دنیا جب سے وجود میں آئی ہے اس میں نیکی اور برائی کا وجود ہر دور میں موجود رہا ہے اور آئندہ بھی ایسا ہی رہے گا ایک مسلمان کو نیکی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے اور برائی کے کاموں سے دور رہنے کا حکم دیا گیا ہے اسی طرح مسلمان کو کسی دوسرے سے تعاون کرنے میں بھی یہی شرط رکھی گئی ہے کہ اگر کوئی نیکی کا کام کر رھا ہے تو اس کے ساتھ تعاون کیا جائے اور اگر کوئی برائی کا کام کر رھا ہے تو اس سے تعاون نہ کیا جائے بلکہ اس کی حوصلہ شکنی کی جائے مثلا اگر کوئی شخص کسی طرح کا بھی ظلم کر رھا ہے تو اسے کسی بھی قسم کا کوئی تعاون فراہم نہ کیا جائے بلکہ مظلوم کی داد رسی کی جائے، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى ۪-وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ۪- (پ 6، المائدۃ: 2) ترجمہ کنز العرفان: اور نیکی اور پرہیزگاری پر ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور زیادتی پر باہم مدد نہ کرو۔

اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے دو باتوں کا حکم دیا ہے: (1)نیکی اور پرہیزگاری پر ایک دوسرے کی مدد کرنے کا۔ (2) گناہ اور زیادتی پر باہمی تعاون نہ کرنے کا۔ برسے مراد ہر وہ نیک کام ہے جس کے کرنے کا شریعت نے حکم دیا ہے اور تقویٰ سے مراد یہ ہے کہ ہر اس کام سے بچا جائے جس سے شریعت نے روکا ہے۔ اثم سے مراد گناہ ہے اور عدوان سےمراد اللہ تعالیٰ کی حدود میں حد سے بڑھنا۔ (جلالین، ص 94)

اس حوالے سے ایک حدیث مبارک ہے: نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم ہو۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ! مظلوم کی تو ہم مدد کریں لیکن کیا ظالم کی بھی مدد کریں۔ فرمایا: ہاں اور ظالم کی مدد یہ ہے کہ تم اسے ظلم سے روک دو۔ یہ ظالم کی مدد یوں ہے کہ اس کی آخرت کے لیے مفید ہے تو گناہگار کی مدد یہ ہے کہ اسے گناہ سے روک دیا جائے۔ (بخاری، 3/128، حدیث :2443)