نیکی کے کاموں میں مدد کرنے سے ثواب ملتا ہے جبکہ
گناہ کے کاموں میں مدد کرنے سے گناہ ملتا ہے۔ گناہ پر مدد کرنے کی بہت سی صورتیں
ہوتی ہیں مثلاً کوئی ناچ رہی ہے یا گانے گا رہی ہے اسکو پیسے دینا یا تالیاں بجانا،
اسکی تعریف کرنا وغیرہ وغیرہ اسکو مزید گناہوں پر ابھارے گا جس سے گناہ پر مدد
کرنے والا اور گنا پر ابھارنے والا بھی گناہ گار ہوگا۔ اسی طرح دیگر گناہوں پر بھی
مدد کرنے والا گناہ گار ہوگا۔ قرآن پاک میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى ۪-وَ لَا تَعَاوَنُوْا
عَلَى الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ۪- (پ 6، المائدۃ: 2) ترجمہ کنز العرفان:
اور نیکی اور پرہیزگاری پر ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور زیادتی پر باہم مدد
نہ کرو۔
تفسیر صراط الجنان میں ہے: اس آیت مبارکہ میں اللہ
تعالیٰ نے دو باتوں کا حکم دیا ہے: (1)نیکی اور پرہیزگاری پر ایک دوسرے کی مدد
کرنے کا۔ (2) گناہ اور زیادتی پر باہمی تعاون نہ کرنے کا۔ برسے مراد ہر وہ نیک کام
ہے جس کے کرنے کا شریعت نے حکم دیا ہے اور تقویٰ سے مراد یہ ہے کہ ہر اس کام سے
بچا جائے جس سے شریعت نے روکا ہے۔ اثم سے مراد گناہ ہے اور عدوان سےمراد اللہ
تعالیٰ کی حدود میں حد سے بڑھنا۔ (تفسیر جلالین، ص 94)
ایک قول یہ ہے کہ اثم سے مراد کفر ہے اور عدوان سے
مراد ظلم یا بدعت ہے۔ (خازن، 1/ 461)
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
نیکی سے مراد سنت کی پیروی کرنا ہے۔ (صاوی، 2/469)
حضرت نواس بن سمعان فرماتے ہیں: میں نے رسول اکرم ﷺ
سے نیکی اور گناہ کے بارے میں پوچھا توآپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: نیکی حسن اخلاق ہے
اور گناہ وہ ہے جو تیرے دل میں کھٹکے اور لوگوں کا اس سے واقف ہونا تجھے ناپسند
ہو۔ (ترمذی، 4 / 173، حدیث: 2396)
نیکی کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرنے اور گناہ
کے کاموں میں مدد نہ کرنے کا حکم: یہ انتہائی جامع آیت مبارکہ ہے، نیکی اور تقویٰ
میں ان کی تمام انواع واقسام داخل ہیں اور اثم اور عدوان میں ہر وہ چیز شامل ہے جو
گناہ اور زیادتی کے زمرے میں آتی ہو۔ علم دین کی اشاعت میں وقت، مال، درس و تدریس
اور تحریر وغیرہ سے ایک دوسرے کی مدد کرنا، دین اسلام کی دعوت اور اس کی تعلیمات
دنیا کے ہر گوشے میں پہنچانے کے لئے باہمی تعاون کرنا، اپنی اور دوسروں کی عملی
حالت سدھارنے میں کوشش کرنا، نیکی کی دعوت دینا اور برائی سے منع کرنا، ملک و ملت
کے اجتماعی مفادات میں ایک دوسرے سے تعاون کرنا، سوشل ورک اور سماجی خدمات سب اس
میں داخل ہے۔ گناہ اور ظلم میں کسی کی بھی مدد نہ کرنے کا حکم ہے۔ کسی کا حق مارنے
میں دوسروں سے تعاون کرنا، رشوتیں لے کر فیصلے بدل دینا، جھوٹی گواہیاں دینا، بلا
وجہ کسی مسلمان کو پھنسا دینا، ظالم کا اس کے ظلم میں ساتھ دینا، حرام و ناجائز
کاروبار کرنے والی کمپنیوں میں کسی بھی طرح شریک ہونا، بدی کے اڈوں میں نوکری کرنا
یہ سب ایک طرح سے برائی کے ساتھ تعاون ہے اور ناجائز ہے۔ سبحان اللہ! قرآن پاک کی
تعلیمات کتنی عمدہ اور اعلیٰ ہیں، اس کا ہر حکم دل کی گہرائیوں میں اترنے والا، اس
کی ہر آیت گمراہوں اور گمراہ گروں کے لئے روشنی کا ایک مینار ہے۔ اس کی تعلیمات سے
صحیح فائدہ اسی وقت حاصل کیا جاسکتا ہے جب ان پر عمل بھی کیا جائے۔ افسوس، فی
