اللہ تبارک و تعالی نے ہمیں اور آپ کو نماز کا حکم دیا کہ نماز پڑھو،  یہ نماز کیا ہے؟ عبادت ہے، ماہِ رمضان آ جائے تو روزے کا حکم دیا، کیونکہ یہ بھی عبادت ہے، اگر انسان صاحبِ استطاعت ہو تو اُسے بیت اللہ کے حج کا حکم دیا گیا، کیونکہ یہ بھی عبادت ہے، اسی طرح صاحبِ استطاعت ہونے پر زکوٰۃ کا حکم دیا گیا، کیونکہ یہ بھی عبادت، یوں سمجھئے کہ نماز عبادت ہے، روزہ عبادت، زکوۃ اور حج بھی عبادت ہیں، لیکن شہادت پر غور کریں تو شہادت عبادت بھی ہے اور عبودیت بھی، شہادت میں اللہ تبارک و تعالی نے دو خوبیاں رکھی ہیں، اب ہم جانتے ہیں شہید کسے کہتے ہیں؟

شہید وہ ہے جس کو جنگ لڑنے والوں، باغیوں، ڈاکوؤں اور چوروں نے قتل کر دیا، اگرچہ کسی وزنی چیز سے مارا ہو یا وہ میدانِ جنگ میں پایا گیا ہو یا اسے کسی مسلمان نے جان بوجھ کر کسی تیز دھار آلے سے قتل کیا ہو۔(نورالایضاح، شہید کے احکام)

اسی طرح اللہ تبارک و تعالی نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا:

ترجمہ:"اور جو اپنے گھر سے نکلا اللہ اور رسول کی طرف ہجرت کرتا پھر اسے موت نے آ لیا تو اس کا ثواب اللہ کے ذمہ پر ہوگیا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔"(سورۃ النساء، آیت نمبر 100) اسی طرح اور احادیث مبارکہ میں بھی اس کا ذکر کیا گیا ہے:

حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"بے شک شہید کے لئے چھ انعامات ہیں:

٭اس کے بدن سے خون نکلتے ہی اس کی بخشش کر دی جاتی ہے۔

٭جنت میں وہ اپنا ٹھکانہ دیکھ لیتا ہے اور اسے ایمان کے زیور سے آراستہ کر دیا جاتا ہے۔

٭حوروں سے اس کا نکاح کرا دیا جاتا ہے۔

٭عذابِ قبر سے محفوظ رہتا ہے، قیامت کی ہولناکی سے مامون رکھا جاتا ہے۔

٭اس کے سر پر یاقوت کا تاجِ عزت پہنایا جاتا ہے، جو دنیا و مافیہا سے بہتر ہوتا ہے۔

٭72 حوروں سے نکاح کرا دیا جاتا ہے۔

٭اور یہ کہ اس کے اقرباء سے بہتّر کے حق میں اسے شفیع بنایا جائے گا۔(بحوالہ سنن ترمذی، کتاب فضائل الجہاد، باب فی ثواب شہید برقم، 1443/4، 544)

اسی طرح ایک اور مقام پر ارشاد ہوا ہے:

شہداء زندہ ہیں، ان کی حیات عقل نہیں، بلکہ وحی سے جانی جاتی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جنت میں جانے کے بعد کوئی دنیا میں لوٹنا اور اس کی اشیاء کو پانا پسند نہیں کرے گا، سوائے شہید کے، وہ تمنا کرے گا کہ دنیا میں دس بار لوٹایا جائے، پھر مار دیا جائے، اس اکرام کی وجہ سے جو وہ وقتِ شہادت دیکھتا ہے۔( بحوالہ ابواب السعادۃ فی اسباب الشہادۃ، ص18) پس اللہ تبارک و تعالی ہم سب کو شہادت کی عظمت پہچاننے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین