا پہلا
قطرہ گرتے ہی اس کی مغفرت ہوجاتی ہے۔(۲)بوقتِ شہادت وہ جنت میں اپنی جگہ دیکھ
لیتاہے۔ (۳)عذابِ قبرسے محفوظ رہتاہے۔(۴)قیامت کے دن کی پریشانیوں اور گھبراہٹوں
سے بے خوف ہوجاتاہے۔(۵)اس کے سرپرعزت کاتاج رکھاجاتاہے۔جس کا ایک یا قوت دنیا اور
اس کی تمام کائنات سے زیادہ بہتر اور قیمتی ہوگا اور بہتّربیبیاں اُس کو حوروں میں
سے ملیں گی۔(۶) سترّرشتہ داروں کے حق میں اس کی شفاعت قبول کی جائے گی۔(مشکاۃ
المصابیح،کتاب الجھاد،الفصل الثانی، الحدیث:۳۸۳۶،ج۲،ص۳۱)
ہم
اللہ کریم سےسوال کرتی ہیں کہ ہمیں مدینے میں شہادت کی موت عطا فرمائے۔
دینِ
اسلام میں جان کی قربانی دینا اخلاص کے
درجات میں سب سے بلند درجہ ہے، اُمتِ
مسلمہ کو ہر زمانے میں قربانیوں کی ضرورت پڑی،جن کے
ذریعے ملک و قوم کا دفاع اور مقدس مقامات کی حفاظت کی گئی، یہی وجہ ہے کہ اللہ
تعالی نے شہداء کے لئے ہمیشہ کی زندگی کو
لکھ دیا۔
شہید
کی تعریف:اہل سنت و جماعت کے نزدیک شہید مقتول، اپنی اجل سے فوت ہوتا ہے، شہید وہ ہے جس کو جنگ لڑنے
والوں، باغیوں، ڈاکوؤں یا چوروں نے رات کو (یا دن کو) گھر میں
قتل کر دیا ہو، اگرچہ کسی وزنی چیز سے
مارا ہو یا وہ میدانِ جنگ میں پایا گیا اور اس پر زخم کا نشان ہو یا اسے کسی
مسلمان نے جان بوجھ کر تیز دھار آلہ کے ساتھ قتل کیا ہو۔(نورالایضاح، صفحہ 238)
قرآن
کریم کی روشنی میں شہادت کے فضائل:
اللہ
تعالی فرماتا ہے:
ترجمہ:"اور
جو خدا کی راہ میں مارے جائیں انہیں مردہ نہ کہو،بلکہ وہ زندہ ہیں ہاں تمہیں خبر نہیں۔"
(البقرہ، آیت2/154)
2۔"اور
جو اپنے گھر سے نکلا، اللہ اور رسول کی
طرف ہجرت کرتا پھر اسے موت نے آ لیا تو اس کا ثواب اللہ کے ذمہ پر ہو گیا اور اللہ
بخشنے والا مہربان ہے۔"(النساء،2/100)
3۔"اور
جو اللہ کی راہ میں مارے گئے ہرگز انہیں مردہ خیال نہ کرنا، بلکہ وہ اپنے ربّ کے پاس زندہ ہیں روزی پاتے
ہیں۔"(آل عمران، 3/169)
حدیث
کی روشنی میں شہادت کے فضائل:
1۔رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"جنت میں جانے کے بعد کوئی دنیا میں لوٹنا
اور اس کی اشیاء کو پانا پسند نہیں کرے گا، سوائے شہید کے وہ تمنا کرے گا کہ دنیا کی طرف دس بار لوٹایا جائے، پھر مار دیا جائے،اس اکرام کی وجہ سے جو وہ(
وقتِ شہادت) دیکھتا ہے۔"( سنن ترمذی، کتاب فضائل الجہاد)
2۔ایک
اور جگہ ارشاد فرمایا:"اس ذات کی قسم! جس کے قبضہ قدرت میں محمد کی جان
ہے، میں پسند کرتا ہوں کہ اللہ کی راہ میں
لڑوں اور قتل کر دیا جاؤں، پھر لڑوں اور
پھر قتل کردیاجاؤں۔"
شہید
کے لئے بشارتیں:
1۔فتاوی
شامی میں جن آٹھ لوگوں کا ذکر ہے، جن سے
قبر میں سوال نہیں کیا جائے گا، ان میں
ایک شہید بھی ہے۔
2۔شہداء انبیاء، صدیقین اور صالحین کے ساتھ ہوں گے۔
3۔شہید
عذابِ قبر سے بچایا جائے گا۔
4۔ستّرحوروں
سے اس کی شادی کرائی جائے گی۔
5۔
قیامت کی ہولناکی سے امن میں ہوگا۔
6۔شہید
کی شفاعت اس کے گھر کے 70 افراد کے حق میں
قبول کی جائے گی۔
7۔شہید کے سر پر یاقوت کا تاج رکھا جائے گا۔
8۔شہید
