شہادت
ایک عظیم رتبہ اور بہت بڑا مقام ہے جو قسمت والوں کو ملتا ہے اور وہی خوش قسمت اسے
پاتے ہیں جن کے مقدر میں ہمیشہ کی کامیابی
لکھی ہوتی ہے شہادت کا مقام نبوت کے مقام سے تیسرے درجے پر ہے جیسا کہ اللہ تعالی
کا ارشاد گرامی ہے :
فَأُولَئِكَ
مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ
وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ وَحَسُنَ أُولَئِكَ رَفِيقًا (سورہ النساء
۔ 69)
تو
ایسے اشخاص بھی ان حضرات کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ تعالی نے انعام فرمایا یعنی
انبیاء اور صدیقین اور شہداء اور صالحین اور یہ حضرات بہت اچھے رفیق ہیں۔
٭
ایک صحیح حدیث میں بھی آیا ہے کہ انبیاء علیہم السلام شہداء سے صرف درجہ نبوت کی
وجہ سے افضل ہیں ۔
ممکن
ہے یہ حدیث کچھ مخصوص شہداء کے بارے میں ہو جبکہ آیت کریمہ میں عام شہداء کا مقام
بیان کیا گیا ہے ۔ واللہ اعلم ۔
اللہ
تعالی کے راستے میں قتل ہونے والوں کو شہید کیوں کہتے ہیں ؟ [ اس بارے میں کئی
اقوال ہیں ]
( 1 ) کیونکہ اس کے
لیے جنت کی شہادت [ یعنی گواہی ] دے دی گئی ہے [ کہ وہ یقیناً جنتی ہے ]
( 2 ) کیونکہ ان کی
روحیں جنت میں شاہد [ یعنی حاضر ] رہتی ہیں کیونکہ وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں
جبکہ دوسرے لوگوں کی روحیں قیامت کے دن جنت میں حاضر ہوں گی نضر بن شمیل فرماتے
ہیں کہ شہید بمعنی شاہد ہے اور شاہد کا مطلب جنت میں حاضر رہنے والا ۔ علامہ قرطبی
فرماتے ہیں یہی قول صحیح ہے ۔ ( التذکرہ للقرطبی )
( 3 ) ابن فارس کہتے
ہیں الشہید بمعنی القتل یعنی اللہ کے راستے میں قتل کیا جانے والا ۔
( 4 ) کیونکہ فرشتے
اس کے پاس حاضر ہوتے ہیں ۔
( 5 ) جب اللہ تعالی
نے جنت کے بدلے اس کی جان کو خرید لیا اور اس پر لازم کیا کہ وہ اس عہد کو پورا
کرے تو شہید نے جان دے کر گواہی دے دی کہ اس نے یہ عہد پورا کردیا ہے اور اس کی
گواہی اللہ کی گواہی کے ساتھ مل گئی اللہ کے حضور اپنی جان پر گواہی [ شہادت ] کی
وجہ سے اسے شہید کہا جاتا ہے ۔
( 6 ) ابن انبار
رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی اور فرشتے اس کے لیے جنت کی شہادت [ یعنی
گواہی ] دیتے ہیں اسی لیے اسے شہید کہا جاتا ہے ۔
( 7 ) اس کی روح
نکلتے وقت اس کا اجر اور مقام اس کے سامنے حاضر ہو جاتا ہے اس وجہ سے اسے شہید
کہتے ہیں ۔
( 8 ) کیونکہ رحمت
والے فرشتے اس کی روح لینے کے لیے شاہد [ یعنی حاضر] ہوتے ہیں ۔
( 9 ) اس کے پاس ایک
شاہد [ گواہ ] ہے جو اس کی شہادت کی گواہی دیتا ہے اور وہ ہے خون کیونکہ قیامت کے
دن شہید جب اٹھے گا تو اس کی رگوں میں سے خون بہہ رہا ہوگا ۔
شہید
کے فضائل اور مقامات بے شمار ہیں یہاں میں ان میں سے وہ فضائل بیان کروں گی جن تک
میری قلیل علم اور ناقص سمجھ کی رسائی ہوئی ہے ۔ ( 1 ) شہداء زندہ ہیں
اللہ
تعالی کا فرمان ہے :
وَلا
تَقُولُوا لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَكِنْ
لا تَشْعُرُونَ
(سورہ البقرہ ۔ 154 )
اور
جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کئے جاتے ہیں ان کے بارے میں یہ نہ کہو کہ وہ مردہ ہیں
بلکہ وہ تو زندہ ہیں لیکن تمھیں خبر نہیں۔
دوسری
جگہ ارشاد باری تعالی ہے :
وَلا
تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَاءٌ
عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ فَرِحِينَ بِمَا آتَاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ
وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ أَلا
خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّهِ
وَفَضْلٍ وَأَنَّ اللَّهَ لا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُؤْمِنِينَ ( سورہ آل
عمران ۔ 169۔171 )
جو
لوگ اللہ کی راہ میں قتل کئے گئے ان کو مردہ نہ سمجھو بلکہ وہ تو زندہ ہیں اپنے
پروردگار کے مقرب ہیں کھاتے پیتے ہیں وہ خوش ہیں اس چیز سے جو ان کو اللہ تعالی نے
اپنے فضل سے عطاء فرمائی اور جو لوگ ان کے پاس نہیں پہنچے ان سے پیچھے رہ گئے ہیں
ان کی بھی اس حالت پر وہ خوش ہوتےہیں کہ ان پر بھی کسی طرح کا خوف واقع ہونے والا
نہیں اور نہ وہ مغموم ہوں گے وہ خوش ہوتے ہیں اللہ کی نعمت اور فضل سے اور اس بات
سے کہ اللہ تعالی ایمان والوں کا اجر ضائع نہیں فرماتے ۔
٭
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ
وسلم نے ارشاد فرمایا : شہداء جنت کے دروازے پر دریا کے کنارے ایک محل میں رہتے
ہیں اور ان کے لیے صبح شام جنت سے رزق لایا جاتا ہے ۔ ( مسنداحمد ۔ مصنف ابن ابی
شیبہ ۔ المستدرک ۔ صحیح علی شرط مسلم )
٭
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے
ارشاد فرمایا : جب بندے قیامت کے دن حساب کتاب کے لیے کھڑے ہوں گے تو کچھ لوگ اپنی
تلواریں گردنوں پر اٹھائے ہوئے آئیں گے ان سے خون بہہ رہا ہوگا وہ جنت کے دروازوں
پر چڑھ دوڑیں گے پوچھا جائے گا یہ کون ہیں ۔ جواب ملے گا یہ شہداء ہیں جو زندہ تھے
اور انہیں روزی ملتی تھی ۔ ( الطبرانی۔ مجموعہ الزوائد )
٭
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم احد کے دن حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ پر کھڑے
ہوئے تھے اور حضرت مصعب زمین پر شہید پڑے تھے اس دن انہی کے ہاتھ میں حضور اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی
:
مِنَ
الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ فَمِنْهُمْ مَنْ
قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَنْ يَنْتَظِرُ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِيلا (
الاحزاب 23)
ایمان
والوں میں کچھ مرد ایسے ہیں کہ انہوں نے جس بات کا اللہ سے عہد کیاتھا اسے سچ کر
دکھلایا پھر بعض تو ان میں سے وہ ہیں جنہوں نے اپنا ذمہ پورا کر لیا اور بعض ان
میں سے ( اللہ کی راستے میں جان قربان کرنے کے لیے ) راہ دیکھ رہے ہیں اور وہ ذرہ
(برابر ) نہیں بدلے ۔
بے
شک اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تمھارے لیے گواہی دیتے ہیں کہ تم قیامت کے دن
اللہ کے سامنے شہداء میں سے ہو پھر آپ لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا اے
لوگوں تم ان کے پاس آیا کرو ان کی زیارت کیا کرو ان کو سلام کیا کرو قسم ہے اس ذات
کی جس کے قبضے میں میری جان ہے قیامت کے دن تک جو بھی انہیں سلام کہے گا یہ اسے
جواب دیں گے ۔ ( کتاب الجہاد لابن المبارک مرسلا )
٭
حضرت محمد بن قیس بن مخرمہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ انصار میں سے ایک شخص
جوحضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کیا کرتے تھے احد کے دن ان کو کسی نے
