دنیا
کی بے شمار نعمتوں سے انسان لطف اندوز
ہوتا ہے، کسی نعمت کو کھاتا
ہے، کسی کو پیتا ہے، کسی کو سونگھتا ہے، کسی کو دیکھتا ہے اور ان کے علاوہ مختلف طریقوں
سے تمام نعمتوں کا استعمال کرتا ہے اور ان سے مسرور ومحفوظ ہوتا ہے، لیکن مردِ مؤمن کو شہادت سے جو لذّت حاصل ہوتی ہے، اس کے مقابل دنیا کی ساری لذّتیں ہیچ ہیں، یہاں
تک کہ شہید جنت کی تمام نعمتوں سے فائدہ اٹھائے گا اور ان سے لُطف اندوز ہو
گا، مگر جب اس کو اللہ عزوجل اور رسول صلی
اللہ علیہ وسلم کی محبت میں سر کٹانے کا مزہ یاد آئے گا تو وہ جنت کی ساری نعمتیں
اور ان کا مزہ بھول جائے گا اور تمنا کرے گا کہ اے کاش !میں دنیا میں واپس کیا
جاؤں اور بار بار شہید کیا جاؤں۔
حدیث
شریف میں ہے کہ سرکار اقدس صلی اللہ وعلیہ وسلم نے اِرشاد فرمایا:کہ جنت میں داخل
ہونے کے بعد پھر کوئی جنتی وہاں کی راحتوں اور نعمتوں کو چھوڑ کر دنیا میں آنا
پسند نہ کرے گا، مگر شہید آرزو کرے گا کہ
وہ پھر دنیا کی طرف واپس ہو کر اللہ عزوجل کی راہ میں دس مرتبہ قتل کیا
جائے۔(بخاری، مسلم شریف، مشکوۃ شریف، صفحہ 330)
خدائے
عزوجل شہدائے کرام کی فضیلت بیان کرتے ہوئے قرآن مجید فرقان حمید میں ارشاد فرماتا
ہے: وَ لَا
تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتٌ ؕ بَلْ اَحْیَآءٌ
وَّ لٰكِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ۔
ترجمہ
کنزالعرفان:"اور جو اللہ کی راہ میں مارے جائیں انہیں مردہ نہ کہو بلکہ وہ
زندہ ہیں لیکن تمہیں اس کا شعور
نہیں۔"(سورہ بقرہ، آیت154)
اس
آیت میں شہداء کو مردہ کہنے سے منع فرمایا
گیا، نہ زبان سے مردہ کہنے کی اجازت
ہے، جیسا کہ ایک اور مقام پر اللہ عزوجل
نے حکم ارشاد فرمایا:وَ لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا
فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتًا ؕ بَلْ اَحْیَآءٌ
عِنْدَ رَبِّهِمْ یُرْزَقُوْنَۙ۔
ترجمہ
کنزالعرفان:"اور اللہ کی راہ میں شہید کئے گئے ہرگز انہیں مردہ خیال نہ کرنا بلکہ وہ اپنے ربّ
کے پاس زندہ ہیں، انہیں رزق دیا جاتا
ہے۔"(آل عمران، آیت169)
شہداء
کو موت کے بعد ربّ عزوجل زندگی عطا فرماتا ہے، ان کی ارواح پر رزق پیش کیا جاتا
ہے، انہیں راحتیں دی جاتی ہیں، ان کے عمل جاری رہتے ہیں، ان کا اجر وثواب بڑھتا رہتا ہے۔ سبحان اللہ
عزوجل
حدیث شریف میں ہے کہ شہداء کی روحیں سبز پرندوں
کے بدن میں جنت کی سیر کرتیں اور وہاں کے میوے اور نعمتیں کھاتی ہیں۔(شعب الایمان،السبعون
من شعب الایمان،7/115،الحدیث 9686)
حضرت
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد
فرمایا:اہلِ جنت میں سے ایک شخص کو لایا جائے گا تو اللہ تعالی اس سے فرمائے
گا، اے ابنِ آدم!تو نے اپنی منزل و مقام
کو کیسا پایا؟ وہ عرض کرے گا:اے میرے ربّ عزوجل!بہت اچھی منزل ہے، اللہ تعالی
فرمائے گا، تو مانگ اور کوئی تمنّا کر، وہ عرض کرے گا:میں تجھ سے اتنا سوال کرتا ہوں کہ تو مجھے دنیا کی طرف لوٹا دے اور میں دس مرتبہ
تیری راہ میں شہید کیا جاؤں، (وہ یہ سوال
اس لئے کرے گا)کہ اس نے شہادت کی فضیلت ملاحظہ کر لی ہوگی۔(سنن نسائی، کتاب الجھاد، مایمتنی اہل الجنۃ، صفحہ 54، الحدیث 3157)
شہادت آخری منزل ہے انسانی
سعادت کی
وہ خوش قسمت ہیں جنہیں مل جائے
دولت شہادت کی
شہادت پاکے ہستی زندہ جاوید
ہوتی ہے
یہ رنگین شام صبحِ عید کی تمہید
ہوتی ہے
سرکارِ
اقدس صلی اللہ علیہ وسلم شہدائے اِسلام کی عظمت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں
کہ شہید کے لئے خدائے تعالی کے نزدیک چھ خوبیاں ہیں:
1۔خون
کا پہلا قطرہ گرتے ہی اسے بخش دیا جاتا ہے اور وہ نکلتے وقت ہی اس کو جنت میں اس
کا ٹھکانہ دکھادیا جاتا ہے۔
2۔قبر
کے عذاب سے محفوظ رہتا ہے۔
3۔اسے
جہنم کے عذاب کا خوف نہیں رہتا۔
4۔اس
کے سر پر عزت و وقار کا ایسا تاج رکھا جائے گا کہ جس کا بیش بہا یاقوت دنیا اور
دنیا کی تمام چیزوں سے بہتر ہوگا۔
5۔اس
کے نکاح میں بڑی بڑی آنکھوں والی بہتّر حوریں دی جائیں گی۔
6۔اور
اس کے عزیزوں میں سے ستّر آدمیوں کے لئے اس کی شفاعت قبول کی جائے گی۔(ترمذی، مشکوۃ، صفحہ 333)
اسلام
کی نشر و اشاعت اور اس کی بقا کے لئے بے شمار شہداء نے شہادت کا جام نوش کیا، مگر ان تمام شہداء میں سیّد الشہداء حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت بے مثل
ہے کہ آپ جیسی مصیبتیں کسی دوسرے شہید نے نہیں اُٹھائیں، تین دن کے بھوکے پیاسے اس حال میں کہ آپ کے رفقاء عزیز و اقارب و اہل و عیال
اور چھوٹے بچے پانی کے لئے تڑپ رہے تھے، جب کہ پانی موجود تھا، یہاں تک کہ
جانور بھی اس سے سیراب ہو رہے تھے۔ اللہ! اللہ!
اللہ
کریم ہمیں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اور تمام شہدائے اِسلام کا صدقہ عطا
فرمائے، ہمیں بھی راہِ خدا اور عشقِ مصطفی
صلی اللہ علیہ وسلم میں شہادت والی موت نصیب فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین صلی
اللہ علیہ وسلم