ان نعمتوں میں ہوگا، جنہیں اس نے کبھی نہ
دیکھا ہوگا۔
9۔شہید
ان فرشتوں کے ساتھ ہوگا، جو اللہ تعالی کے
محبوب ہیں۔
10۔فرشتے
اس کے حسنِ خاتمہ کی گواہی دیں گے۔
اس
کے علاوہ بھی شہادت کے دیگر فضائل و مراتب ہیں، شہادت ایمانِ کامل پر سچی دلیل، جنت میں داخلہ اور اللہ تعالی کی رضا پانے کا ذریعہ ہے۔
اللہ
پاک اپنے پیارے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے ہمیں بھی شہادت کے درجے پر فائز
فرمائے۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم
اللہ
تبارک و تعالی نے ہمیں اور آپ کو نماز کا حکم دیا کہ نماز پڑھو، یہ نماز کیا ہے؟ عبادت ہے، ماہِ رمضان آ جائے تو روزے کا حکم دیا، کیونکہ یہ بھی عبادت ہے، اگر انسان صاحبِ استطاعت ہو تو اُسے بیت اللہ
کے حج کا حکم دیا گیا، کیونکہ یہ بھی
عبادت ہے، اسی طرح صاحبِ استطاعت ہونے پر
زکوٰۃ کا حکم دیا گیا، کیونکہ یہ بھی
عبادت، یوں سمجھئے کہ نماز عبادت ہے، روزہ عبادت، زکوۃ اور حج بھی عبادت ہیں، لیکن شہادت پر غور کریں تو شہادت عبادت بھی ہے
اور عبودیت بھی، شہادت میں اللہ تبارک و
تعالی نے دو خوبیاں رکھی ہیں، اب ہم جانتے
ہیں شہید کسے کہتے ہیں؟
شہید
وہ ہے جس کو جنگ لڑنے والوں، باغیوں، ڈاکوؤں اور چوروں نے قتل کر دیا، اگرچہ کسی
وزنی چیز سے مارا ہو یا وہ میدانِ جنگ میں پایا گیا ہو یا اسے کسی مسلمان نے جان
بوجھ کر کسی تیز دھار آلے سے قتل کیا ہو۔(نورالایضاح، شہید کے احکام)
اسی
طرح اللہ تبارک و تعالی نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا:
ترجمہ:"اور
جو اپنے گھر سے نکلا اللہ اور رسول کی طرف
ہجرت کرتا پھر اسے موت نے آ لیا تو اس کا ثواب اللہ کے ذمہ پر ہوگیا اور اللہ
بخشنے والا مہربان ہے۔"(سورۃ النساء، آیت نمبر 100) اسی طرح اور احادیث مبارکہ میں بھی اس کا ذکر کیا گیا ہے:
حضرت
عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد
فرمایا:"بے شک شہید کے لئے چھ انعامات ہیں:
٭اس
کے بدن سے خون نکلتے ہی اس کی بخشش کر دی جاتی ہے۔
٭جنت
میں وہ اپنا ٹھکانہ دیکھ لیتا ہے اور اسے ایمان کے زیور سے آراستہ کر دیا جاتا ہے۔
٭حوروں
سے اس کا نکاح کرا دیا جاتا ہے۔
٭عذابِ
قبر سے محفوظ رہتا ہے، قیامت کی ہولناکی
سے مامون رکھا جاتا ہے۔
٭اس
کے سر پر یاقوت کا تاجِ عزت پہنایا جاتا
ہے، جو دنیا و مافیہا سے بہتر ہوتا ہے۔
٭72
حوروں سے نکاح کرا دیا جاتا ہے۔
٭اور
یہ کہ اس کے اقرباء سے بہتّر کے حق میں اسے شفیع بنایا جائے گا۔(بحوالہ سنن ترمذی، کتاب فضائل الجہاد، باب فی ثواب
شہید برقم، 1443/4، 544)
اسی
طرح ایک اور مقام پر ارشاد ہوا ہے:
شہداء
زندہ ہیں، ان کی حیات عقل نہیں، بلکہ وحی سے جانی جاتی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد
فرمایا:جنت میں جانے کے بعد کوئی دنیا میں لوٹنا اور اس کی اشیاء کو پانا پسند نہیں کرے گا، سوائے شہید کے، وہ تمنا کرے گا کہ دنیا میں دس بار لوٹایا
جائے، پھر مار دیا جائے، اس اکرام کی وجہ سے جو وہ وقتِ شہادت دیکھتا