زمانہ مسلمانوں کی ایک تعداد عملی طور پر قرآنی تعلیمات سے بہت دور جا چکی ہے۔
اللہ تعالیٰ سبھی مسلمانوں کو قرآن کے احکامات پرعمل کی توفیق عطا فرمائے۔
گناہ پر مدد کرنے کے حوالے سے احادیث مبارکہ اور
بزرگان دین کے اقوال: خدا کے نافرمانوں کے ساتھ یعنی کافروں، بے دینوں، گمراہوں
اور ظالموں کے ساتھ بلاضرورت میل جول، رسم و راہ، قلبی میلان اور محبت، ان کی ہاں
میں ہاں ملانا اور ان کی خوشامد میں رہنا ممنوع ہے۔ ظالموں کے بارے میں امام محمد
غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں (ظالموں کے ساتھ عملی طور پر تعاون تو ظاہر ہے
اور) زبانی طور پر تعاون یہ ہے کہ وہ ظالم کے لئے دعا مانگتا ہے یااس کی تعریف
کرتا ہے یااس کے جھوٹے قول کی صراحتاً تصدیق کرتا ہے، مثلاً زبان سے اسے سچا قرار
دیتا ہے یاسر ہلا دیتا ہے یااس کے چہرے پر مسرّت ظاہر ہوتی ہے یاوہ اس شخص سے محبت
و دوستی ظاہر کرتا ہے، اس سے ملاقات کا شوق رکھتا ہے اور اس کی عمر میں اضافہ اور
ا س کی بقا کی حرص رکھتا ہے، ایسا شخص عام طور پر (ظالموں کو) صرف سلام ہی نہیں
کرتا بلکہ (ان سے) کچھ بات چیت بھی کرتا ہے اور وہ اسی شخص کا کلام ہوتا ہے
حالانکہ اس کا ظالم کی حفاظت، اس کی لمبی زندگی، ا س کے لئے نعمتوں کی تکمیل اور
اس طرح کی دوسری دعائیں مانگنا جائز نہیں، اور اگر دعا کے ساتھ تعریفی کلمات بھی
ہوں اور وہ ان باتوں کا ذکر کرے جو اس ظالم میں نہیں ہیں تو یہ شخص جھوٹا، منافق
اور ظالم کااعزاز کرنے والا ہے اور یہ تین گناہ ہیں، اور اگر اس کے ساتھ ساتھ وہ ا
س کی باتوں کی تصدیق بھی کرے،اس کے کاموں کی تعریف کرے،اس کی پاکیزگی بیان کرے تو
وہ اس تصدیق اور اعانت کی وجہ سے گناہگار ہو گا کیونکہ ظالم کی پاکیزگی بیان کرنا
اور تعریف کرنا گناہ پر مدد کرنا ہے۔ (احیاء علوم الدین، 2 / 179، 180)
احادیث اور بزرگان دین کے اقوال میں بھی ان چیزوں
کی شدید مذمت بیان کی گئی ہے، چنانچہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت
ہے،نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ اس وقت ناراض ہوتا ہے جب زمین
پر کسی فاسق کی تعریف کی جاتی ہے۔ (شعب الایمان، 4 / 230،
الحدیث: 4885)
حضرت حسن رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: جو شخص کسی ظالم
کے باقی رہنے کی دعا کرتا ہے وہ اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی
نافرمانی کی جائے۔ (شعب الایمان، 7/ 53، حدیث:
9432)
امام اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اللہ
تعالیٰ کے ہاں اس عالم سے زیادہ ناپسندیدہ شخص کوئی نہیں جو کسی عامل (یعنی ظالم
گورنر) کے پاس جاتا ہے۔ (مدارک، ص515)
یہاں ایک اور بات یاد رکھیں کہ بعض حضرات کا یہ
نظریہ ہے کہ ہم اپنی دنیوی ضروریات کی وجہ سے ظالموں کے اعمال پر راضی ہوتے، ان کی
خوشامد و چاپلوسی کرتے اور ان کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں، اگر ہم ایسا نہ کریں تو
ہمارے لئے اپنی دنیوی ضروریات کو پورا کرنا دشوار ہو جائے، انہیں چاہئے کہ وہ
علامہ احمدصاوی رحمۃ اللہ علیہ کے ا س کلام پر غور کر لیں، چنانچہ آپ فرماتے ہیں:
ظالموں کے اعمال سے راضی ہونے میں دنیوی ضروریات کو دلیل بنانا قابل قبول نہیں
کیونکہ اللہ تعالیٰ ہی بڑا رزق دینے والا، قوت والا اور قدرت والا ہے۔ (صاوی، 3/ 936) اور جب حقیقی رازق، قوی اور قادر اللہ
تعالیٰ ہے تو خود کو ظالموں کا دست نگر سمجھنا کہاں کی عقلمندی ہے۔