انسانوں میں گناہوں کی جانب رغبت کا میلان موجود ہے انسان کا نفس امارہ اسے ہر وقت گناہوں میں مبتلا کرنے کی کوشش میں رہتا ہے جب ایک عقل رکھنے والا انسان کسی گناہ يا غلط كام کا ارتکاب کرتا ہے تو وہ جانتا ہے کہ وہ یہ غلط کام گناہ و زیادتی کر رہا ہے الله پاک کے فرمان سے بغاوت کر کے اس کی ناراضگی کو دعوت دے رہا ہے پیارے آقا ﷺ کے طریقے کی مخالفت کر رہا ہے اس طرح وہ اپنی دنیا و آخرت داؤ پر لگا دیتا ہے گناہ پر مدد کرنے پر جب اس کا ضمیر اس کو ندا دیتا ہے تو وہ یہ کہہ کر چپ کروا دیتا ہے کہ ابھی عمر پڑی ہے میں جلد توبہ کر لوں گا اس طرح وہ اس امید پر دل کو بہلاتا رہتا ہے اور گناہوں کی گہری دلدل میں پھنستا چلا جاتا ہے الله تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: وَ تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى ۪-وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ۪- (پ 6، المائدۃ: 2) ترجمہ کنز العرفان: اور نیکی اور پرہیزگاری پر ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور زیادتی پر باہم مدد نہ کرو۔اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے دو باتوں کا حکم دیا ہے: (1)نیکی اورپرہیزگاری پر ایک دوسرے کی مدد کرنے کا۔(2) گناہ اور زیادتی پر باہمی تعاون نہ کرنے کا۔

بر سے مراد ہر وہ نیک کام ہے جس کے کرنے کا شریعت نے حکم دیا ہے اور تقوٰی سے مراد یہ ہے کہ ہر اس کام سے بچا جائے جس سے شریعت نے روکا ہے۔ اثم سے مراد گناہ ہے اور عدوان سے مراد اللہ تعالیٰ کی حدود میں حد سے بڑھنا۔ (جلالین، ص94) ایک قول یہ ہے کہ اثم سے مراد کفر ہے اور عدوان سے مراد ظلم یا بدعت ہےجاتا ہے۔

حضرت نواس بن سمعان رضی الله تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: میں نے رسول اکرم ﷺ سےنیکی اور گناہ کے بارے میں پوچھا توآپ ﷺ نےارشادفرمایا: نیکی حسن اخلاق ہے اور گناہ وہ ہے جو تیرے دل میں کھٹکے اور لوگوں کا اس سے واقف ہونا تجھے ناپسند ہو۔ (ترمذی، 4/173، حدیث: 2396)

رسول اللہ ﷺ نےشب معراج کا ذکر کرتے ہوے فرمایا:جہنم کے چوتھے دروازے پر یہ 3 جملے لکھے تھے خدا اس شخص کو ذلیل اور رسوا کرتا ہے جو اسلام کو رسوا کرے اور اہل بیت کو رسوا کرے اورجوظالم کی اس کے ظلم میں کرے مدد۔

پیارے آقا ﷺ نے فرمایا: جس شخص نے ہدایت کی دعوت دی اسے اس ہدایت کی پیروی کرنے والوں کے اجر کے برابر اجر ملے گا اور ان کے اجر میں کوئی کمی نہیں ہو گی اور جس نے کسی کو گمراہی کی دعوت دی اس پر اس کی پیروی کرنے والوں کے برابر گناہ کا بوجھ ہوگا اور ان کے گناہوں میں بھی کوئی کمی نہیں ہوگی۔ (مسلم، ص 1438، حدیث: 2674)

الله پاک ہمیں نیکی پر مدد کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین ﷺ


گناہ پر مدد کرنے کا شرعی حکم گناہ پر مدد کرنا بھی گناہ ہے۔ قرآن پاک میں گناہ پر مدد کرنے کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى ۪-وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ۪- (پ 6، المائدۃ: 2) ترجمہ کنز العرفان: اور نیکی اور پرہیزگاری پر ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور زیادتی پر باہم مدد نہ کرو۔

گناہوں پر مدد کے گناہ میں مبتلا ہونے کے بعض اسباب علمِ دین سے دوری کئی صورتوں میں لوگوں کو پتا ہی نہیں ہوتا کہ یہ بھی گناہ پر مدد کرنا ہے برے لوگوں سے دوستی و میل جول کہ بعض اوقات آدمی مروت میں آکر گناہ کے کام میں ان کی مدد کر بیٹھتا ہے۔

گناہوں پر مدد کے گناہ سے بچنے کے لئے: علم دین حاصل کیجئے بری صحبت سے بچئے اور پابندِ شریعت نیک پرہیزگار لوگوں کی صحبت اختیار کیجئے۔ بے جا مروت سے پیچھا چھڑائیے۔

گناہ پر تعاون کرنا کیسا؟ گناه پر تعاون کی ممانعت کا حکم قرآن پاک میں بالکل واضح طور پر موجود ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: وَ تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى ۪-وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ۪- (پ 6، المائدۃ: 2) ترجمہ کنز العرفان: اور نیکی اور پرہیزگاری پر ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور زیادتی پر باہم مدد نہ کرو۔