ہے۔( بحوالہ ابواب السعادۃ فی اسباب
الشہادۃ، ص18) پس اللہ تبارک و تعالی ہم
سب کو شہادت کی عظمت پہچاننے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
دنیا
کی بے شمار نعمتوں سے انسان لطف اندوز
ہوتا ہے، کسی نعمت کو کھاتا
ہے، کسی کو پیتا ہے، کسی کو سونگھتا ہے، کسی کو دیکھتا ہے اور ان کے علاوہ مختلف طریقوں
سے تمام نعمتوں کا استعمال کرتا ہے اور ان سے مسرور ومحفوظ ہوتا ہے، لیکن مردِ مؤمن کو شہادت سے جو لذّت حاصل ہوتی ہے، اس کے مقابل دنیا کی ساری لذّتیں ہیچ ہیں، یہاں
تک کہ شہید جنت کی تمام نعمتوں سے فائدہ اٹھائے گا اور ان سے لُطف اندوز ہو
گا، مگر جب اس کو اللہ عزوجل اور رسول صلی
اللہ علیہ وسلم کی محبت میں سر کٹانے کا مزہ یاد آئے گا تو وہ جنت کی ساری نعمتیں
اور ان کا مزہ بھول جائے گا اور تمنا کرے گا کہ اے کاش !میں دنیا میں واپس کیا
جاؤں اور بار بار شہید کیا جاؤں۔
حدیث
شریف میں ہے کہ سرکار اقدس صلی اللہ وعلیہ وسلم نے اِرشاد فرمایا:کہ جنت میں داخل
ہونے کے بعد پھر کوئی جنتی وہاں کی راحتوں اور نعمتوں کو چھوڑ کر دنیا میں آنا
پسند نہ کرے گا، مگر شہید آرزو کرے گا کہ
وہ پھر دنیا کی طرف واپس ہو کر اللہ عزوجل کی راہ میں دس مرتبہ قتل کیا
جائے۔(بخاری، مسلم شریف، مشکوۃ شریف، صفحہ 330)
خدائے
عزوجل شہدائے کرام کی فضیلت بیان کرتے ہوئے قرآن مجید فرقان حمید میں ارشاد فرماتا
ہے: وَ لَا
تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتٌ ؕ بَلْ اَحْیَآءٌ
وَّ لٰكِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ۔
ترجمہ
کنزالعرفان:"اور جو اللہ کی راہ میں مارے جائیں انہیں مردہ نہ کہو بلکہ وہ
زندہ ہیں لیکن تمہیں اس کا شعور
نہیں۔"(سورہ بقرہ، آیت154)
اس
آیت میں شہداء کو مردہ کہنے سے منع فرمایا
گیا، نہ زبان سے مردہ کہنے کی اجازت
ہے، جیسا کہ ایک اور مقام پر اللہ عزوجل
نے حکم ارشاد فرمایا:وَ لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا
فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتًا ؕ بَلْ اَحْیَآءٌ
عِنْدَ رَبِّهِمْ یُرْزَقُوْنَۙ۔
ترجمہ
کنزالعرفان:"اور اللہ کی راہ میں شہید کئے گئے ہرگز انہیں مردہ خیال نہ کرنا بلکہ وہ اپنے ربّ
کے پاس زندہ ہیں، انہیں رزق دیا جاتا
ہے۔"(آل عمران، آیت169)
شہداء
کو موت کے بعد ربّ عزوجل زندگی عطا فرماتا ہے، ان کی ارواح پر رزق پیش کیا جاتا
ہے، انہیں راحتیں دی جاتی ہیں، ان کے عمل جاری رہتے ہیں، ان کا اجر وثواب بڑھتا رہتا ہے۔ سبحان اللہ
عزوجل
حدیث شریف میں ہے کہ شہداء کی روحیں سبز پرندوں
کے بدن میں جنت کی سیر کرتیں اور وہاں کے میوے اور نعمتیں کھاتی ہیں۔(شعب الایمان،السبعون
من شعب الایمان،7/115،الحدیث 9686)
حضرت
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد
فرمایا:اہلِ جنت میں سے ایک شخص کو لایا جائے گا تو اللہ تعالی اس سے فرمائے
گا، اے ابنِ آدم!تو نے اپنی منزل و مقام
کو کیسا پایا؟ وہ عرض کرے گا:اے میرے ربّ عزوجل!بہت اچھی منزل ہے، اللہ تعالی
فرمائے گا، تو مانگ اور کوئی تمنّا کر، وہ عرض کرے گا:میں تجھ سے اتنا سوال کرتا ہوں کہ تو مجھے دنیا کی طرف لوٹا دے اور میں دس مرتبہ
تیری راہ میں شہید کیا جاؤں، (وہ یہ سوال
اس لئے کرے گا)کہ اس نے شہادت کی فضیلت ملاحظہ کر لی ہوگی۔(سنن نسائی، کتاب الجھاد، مایمتنی اہل الجنۃ، صفحہ 54، الحدیث 3157)
شہادت آخری منزل ہے انسانی
سعادت کی
وہ خوش قسمت ہیں جنہیں مل جائے
دولت شہادت کی
شہادت پاکے ہستی زندہ جاوید
ہوتی ہے
یہ رنگین شام صبحِ عید کی تمہید
ہوتی ہے
سرکارِ
اقدس صلی اللہ علیہ وسلم شہدائے اِسلام کی عظمت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں
کہ شہید کے لئے خدائے تعالی کے نزدیک چھ خوبیاں ہیں:
1۔خون
کا پہلا قطرہ گرتے ہی اسے بخش دیا جاتا ہے اور وہ نکلتے وقت ہی اس کو جنت میں اس
کا ٹھکانہ دکھادیا جاتا ہے۔
2۔قبر
کے عذاب سے محفوظ رہتا ہے۔
3۔اسے
جہنم کے عذاب کا خوف نہیں رہتا۔
4۔اس
کے سر پر عزت و وقار کا ایسا تاج رکھا جائے گا کہ جس کا بیش بہا یاقوت دنیا اور
دنیا کی تمام چیزوں سے بہتر ہوگا۔
5۔اس
کے نکاح میں بڑی بڑی آنکھوں والی بہتّر حوریں دی جائیں گی۔
6۔اور
اس کے عزیزوں میں سے ستّر آدمیوں کے لئے اس کی شفاعت قبول کی جائے گی۔(ترمذی، مشکوۃ، صفحہ 333)
اسلام
کی نشر و اشاعت اور اس کی بقا کے لئے بے شمار شہداء نے شہادت کا جام نوش کیا، مگر ان تمام شہداء میں سیّد الشہداء حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت بے مثل
ہے کہ آپ جیسی مصیبتیں کسی دوسرے شہید نے نہیں اُٹھائیں، تین دن کے بھوکے پیاسے اس حال میں کہ آپ کے رفقاء عزیز و اقارب و اہل و عیال
اور چھوٹے بچے پانی کے لئے تڑپ رہے تھے، جب کہ پانی موجود تھا، یہاں تک کہ
جانور بھی اس سے سیراب ہو رہے تھے۔ اللہ! اللہ!
اللہ
کریم ہمیں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اور تمام شہدائے اِسلام کا صدقہ عطا
فرمائے، ہمیں بھی راہِ خدا اور عشقِ مصطفی
صلی اللہ علیہ وسلم میں شہادت والی موت نصیب فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین صلی
اللہ علیہ وسلم
موت
کے بعد اللہ تعالی شہداء کو زندگی عطا فرماتا ہے،
ان کی ارواح پر رزق پیش کیا جاتا
ہے، انہیں راحتیں دی جاتی ہیں، ان کے عمل جاری رہتے ہیں، ان کا اجر و ثواب بڑھتا رہتا ہے اور شہداء کی
روحیں سبز پرندوں کے بدن میں جنت کی سیر کرتیں اور وہاں کے میوے اور نعمتیں کھاتی
ہیں۔ (صراط الجنان، جلد 1، صفحہ 262،
مطبوعہ مکتبہ المدینہ)
شہید
کی تعریف:
اللہ
کی راہ میں لڑتے ہوئے جان دینے کو شہادتِ حقیقیہ سے موسوم کیا جاتا ہے، جبکہ اس کے علاوہ شہادت کو حکمیہ کہتے ہیں۔(مرقاۃ المفاتیح، 4/39 تحت الحدیث:1561 ماخوذاً)
قرآن
و حدیث دونوں میں شہادت کے فضائل وارد ہوئے ہیں، جن میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں:
1۔شہداء کا مرتبہ:
سب
سے بلند مرتبہ انبیاء کرام علیہم السلام کا، پھر صدیقین کا اور پھر شہداء کا ہے، قرآن مجید میں اِرشادِ باری تعالٰی ہے:
وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَ فَاُولٰٓىٕكَ
مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ
الصِّدِّیْقِیْنَ وَ الشُّهَدَآءِ وَ الصّٰلِحِیْنَ ۚوَ حَسُنَ اُولٰٓىٕكَ
رَفِیْقًا ؕ(۶۹)۔
"اور
جو اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانے تو اُسے ان کا ساتھ ملے گا جن پر اللہ نے فضل
کیا یعنی انبیاء اور صدیق اور شہید اور نیک لوگ اور یہ کیا ہی اچھے ساتھی ہیں۔(پ5،
النساء:69، صراط الجنان، جلد 2، صفحہ 271، مطبوعہ مکتبہ المدینہ)
2۔شہداء
کا اپنے ربّ کے پاس زندہ ہونا:
وَ لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتًا ؕ بَلْ اَحْیَآءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ یُرْزَقُوْنَۙ(۱۶۹)۔
ترجمہ
کنزالعرفان:"اور جو اللہ کی راہ میں شہید کئے گئے ہرگز انہیں مردہ خیال نہ
کرنا بلکہ وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں روزی پاتے ہیں۔ "(آل عمران، آیت169)
3۔شہید
کو ملنے والے چھ انعام:
رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"بے شک اللہ عزوجل شہید کو چھ انعام عطا
فرماتا ہے۔"
٭اس
کے خون کا پہلا قطرہ گرتے ہی اس کی مغفرت فرما دیتا ہے اور جنت میں اسے اس کا
ٹھکانہ دکھا دیتا ہے۔
٭اسے
عذابِ قبر سے محفوظ رکھتا ہے۔
٭قیامت
کے دن اسے بڑی گھبراہٹ سےامن عطا فرمائے گا۔
٭اس
کے سر پر وقار کا تاج رکھے گا جس کا یاقوت دنیا اور اس کی ہر چیز سے بہتر ہوگا۔
٭اس
کا حوروں میں سے بہتّر حوروں کے ساتھ نکاح فرمائے گا۔
٭اس
کی ستّررشتہ داروں کے حق میں شفاعت قبول فرمائے گا۔(ابنِ ماجہ، کتاب الجہاد، باب فضل الشہادۃ فی سبیل اللہ، الحدیث2799، جلد 3، صفحہ 360، فیضان چہل احادیث، صفحہ 26، مطبوعہ مکتبہ المدینہ پبلشر المدینہ العلمیہ)
4۔شہداء
کا گھر:
نبی
مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ گزشتہ رات میں نے دیکھا کہ دو شخص میرے پاس
آئے اور مجھے ساتھ لے کر ایک درخت کے اوپر چڑھ گئے اور مجھے ایک بہت خوبصورت اور
فضیلت والے گھر میں داخل کر دیا، میں نے
اس جیسا گھر کبھی نہیں دیکھا تھا، پھر
انہوں نے مجھ سے کہا کہ "یہ شہداء کا
گھر ہے ۔"(بخاری، کتاب الجہاد، باب درجات المجاہد ین فی سبیل اللہ، جلد 2، صفحہ 2791، فیضان ریاض
الصالحین، جلد 1، صفحہ 214)
5۔دوبارہ
شہید ہونے کی تمنا:
شہید
ہونے والا شہادت کی فضیلت دیکھ لینے کی وجہ سے یہ تمنا کرے گا کہ اسے دوبارہ دنیا
میں لوٹا دیا جائے، تاکہ اسے دوبارہ اللہ
کی راہ میں شہید کیا جائے۔(بخاری، کتاب
الجہاد والسیر، باب حورالعین وا مفتھن۔۔
الخ، صراط الجنان، جلد 6، صفحہ ، مطبوعہ مکتبہ المدینہ)
اس
دنیائے فانی میں آنے والے ہر جاندار کو
موت کا ذائقہ چکھنا ہی ہے، لیکن جس مسلمان کی موت شہادت کی صورت میں ہو، اس کی شان ہی نرالی ہوتی ہے۔
قضا حق ہے مگر اس شوق کا اللہ
والی ہے
جو ان کی راہ میں جائے وہ جان
اللہ والی ہے
قرآن
