اسلام ہمارا اتنا پیارا دین ہے کہ ہمیں نیکی کا حکم
دینے اور برائی سے رکنے کا حکم دیتا ہے اس کے ساتھ دوسروں کو بھی بچانے کا حکم
دیتا ہے ایک مسلمان کو نیکی کے کاموںیں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیے اور برائی سے
باز رہنا چاہیے اور اگر کوئی دوسرا برائی کررہا ہو تو اپنی طاقت کے مطابق روکنا
چاہیے کیونکہ اس امت کو بہترین امت اس لیئے کہا گیا ہے کہ یہ نیکی کا حکم دیتے اور
برائی سے روکتے ہیں۔ اللہ پاک کا ارشاد ہے: كُنْتُمْ
خَیْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْهَوْنَ
عَنِ الْمُنْكَرِ (پ 4، آل عمران: 110) ترجمہ کنز الایمان: تم بہتر ہو ان سب امتوں
میں جو لوگوں میں ظاہر ہوئیں بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو۔
اللہ پاک کا ارشاد ہے: وَ
تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى ۪-وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ
وَ الْعُدْوَانِ۪- (پ 6، المائدۃ: 2) ترجمہ کنز العرفان: اور نیکی اور
پرہیزگاری پر ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور زیادتی پر باہم مدد نہ کرو۔
اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے دو باتوں کا حکم
دیا ہے: (1)نیکی اور پرہیزگاری پر ایک دوسرے کی مدد کرنے کا۔ (2) گناہ اور زیادتی
پر باہمی تعاون نہ کرنے کا۔ برسے مراد ہر وہ نیک کام ہے جس کے کرنے کا شریعت نے
حکم دیا ہے اور تقویٰ سے مراد یہ ہے کہ ہر اس کام سے بچا جائے جس سے شریعت نے روکا
ہے۔ اثم سے مراد گناہ ہے اور ایک قول یہ ہے کہ اثم سے مراد کفر ہے اور عدوان سے
مراد ظلم یا بدعت ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ اثم سے مراد کفر ہے اور عدوان سے مراد ظلم
یا بدعت ہے۔
حضرت نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے
رسول اکرم ﷺ سے نیکی اور گناہ کے بارے میں پوچھا توآپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: نیکی حسن
اخلاق ہے اور گناہ وہ ہے جو تیرے دل میں کھٹکے اور لوگوں کا اس سے واقف ہونا تجھے
ناپسند ہو۔ (ترمذی، 4 / 173،
حدیث: 2396)
نیکی کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرنے اور گناہ
کے کاموں میں مدد نہ کرنے کا حکم: یہ انتہائی جامع آیت مبارکہ ہے، نیکی اور تقویٰ
میں ان کی تمام انواع واقسام داخل ہیں اور اثم اور عدوان میں ہر وہ چیز شامل ہے جو
گناہ اور زیادتی کے زمرے میں آتی ہو۔ علم دین کی اشاعت میں وقت، مال، درس و تدریس
اور تحریر وغیرہ سے ایک دوسرے کی مدد کرنا، دین اسلام کی دعوت اور اس کی تعلیمات
دنیا کے ہر گوشے میں پہنچانے کے لئے باہمی تعاون کرنا، اپنی اور دوسروں کی عملی
حالت سدھارنے میں کوشش کرنا، نیکی کی دعوت دینا اور برائی سے منع کرنا، ملک و ملت
کے اجتماعی مفادات میں ایک دوسرے سے تعاون کرنا، سوشل ورک اور سماجی خدمات سب اس
میں داخل ہے۔ گناہ اور ظلم میں کسی کی بھی مدد نہ کرنے کا حکم ہے۔ کسی کا حق مارنے
میں دوسروں سے تعاون کرنا، رشوتیں لے کر فیصلے بدل دینا، جھوٹی گواہیاں دینا، بلا
وجہ کسی مسلمان کو پھنسا دینا، ظالم کا اس کے ظلم میں ساتھ دینا، حرام و ناجائز
کاروبار کرنے والی کمپنیوں میں کسی بھی طرح شریک ہونا، بدی کے اڈوں میں نوکری کرنا
یہ سب ایک طرح سے برائی کے ساتھ تعاون ہے اور ناجائز ہے۔
گناہ پر مدد کی ایک صورت یہ وہ گناہ ہے کہ جس کے
بارے میں خداوند عالم نے قرآن مجید میں عذاب کا وعدہ کیا ہے: وَ لَا تَرْكَنُوْۤا اِلَى الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا فَتَمَسَّكُمُ
النَّارُۙ-وَ مَا لَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ مِنْ اَوْلِیَآءَ ثُمَّ لَا
تُنْصَرُوْنَ(۱۱۳) (پ 12، ہود: 113) ترجمہ: اور جو لوگ ظالم ہیں، ان
کی طرف مائل نہ ہونا، نہیں تو تمہیں آگ آلپٹے گی اور خدا کے سوا تمہارے اور دوست
نہیں ہیں، اور نہ تم مدد دیئے جاؤ گے۔
رکون یعنی جس سے اس آیہ شریفہ میں منع کیا گیا ہے۔
اس سے مراد میل یسیر ہے یعنی تھوڑا سا بھی ایسے لوگوں کی طرف مائل ہونا جنہوں نے
اپنے اوپر یا دوسروں پر ظلم کیا ہو۔ مثلاً عزت سے ان کا ذکر کرنا ان سے باہم میل
ملاپ کرنا ان سے محبت کا اظہار کرنا اور ان کے تحائف کی طرف طمع رکھنا ان کی تعریف
کرنا اور ان کے حکم کی اطاعت کرنا یہ تمام باتیں ان کی طرف مائل ہونے میں آتی ہیں۔
اگر کوئی شخص کسی ظالم کو درازی عمر کی دعا دے تو
گویا ایسا ہے کہ وہ روئے زمین پر خدا کی مخالفت کو پسند کرتا ہے۔ ظالم کی مدد کرنے
والا ایسا ہے کہ جیسے اس نے اہم ترین واجبات خدا یعنی برائی سے روکنے کو ترک کیا
بلکہ وہ حقیقت میں منافق ہو گیا کیونکہ اس نے برائی کا حکم دیا اور یہ چیز منافقین
کی صفات میں سےہے۔