حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے ، فرماتی ہیں :میں نےنبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو پورا ہنستے نہ دیکھا، حتی کہ میں آپ کے انتہائی تالو کو دیکھ لیتی، آپ مسکرایا کرتے تھے۔(بخاری شریف، مراۃ المناجیح)

حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم مسکراتے بہت تھے، حضرت جریر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: جب سے مسلمان ہوا، مجھ سے نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے پردہ نہ کیا اور مجھے نہ دیکھا، مگر تبسم فرمایا یعنی جس موقع پر اجازت لے کر حاضر ہونا ہوتا، مجھے بغیر اجازت حاصل کئے حاضری کی اجازت تھی اور آپ مجھے دیکھا کرتے تو تبسم فرماتے۔آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا یہ دیکھنااظہارِ خوشی یا اظہارِ کرم کے لئے ہوتا تھا۔

حضرت عبد اللہ بن حارث رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:میں نے حضور پاک صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم سے زیادہ مسکرانے والا کوئی نہیں دیکھا۔(شمائل ترمذی:218)

حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں :رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:میں اس شخص کو بخوبی جانتا ہوں،جو سب سے پہلے جنت میں داخل ہو گا اور اس شخص کو بھی جو سب سے آخر میں جہنم سے نکالا جائے گا۔ قیامت کے دن ایک شخص کو دربارِ الٰہی میں پیش کیا جائے گا کہ اس کے چھوٹے گناہ اس کے سامنے رکھ دو اور اس کے بڑے گناہ اس سے مخفی رکھو۔ پھر کہا جائے گا: فلاں دن تو نے یہ کیا تھا؟فلاں دن تو نے یہ کیا تھا؟ وہ اقرار کرے گا،انکار نہ کر سکے گا اور اپنے بڑے گناہوں پر خوفزدہ ہو گا! پس کہا جائے گا :اسے ہر گناہ کے بدلے میں ایک نیکی دی جائے تو وہ بول اٹھے گا: میرے تو اور بھی بہت گناہ ہیں، جو میں نے یہاں نہیں دیکھے، جناب ابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: پس قسم ہے میں نے حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو دیکھا کہ آپ ہنسے، یہاں تک کہ اگلے دانت نظر آئے۔(شمائل ترمذی، حدیث 221)یعنی حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا ہنسنا، آپ کا مسکرانا تعجب کی وجہ سے تھا، جب اس شخص نے صغائر کو نیکیوں میں تبدیل ہوتے دیکھا تو اس کے اندر نیکیوں کی حرص و طمع پیدا ہوئی تو بول اٹھا: میرے بڑے گناہوں کی وجہ سے بھی مجھے نیکیاں دی جائیں۔تبسم میں ہزار حکمتیں ہیں، حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی ہر ادا میں ربّ کریم کی حکمتیں ہوتی ہیں۔