اللہ کریم قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: وَ تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى ۪-وَ لَا تَعَاوَنُوْا
عَلَى الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ۪- (پ 6، المائدۃ: 2) ترجمہ کنز
العرفان: اور نیکی اور پرہیزگاری پر ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور زیادتی پر
باہم مدد نہ کرو۔
یہ انتہائی جامع آیت مبارکہ ہے، نیکی اور تقویٰ میں
ان کی تمام انواع واقسام داخل ہیں۔ اور اثم اور عدوان میں ہر وہ چیز شامل ہے جو
گناہ اور زیادتی کے زمرے میں آتی ہے۔ گناہ اور ظلم میں کسی کی بھی مدد نہ کرنے کا
حکم ہے۔ گناہ پر مدد کی مثالیں: کسی کا حق مارنے میں دوسروں سے تعاون کرنا، کسی کو
شراب پینے یا جوا کھیلنے کے لیے رقم دینا، رشوتیں لے کر فیصلے بدل دینا، کسی کو
میوزک سسٹم خریدنے کے لیے رقم دینا، جھوٹی گواہیاں دینا، بلا وجہ کسی مسلمان کو
پھنسا دینا، ظالم کا اس کے ظلم میں ساتھ دینا، حرام و ناجائز کاروبار کرنے والی
کمپنیوں میں کسی بھی طرح شریک ہونا، بدی کے اڈوں میں نوکری کرنا یہ سب ایک طرح سے
برائی کے ساتھ تعاون ہے اور ناجائز ہے۔ (صراط الجنان، 2/378، 379 )
سورۃ العنکبوت میں ہے: وَ
لَیَحْمِلُنَّ اَثْقَالَهُمْ وَ اَثْقَالًا مَّعَ اَثْقَالِهِمْ٘-وَ
لَیُسْــٴَـلُنَّ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ عَمَّا كَانُوْا یَفْتَرُوْنَ۠(۱۳)(پ
20، العنکبوت: 13) ترجمہ کنز الایمان: اور بیشک ضرور اپنے بوجھ اٹھائیں گے اور
اپنے بوجھوں کے ساتھ اور بوجھ اور ضرور قیامت کے دن پوچھے جائیں گے جو کچھ بہتان
اٹھاتے تھے۔
تفسیر صراط الجنان: ارشاد فرمایا: مسلمانوں سے ان
کے گناہوں کا بوجھ اٹھانے کا کہنے والے کفار کا اپنا یہ حال ہوگا کہ وہ قیامت کے
دن اپنے گناہوں اور کفر وگمراہی کابوجھ اٹھائیں گے اور اس کے ساتھ ساتھ جن لوگوں کوانہوں
نے گمراہ کیاتھاان کے گناہوں کابوجھ بھی یہی لوگ اٹھائیں گے۔
دوسروں کو گمراہ اور گناہوں میں مبتلا کرنے کا
انجام: اس آیت سے معلو م ہوا کہ جو خود گمراہ ہو اور اس کے ساتھ ساتھ دوسروں کو
بھی گمراہی کی طرف بلاتا ہو تواسے اپنی گمراہی کا گناہ اور اس کی سزا تو ملے گی
البتہ اس کے ساتھ ان لوگوں کی گمراہی کا گناہ اور سزا بھی اسے ملے گی جنہیں اس نے
گمراہ کیا تھا اور گمراہ ہونے والوں کے اپنے گناہ میں بھی کوئی کمی نہ ہو گی اس سے
ان لوگوں کو عبرت اور نصیحت حاصل کرنے کی بڑی ضرورت ہے جو اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کو
بھی گناہوں میں مبتلا ہونے کے مواقع فراہم کرتے اور انہیں طرح طرح کے دنیوی منافع
اور فوائد بتا کر گناہوں کی ترغیب دیتے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت اور عقل سلیم
عطا فرمائے۔ آمین۔
آئیے گناہوں پر مدد کرنے کی مذمت پر احادیث مبارکہ
ملاحظہ فرمائیے۔
1۔ حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،
تاجدار رسالت ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے اسلام میں کوئی اچھا طریقہ نکالا پھر اس کے
بعد اس پر عمل کیا گیا تو عمل کرنے والے کے ثواب کی مثل ثواب اس کے نامۂ اعمال
میں لکھا جائے گا اور ان عمل کرنے والوں کے ثواب میں کوئی کمی بھی نہ ہو گی اور جس
نے اسلام میں کوئی برا طریقہ جاری کیا پھر اس کے بعداس پر عمل کیا گیا تو عمل کرنے
والے کے گناہ کی مثل گناہ اس کے نامۂ اعمال میں لکھا جائے گا اور ان عمل کرنے
والوں کے گناہ میں بھی کوئی کمی نہ ہو گی۔ (مسلم، ص 1437،
حدیث: 2673)
2۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول
کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : جو ہدایت کی طرف بلائے تو اسے ویسا ثواب ملے گا جیسا اس
کی پیروی کرنے والے کو ملے گا اور ان پیروی کرنے والوں کے ثواب میں کوئی کمی نہ ہو
گی اور جو گمراہی کی طرف بلائے تو اسے ویسا گنا ہ ملے گا جیسا اس کی پیروی کرنے
والے کو ملے گا اور ان پیروی کرنے والوں کے گناہ میں کوئی کمی نہ ہو گی۔ (مسلم، ص 1438، حدیث: 2674)
3۔ریاض الصالحین جلد 3 حدیث 237 میں ہے: حضرت انس رضی
اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ تاجدار رسالت نے ارشاد فرمایا: اپنے بھائی کی مدد کرو،
خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم۔ ایک شخص نے عرض کی: یا رسول اللہ ﷺ! جب وہ مظلوم ہوتا
ہےتو میں اس کی مدد کرتا ہوں لیکن جب وہ ظالم ہو تو میں اس کی مدد کس طرح کروں؟
فرمایا : اسے روکو یا ظلم کرنے سے منع کرو کیونکہ یہی اس کی مدد ہے۔
4۔ روایت ہے حضرت واثلہ ابن اسقع سے فرماتے ہیں میں
نے عرض کیا یارسول اللہ ﷺ! تعصب کیا چیز ہے؟ فرمایا: یہ ہے کہ تم اپنی قوم کی ظلم
پر مدد کرو۔
اس کی شرح میں ہے: اپنی قوم سے محبت تعصب نہیں بلکہ
برائی پر ان کی مدد کرنا یہ ہے تعصب یہی ممنوع ہے کیونکہ اس میں گناہ پر مدد ہے
اور گناہ پر مدد کرنا بھی گناہ ہے۔
گناہوں میں مبتلا اشخاص کو چاہیے کہ وہ گناہوں سے
سچی توبہ کریں۔ اللہ پاک توبہ قبول فرمانے والا ہے۔ چنانچہ اللہ پاک نے ارشاد
فرمایا: ثُمَّ اِنَّ رَبَّكَ لِلَّذِیْنَ عَمِلُوا السُّوْٓءَ بِجَهَالَةٍ
ثُمَّ تَابُوْا مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ وَ اَصْلَحُوْۤاۙ-اِنَّ رَبَّكَ مِنْۢ
بَعْدِهَا لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۠(۱۱۹) (پ 14، النحل: 119) ترجمہ کنز الایمان: پھر بےشک تمہارا رب ان کے لیے جو
نادانی سے برائی کر بیٹھیں پھر اس کے بعد توبہ کریں اور سنور جائیں بےشک تمہارا رب
اس کے بعد ضرور بخشنے والا مہربان ہے۔
آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جو لوگ نادانی سے کفر و معصیت
کا ارتکاب کر بیٹھیں ، پھر ان سے توبہ کر لیں اور آئندہ اپنی توبہ پر قائم رہ کر
اپنے اعمال درست کر لیں تو الله تعالیٰ ان پر رحم فرماتے ہوئے ان کی توبہ قبول
فرما لے گا۔ (صاوی، 3 / 1099-
خازن، 3 / 149، ملتقطاً)