قرآن پاک کی نص قطعی موجود ہے کہ گناہ پردوسرے کی مدد کرنے کی اجازت نہیں، بلکہ حکم یہ ہے کہ گناہ سے روکا جائے۔ اس حوالے سے ایک بڑی دلچسپ حدیث مبارک ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمايا: اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ! مظلوم کی تو ہم مدد کریں، لیکن کیا ظالم کی بھی مدد کریں؟ فرمایا: ہاں اور ظالم کی مدد یہ ہے کہ تم اسے ظلم سے روک دو۔ یہ ظالم کی مدد یوں ہے کہ اس کی آخرت کے لیے مفید ہے۔ تو گنہگار کی مدد یہ ہے کہ اسے گناہ سے روک دیا جائے۔ (بخاری، 3/128، حدیث :2443)اس سے ان لوگوں کو سبق حاصل کرنا چاہیے، جو دوستی یاری نبھانے کے چکر میں ایک دوسرے کی گناہ میں معاونت کرتے ہیں اور اپنے طور پر سمجھتے ہیں کہ دوستی کا حق ادا کررہا ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہر طرح کے ظاہری باطنی امراض اور گناہوں سے محفوظ ہمیں نیک بنائے اور نیکیوں پر استقامت عطا فرمائے۔

انسان کی زندگی میں دو ہی عمل ہیں نیکی یا بدی دونوں کا حکم قرآن و احادیث میں صریح بیان فرمایا گیا۔ گناہ پر مدد کے حکم کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى ۪-وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ۪- (پ 6، المائدۃ: 2) ترجمہ کنز العرفان: اور نیکی اور پرہیزگاری پر ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور زیادتی پر باہم مدد نہ کرو۔

اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے دو باتوں کا حکم دیا ہے: پہلی یہ کہ نیکی اورپرہیزگاری پر ایک دوسرے کی مدد کرو دوسری یہ کہ گناہ اور زیادتی پر باہمی تعاون نہ کرو۔

حضرت نواس بن سمعان رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم ﷺ سے نیکی اور گناہ کے بارے میں پوچھا توآپ ﷺ نےارشادفرمایا: نیکی حسن اخلاق ہے اور گناہ وہ ہے جو تیرے دل میں کھٹکے اور لوگوں کا اس سے واقف ہونا تجھے ناپسند ہو۔ (ترمذی، 4 / 173، حدیث: 2396)

گناہ اور ظلم میں کسی کی بھی مدد نہ کرنے کا حکم ہے۔ کسی کا حق مارنے میں دوسروں سے کسی قسم کا کوئی بھی تعاون کرنا، رشوتیں لے کر فیصلے بدل دینا، جھوٹی گواہیاں دینا، بلا وجہ کسی مسلمان کو پھنسا دینا، ظالم کا اس کے ظلم میں کسی بھی طرح کی حمایت کرنا یا ساتھ دینا یا مجرمانہ خاموشی اختیار کر کے ظالم کی حوصلہ افزائی کا سبب بننا یا باوجود قدرت کے مظلوم کی حق رسی کی کوشش نہ کرنا حرام و ناجائز کاروبار کرنے والی کمپنیوں یا بینکوں میں کسی بھی طرح شریک ہونا، برائی کے اڈوں میں نوکری کرنا یہ بھی ایک طرح سے برائی کے ساتھ تعاون ہے اور ناجائزہے۔

ارشاد ربانی ہے: رَبِّ بِمَاۤ اَنْعَمْتَ عَلَیَّ فَلَنْ اَكُوْنَ ظَهِیْرًا لِّلْمُجْرِمِیْنَ(۱۷) (پ 20، القصص: 17) ترجمہ: اے میرے رب! جیسا تو نے مجھ پر فضل کیا ہے پھر میں گناہگاروں کا کبھی مددگار نہیں ہوں گا۔

ان آیات کو پڑھیے جو یہ گواہی دیتی ہیں کہ مجرمین کی مدد کرنا جرم و گناہ ہے اور مومنین کی اعانت کرنا فرمان الہٰی کی اطاعت ہے: وَ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُهُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍۘ-یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ یُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَ یُطِیْعُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗؕ-اُولٰٓىٕكَ سَیَرْحَمُهُمُ اللّٰهُؕ-اِنَّ اللّٰهَ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ(۷۱) (پ 10، التوبۃ: 71) ترجمہ: مومن مرد و عورت آپس میں ایک دوسرے کے ( مددگار و معاون )دوست ہیں، وہ بھلائیوں کا حکم دیتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں، نماز کو پابندی سے بجا لاتے ہیں زکاۃ ادا کرتے ہیں، اللہ کی اور اس کے رسول ﷺ کی بات مانتے ہیں، یہی لوگ ہیں جن پر اللہ تعالی بہت رحم فرمائے گا بے شک اللہ تعالی غلبے والا حکمت والا ہے۔ 

اسلام ہمارا اتنا پیارا دین ہے کہ ہمیں نیکی کا حکم دینے اور برائی سے رکنے کا حکم دیتا ہے اس کے ساتھ دوسروں کو بھی بچانے کا حکم دیتا ہے ایک مسلمان کو نیکی کے کاموںیں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیے اور برائی سے باز رہنا چاہیے اور اگر کوئی دوسرا برائی کررہا ہو تو اپنی طاقت کے مطابق روکنا چاہیے کیونکہ اس امت کو بہترین امت اس لیئے کہا گیا ہے کہ یہ نیکی کا حکم دیتے اور برائی سے روکتے ہیں۔ اللہ پاک کا ارشاد ہے: كُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ (پ 4، آل عمران: 110) ترجمہ کنز الایمان: تم بہتر ہو ان سب امتوں میں جو لوگوں میں ظاہر ہوئیں بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو۔

اللہ پاک کا ارشاد ہے: وَ تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى ۪-وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ۪- (پ 6، المائدۃ: 2) ترجمہ کنز العرفان: اور نیکی اور پرہیزگاری پر ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور زیادتی پر باہم مدد نہ کرو۔

اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے دو باتوں کا حکم دیا ہے: (1)نیکی اور پرہیزگاری پر ایک دوسرے کی مدد کرنے کا۔ (2) گناہ اور زیادتی پر باہمی تعاون نہ کرنے کا۔ برسے مراد ہر وہ نیک کام ہے جس کے کرنے کا شریعت نے حکم دیا ہے اور تقویٰ سے مراد یہ ہے کہ ہر اس کام سے بچا جائے جس سے شریعت نے روکا ہے۔ اثم سے مراد گناہ ہے اور ایک قول یہ ہے کہ اثم سے مراد کفر ہے اور عدوان سے مراد ظلم یا بدعت ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ اثم سے مراد کفر ہے اور عدوان سے مراد ظلم یا بدعت ہے۔

حضرت نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے رسول اکرم ﷺ سے نیکی اور گناہ کے بارے میں پوچھا توآپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: نیکی حسن اخلاق ہے اور گناہ وہ ہے جو تیرے دل میں کھٹکے اور لوگوں کا اس سے واقف ہونا تجھے ناپسند ہو۔ (ترمذی، 4 / 173، حدیث: 2396)

نیکی کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرنے اور گناہ کے کاموں میں مدد نہ کرنے کا حکم: یہ انتہائی جامع آیت مبارکہ ہے، نیکی اور تقویٰ میں ان کی تمام انواع واقسام داخل ہیں اور اثم اور عدوان میں ہر وہ چیز شامل ہے جو گناہ اور زیادتی کے زمرے میں آتی ہو۔ علم دین کی اشاعت میں وقت، مال، درس و تدریس اور تحریر وغیرہ سے ایک دوسرے کی مدد کرنا، دین اسلام کی دعوت اور اس کی تعلیمات دنیا کے ہر گوشے میں پہنچانے کے لئے باہمی تعاون کرنا، اپنی اور دوسروں کی عملی حالت سدھارنے میں کوشش کرنا، نیکی کی دعوت دینا اور برائی سے منع کرنا، ملک و ملت کے اجتماعی مفادات میں ایک دوسرے سے تعاون کرنا، سوشل ورک اور سماجی خدمات سب اس میں داخل ہے۔ گناہ اور ظلم میں کسی کی بھی مدد نہ کرنے کا حکم ہے۔ کسی کا حق مارنے میں دوسروں سے تعاون کرنا، رشوتیں لے کر فیصلے بدل دینا، جھوٹی گواہیاں دینا، بلا وجہ کسی مسلمان کو پھنسا دینا، ظالم کا اس کے ظلم میں ساتھ دینا، حرام و ناجائز کاروبار کرنے والی کمپنیوں میں کسی بھی طرح شریک ہونا، بدی کے اڈوں میں نوکری کرنا یہ سب ایک طرح سے برائی کے ساتھ تعاون ہے اور ناجائز ہے۔

گناہ پر مدد کی ایک صورت یہ وہ گناہ ہے کہ جس کے بارے میں خداوند عالم نے قرآن مجید میں عذاب کا وعدہ کیا ہے: وَ لَا تَرْكَنُوْۤا اِلَى الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُۙ-وَ مَا لَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ مِنْ اَوْلِیَآءَ ثُمَّ لَا تُنْصَرُوْنَ(۱۱۳) (پ 12، ہود: 113) ترجمہ: اور جو لوگ ظالم ہیں، ان کی طرف مائل نہ ہونا، نہیں تو تمہیں آگ آلپٹے گی اور خدا کے سوا تمہارے اور دوست نہیں ہیں، اور نہ تم مدد دیئے جاؤ گے۔

رکون یعنی جس سے اس آیہ شریفہ میں منع کیا گیا ہے۔ اس سے مراد میل یسیر ہے یعنی تھوڑا سا بھی ایسے لوگوں کی طرف مائل ہونا جنہوں نے اپنے اوپر یا دوسروں پر ظلم کیا ہو۔ مثلاً عزت سے ان کا ذکر کرنا ان سے باہم میل ملاپ کرنا ان سے محبت کا اظہار کرنا اور ان کے تحائف کی طرف طمع رکھنا ان کی تعریف کرنا اور ان کے حکم کی اطاعت کرنا یہ تمام باتیں ان کی طرف مائل ہونے میں آتی ہیں۔