کریم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:وَ لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتًا ؕ بَلْ اَحْیَآءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ یُرْزَقُوْنَۙ(۱۶۹)۔
ترجمہ
کنزالعرفان:"اور جو اللہ کی راہ میں شہید کئے گئے ہرگز انہیں مردہ خیال نہ کرنا بلکہ وہ
اپنے ربّ کے پاس زندہ ہیں، انہیں رزق دیا جاتا ہے۔
تفسیر
صراط الجنان: وَ لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتًا ؕ(اور جو اللہ
کی راہ میں شہید کئے گئے، ہرگز انہیں مردہ خیال نہ کرنا)
شانِ
نزول:
اکثر
مفسرین کا قول ہے کہ یہ آیت شہدائے اُحد
کے حق میں نازل ہوئی، حضرت عبداللہ بن
عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جب
تمہارے بھائی اُحد میں شہید ہوئے تو اللہ تعالی نے ان کی اَرواح کو سبز پرندوں کے
جسم عطا فرمائے اور جنتی نہروں پر سیر کرتے پھرتے ہیں، جنتی میوے کھاتے ہیں، سونے کی اُن قندیلوں میں رہتے ہیں، جو عرش کے نیچے لٹک رہی ہیں، جب ان شہدائے کرام نے کھانے، پینے اور رہنے کے پاکیزہ عیش پائے تو کہا کہ
پیچھے دنیا میں رہ جانے والے ہمارے بھائیوں کو کون خبر دے کہ ہم جنت میں زندہ
ہیں، تاکہ وہ جہاد سے بے رغبتی نہ کریں
اور جنگ سے بیٹھے نہ رہیں، اللہ تعالی نے
فرمایا:میں انہیں تمہاری خبر پہنچاؤں گا، پس یہ آیت نازل فرمائی۔(ابو داؤد، کتاب الجہاد، باب فی فضل الشہادۃ،
3/22، الحدیث2520)
شہداء
کی شان:اس سے ثابت ہوا کہ اَرواح باقی ہیں، جسم کے فنا ہونے کے ساتھ
فنا نہیں ہوتیں، یہاں آیت میں شہداء کی شانیں بیان ہوئی ہیں، فرمایا:کہ وہ کامل زندگی والے ہیں، وہ اللہ عزوجل کے پاس ہیں، انہیں ربّ کریم کی طرف سے روزی ملتی رہتی ہے، وہ بہت خوش باش ہیں، شہداءِ کرام زندوں کی طرح کھاتے پیتے اور عیش کرتے ہیں، آیتِ مبارکہ اس پر دلالت
کرتی ہے کہ شہیدوں کے روح اور جسم دونوں زندہ ہیں، علماء نے فرمایا: کہ شہداء کے جسم قبروں میں محفوظ رہتے ہیں، مٹی ان کو نقصان نہیں پہنچاتی اور صحابہ رضی اللہ
عنہم کے زمانے میں اور اس کے بعد اس بات کا بکثرت معائنہ ہوا ہے کہ اگر کبھی شہداء کی قبریں کھل گئیں تو ان کے جسم تروتازہ پائے
گئے۔(خازن، آلِ عمران، تحت الآیۃ 169، 1/323)
سبحان
اللہ عزوجل!راہِ خدا میں شہید ہونے والوں کے فضائل کے بھی کیا کہنے!ان پر اللہ پاک
کس قدر انعام و اکرام فرماتا ہے، بلکہ محض
صدقِ دل سے شہادت کا سوال کرنے پر بھی ربُّ العزت کیسی رحمت فرماتا ہے، اس کا اندازہ اس حدیث پاک سے لگائیے:
رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"جو سچے دل سے اللہ سے شہادت مانگے تو
اللہ اسے شہیدوں کے درجوں پر پہنچا دے گا
، اگرچہ وہ اپنے بستر پر مرے۔"(مرآۃ المناجیح، جلد 5، جہاد کا بیان)
اللہ
کریم ہمیں مدینہ منورہ میں جلوہ محبوب صلی اللہ علیہ وسلم میں ایمان و عافیت کے
ساتھ شہادت کی موت نصیب فرمائے۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم
شہادت
اللہ عزوجل کے قُرب کی منزلوں میں سے ایک عظیم منزل ہے، جو فقط خوش نصیبوں کو عطا ہوتی ہے، اس آیت مبارکہ سے شہداء کی عظمت کا پتہ چلتا
