ہماری شریعت مطہرہ نے ہر کسی کے حقوق بیان کیے ہیں اور ان حقوق میں سے پڑوسیوں کے حقوق بھی ہیں۔ یاد رکھئے ! ہمسائیگی کچھ حقوق کا تقاضا کرتی ہے جو ان حقوق کے علاوہ ہیں جن کا اخوت اسلامی تقاضا کرتی ہے ۔ ایک مسلمان جن باتوں کا مستحق ہوتا ہے ان تمام کا اور ان سے کچھ زائد کا مسلمان ہمسایہ مستحق ہوتا ہے۔ آئیے ہم پڑوسیوں کے حقوق کو قراٰن و احادیث سے سمجھنے کی سعی کرتے ہیں کہ ہمیں قراٰن واحادیث پڑوسیوں کے حقوق ادا کرنے کی کیا تعلیم دے رہے ہیں۔ رب تعالیٰ قراٰنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّ بِذِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالْجَنْۢبِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِۙ-وَ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْؕ-﴾ترجمۂ کنزالایمان: اور ماں باپ سے بھلائی کرواور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور پاس کے ہمسائے اور دور کے ہمسائے اور کروٹ کے ساتھی اور راہ گیر اور اپنی باندی غلام سے ۔ (پ5، النسآء:36)

اب مذکورہ آیت مبارکہ میں غور کیا جائے تو اس میں اللہ پاک اور بندوں دونوں کے حقوق کی تعلیم دی گئی ہے کہ صرف اسی کی عبادت کی جائے اور اسکے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھرایا جائے۔ اور بندوں کے یہ حقوق بیان ہوئے اپنے ماں باپ، رشتہ داروں ، یتیموں ،رشتہ دارروں قریب کے پڑوسی اور دور کے پڑوسیوں کے ساتھی ، راہ گیر، اور اپنی باندی غلام سے وغیرہ وغیرہ ۔ مذکورہ آیت مبارکہ میں لفظ وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ آیا جس کا ترجمہ قریب کے پڑوسی اور دور کے پڑوسی ہیں۔

آئیے ہم اس کو مزید سمجھنے کیلئے تفاسیر ملاحظہ کرتے ہیں: تفسیر مدارک میں ہے: (ذی القربی) الذى قرب جواره ( والجار الجنب) الذى جواره بعید او الجار: القريب النسیب، والجار الجنب : الأجنبى یعنی والجار ذی القربی سے مراد قریب پڑوسیوں سے نیک سلوک کرو ۔ جبکہ والجار الجنب سے مراد دور کے پڑوسی کیساتھنیک سلوک کرو یا قریب کے پڑوسی سے مراد قرابت و رشتہ کےاعتبار سے قریبی پڑوسی مراد ہے اور دور کے پڑوسی سے اجنبی پڑوسی مراد ہے۔ (تفسیر مدارک،1/357)

تفسیر نعیمی میں ہے کہ (والجار زی القرنی)سے مراد پڑوس میں رہنے والا یعنی جار پڑوسی ہے قربی سے مراد مکانی قرب نہ کہ رشتہ کا قرب یا دین و ایمانی قرب مرادہے بمعنی قریب کا پڑوسی جس کا گھر تم سے ملا ہوا ہو یا مسلمان پڑوسی۔ (والجار الجنب)سے مراد دوری قرابت کا مقابل یہاں دور والے پڑوسی سے مراد یا مکانی دور والا ہے جس کا گھر ہم سے کچھ فاصلہ پر ہو یا دینی دور یعنی کافر پڑوسی کے ساتھ بھی اچھا سلوک کرنا ضروری ہے۔ خیال رہے کہ ہرطرف سے 40 گھر تک پڑوس ہے یعنی آگے پیچھے دائیں بائیں کہ چالیس چاہیں گھر پڑوسی ہیں ۔(تفسیر نعیمی، 5/76، 77) نعیمی کتب خانہ)