اگر کوئی شخص کسی ظالم کو درازی عمر کی دعا دے تو گویا ایسا ہے کہ وہ روئے زمین پر خدا کی مخالفت کو پسند کرتا ہے۔ ظالم کی مدد کرنے والا ایسا ہے کہ جیسے اس نے اہم ترین واجبات خدا یعنی برائی سے روکنے کو ترک کیا بلکہ وہ حقیقت میں منافق ہو گیا کیونکہ اس نے برائی کا حکم دیا اور یہ چیز منافقین کی صفات میں سےہے۔

سبحٰن اللہ! قرآن پاک کی تعلیمات کتنی عمدہ اور اعلیٰ ہیں، اس کا ہر حکم دل کی گہرائیوں میں اترنے والا، اس کی ہر آیت گمراہوں اور گمراہ گروں کے لئے روشنی کا ایک مینار ہے۔ اس کی تعلیمات سے صحیح فائدہ اسی وقت حاصل کیا جاسکتا ہے جب ان پر عمل بھی کیا جائے۔ افسوس، فی زمانہ مسلمانوں کی ایک تعداد عملی طور پر قرآنی تعلیمات سے بہت دور جا چکی ہے۔ اللہ تعالیٰ سبھی مسلمانوں کو قرآن کے احکامات پرعمل کی توفیق عطا فرمائے۔

اللہ کریم قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: وَ تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى ۪-وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ۪- (پ 6، المائدۃ: 2) ترجمہ کنز العرفان: اور نیکی اور پرہیزگاری پر ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور زیادتی پر باہم مدد نہ کرو۔

یہ انتہائی جامع آیت مبارکہ ہے، نیکی اور تقویٰ میں ان کی تمام انواع واقسام داخل ہیں۔ اور اثم اور عدوان میں ہر وہ چیز شامل ہے جو گناہ اور زیادتی کے زمرے میں آتی ہے۔ گناہ اور ظلم میں کسی کی بھی مدد نہ کرنے کا حکم ہے۔ گناہ پر مدد کی مثالیں: کسی کا حق مارنے میں دوسروں سے تعاون کرنا، کسی کو شراب پینے یا جوا کھیلنے کے لیے رقم دینا، رشوتیں لے کر فیصلے بدل دینا، کسی کو میوزک سسٹم خریدنے کے لیے رقم دینا، جھوٹی گواہیاں دینا، بلا وجہ کسی مسلمان کو پھنسا دینا، ظالم کا اس کے ظلم میں ساتھ دینا، حرام و ناجائز کاروبار کرنے والی کمپنیوں میں کسی بھی طرح شریک ہونا، بدی کے اڈوں میں نوکری کرنا یہ سب ایک طرح سے برائی کے ساتھ تعاون ہے اور ناجائز ہے۔ (صراط الجنان، 2/378، 379 )

سورۃ العنکبوت میں ہے: وَ لَیَحْمِلُنَّ اَثْقَالَهُمْ وَ اَثْقَالًا مَّعَ اَثْقَالِهِمْ٘-وَ لَیُسْــٴَـلُنَّ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ عَمَّا كَانُوْا یَفْتَرُوْنَ۠(۱۳)(پ 20، العنکبوت: 13) ترجمہ کنز الایمان: اور بیشک ضرور اپنے بوجھ اٹھائیں گے اور اپنے بوجھوں کے ساتھ اور بوجھ اور ضرور قیامت کے دن پوچھے جائیں گے جو کچھ بہتان اٹھاتے تھے۔

تفسیر صراط الجنان: ارشاد فرمایا: مسلمانوں سے ان کے گناہوں کا بوجھ اٹھانے کا کہنے والے کفار کا اپنا یہ حال ہوگا کہ وہ قیامت کے دن اپنے گناہوں اور کفر وگمراہی کابوجھ اٹھائیں گے اور اس کے ساتھ ساتھ جن لوگوں کوانہوں نے گمراہ کیاتھاان کے گناہوں کابوجھ بھی یہی لوگ اٹھائیں گے۔

دوسروں کو گمراہ اور گناہوں میں مبتلا کرنے کا انجام: اس آیت سے معلو م ہوا کہ جو خود گمراہ ہو اور اس کے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی گمراہی کی طرف بلاتا ہو تواسے اپنی گمراہی کا گناہ اور اس کی سزا تو ملے گی البتہ اس کے ساتھ ان لوگوں کی گمراہی کا گناہ اور سزا بھی اسے ملے گی جنہیں اس نے گمراہ کیا تھا اور گمراہ ہونے والوں کے اپنے گناہ میں بھی کوئی کمی نہ ہو گی اس سے ان لوگوں کو عبرت اور نصیحت حاصل کرنے کی بڑی ضرورت ہے جو اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی گناہوں میں مبتلا ہونے کے مواقع فراہم کرتے اور انہیں طرح طرح کے دنیوی منافع اور فوائد بتا کر گناہوں کی ترغیب دیتے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت اور عقل سلیم عطا فرمائے۔ آمین۔

آئیے گناہوں پر مدد کرنے کی مذمت پر احادیث مبارکہ ملاحظہ فرمائیے۔

1۔ حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، تاجدار رسالت ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے اسلام میں کوئی اچھا طریقہ نکالا پھر اس کے بعد اس پر عمل کیا گیا تو عمل کرنے والے کے ثواب کی مثل ثواب اس کے نامۂ اعمال میں لکھا جائے گا اور ان عمل کرنے والوں کے ثواب میں کوئی کمی بھی نہ ہو گی اور جس نے اسلام میں کوئی برا طریقہ جاری کیا پھر اس کے بعداس پر عمل کیا گیا تو عمل کرنے والے کے گناہ کی مثل گناہ اس کے نامۂ اعمال میں لکھا جائے گا اور ان عمل کرنے والوں کے گناہ میں بھی کوئی کمی نہ ہو گی۔ (مسلم، ص 1437، حدیث: 2673)

2۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : جو ہدایت کی طرف بلائے تو اسے ویسا ثواب ملے گا جیسا اس کی پیروی کرنے والے کو ملے گا اور ان پیروی کرنے والوں کے ثواب میں کوئی کمی نہ ہو گی اور جو گمراہی کی طرف بلائے تو اسے ویسا گنا ہ ملے گا جیسا اس کی پیروی کرنے والے کو ملے گا اور ان پیروی کرنے والوں کے گناہ میں کوئی کمی نہ ہو گی۔ (مسلم، ص 1438، حدیث: 2674)

3۔ریاض الصالحین جلد 3 حدیث 237 میں ہے: حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ تاجدار رسالت نے ارشاد فرمایا: اپنے بھائی کی مدد کرو، خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم۔ ایک شخص نے عرض کی: یا رسول اللہ ﷺ! جب وہ مظلوم ہوتا ہےتو میں اس کی مدد کرتا ہوں لیکن جب وہ ظالم ہو تو میں اس کی مدد کس طرح کروں؟ فرمایا : اسے روکو یا ظلم کرنے سے منع کرو کیونکہ یہی اس کی مدد ہے۔

4۔ روایت ہے حضرت واثلہ ابن اسقع سے فرماتے ہیں میں نے عرض کیا یارسول اللہ ﷺ! تعصب کیا چیز ہے؟ فرمایا: یہ ہے کہ تم اپنی قوم کی ظلم پر مدد کرو۔

اس کی شرح میں ہے: اپنی قوم سے محبت تعصب نہیں بلکہ برائی پر ان کی مدد کرنا یہ ہے تعصب یہی ممنوع ہے کیونکہ اس میں گناہ پر مدد ہے اور گناہ پر مدد کرنا بھی گناہ ہے۔

گناہوں میں مبتلا اشخاص کو چاہیے کہ وہ گناہوں سے سچی توبہ کریں۔ اللہ پاک توبہ قبول فرمانے والا ہے۔ چنانچہ اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: ثُمَّ اِنَّ رَبَّكَ لِلَّذِیْنَ عَمِلُوا السُّوْٓءَ بِجَهَالَةٍ ثُمَّ تَابُوْا مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ وَ اَصْلَحُوْۤاۙ-اِنَّ رَبَّكَ مِنْۢ بَعْدِهَا لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۠(۱۱۹) (پ 14، النحل: 119) ترجمہ کنز الایمان: پھر بےشک تمہارا رب ان کے لیے جو نادانی سے برائی کر بیٹھیں پھر اس کے بعد توبہ کریں اور سنور جائیں بےشک تمہارا رب اس کے بعد ضرور بخشنے والا مہربان ہے۔

آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جو لوگ نادانی سے کفر و معصیت کا ارتکاب کر بیٹھیں ، پھر ان سے توبہ کر لیں اور آئندہ اپنی توبہ پر قائم رہ کر اپنے اعمال درست کر لیں تو الله تعالیٰ ان پر رحم فرماتے ہوئے ان کی توبہ قبول فرما لے گا۔ (صاوی، 3 / 1099- خازن، 3 / 149، ملتقطاً)

اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں گناہوں سے خود بھی بچنے اوردوسروں کی بھی گناہوں سے بچانے کی توفیق عطا فرمائے۔دوسرو‍ں کی گناہوں پر مدد کی بجائے نیکیوں پر مدد کرنے والا بنائے۔ آمین

وَ تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى ۪-وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ۪- (پ 6، المائدۃ: 2) ترجمہ کنز العرفان: اور نیکی اور پرہیزگاری پر ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور زیادتی پر باہم مدد نہ کرو۔

تفسیر: اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے دو باتوں کا حکم دیا ہے: (1)نیکی اور پرہیزگاری پر ایک دوسرے کی مدد کرنے کا۔ (2) گناہ اور زیادتی پر باہمی تعاون نہ کرنے کا۔ برسے مراد ہر وہ نیک کام ہے جس کے کرنے کا شریعت نے حکم دیا ہے اور تقویٰ سےمراد یہ ہے کہ ہر اس کام سے بچا جائے جس سے شریعت نے روکا ہے۔ اثم سے مراد گناہ ہے اور عدوان سےمراد اللہ تعالیٰ کی حدود میں حد سے بڑھنا۔

ایک قول یہ ہے کہ اثم سے مراد کفر ہے اور عدوان سے مراد ظلم یا بدعت ہے۔ (خازن، 1 / 461)

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: نیکی سے مراد سنت کی پیروی کرنا ہے۔ (صاوی، 2 / 469)

حضرت نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے رسول اکرم ﷺ سے نیکی اور گناہ کے بارے میں پوچھا توآپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: نیکی حسن اخلاق ہے اور گناہ وہ ہے جو تیرے دل میں کھٹکے اور لوگوں کا اس سے واقف ہونا تجھے ناپسند ہو۔ (ترمذی، 4 / 173، حدیث: 2396)