ہے:
ترجمہ
کنزالایمان:"اور جو اللہ کی راہ میں مارے گئے ہرگز انہیں مردہ نہ خیال کرنا بلکہ وہ اپنے ربّ
کے پاس زندہ ہیں روزی پاتے ہیں۔"(آل
عمران:169)تفسیر صاوی میں اس آیت کے تحت ہے:شہداء کی یہ زندگی دنیا کی زندگی کی
طرح نہیں ہے، بلکہ دنیاوی زندگی سے اعلیٰ
و ارفع ہے، کیونکہ جہاں ان کی روحیں چاہتی
ہیں، سیر کے لئے جاتے ہیں۔" (تفسیر
صاوی، جلد 1، صفحہ 252، مکتبہ DKI
بیروت)
شہید
کو شہید کہنے کی وجہ:
٭اس
کی موت کے وقت مخصوص ملائکہ رحمت حاضر ہوتے ہیں۔
٭یا
اس وجہ سے کہ اس کے لئے جنت کی گواہی دی جاتی ہے۔
٭یا
اس لئے کہ یہ زندہ ہے اور بارگاہِ قُدس میں حاضر ہے۔(نُزھۃ القاری، جلد 2، صفحہ 274، فرید بک سٹال، ملتقطاً)
شہداء
کے فضائل میں وارد ہونے والے فرامینِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم:
1۔حضور
اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے شہدائے اُحد کے لئے فرمایا:اللہ پاک نے ان کی روحوں کو
سبز پرندوں کے جسم عطا فرمائے، وہ جنتی
نہروں پر سیر کرتے پھرتے ہیں، جنتی میوے
کھاتے ہیں، سونے کی اُن قندیلوں میں رہتے ہیں، جو عرش کے نیچے لٹک رہی ہیں۔"(تفسیر صراط الجنان، جلد 2، صفحہ 21، ملتقطاً)
شہداء
کی روحوں کو پرندوں کے جسم میں اس طرح رکھا گیا، جیسے موتی اور جواہرات صندوقوں میں رکھے جاتے ہیں اور یہ انہیں جنت میں
لانے کے لئے تعظیم و اعزاز کا ایک طریقہ ہے۔"(اشعۃ اللمعات، جلد 5، جہاد کا بیان، فصل 1، صفحہ 89، مترجم)
2۔کوئی
شخص اللہ عزوجل کی راہ میں زخمی نہیں کیا جائے گا اور اللہ عزوجل بہتر جانتا ہے کہ
کون اس کے راستے میں زخمی کیا گیا، مگر وہ
قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کا زخم خُون اُگل رہا ہوگا، جس کا رنگ خون جیسا اور خوشبو کستوری جیسی ہو
گی۔"(مشکوۃ المصابیح، کتاب الجہاد، حدیث3626)
3۔جنت
میں جانے والا کوئی شخص اس بات کو پسند نہیں کرے گا کہ وہ دنیا میں واپس چلا جائے
اور زمین کی تمام چیزیں اس کی ہوں، سوائے
شہید کے، وہ دنیا کی طرف واپسی اور دس
مرتبہ قتل کئے جانے کی آرزو کرے گا، اس
عزت و ثواب کی بنا پر جسے وہ دیکھے گا۔"( مشکوۃ المصابیح، کتاب الجہاد، حدیث3627)
4۔اللہ
کی راہ میں قتل کیا جانا ، قرض کے علاوہ ہر چیز کا کفارہ بن جاتا ہے۔(مشکوۃ المصابیح، کتاب الجہاد، حدیث3630)
5۔جو
شخص اس حال میں مر گیا کہ نہ تو اس نے جہاد کیا اور نہ ہی اس کے بارے میں اپنے دل
میں سوچا، وہ منافقت کی ایک قسم پر مرے
گا۔(مشکوۃ المصابیح، کتاب الجہاد، حدیث3637)
6۔شہید، قتل کی اتنی ہی تکلیف پاتا ہے، جتنی کہ تم میں سے ایک شخص چیونٹی کے کاٹنے کی
محسوس کرتا ہے۔(مشکوۃ المصابیح، کتاب الجہاد، حدیث3658)
شہید کے لئے اللہ تعالی کے پاس چھ فضیلتیں ہیں:
1۔
اسے پہلی دفعہ میں ہی بخش دیا جاتا ہے ، اسے جنت میں اس کا مقام دکھادیا جاتا ہے۔2۔اسے عذابِ قبر سے پناہ دی جاتی
ہے۔3۔بڑے خوف سے پناہ میں رہتا ہے۔4۔اس کے
سر پر عزت کا ایسا تاج رکھا جائے گا کہ اس
کا ایک یاقوت دنیا وما فیھا(دنیا اور جو اس میں ہے)سے بہتر ہے۔5۔بہتّر جنتی حوروں سے اس کا نکاح کیا جائے گا۔6۔اس کے
ستّر رشتہ داروں میں اس کی سفارش قبول ہوگی۔(مشکوۃ المصابیح،کتاب الجہاد،حدیث 3656) اللہ عزوجل سے
دعا ہے کہ ہمیں زیرِ گنبدِ خضریٰ شہادت عطا فرمائے اور جنت البقیع میں مدفن عطا
فرمائے۔آمین
مرا یہ خواب ہو جائے شہا شرمندہ
تعبیر
مدینے میں پیوں جامِ شہادت یا رسول اللہ
(وسائلِ بخشش، صفحہ 329، مرمم)
شہید کی تعریف: شہید اس مسلمان عاقل بالغ طاہر کو کہتے ہیں جو بطور ظلم کسی
آلۂ جارحہ سے قتل کیا گیا اور نفس قتل سے مال نہ واجب ہوا ہو اوردنیا سے نفع نہ
اٹھایا ہو۔ شہید کا حکم یہ ہے کہ غسل نہ دیا جائے، ویسے ہی خون سمیت دفن کر دیا
جائے۔ (بہار شریعت، 1/860ملخصاً)
کارخانۂ قدرت کی طرف
سے ہمیں جو معلِّم باکمال بی بی آمنہ کے لعل صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم عطا کئے گئے ہیں وہ اپنے امتیوں کو طرح طرح کی
فضیلتیں اور برکتیں پانے کے مواقع عطا
فرماتے ہیں جن میں سے ایک موقع شہادت کا بھی ہے۔ چنانچہ شہادت کے فضائل پر کچھ
روشنی ڈالی جاتی ہے:
(1)حضرت انس رضی اللہُ
عنہ سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: ایسا کوئی نہیں جو جنّت میں داخل کیا
جائے پھر وہ دنیا میں لوٹنا پسند کرے اگرچہ دنیا کی ہر چیز اسے ملے، سوائے شہید کے
کہ وہ آرزو کرتا ہے کہ دنیا میں لوٹایا جائے اور پھر اسے دسبار شہید کیا جائے کیونکہ
وہ شہید کی فضیلت دیکھ چکا ہے۔ (بخاری، 2/259، حدیث:2817)
حکیمُ الاُمّت مفتی احمد یار خان
نعیمی رحمۃُ اللہِ علیہ اس حدیثِ پاک
کے تحت فرماتے ہیں کہ شہید تمنّا کرے گا کہ پھر مجھے دنیا میں بھیج کر شہادت کا
موقع دیا جائے، جو مزہ راہِ خدا میں سر کٹانے میں آیا وہ کسی چیز میں نہ آیا۔(مراٰۃ
المناجیح، 5/418)
(2)پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : اللہ پاک کی بارگاہ
میں شہید کے لئے چھ خصلتیں ہیں، خون کا پہلا قطرہ گرتے ہی ا س کی بخشش ہو
جاتی ہے۔ جنت میں اپنا ٹھکانہ دیکھ لیتا
ہے۔ قبر کے عذاب سے محفوظ رہتا ہے۔ سب سے بڑی گھبراہٹ سے امن میں رہے گا۔ اس کے سر پر عزت و وقار کا تاج رکھا
جائے گا جس کا ایک یاقوت دنیا و مافیہا سے بہتر ہو گا۔ بڑی آنکھوں والی 72 حوریں ا س کے نکاح میں دی جائیں گی اور ا س کے ستر رشتہ داروں کے حق میں ا س کی شفاعت قبول کی جائے گی۔ (ترمذی، 3/250،حدیث:1669)
(3)
عام مردوں کی روح ملک الموت قبض کرتے ہیں اور شہیدوں کی روح خود رب تعالیٰ براہِ
راست قبض فرماتا ہے۔ (مراٰۃ المناجیح،5/409)
(4)
شہداء کی روحیں سبز پرندوں کے بدن میں جنّت میں سیر کرتی اور وہاں کے میوے اور
نعمتیں کھاتی ہیں۔(شعب الایمان،7/115،حدیث:9686)
(5)
اگر حضراتِ انبیاء نبی نہ ہوتے تو شہداء ان کے برابر ہو جاتے مگر چونکہ وہ حضرات
نبی ہیں اس وجہ سے وہ ان شہیدوں سے اعلی و افضل ہیں۔ (مراٰۃ المناجیح،5/463)
اللہ
عزوجل سے دعا ہے کہ ہمیں سبز گنبد کے سائے میں شہادت کی موت عطا فرمائے۔اٰمین