بتایا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہوچکے ہیں تو انہوں نے کہا میں گواہی
دیتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دین پہنچا دیا چنانچہ اب تم سب [مسلمان ] ان
کے دین کے لیے جہاد کرو پھر وہ تین بار اٹھے اور ہر بار موت کے منہ تک پہنچے اور
بالآخر تیسرے حملے میں شہید ہو گئے جب ان کی اللہ تعالی سے ملاقات ہوئی اور اپنے [
شہداء ] ساتھی بھی ملے تو وہ وہاں کی نعمتیں دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور کہنے لگے اے
ہمارے پروردگار کیا کوئی قاصد نہیں ہے جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہماری
یہ حالت بتا سکے اللہ تعالی نے فرمایا میں تمھارا قاصد ہوں ۔ پھر اللہ تعالی نے
جبرئیل کو حکم دیا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاکر یہ آیات سنائیں
ولاتحسبن سے آخر تک ۔ ( اخرجہ المنذری فی تفسیرہ )
مصنف
رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ان آیات کی شان نزول میں اور بھی کئی صحیح احادیث ہیں جو
ان شاء آگے آئیں گی۔
٭
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے
ایک دن مجھے دیکھا تو فرمایا اے جابر کیا بات ہے تم فکر مند نظر آتے ہو میں نے عرض
کیا اے اللہ کے رسول میرے والد شہید ہو گئے ہیں اور اپنے اوپر قرضہ اور اہل و عیال
چھوڑ گئے ہیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا میں تمھیں نہ بتاؤں کہ
اللہ تعالی نے جب بھی کسی سے بات کی تو پردے کی پیچھے سے کی لیکن تمھارے والد سے
آمنے سامنے بات فرمائی اور کہا مجھ سے جو مانگو میں دوں گا تمھارے والد نے کہا
مجھے دنیا میں واپس بھیج دیجئے تاکہ دوبارہ شہید ہو سکوں ۔ اللہ تعالی نے ارشاد
فرمایا میری طرف سے پہلے ہی فیصلہ ہو چکا ہے کہ کسی کو واپس نہیں جانا تمھارے والد
نے کہا اے میرے پروردگار پیچھے والوں کو ہماری حالت کی اطلاع دے دیجئے اس پر اللہ
تعالی نے یہ آیات نازل فرمائیں : ولا تحسبن الذین سے آخر تک ۔ ( ترمذی۔ ابن ماجہ ۔
المستدرک ) سرکار دوعالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے شہدائے اسلام کی عظمت بیان
کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ’’شہید کے لئے اللہ عزل و جل کے نزدیک چھ خوبیاں ہیں
(۱) خون کا پہلا قطرہ گرتے ہی اسے بخش دیا جاتا ہے اور روح نکلتے ہی اس کو جنت میں
اس کا ٹھکانہ دکھا دیا جاتا ہے (۲) شہید عذاب قبر سے محفوظ رہتا ہے (۳) اسے جہنم
کے عذاب کا خوف نہیں رہتا (۴) اس کے سرپر عزت و وقار کا تاج رکھا جائے گا، جو
دنیاوی یاقوت اور دیگر تمام چیزوں سے بہتر ہوگا (۵) اس کے نکاح میں بڑی بڑی آنکھوں
والی بہتر (۷۲) حوریں دی جائیں گی (۶) شہید کے عزیز و اقارب میں سے ستر (۷۰)
آدمیوں کے لئے اس کی شفاعت قبول کی جائے گی‘‘۔ (ترمذی شریف)
جو
لوگ لڑائی میں قتل کئے جاتے ہیں، حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ان کی تین
قسمیں بیان فرمائی ہیں۔ ان میں سے ایک وہ بندۂ مؤمن ہے، جو اپنی جان اور اپنے مال
سے اللہ کی راہ میں لڑے اور دشمن سے خوب مقابلہ کرے، یہاں تک کہ قتل کردیا جائے
گا۔ یہ وہ شہید ہے، جو صبر اور مشقت کے امتحان میں کامیاب ہوا۔ یہ شہید اللہ تعالی
کے عرش کے نیچے خیمۂ خداوندی میں ہوگا۔ انبیاء کرام اس سے صرف درجۂ نبوت میں
زیادہ ہوں گے۔