نیکی کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرنے اور گناہ کے کاموں میں مدد نہ کرنے کا حکم: یہ انتہائی جامع آیت مبارکہ ہے، نیکی اور تقویٰ میں ان کی تمام انواع واقسام داخل ہیں اور اثم اور عدوان میں ہر وہ چیز شامل ہے جو گناہ اور زیادتی کے زمرے میں آتی ہو۔ علم دین کی اشاعت میں وقت، مال، درس و تدریس اور تحریر وغیرہ سے ایک دوسرے کی مدد کرنا، دین اسلام کی دعوت اور اس کی تعلیمات دنیا کے ہر گوشے میں پہنچانے کے لئے باہمی تعاون کرنا، اپنی اور دوسروں کی عملی حالت سدھارنے میں کوشش کرنا، نیکی کی دعوت دینا اور برائی سے منع کرنا، ملک و ملت کے اجتماعی مفادات میں ایک دوسرے سے تعاون کرنا، سوشل ورک اور سماجی خدمات سب اس میں داخل ہے۔ گناہ اور ظلم میں کسی کی بھی مدد نہ کرنے کا حکم ہے۔ کسی کا حق مارنے میں دوسروں سے تعاون کرنا، رشوتیں لے کر فیصلے بدل دینا، جھوٹی گواہیاں دینا، بلا وجہ کسی مسلمان کو پھنسا دینا، ظالم کا اس کے ظلم میں ساتھ دینا، حرام و ناجائز کاروبار کرنے والی کمپنیوں میں کسی بھی طرح شریک ہونا، بدی کے اڈوں میں نوکری کرنا یہ سب ایک طرح سے برائی کے ساتھ تعاون ہے اور ناجائز ہے۔

محترم قارئین! اگر معاشرے میں گناہ کے کاموں میں باہم مدد کی جائے گی تو معاشرے میں جرائم عام سے عام ہی ہوتے جائیں گے لیکن گناہوں سے روکنے کا ماحول پیدا کیا جائے گا لوگ خود بھی گناہوں اور برے کاموں سے بچیں گے اور دوسروں کو بھی بچائیں گے تو معاشرہ مدینے کی طرف اڑنا شروع ہو جائے گا۔ ان شاء اللہ

الله پاک ہمیں ظاہری و باطنی گناہوں سے محفوظ فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین ﷺ


گناہ پر تعاون کی ممانعت کا حکم قرآن میں بالکل واضح طور پر موجود ہے۔ اللہ پاک نے فرمایا : وَ تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى ۪-وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ۪- (پ 6، المائدۃ: 2) ترجمہ کنز العرفان: اور نیکی اور پرہیزگاری پر ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور زیادتی پر باہم مدد نہ کرو۔گناہ پر دوسرے کی مدد کرنے کی اجازت نہیں، بلکہ حکم یہ ہے کہ گناہ سے روکا جائے۔ اس حوالے سے ایک حدیث مبارک ہے: نبی ﷺ نے فرمایا: اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم، صحابہ اکرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یا رسول اللہﷺ! مظلوم کی تو ہم مدد کریں گے، لیکن کیا ظالم کی بھی مدد کریں ؟ فرمایا ہاں! اور ظالم کی مدد یہ ہے کہ تم اسے ظلم سے روک دوں یہ ظالم کی مدد یوں ہے کہ اسکی آخرت کے لیے مفید ہے تو گناہگار کی مدد یہ ہے کہ اسے گناہ سے روک دیا جائے۔ (بخاری، 3/128، حدیث :2443)

اس سے ان لوگوں کو سبق حاصل کرنا چاہیے، جو دوستی یاری نبھانے کے چکر میں ایک دوسرے کی گناہ میں معاونت کرتے ہیں اور اپنے طور پر سمجھتے ہیں کہ دوستی کا حق ادا کررہا ہوں۔

اللہ ہم سب کو ہر طرح کے ظاہری باطنی امراض اور گناہوں سے محفوظ رکھے، ہمیں نیک بنائے اور نیکیوں پر استقامت عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین ﷺ


دنیا جب سے وجود میں آئی ہے اس میں نیکی اور برائی کا وجود ہر دور میں موجود رہا ہے اور آئندہ بھی ایسا ہی رہے گا ایک مسلمان کو نیکی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے اور برائی کے کاموں سے دور رہنے کا حکم دیا گیا ہے اسی طرح مسلمان کو کسی دوسرے سے تعاون کرنے میں بھی یہی شرط رکھی گئی ہے کہ اگر کوئی نیکی کا کام کر رھا ہے تو اس کے ساتھ تعاون کیا جائے اور اگر کوئی برائی کا کام کر رھا ہے تو اس سے تعاون نہ کیا جائے بلکہ اس کی حوصلہ شکنی کی جائے مثلا اگر کوئی شخص کسی طرح کا بھی ظلم کر رھا ہے تو اسے کسی بھی قسم کا کوئی تعاون فراہم نہ کیا جائے بلکہ مظلوم کی داد رسی کی جائے، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى ۪-وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ۪- (پ 6، المائدۃ: 2) ترجمہ کنز العرفان: اور نیکی اور پرہیزگاری پر ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور زیادتی پر باہم مدد نہ کرو۔

اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے دو باتوں کا حکم دیا ہے: (1)نیکی اور پرہیزگاری پر ایک دوسرے کی مدد کرنے کا۔ (2) گناہ اور زیادتی پر باہمی تعاون نہ کرنے کا۔ برسے مراد ہر وہ نیک کام ہے جس کے کرنے کا شریعت نے حکم دیا ہے اور تقویٰ سے مراد یہ ہے کہ ہر اس کام سے بچا جائے جس سے شریعت نے روکا ہے۔ اثم سے مراد گناہ ہے اور عدوان سےمراد اللہ تعالیٰ کی حدود میں حد سے بڑھنا۔ (جلالین، ص 94)

اس حوالے سے ایک حدیث مبارک ہے: نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم ہو۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ! مظلوم کی تو ہم مدد کریں لیکن کیا ظالم کی بھی مدد کریں۔ فرمایا: ہاں اور ظالم کی مدد یہ ہے کہ تم اسے ظلم سے روک دو۔ یہ ظالم کی مدد یوں ہے کہ اس کی آخرت کے لیے مفید ہے تو گناہگار کی مدد یہ ہے کہ اسے گناہ سے روک دیا جائے۔ (بخاری، 3/128، حدیث :2443)


نیکی کے کاموں میں مدد کرنے سے ثواب ملتا ہے جبکہ گناہ کے کاموں میں مدد کرنے سے گناہ ملتا ہے۔ گناہ پر مدد کرنے کی بہت سی صورتیں ہوتی ہیں مثلاً کوئی ناچ رہی ہے یا گانے گا رہی ہے اسکو پیسے دینا یا تالیاں بجانا، اسکی تعریف کرنا وغیرہ وغیرہ اسکو مزید گناہوں پر ابھارے گا جس سے گناہ پر مدد کرنے والا اور گنا پر ابھارنے والا بھی گناہ گار ہوگا۔ اسی طرح دیگر گناہوں پر بھی مدد کرنے والا گناہ گار ہوگا۔ قرآن پاک میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى ۪-وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ۪- (پ 6، المائدۃ: 2) ترجمہ کنز العرفان: اور نیکی اور پرہیزگاری پر ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور زیادتی پر باہم مدد نہ کرو۔

تفسیر صراط الجنان میں ہے: اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے دو باتوں کا حکم دیا ہے: (1)نیکی اور پرہیزگاری پر ایک دوسرے کی مدد کرنے کا۔ (2) گناہ اور زیادتی پر باہمی تعاون نہ کرنے کا۔ برسے مراد ہر وہ نیک کام ہے جس کے کرنے کا شریعت نے حکم دیا ہے اور تقویٰ سے مراد یہ ہے کہ ہر اس کام سے بچا جائے جس سے شریعت نے روکا ہے۔ اثم سے مراد گناہ ہے اور عدوان سےمراد اللہ تعالیٰ کی حدود میں حد سے بڑھنا۔ (تفسیر جلالین، ص 94)

ایک قول یہ ہے کہ اثم سے مراد کفر ہے اور عدوان سے مراد ظلم یا بدعت ہے۔ (خازن، 1/ 461)

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: نیکی سے مراد سنت کی پیروی کرنا ہے۔ (صاوی، 2/469)

حضرت نواس بن سمعان فرماتے ہیں: میں نے رسول اکرم ﷺ سے نیکی اور گناہ کے بارے میں پوچھا توآپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: نیکی حسن اخلاق ہے اور گناہ وہ ہے جو تیرے دل میں کھٹکے اور لوگوں کا اس سے واقف ہونا تجھے ناپسند ہو۔ (ترمذی، 4 / 173، حدیث: 2396)

نیکی کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرنے اور گناہ کے کاموں میں مدد نہ کرنے کا حکم: یہ انتہائی جامع آیت مبارکہ ہے، نیکی اور تقویٰ میں ان کی تمام انواع واقسام داخل ہیں اور اثم اور عدوان میں ہر وہ چیز شامل ہے جو گناہ اور زیادتی کے زمرے میں آتی ہو۔ علم دین کی اشاعت میں وقت، مال، درس و تدریس اور تحریر وغیرہ سے ایک دوسرے کی مدد کرنا، دین اسلام کی دعوت اور اس کی تعلیمات دنیا کے ہر گوشے میں پہنچانے کے لئے باہمی تعاون کرنا، اپنی اور دوسروں کی عملی حالت سدھارنے میں کوشش کرنا، نیکی کی دعوت دینا اور برائی سے منع کرنا، ملک و ملت کے اجتماعی مفادات میں ایک دوسرے سے تعاون کرنا، سوشل ورک اور سماجی خدمات سب اس میں داخل ہے۔ گناہ اور ظلم میں کسی کی بھی مدد نہ کرنے کا حکم ہے۔ کسی کا حق مارنے میں دوسروں سے تعاون کرنا، رشوتیں لے کر فیصلے بدل دینا، جھوٹی گواہیاں دینا، بلا وجہ کسی مسلمان کو پھنسا دینا، ظالم کا اس کے ظلم میں ساتھ دینا، حرام و ناجائز کاروبار کرنے والی کمپنیوں میں کسی بھی طرح شریک ہونا، بدی کے اڈوں میں نوکری کرنا یہ سب ایک طرح سے برائی کے ساتھ تعاون ہے اور ناجائز ہے۔ سبحان اللہ! قرآن پاک کی تعلیمات کتنی عمدہ اور اعلیٰ ہیں، اس کا ہر حکم دل کی گہرائیوں میں اترنے والا، اس کی ہر آیت گمراہوں اور گمراہ گروں کے لئے روشنی کا ایک مینار ہے۔ اس کی تعلیمات سے صحیح فائدہ اسی وقت حاصل کیا جاسکتا ہے جب ان پر عمل بھی کیا جائے۔ افسوس، فی زمانہ مسلمانوں کی ایک تعداد عملی طور پر قرآنی تعلیمات سے بہت دور جا چکی ہے۔ اللہ تعالیٰ سبھی مسلمانوں کو قرآن کے احکامات پرعمل کی توفیق عطا فرمائے۔

گناہ پر مدد کرنے کے حوالے سے احادیث مبارکہ اور بزرگان دین کے اقوال: خدا کے نافرمانوں کے ساتھ یعنی کافروں، بے دینوں، گمراہوں اور ظالموں کے ساتھ بلاضرورت میل جول، رسم و راہ، قلبی میلان اور محبت، ان کی ہاں میں ہاں ملانا اور ان کی خوشامد میں رہنا ممنوع ہے۔ ظالموں کے بارے میں امام محمد غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں (ظالموں کے ساتھ عملی طور پر تعاون تو ظاہر ہے اور) زبانی طور پر تعاون یہ ہے کہ وہ ظالم کے لئے دعا مانگتا ہے یااس کی تعریف کرتا ہے یااس کے جھوٹے قول کی صراحتاً تصدیق کرتا ہے، مثلاً زبان سے اسے سچا قرار دیتا ہے یاسر ہلا دیتا ہے یااس کے چہرے پر مسرّت ظاہر ہوتی ہے یاوہ اس شخص سے محبت و دوستی ظاہر کرتا ہے، اس سے ملاقات کا شوق رکھتا ہے اور اس کی عمر میں اضافہ اور ا س کی بقا کی حرص رکھتا ہے، ایسا شخص عام طور پر (ظالموں کو) صرف سلام ہی نہیں کرتا بلکہ (ان سے) کچھ بات چیت بھی کرتا ہے اور وہ اسی شخص کا کلام ہوتا ہے حالانکہ اس کا ظالم کی حفاظت، اس کی لمبی زندگی، ا س کے لئے نعمتوں کی تکمیل اور اس طرح کی دوسری دعائیں مانگنا جائز نہیں، اور اگر دعا کے ساتھ تعریفی کلمات بھی ہوں اور وہ ان باتوں کا ذکر کرے جو اس ظالم میں نہیں ہیں تو یہ شخص جھوٹا، منافق اور ظالم کااعزاز کرنے والا ہے اور یہ تین گناہ ہیں، اور اگر اس کے ساتھ ساتھ وہ ا س کی باتوں کی تصدیق بھی کرے،اس کے کاموں کی تعریف کرے،اس کی پاکیزگی بیان کرے تو وہ اس تصدیق اور اعانت کی وجہ سے گناہگار ہو گا کیونکہ ظالم کی پاکیزگی بیان کرنا اور تعریف کرنا گناہ پر مدد کرنا ہے۔ (احیاء علوم الدین، 2 / 179، 180)

احادیث اور بزرگان دین کے اقوال میں بھی ان چیزوں کی شدید مذمت بیان کی گئی ہے، چنانچہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ اس وقت ناراض ہوتا ہے جب زمین پر کسی فاسق کی تعریف کی جاتی ہے۔ (شعب الایمان، 4 / 230، الحدیث: 4885)

حضرت حسن رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: جو شخص کسی ظالم کے باقی رہنے کی دعا کرتا ہے وہ اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی جائے۔ (شعب الایمان، 7/ 53، حدیث: 9432)

امام اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ کے ہاں اس عالم سے زیادہ ناپسندیدہ شخص کوئی نہیں جو کسی عامل (یعنی ظالم گورنر) کے پاس جاتا ہے۔ (مدارک، ص515)

یہاں ایک اور بات یاد رکھیں کہ بعض حضرات کا یہ نظریہ ہے کہ ہم اپنی دنیوی ضروریات کی وجہ سے ظالموں کے اعمال پر راضی ہوتے، ان کی خوشامد و چاپلوسی کرتے اور ان کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں، اگر ہم ایسا نہ کریں تو ہمارے لئے اپنی دنیوی ضروریات کو پورا کرنا دشوار ہو جائے، انہیں چاہئے کہ وہ علامہ احمدصاوی رحمۃ اللہ علیہ کے ا س کلام پر غور کر لیں، چنانچہ آپ فرماتے ہیں: ظالموں کے اعمال سے راضی ہونے میں دنیوی ضروریات کو دلیل بنانا قابل قبول نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ ہی بڑا رزق دینے والا، قوت والا اور قدرت والا ہے۔ (صاوی، 3/ 936) اور جب حقیقی رازق، قوی اور قادر اللہ تعالیٰ ہے تو خود کو ظالموں کا دست نگر سمجھنا کہاں کی عقلمندی ہے۔