شہادت کی تعریف:

اصطلاح فقہ میں شہید اس مسلمان ،عاقل و طاہر ،مسلمان کو کہتے ہیں جو بطور ظلم کسی آلہ جارحہ سے قتل کیا گیا ہو اور نفس قتل سے مال نہ واجب ہوا ہو اور دنیا سے نفع نہ اٹھایا ہو۔۔

(یعنی اتنا زندہ نہ رہا ہو کہ کچھ کھا پی لیا ہو یا علاج کیا ہو یا نماز کا ایک پورا وقت ہوش میں گزرا)

حوالہ:بہار شریعت، جلد اول ،حصہ چہارم، صفحہ نمبر 343

بطور ظلم قتل کئے جانے کا مطلب یہ ہے کہ بغاوت یا قتل کرنے کی سزا میں قتل نہ کیا گیا ہو بلکہ ناحق کسی نے مار ڈالا ہو۔

آلہ جارحہ سے مراد:وہ چیز ہے جس سے قتل کرنے سے قاتل پر قصاص لازم آتا ہے،وہ چیز جو عضو کو جدا کردے۔حوالہ:قانون شریعت ،صفحہ نمبر 183

قرآن مجید فرقان حمید کی روشنی میں شہادت کے فضائل

اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے

1️ وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتٌ بَلْ اَحْیَاءٌ وَّ لٰکِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ۔

ترجمہ کنز الایمان:اورجو خدا کی راہ میں مارے جائیں انہیں مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں ہاں تمہیں خبر نہیں۔

حوالہ: سورہ بقرہ آیت نمبر:154

2️ وَ لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتًا ؕبَلْ اَحْیَآءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ یُرْزَقُوْنَۙ(۱۶۹) فَرِحِیْنَ بِمَاۤ اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖۙ وَ یَسْتَبْشِرُوْنَ بِالَّذِیْنَ لَمْ یَلْحَقُوْا بِهِمْ مِّنْ خَلْفِهِمْۙ اَلَّا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَۘ(۱۷۰) یَسْتَبْشِرُوْنَ بِنِعْمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ فَضْلٍۙ وَّ اَنَّ اللّٰهَ لَا یُضِیْعُ اَجْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ(۱۷۱)

ترجمہ کنز الایمان:اور جو اللہ کی راہ میں مارے گئے ہرگز انہیں مردہ نہ خیال کرنا بلکہ وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں روزی پاتے ہیں شاد ہیں اس پر جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے دیا اور خوشیاں منا رہے ہیں اپنے پچھلوں کی جو ابھی ان سے نہ ملےکہ ان پر نہ کچھ اندیشہ ہے اور نہ کچھ غم خوشیاں مناتے ہیں اللہ کی نعمت اور فضل کی اور یہ کہ اللہ ضائع نہیں کرتا اجر مسلمانوں کا۔

حوالہ:پارہ نمبر:4، سورہ آل عمران، آیت نمبر:169 تا 171

علماء کرام نے فرمایا:شہدا کے جسم قبروں میں محفوظ رہتے ہیں۔مٹی انکو نقصان نہیں پہنچاتی۔صحابہ کرام علیھم الرضوان کے زمانے میں اور اسکے بعد اس بات کا بکثرت معائنہ ہوا ہے کہ اگر کبھی شہداء کی قبریں کھل گئیں تو انکے جسم تر وتازہ پائے گئے۔

3️ وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَ فَاُولٰٓىٕكَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیْقِیْنَ وَ الشُّهَدَآءِ وَ الصّٰلِحِیْنَ ۚوَ حَسُنَ اُولٰٓىٕكَ رَفِیْقًا ؕ(۶۹)

ترجمہ کنز الایمان ::اور جو اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانے تو اسے ان کا ساتھ ملے گا جن پر اللہ نے فضل کیا یعنی انبیاء اور صدیق اور شہید اور نیک لوگ اور یہ کیا ہی اچھے ساتھی ہیں۔

حوالہ:پارہ نمبر:5 سورہ نساء آیت نمبر:69

علما نے فرمایا کہ مندرجہ بالا آیت کریمہ میں شہدا سے مراد وہ حضرات ہیں جنہوں نے راہ خدا میں جانیں دیں۔

مندرجہ بالا آیات سے شہدا کے فضائل روز روشن کی طرح واضح ہوئے کہ ان پر بروز قیامت خصوصی عنایت و اکرام ہوگا۔ اور بہت اچھی رفاقت سے نوازا جائے گا اس کے ساتھ جنت کی بشارتوں سے بھی نوازا گیا۔

احادیث سے ثابت شہادت کے فضائل

جس طرح کثیر آیات میں شہادت کے فضائل مفصل طور پر واضح ہوئے دریں اثنا کثیر احادیث مطہرہ بھی فضائل شہادت پہ دلالت کرتی ہیں ۔

چنانچہ

فرمان مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہے :

1️ و عن عبداللہ عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ قال:ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال: یُغْفَرُ لِشَھِیْدٍ کُلُّ ذَنْبٍ اِلَّا الدَّینِ

حضرت عبداللہ عمرو بن عاص سے روایت ہے فرماتے ہیں رسول اللہ نے فرمایا : قرض کے علاوہ شہید کے تمام گناہ محو کردیئے جاتے ہیں۔

حوالہ:جد الممتار ، 2/ 271

2️ عن جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ قال :قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:مَن مَاتَ لَیلَةَ الجُمعَةِ اَوْ یَومَ الجُمعَةِ اُجِیْرَ مِن عَذَابِ القَبرِ وَجَاء یَومَ القِیَامَةِ وَ عَلَيْهِ طَابَعُ الشُهْدَا ء

حضرت جابر بن عبد اللہ سے روایت ہے فرماتے ہیں رسول اللہ نے فرمایا :جو شخص جمعہ کے دن یا رات انتقال کرے اس کو عذاب قبر سے محفوظ کر دیا جاتا ہے اور وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس پر شہدا کی مہر لگی ہوگی۔

حوالہ: جد الممتار : 1/408

مندرجہ بالا حدیث سے ثابت ہوا کہ شہادت کی موت عذاب قبر سے حفاظت کا ذریعہ ہے

3️ عن عباده بن صامت رضی اللہ عنہما قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : اِنَّ لشَھِیْدٍ عِندَ اللہِ سَبْعَ خِصَالٍ ، اَنْ یُغْفَرَ لَہُ فِی اَوَّلِ دَفْعَةٍ مِن دَمْعِہ وَيَری مَقْعَدَہ فِی الجَنَّةِ وَ یُحَلّی حُلَّةَ الِایْمَانِ وَ یُزوَّجَ مِنَ الحُورِ العِیْنِ وَ یُجَارُ مِن عَذَابِ القَبْرِ وَیَامَنَ مِنْ یَوْمِ الفَزَعِ الْاَکْبَرِ وَیُوْضَعَ عَلی رَاسِہ تَاجُ الوَقَارِ الْیَا قُوْتَةُ مِنْہ خَیْرٌ مِنَ الدُنْیَا وَمَا فِیْھَا وَ یُزَوَّجَ اِثْنَتَیْنِ وَ سَبْعِینَ زَوْجَةً مِنَ الحُوْرِ العِینِ وَیُشَفَّعُ فِیْ سَبْعِینَ اِنْسَانًا مِنْ اَقَارِبِہ۔

حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ وسلم نے ارشاد فرمایا : بے شک اللہ کے یہاں شہید کے لئے 7 کرامتیں ہیں ۔ پہلی بار اسکے بدن سے خون نکلتے ہی اسکی بخشش فرمادی جاتی ہے جنت میں وہ اپنا ٹھکانہ دیکھ لیتا ہے ایمان کے زیور سے آراستہ کردیا جاتا ہے حوروں سے اسکی شادی کردی جاتی ہے عذاب قبر سے محفوظ رہتا ہے قیامت کی ہولناکیوں سے مامون رکھا جاتا ہے اسکے سر پر یاقوت کا تاج عزت رکھا جاتا ہے جو دنیا و ما فیھا سے بہتر ہوتا ہے بَہتَّر حوروں سے شادی کردی جاتی ہے اسکے اقربا سے ستر شخصوں کے حق میں اسے شفیع بنایا جائے گا۔

حوالہ: اراءة الادب : صفحہ نمبر 43

اللہ کریم سے دعا ہے کہ ہمیں بھی شہادت کی موت عطا ہو۔آمین بجاہ طہ و یسین صلی اللہ علیہ وسلم۔۔