ایک تفسیر میں اس کا مفہوم کچھ بھی ہے کہ علامہ ابی مالکی متوفی828 ھ نے لکھا ہے کہ جس شخص کا گھر یا دوکان تمہارے گھر یا دوکان سے متصل ہو وہ تمہارا پڑوسی ہے بعض علما نے 40 گھروں تک اتصال کا اندازہ کیا ہے۔

اور تفسیرات احمدیہ میں اس بارے میں یوں ہے کہ قریب کے ہمسائے سے مراد وہ ہے جس کا گھر اپنے گھر سے ملا ہوا ہو اور دور کے ہمسائے سے مراد وہ ہے جو محلہ دار تو ہو مگر اس کا گھر اپنے گھر سے ملا ہوا نہ ہو یا جو پڑوسی بھی ہو اور رشتہ دار بھی ہوں قریب کا ہمسایہ ہے اور وہ جو صرف پڑوسی ہو رشتہ دار نہ ہو وہ دور کا ہمسایہ یا جو پڑوسی بھی ہو اور مسلمان بھی وہ قریب کا ہمسایہ اور جو صرف پڑوسی ہو مسلمان نہ ہو وہ دور کا ہمسایہ ہے۔ (تفسیرات احمدیہ،ص 275)

امید کی جاتی ہے کہ اگر ان تفاسیر کو بغور دیکھا جائے اور مطالعہ کیا جائے تو تو آفتاب کی طرح روشن ہو جائے گا کہ دور اور قریب کے پڑوسی سے کیا کیا مراد ہے اور ان کیساتھ حسن سلوک اور پڑوسیوں کے حقوق ادا کرنے میں اہم کردار و رہ نمائی رہے گی۔پڑوسیوں کے متعلق کے متعلق چند احادیث کریمہ آپ بھی پڑھئے:

( 1) اپنے پڑوسی کیساتھ حسن سلوک کر تو ( کامل ) مسلمان ہو جائے گا ۔ ( ابن ماجہ475/4، حدیث4217)

( 2) من کان یؤمن بالله واليوم الآخر فليكرم جاره یعنی جو شخص اللہ پاک اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہئے کہ اپنے پڑوسی کی عزت کرے ۔ ( صحیح مسلم ، حدیث47)

( 3) ایک شخص نے حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں عرض کی یا رسولَ الله مجھے کیونکہ معلوم ہو کہ میں نے اچھا کیا یا برا کیا ؟ فرمایا: جب تم اپنے پڑوسی کو یہ کہتے سنو کہ تم نے اچھا کیاہے تو بیشک تم نے اچھا کیا اور جب یہ کہتے سنو کہ تم نے برا کیا تو بیشک تم نے برا کیا ہے۔ (سنن ابن ماجہ،4/489 ، حدیث: 4223)

(4) حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:اے عائشہ پڑوسی کا بچہ آجائے تو اس کے ہاتھ میں کچھ رکھ دو کہ اس سے محبت بڑھے گی : ( الفردوس بماثور الخطاب، 468/5،حدیث863)

(5) حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:مرد مسلم کیلئے دنیا میں یہ بات سعادت میں سے ہے کہ اس کا پڑوسی صالح ہو اور مکان کشادہ ہو اور سواری اچھی ہو۔ (المستدرک،5/232،حدیث: 7386)

(6) اول خصمين يوم القيامة جاران یعنی قیامت کے دن سب سے پہلے جن دو آدمیوں کا جھگڑا پیش ہوگا وہ دو پڑوسی ہوں گے ۔ (المسند الامام احمد بن حنبل ، حدیث عقبۃ بن عامر الجھنی، 134/6 ،حدیث: 17377)

(7) لایؤمن عبد حتی با من جاره بوائقہ کوئی بندہ اس وقت تک مؤمن نہیں ہو سکتا جب تک اسکا پڑوسی اس کے شر سے محفوظ نہ ہو جائے۔(مسند البزار،5/392،حدیث: 2026)

(8) حضرت ابن عباس رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہتے ہیں : میں نے حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو یہ فرماتے سنا: مؤمن وہ نہیں جو خود پیٹ بھر کر کھائے اور اس کا پڑوسی اس کے پہلو میں بھوکا رہے یعنی مؤمن کامل نہیں ۔ (شعب الایمان، 3/225، حدیث:3389)

(9)حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہُ عنہ سے روایت کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ : اللہ پاک نے تمہارے مابین اخلاق کی اسی طرح تقسیم فرمائی جس طرح رزق کی تقسیم فرمائی ، الله پاک دنیا اسے بھی دیتا ہے جو اسے محبوب ہو اور اسے بھی جو محبوب نہ ہو اور دین صرف اسی کو دیتا ہے جو اس کے نزدیک پیارا ہے، لہذا جس کو خدا نے دین دیا اسے محبوب بنا لیا ، قسم ہے اسکی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے بندہ مسلمان نہیں جب تک اسکا دل اور زبان مسلمان نہ ہو یعنی جب تک دل میں تصدیق اور زبان سے اقرار نہ ہو اور مؤمن نہیں ہوتا جب تک اس کا پڑوسی اس کی آفتوں سے امن میں نہ ہو۔ (شعب الایمان،395،396/4، حدیث: 5524)

پڑوسی کو تکلیف نہ دیجئے: کوئی تکلیف دے تو اس کے شر سے بچنے کیلئے اس کے قریب سے اٹھا جا سکتا ہے، آئندہ اس سے ملنے سے بچا جا سکتا ہے، اس سے تعلقات ختم کئے جا سکتے ہیں مگر اگر پڑوسی ہی تکلیف دینے پر لگ جائے تو انسان کہاں پناہ ڈھونڈے ؟ کیونکہ اسکی تکلیف کا سامنا کرنا پڑے گا یا مکان بدلنا پڑ گیا جو کہ بہت دشوار ہے۔ اب ایسی چند احادیث مبارکہ پیش کی جائیں گی جس میں اللہ پاک کے آخری نبی محمد عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے پڑوسیوں کو تکلیف دینے سے منع فرمایا اور ہمیں ان احادیث کو پڑھ کر غور کر لینا چاہئے کہ پڑوسی کو اذیت دینا کتنا برا عمل ہے اور عبرت حاصل کرنی چاہے چنانچہ

حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : خدا کی قسم وہ مؤمن نہیں خدا کی قسم وہ مؤمن نہیں ، خدا کی قسم وہ مؤمن نہیں ۔ عرض کی گئی کون یارسولُ الله ، فرمایا وہ شخص کہ اس کے پڑوسی اسکی آفتوں سے محفوظ نہ ہوں یعنی جواپنےپڑوسیوں کو تکلیفیں دیتا ہو ۔ (صحیح البخاری،4/154، حدیث:6016)

ایک شخص نے عرض کی، یارسول اللہ !صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فلانی عورت کے متعلق ذکر کیا جاتا ہے کہ نمازو روزہ و صدقہ کثرت سے کرتی ہے مگر یہ بات بھی ہے کہ وہ اپنے پڑوسیوں کو زبان سے تکلیف پہنچاتی ہے، فرمایا: وہ جہنم میں ہے۔ انہوں نے کہا: یارسول اللہ فلانی عورت کی نسبت زیادہ ذکر کیا جاتا ہے کہ اس کے روزہ و صدقہ و نماز میں کمی ہے (یعنی نوافل) وہ پنیر کے ٹکڑے صدقہ کرتی ہے اور اپنی زبان سے پڑوسیوں کو ایذا نہیں دیتی، فرمایا:وہ جنت میں ہے۔ (مسند احمد ، مسند ابی ہریرہ ،حدیث:9681، 3،ص441۔ شعب الایمان، باب فی اکرام الجار ،7/78، 79، حدیث:9545)

تم ہمارے ساتھ نہ بیٹھو: حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ایک غزوہ پر تشریف لے گئے اور ارشاد فرمایا : آج وہ شخص ہمارے ساتھ نہ بیٹھے جس نے اپنے پڑوسی کو تکلیف دی ہو ۔ ایک شخص نے عرض : میں نے اپنے پڑوسی کی دیوار کے نیچے پیشاب کیا تھا ۔ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: آج تم ہمارے ساتھ نہ بیٹھو۔ (المعجم الاوسط، 6/481، حدیث:9479)

ہمسائے کی بکری کو بھی تکلیف نہ دو: ام المؤمنین حضرت سیدتنا اُم سلمہ رضی اللہُ عنہا ارشاد فرماتی ہیں کہ ایک دن ہمسائے کی بکری گھر میں داخل ہو گئی ۔ جب اس نے روٹی اٹھائی تو میں اسکی طرف گئی اور روٹی کو اسکے جبڑے سے کھینچ لیا۔ یہ دیکھ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا تجھے اس کو تکلیف دینا امان نہ دیتا کیونکہ یہ بھی ہمسائے کو تکلیف دینے سے کم نہیں۔( مکارم الاخلاق للطبرانی ، صفحہ 395 ، حدیث 239)

وہ جنت میں داخل نہ ہوگا :5- حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں ایک شخص نے حاضر ہو کر عرض کی : یا رسول اللہ میں نے فلاں قبیلے کے محلے میں رہائش اختیار کی ہے مگر ان میں سے جو مجھے سب سے زیادہ اذیت دیتا ہے وہ میرا سب سے زیادہ قریبی پڑوسی ہے۔ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر اور حضرت علی المرتضی رضی اللہُ عنہم کو بھیجا وہ مسجد کے دروازے پر کھڑے ہو کر پکارنے لگے :بیشک چالیس گھر پڑوس میں داخل ہیں اور جس کے شر سے اس کا پڑوسی خوفزدہ ہو جنت میں داخل نہ ہوگا ۔(المعجم الکبیر، 73/19 ، حدیث:143)

حق پڑوس کیا ھے ؟ یاد رکھئے ! حق پڑوس صرف یہ نہیں کہ پڑوسی کو اذیت دینے سے اجتناب کیا جائے بلکہ پڑوسی کی طرف سے پہنچنے والی تکلیف کو برداشت کرنا بھی حق پڑوس میں شامل ہے ۔ کیونکہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک شخص اپنے پڑوسی کو اذیت نہیں دیتا اور وہ اسکے بدلے اسے اذیت نہیں دیتا حالانکہ اسطرح پڑوس کا حق ادا نہیں ہوتا بلکہ ضروری ہے کہ اسکے ساتھ نرمی اور اچھے طریقے سے پیش آئے۔

پڑوسی کے گھر کی دیوار کے سائے کا حق : ابن مقفع کو یہ خبر ملی کہ اسکا پڑوسی قرض کی ادائیگی کی وجہ سے اپنا گھر بیچ رہا ہے چونکہ ابن مقفع اس کے گھر کی دیوار کے سائے میں بیٹھتا تھا کہنے لگا: اگر اس نے مفلس ہونے کی وجہ سے اپنا گھر بیچ رہا جب تو میں نے اسکے گھر کے سائے کا بھی حق ادا نہ کیا۔ یہ کہہ کر ابن مقفع نے اس کے گھر کا ثمن ادا کیا اور کہا کہ گھر مت بیچو۔(احیاء العلوم،771/1 مکتبۃ المدينہ)

پڑوسیوں کو تکالیف دینے کی کون کونسی صورتیں ہیں ؟ آئیے جانتے ہیں:

1۔ اسکے دروازے کے سامنے کچرا ڈال دنیا۔

2۔ اس کے دروازے کے پاس شور کرنا۔

3۔ بچوں کا (بالخصوص سونے کے اوقات میں) شور کرنا ۔

4۔بے وقت کیل ٹھونکنا

5۔اس کے گھر میں جھانکنا ۔

6۔ایک ہی بلڈنگ میں رہنے کی صورت میں سیڑھیاں چڑھتے ہوئے زور زور سے پاؤں چٹخانا ۔

7۔اونچی آواز سے ٹیپ ریکارڈ یا ڈیک وغیرہ چلانا ( چاہے نعتیں ہیں کیوں نہ ہو اسکی آواز اپنے تک محدود رکھیں)

8۔ اپنے گھر کا فرش دھونے کے بعد پانی پڑوسیوں کے گھر کے سامنے چھوڑ دینا۔

9۔انکے بچوں کو مارنا جھاڑنا وغیرہ وغیرہ۔

یہ تو محض چند صورتیں ذکر کی گئی اسکے علاوہ اور بہت کسی صورتیں ہیں جو پڑوسیوں کو تکالیف دینے کا باعث بنتی ہیں۔

پڑوسیوں کے عام حقوق :

پڑوسیوں کے عام حقوق کونسے ہیں آئیے جانتے ہیں :

1۔ پڑوسیوں کیساتھ سلام میں پہل کرے۔

2۔ ان کیساتھ طویل گفتگو نہ کرے۔

3۔ ان کے حالات کے بارے میں زیادہ سوال نہ کرے ۔

4۔ جب وہ بیمار ہو تو ان کی عیادت کرے۔

5۔ مصیبت کے وقت ان کی غمخواری کرے ۔

6۔ مشکل وقت میں ان کا ساتھ دے۔

7۔ خوشی میں ان کو مبارکباد دے ۔

8۔ ان کی خوشی میں شرکت کرے ۔

9۔ ان کی لغزشوں کو معاف کرے۔

10۔ اپنے گھر کی چھت سے ان کے گھرمت جھانکے۔

11 ۔ ان کے گھر کے راستے کو تنگ نہ کرے۔

12 ۔جو کچھ وہ لے جارہے ہوں اس پر نظر نہ گاڑے۔

13۔ اگر ان کے عیوب ان پر ظاہر ہو تو انہیں چھپائے ۔

14۔ اگر انہیں کوئی حادثہ پیش آئے تو فوراً ان کی مدد کرے ۔

15 ۔ پڑوسیوں کی غیر موجودگی میں ان کے گھر کی حفاظت کرنےمیں غفلت کا مظاہرہ نہ کرے۔

16 ۔ ان کے خلاف کوئی بات نہ سنے۔

17- ان کی اولاد کیساتھ نرمی سے گفتگو کرے

18۔ دین و دنیا کے جس معاملے میں انہیں رہنمائی کی ضرورت ہو اس میں انکی رہنمائی کرے ۔ ( ماخوز ازاحیاء العلوم 2/ 773 ، مكتبۃ المدينۃ)

پڑوسی کا حق کیا ہے؟پڑوسی کے چند اور حقوق بیان کیے جاتے ہیں: حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جانتے ہو پڑوسی کا حق کیا ہے؟ پھرارشاد فرمایا:اگر وہ تم سے مدد چاہے تو اسکی کی مدد کرو، اگر تم سے قرض مانگے تو قرض دو، اگر محتاج ہو تو اسکی حاجت پوری کرو، اگر بیمار ہو جائے تو اسکی عیادت کرو، اگر وہ فوت ہو جائے تو جنازے میں شرکت کرو، اگر اسے کوئی بھلائی پہنچے تو مبارکباد دو اور اگر کوئی مصیبت پہنچے تو تعزیت کرو ، اسکی اجازت کے بغیر اسکے گھر سے اونچا گھر نہ بناؤ کہ ان کو ہوا نہ پہنچے، اسے تکلیف نہ پہنچاؤ، اگر تم کوئی پھل خرید کر لاؤ تو اس میں سے پڑوسی کے بچے اس پھل کی وجہ سے غمگین ہوں گے اور اپنی ہانڈیوں کی خوشبووں سے بھی پڑوسی کو تکلیف نہ پہنچاؤ مگر یہ کہ کچھ سالن اسے بھی بھیج دو۔ یہ فرمانے کے ارشاد فرمایا : اتدرون ما حق الجار والذی نفسی بیدہ ما یبلغ حق الجار الا من رحمہ یعنی جانتے ہو پڑوسی کا حق کیا ہے ؟ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے پڑوسی کا حق صرف وہی ادا کر سکتا ہے جس پر اللہ پاک رحم فرمائے ۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں پڑوسیوں کے حقوق ویسے ہی ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے جیسا حقوق ادا کرنے کا حق ہے آمین بجاہ خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم