بے حیائی معاشرے میں اخلاقی زوال اور بگاڑ کی ایک بڑی وجہ ہے۔ یہ ایک ایسی برائی ہے جس کی وجہ سے انسان اپنے وقار اور عزت کو کھو دیتا ہے۔ اسلام میں بے حیائی کی شدید مذمت کی گئی ہے، کیونکہ یہ نہ صرف فرد کی شخصیت کو متاثر کرتی ہے بلکہ پورے معاشرے کے امن و سکون کو بھی برباد کر دیتی ہے۔

بے حیائی کی شکلیں بے حیائی کئی شکلوں میں ظاہر ہو سکتی ہے، جیسے:

1۔ لباس اور ظاہری انداز میں بے پردگی: لباس میں بے حجابی اور ایسا طرز زندگی اختیار کرنا جو شرم و حیا کے منافی ہو۔

2۔ غلط بات چیت اور تعلقات: غیر اخلاقی گفتگو اور ایسے تعلقات قائم کرنا جو دینی اور معاشرتی اقدار کے خلاف ہوں۔

3۔ غلط مواد اور ذرائع ابلاغ: انٹرنیٹ، ٹی وی، اور سوشل میڈیا کے ذریعے فحاشی اور بے حیائی پھیلانا۔

بے حیائی کے اثرات

1۔ روحانی نقصان: بے حیائی انسان کے دل میں خوف خدا کو کم کر دیتی ہے اور روحانی ترقی کو روکتی ہے۔

2۔ معاشرتی مسائل: بے حیائی کی وجہ سے معاشرے میں انتشار، جرائم، اور بے اعتمادی بڑھتی ہے۔

3۔ نسلوں کی بگاڑ: نئی نسلوں کی تربیت میں کمی آتی ہے اور ان کی اخلاقی بنیادیں کمزور ہو جاتی ہیں۔

اسلامی تعلیمات اسلام نے ہمیں حیا کو اپنانے اور بے حیائی سے بچنے کی تعلیم دی ہے۔ حضرت محمد ﷺ نے فرمایا: حیا ایمان کا حصہ ہے۔ (ترمذی، 3/406، حدیث: 2016)

بے حیائی سے بچنے کی تدابیر

1۔ دینی تعلیمات کی پیروی: قرآن و حدیث کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے اپنی زندگی کو پاکیزہ رکھنا۔

2۔ اچھے دوستوں کا انتخاب: ایسے لوگوں کے ساتھ رہنا جو آپ کو اخلاقی اور دینی اعتبار سے مضبوط کریں۔

3۔ وقت کا صحیح استعمال: فضول کاموں اور بے فائدہ سرگرمیوں سے بچتے ہوئے اپنے وقت کو مثبت سرگرمیوں میں لگانا۔

بے حیائی سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی زندگی میں حیا، وقار، اور دینی اصولوں کو مضبوطی سے اپنائیں تاکہ ہم خود کو اور اپنے معاشرے کو اس برائی سے بچا سکیں۔


بےشرمی و بےحیائی تباہی لاتے ہیں یہ ایک حقیقت ہے کہ مردوں کے اخلاق و عادات بگڑنے سے معاشرہ بگڑنے لگتا ہے اور جب عورتوں میں یہ بیماری پھیل جائے تو نسلیں تباہ و برباد ہوجاتی ہیں۔ لہٰذا مرد ہو یا عورت اسلام دونوں کو حیا اپنانے کی تلقین کرتا ہے اور حیا کو تمام اخلاقیات کا سرچشمہ قرار دیتا ہے۔

وَّ لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِؕ-اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ(۱۶۸) اِنَّمَا یَاْمُرُكُمْ بِالسُّوْٓءِ وَ الْفَحْشَآءِ وَ اَنْ تَقُوْلُوْا عَلَى اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ(۱۶۹) (پ 2، البقرۃ: 168، 169) ترجمہ کنز الایمان: اور شیطان کے قدم پر قدم نہ رکھو، بےشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔ وہ تو تمہیں یہی حکم دے گا بدی اور بے حیائی کا اور یہ کہ اللہ پر وہ بات جوڑو جس کی تمہیں خبر نہیں۔

بے حیائی کی مذمت پر احادیث مبارکہ:

نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: حیاء ایمان کا حصہ ہے اور ایمان جنت میں جانے کاسبب ہے اور بے حیائی جفاء(زیادتی) ہے اور جفا دوزخ میں جانے کا سبب ہے۔(ترمذی، 3/406، حدیث: 2016)

رسول خدا ﷺ نے اسی لئے ارشاد فرمایا: جب تجھ میں حیا نہ رہے تو جو چاہے کر۔ (بخاری، 2/470، حدیث:3484)

مومن نہ تو طعنے دینے والا نہ لعنت و ملامت کرنے والا، نہ فاحش یعنی نہ بے شرم وبے حیاوبدکار اورنہ زبان دراز ہوتا ہے۔

نبی کریم ﷺ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سے زیادہ غیرت مند اور کوئی نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے بےحیائی کے کاموں کو حرام کیا ہے اور اللہ سے بڑھ کر کوئی اپنی تعریف پسند کرنے والا نہیں ہے۔ (بخاری، 3/225، حدیث: 4637)

حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی پاک ﷺ نے فرمایا: بے حیائی جس شے میں ہو تی ہے اسے بدنما کر دیتی ہے۔ اور حیاء جس شے میں ہوتی ہے اسے مزیّن کر دیتی ہے۔ (ابن ماجہ، 4 / 461، حدیث: 4185)

حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی پاک ﷺ نے فرمایا: قیامت کی علامت میں سے ہے کہ فحش و بے حیائی کی باتیں، اور فحش اور بے حیائی کے کام ہوں گے، رشتے داریاں توڑی جائیں گی، امانت دار کو خائن قرار دیا جائے گا، اور خائن کو امین قرار دیا جائے گا۔

حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی پاک ﷺ نے فرمایا: بیشک فحش و بے حیائی کی باتیں کی، اور فحش اور بے حیائی کے کام کی اسلام میں کچھ حیثیت نہیں اور اسلام کے اعتبار سے لوگوں میں سے بہترین وہ ہے جس کا اخلاق سب سے اچھا ہے۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں بے حیائی والے کاموں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے آمین آمین آمین آمین

اسلام اور حیا کا وہی گہرا تعلق ہے جو جسم اور روح کا ہے اسلام ہی ایسا مذہب ہے جو حیا کو حقیقی فروغ دیتا ہے ایک حقیقت ہے کہ مرد کی عادات بگڑنے سے معاشرہ بگڑنے لگتا ہے جبکہ عورت میں یہ بیماری پھیل جائے تو نسلیں تباہ و برباد ہو جاتی ہیں دین اسلام مرد و عورت دونوں کو حیا اپنانے کی تلقین کرتا ہے حیات کے بارے میں پیارے آقا ﷺ نے فرمایا: ہر دین کا خلق ہوتا ہے اور دین اسلام کا خلق حیا ہے۔ (ابن ماجہ، 4/460، حدیث: 4181)

ہمارے پیارے نبی ﷺ کنواری پردہ نشین لڑکیوں سے بھی زیادہ باحیا تھے۔ (ابن ماجہ، 4/460، حدیث:4180)

ایک اور جگہ پر پیارے آقا ﷺ نے فرمایا کہ جب تم میں حیا نہ ہو پھر جو چاہے کرو۔ (بخاری، 4/131، حدیث: 6125)

ایک اور موقع پر پیارے نبی ﷺ نے فرمایا: حیا اور ایمان باہم پیوست ہیں جب ان میں سے ایک اٹھ جائے تو دوسرا بھی جاتا رہتا ہے۔ (مستدرک للحاکم، 1/176، حدیث:22)

حضرت محمد ﷺ نے فرمایا: ایمان کی 60 سے اوپر شاخیں ہیں اور حیا بھی ایمان کی شاخ ہے۔ (مسلم، ص 39، حدیث: 35)

قرآن پاک کی روشنی میں اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: قُلْ اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّیَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَ مَا بَطَنَ (پ 8، الاعراف: 33) ترجمہ کنز الایمان: تم فرماؤ میرے رب نے تو بے حیائیاں حرام فرمائی ہیں (ف۴۹) جو ان میں کھلی ہیں اور جو چھپی۔

حدیث پاک میں ہے: حیا سراسر خیر ہی خیر ہے۔

قرآن پاک میں اللہ پاک ایک اور جگہ پر ارشاد فرماتا ہے: اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۙ-فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِؕ-وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(۱۹) (پ 18، النور: 19) ترجمہ کنز الایمان: وہ لوگ جو چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بُرا چرچا پھیلے ان کے لیے دردناک عذاب ہے دنیا اور آخرت میں اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔

اس آ یت میں اللہ تعالی نے بے حیائی کی ایک جھوٹی خبر کی اشاعت و ترویج کو بھی بے حیائی سے تعبیر فرمایا ہے اور اسے دنیا اور اخرت میں دردناک عذاب کا باعث قرار دیا ہے پس جب بے حیائی کی ایک جھوٹی خبر کی اشاعت اللہ تعالی کے نزدیک اس قدر بڑا جرم ہے تو آج کل ذرائے ابلاغ کے ذریعے شب و روز مسلم معاشرے میں جو بے حیائی پھیلی جا رہی ہے اللہ تعالی کے نزدیک یہ کس قدر جرم اور گناہ ہوگا ابھی اس میں بھی بے حیائی کے کاموں سے بچنے کی تلقین فرمائی گئی ہے آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا اللہ تعالی سے حیا کرو جیسا اس سے حیا کرنے کا حق ہے صحابہ کرام نے عرض کی یا رسول اللہ ﷺ ہم اللہ سے حیا کرتے ہیں اور اس پر اللہ پاک کا شکر ادا بھی کرتے ہیں آپ ﷺ نے فرمایا حیا کا حق یہ نہیں جو تم نے بلکہ حیا کا حق یہ ہے کہ تم اپنا سر اور اس کے ساتھ جتنی چیزیں ہیں ان سب کی حفاظت کرو اپنے پیٹ اور اس کے اندر جو چیزیں ہیں ان کی حفاظت کرو اور موت اور ہڈیوں کے سڑ جانے کو یاد کرو جسے اخرت کی چاہت ہو وہ دنیا کی زینت کو ترک کر دے بس جس نے اسے پورا کیا تو حقیقت میں اسی سے اللہ تعالی نے حیا کی جیسا اس سے حیا کرنے کا حق ہے۔ (ترمذی، 4/207، حدیث: 2466)

حیا بھی ایمان کا ایک شعبہ ہے۔ حیا ایمان کا حصہ ہے اور اہل ایمان جنت میں جائیں گے جب کہ بے حیائی ظلم ہے اور ظالم جہنم میں جائیں گے۔ (ترمذی، 3/406، حدیث: 2016)


شریعت کی نظر میں حیا وہ صفت ہے، جس کے ذریعہ انسان بے ہودہ، قبیح اور ناپسندیدہ کاموں سے رک جاتا ہے۔ دین اسلام میں حیا اور پاک دامنی اپنانے کا حکم دیا گیا ہے، تاکہ انسان اسے اپناکر معاشرہ کو پرامن بنانے میں اہم کردار ادا کرے۔ اور بے حیائی اور فواحش کے قریب جانے سے روکا گیا ہے، تاکہ معاشرہ فساد سے بچ جائے۔

نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: حیاء ایمان کا حصہ ہے اور ایمان جنت میں جانے کاسبب ہے اور بے حیائی جفاء(زیادتی) ہے اور جفا دوزخ میں جانے کا سبب ہے۔ (ترمذی، 3/406، حدیث: 2016)

قرآن کریم میں جابجا بےحیائی اور برے کاموں سے باز رہنے کا حکم دیا گیا ہے جیسا کہ قرآن کریم میں اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَ یَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِ وَ الْبَغْیِۚ-(پ 14، النحل: 90)ترجمہ کنز الایمان: اور منع فرماتا ہے بے حیائی اور بری بات اور سرکشی سے۔

وَ لَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَ مَا بَطَنَۚ- (پ 8، الانعام: 151) ترجمہ: اور بے حیائی کے قریب بھی نہ جاؤ، چاہے وہ کھلی ہو یا چھپی ہوئی۔

اسی طرح حدیث مبارکہ میں بھی بے حیائی سے روکا گیا ہے اور شرم و حیا کو اپنانے کا فرمایا گیا ہے جیسا کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

ایک مرد دوسرے مرد کے ستر کو نہ دیکھے اور نہ ہی کوئی عورت دوسری عورت کے ستر کو دیکھے۔ کوئی مرد دوسرے مرد کے ساتھ اورکوئی عورت دوسری عورت کے ساتھ ایک کپڑے میں نہ لیٹے۔

حضرت علی کرم اللہ وجہہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اپنی ران سے کپڑا مت اٹھاؤ، کسی زندہ کی ران دیکھو، نہ مردہ کی۔ (سنن ابی داؤد، جلد سوئم، کتاب الحمام:4015)

حضرت ابومسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: لوگوں نے سابقہ انبیاء علیہم السلام کے کلام میں سے جو حاصل کیا ہے، وہ یہ ہے کہ جب تم حیا نہ کرو، تو پھر جو چاہو کرو۔(بخاری، 4/131، حدیث: 6125)

حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: کوئی مرد جب جب بھی کسی غیر محرم عورت کے ساتھ تنہائی میں ہوتا ہے تو ان کے ساتھ تیسرا شیطان ہوتا ہے۔ (ترمذی، 4/67، حدیث: 2172)

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: تین اشخاص ایسے ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے جنت حرام کردی ہے: 1ہمیشہ شراب پینے والا، 2والدین کا نافرمان، 3وہ بے غیرت جو اپنے گھر میں بے حیائی کو (دیکھنے کے باوجود اسے) برقرار رکھتا ہے۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: بری بات جہاں کہیں بھی ہو قابل ملامت ہے، اور شرم وحیاء جہاں کہیں بھی ہو باعث فخر ہے۔

اللہ کریم ہمیں بھی حیا جیسی عظیم صفت کو اپنانے کی توفیق عطا فرمائے اور بےحیائی سے محفوظ فرمائے۔ آمین

شرم و حیا کی اہمیت سے متعلق چند احادیث طیبہ

ارشاد فرمایا: بے شک ہر دین کا ایک خلق ہے اور اسلام کا خلق حیا ہے۔ (ابن ماجہ، 4/460، حدیث: 4181)

ارشاد فرمایا: بے حیائی جس چیز میں ہو اسے عیب دارکر دیتی ہے اور حیا جس چیز میں ہو اسے زینت بخشتی ہے۔ (ابن ماجہ، 4 / 461، حدیث: 4185)

پیاری پیاری اسلامى بہنو! غور کیجئے! اسلام میں شرم و حیا کی کتنی اہمیت ہے، ایک حدیث میں فرمایا گیا کہ ایمان و حیاآپس میں ملے ہوئے ہیں، جب ایک بھی ختم ہوتاہے تو دوسرا خودبخود(Automatic) ختم ہوجاتا ہے۔ آج اسلام کے دشمنوں کی یہی سازش ہے کہ مسلمانوں سےکسی طرح چادر حیا کھینچ لی جائے، جب حیا ہی نہ رہے گی تو ایمان خود ہی رخصت ہو جائے گا۔

آج ہمارے معاشرے میں کیسی کیسی بے حیائیاں ہورہی ہیں، آئیے کچھ سنتے ہیں * فحش یعنی بے حیائی والی گفتگو کرنا٭ گالیاں دینا۔ ٭ چست یعنی بدن سے چپکا ہوا لباس پہننا اس طرح کہ اس سے بدن کے اعضا جھلکیں۔ ٭ بڑوں کی تعظیم نہ کرنا۔ ٭ گانے باجے سننا۔ ٭ فلمیں ڈرامے د یکھنا۔ ٭ گناہوں کا ارتکاب کرنا۔ ٭ حیاسوز ناول پڑھنا۔ ٭ نامحرم مردوں اورعورتوں کا شادیوں / فنکشن (Function)کے نام پر ایک دوسرے میں آنا جانا، بلاتکلف باتیں کرنا۔ ٭ شرعی پردے کا لحاظ نہ کرنا۔ اس کے علاوہ اوربھی کئی مثالیں ہیں۔ یاد رکھئے: حدیث پاک میں ہے: حیا ایمان کا حصہ ہے۔ (ترمذی، 3/406، حدیث: 2016)یعنی جس میں جتنا ایمان زیادہ ہوگا اتنا ہی وہ شرم و حیا والا ہوگا جبکہ جس کا ایمان جتنا کمزور ہوگا، شرم وحیا بھی اس میں اتنی ہی کمزور ہوگی۔

بے حیائی اور زمانۂ جاہلیت پیاری پیاری اسلامی بہنو! اگر ہم تاریخ(History) کا مطالعہ کریں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ زمانۂ جاہلیت یعنی سرکار دوعالم، نور مجسم ﷺ کی دنیا میں جلوہ گری سے پہلے کے زمانے(زمانۂ جاہلیّت) میں عربوں میں بے حیائی اور بے شرمی عام تھی۔ مردوعورت کا میل جول، عورتوں کے ناچ گانے سے لطف اٹھانا، یہ سب اس وقت بھی عام تھا۔ عرب کے بڑے بڑے شعراء عورتوں کی نازیبا حرکتوں اور اداؤں کا ذکر اپنی شاعری میں فخریہ کرتے تھے۔ اسی طرح بعض لوگ باپ کے مرنے پر معاذاللہ باپ کی بیوی یعنی اپنی سوتیلی ماں سے نکاح کر لیتے۔ ان کے علاوہ بھی طرح طرح کی بے شرمی و بے حیائی کی رسمیں ان میں عام تھیں۔ الغرض! جاہلیت کے معاشرے کا شرم و حیا سے دور دور کا بھی تعلق نہیں تھا۔

حضرت امّ خلّادرضی اللہ عنہا کا بیٹا جنگ میں شہید ہوگیا۔ یہ اپنے بیٹے کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کیلئے نکلیں، لیکن اس وقت بھی چہرے پر نقاب ڈالنا نہیں بھولیں، چہرے پر نقاب ڈال کر بارگاہ رسالت ﷺ میں حاضر ہوئیں تو اس پر کسی نے حیرت سے کہا: آپ اس وقت بھی باپردہ ہیں؟ تو اس پر بی بی امّ خلّادرضی اللہ عنہاکہنے لگیں: میں نے اپنا بیٹا ضرور کھویا ہے، مگر اپنی حیا نہیں کھوئی، وہ اب بھی باقی ہے۔(ابو داود، 3/9، حدیث: 2488)

توچونکہ آقا کریم، رسول رحیم ﷺ خود شرم و حیا کے پیکر تھے، اس لیے آپ ﷺ نے اپنی مقدس تعلیمات سے پورے معاشرے کو حیادار اور باوقار بنا دیا اور وہاں رہنے والا ہر ایک شرم و حیا کا پیکر بننے لگا۔ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کیا ہی خوب فرماتے ہیں:

نیچی نظروں کی شرم و حیا پر درود اونچی بینی کی رفعت پہ لاکھوں سلام

ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ اس سے ہمیں بھی یہ درس ملتا ہےکہ اگر ہم اپنے گھر میں شرم و حیا کا ماحول بنانا چاہتے ہیں تو پہلے ہمیں خود اپنے اندر شرم وحیا پیدا کرنا ہوگی۔ اگر ہماری خواہش ہے کہ ہمارے گھر والے بے پردگی سے بچیں تو پہلے ہمیں خود حیا کا پیکر بننا ہوگا۔

اللہ پاک سے دعا ہے کی ہمیں بے حیائی سے دور رہنے کی توفیق عطا فرمائے آمین

بے حیائی ایک ایسا مذموم وصف ہے جو انسان کو فضول و لایعنی کاموں میں مشغول کرتا اور اصلاح و پاکیزگی سے بہت دور لے جاتا ہے نیز بے حیائی انسان کے اخلاقی وجود کو رذالت (کمینے پن) میں ڈھال دیتی ہے اور اسے احسن تقویم (بہترین تخلیق) سے اسفل سافلین (سب سے نچلے درجے) میں جاگراتی ہے۔

بے حیائی، بدکاری و بدافعالی سے منع کرتے ہوئے اللہ رب العزت قرآن عظیم میں ارشاد فرماتا ہے: قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهِمْ وَ یَحْفَظُوْا فُرُوْجَهُمْؕ-ذٰلِكَ اَزْكٰى لَهُمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ خَبِیْرٌۢ بِمَا یَصْنَعُوْنَ(۳۰) (پ 18، النور: 30) ترجمہ: مسلمان مردوں کو حکم دو کہ اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں، یہ ان کے لئے زیادہ پاکیزہ ہے، بیشک اللہ ان کے کاموں سے خبردار ہے۔

تفسیر: یہ سورۂ نور کی آیت مبارکہ ہے اور سورۂ نور بطور خاص اسلامی معاشرے میں پردہ، حجاب اور شرم و حیا کی ضرورت و اہمیت اور اس کی خلاف ورزی کی مختلف صورتوں اور ان کے سنگین نتائج اور سزاؤں کے بیان پرمشتمل ہے۔موجودہ زمانے میں بےپردگی، بےحیائی، ترک حجاب، نمائش لباس و بدن اور ناجائز زیب و زینت سے بھرپور ماحول میں اس سورت مبارکہ کو سمجھ کر پڑھنے کی ضرورت بہت بڑھ جاتی ہے۔ اسی لئے حدیث پاک میں حکم دیا گیا کہ اپنی عورتوں کو سورۃ نور سکھاؤ۔

شرم و حیا اور اسلام اسلام اور حیا کا آپس میں وہی تعلق ہے جو روح کا جسم سے ہے۔ سرکار مدینہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:بے شک حیا اور ایمان آپس میں ملے ہوئے ہیں، جب ایک اٹھ جاتا ہے تو دوسرا بھی اٹھا لیا جاتا ہے۔ (مستدرک للحاکم، 1/176، حدیث:66)

رسول خدا ﷺ کی شرم و حیا حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: مصطفےٰ جان رحمت ﷺ کنواری، پردہ نشین لڑکی سے بھی زیادہ باحیا تھے۔ (ابن ماجہ، 4/460، حدیث:4180)

بے حیائی کے نقصانات:

1بے حیاء انسان کی غیرت ایمانی ختم ہو جاتی ہے اور وہ گناہوں پر بے باک ہوجاتا ہے۔

2بے حیاء انسان کا رعب و دبدبہ جاتا رہتا ہے۔

3بے حیاء انسان کی سوچ گندی، ذہنیت غلیظ اور اعمال و افعال گھٹیا پن کے عادی ہوجاتے ہیں۔

4بے حیائی رسوائی کا سبب بنتی ہے۔

5بے حیائی کی وجہ سے انسان بدنگاہی، بدکاری و دیگر مذموم و حرام کاموں میں ملوث ہوجاتا ہے۔

بے حیائی سے بچنے کے طریقے:

1بے حیائی کی مذمت پر آیات قرآنیہ کی تفسیر اور احادیث مقدسہ کا مطالعہ کریں۔

2اسلاف کے حیاء پر مشتمل واقعات کا مطالعہ فرمائیں اور انکی سیرت پر خوب خوب عمل پیرا ہونے کی کوشش کریں۔

3سوشل میڈیا سے اجتناب کریں کیونکہ سوشل میڈیا بے حیائی کے فروغ کا اڈا بن چکا ہے ۔

4خود کو بدنگاہی سے حتیٰ الامکان محفوظ رکھیئے کیونکہ اگر نگاہ پاکیزہ نا ہوگی تو حیاء کا تصور کرنا بھی مشکل ہو جائے گا۔

5نماز کو اس طرح ادا کیجئے جیسے ادا کرنے کا حق ہے کیونکہ نماز بے حیائی اور گناہوں سے روکنے والی ہے۔ اللہ رب العزت قرآن عظیم میں ارشاد فرماتا ہے: ارشاد فرمایاکہ اے حبیب! ﷺ، آپ نماز قائم کرتے رہیں، بیشک نماز بے حیائی اور ان چیزوں سے روکتی ہے جو شرعی طور پر ممنوع ہیں۔ یاد رہے کہ یہاں نماز قائم کرتے رہنے کا حکم واضح طور پر تاجدار رسالت ﷺ کو دیا گیا ہے اور ضمنی طور پر یہی حکم آپ ﷺ کی امت کے لئے بھی ہے۔(روح البیان، العنکبوت، تحت الآیۃ: 45، 6 / 474)

حدیث مبارکہ میں ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، ایک شخص نے نبی کریم ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض کی: فلاں آدمی رات میں نماز پڑھتا ہے اور جب صبح ہوتی ہے تو چوری کرتا ہے۔ ارشاد فرمایا: عنقریب نماز اسے اس چیز سے روک دے گی جو تو کہہ رہا ہے۔ (مسند امام احمد، مسند ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ، 3 / 457، الحدیث: 9785)

6 اپنے نفس کا تزکیہ کیجئے، دل کو پاکیزہ کرنے کے طریقے اپنائیے انشاء اللہ الکریم بے حیائی سے حفاظت رہے گی

موجودہ معاشرہ اور بے حیائی موجودہ معاشرے میں بے حیائی عروج پر ہے ہر گھر میں ٹی وی چینل پر میوزک بھرے فحش پروگرام دیکھے جاتے ہیں، کاروبار کی تشہیر کے لیے عورتوں کی تصویریں بطور نمائش بڑے بڑے بینرز کی صورت میں دکانوں کے اوپر آویزاں کی جاتی ہیں۔ عورتوں کو مرد کے شانہ بشانہ کھڑے کرنے کے تصور نے معاشرے میں ایسا غلیظ بگاڑ پیدا کیا کہ عورتیں خود کو مردوں جیسا بلکہ ان سے بھی زیادہ قابل منوانے کے لیے بے حیائی و بے پردگی کی ہر حد پار کردیتی ہیں اور گھر کے مرد اسے جنریشنل چینج (Generational Change) کا نام دے کر خوب دیوثیت کاط اعلیٰ ثبوت دیتے ہیں۔

اللہ کریم ہمارے معاشرے کو بے حیائی سے پاک فرمائے سیدہ فاطمہ طیبہ طاہرہ عابدہ زاہدہ رضی اللہ عنھا کی چادر تطھیر کے صدقے مسلمان عورتوں کو حیاء و پاکیزگی عطا فرمائے۔

حیا کے لغوی معنی وقار، سنجیدگی اور متانت کے ہیں۔ یہ بے شرمی، فحاشی اوربے حیائی کی ضد ہے۔

آئیے دیکھتے ہیں سب سے پہلے کے بے حیائی کے بارے میں قرآن کریم میں اللہ رب العزت کیا فرماتا ہے: اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۙ-فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِؕ-وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(۱۹) (پ 18، النور: 19) ترجمہ کنز الایمان: وہ لوگ جو چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بُرا چرچا پھیلے ان کے لیے دردناک عذاب ہے دنیا اور آخرت میں اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔

اس آیت کا معنی یہ ہے کہ وہ لوگ جو یہ ارادہ کرتے اور چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بے حیائی کی بات پھیلے ان کے لیے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے۔ دنیا کے عذاب سے مراد حد قائم کرنا ہے، چنانچہ عبد اللہ بن ابی، حضرت حسّان اور حضرت مسطح رضی اللہ عنہما کو حدلگائی گئی اور آخرت کے عذاب سے مراد یہ ہے کہ اگر توبہ کئے بغیر مر گئے تو آخرت میں دوزخ ہے۔ مزید فرمایا کہ اللہ تعالیٰ دلوں کے راز اور باطن کے احوال جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔ (مدارک، ص 774)

حضرت جریر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے اسلام میں اچھا طریقہ رائج کیا، اس کے لئے اسے رائج کرنے اور اپنے بعد اس پر عمل کرنے والوں کا ثواب ہے، اور ان عمل کرنے والوں کے ثواب میں سے بھی کچھ کم نہ ہوگا اور جس نے اسلام میں برا طریقہ رائج کیا، اس پر اس طریقے کو رائج کرنے اور اس پر عمل کرنے والوں کا گناہ ہے اور ان عمل کرنے والوں کے گناہ میں بھی کوئی کمی نہ ہوگی۔ (مسلم، ص 508، حدیث: 1017)

ارشاد فرمایا کہ اگر تم پر اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی اور یہ کہ اللہ تم پر نہایت مہربان، رحم فرمانے والا ہے تو اللہ تعالیٰ تمہیں تمہاری اس حرکت کا مزہ چکھاتا اور اس کا عذاب تمہیں مہلت نہ دیتا۔

آخر میں اللہ سے دعا ہے کے وہ تمام امت محمدی ﷺ کو بے حیائی سے بچا کر شرم و حیا کا پیکر بنائے۔ آمین

فحش، فاحشۃ، فواحش و فحشاء کے الفاظ عام طور پر بدکاری اور عمل قوم لوط کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔

بے حیائی پھیلنے کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں: ایک یہ کہ خود فحش پھیلے اور دوسری یہ کہ فحش کا الزام اور بہتان عام ہو جائے۔ دونوں چیزوں سے مسلم معاشرے پر برے اثرات مترتب ہوتے ہیں اور ساتھ بہتان عائد کرنا مقام انسان کے خلاف ہے اور کسی مؤمن کے وقار کو مجروح کرنا خود بڑا جرم ہے۔

بےحیائی کے متعلق اللہ کریم نے ارشاد فرمایا ہے: اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۙ-فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِؕ-وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(۱۹) (پ 18، النور: 19) ترجمہ کنز الایمان: وہ لوگ جو چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بُرا چرچا پھیلے ان کے لیے دردناک عذاب ہے دنیا اور آخرت میں اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔

اس آیت کا معنی یہ ہے کہ وہ لوگ جو یہ ارادہ کرتے اور چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بے حیائی کی بات پھیلے ان کے لیے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے۔ دنیا کے عذاب سے مراد حد قائم کرنا ہے، چنانچہ عبد اللہ بن ابی، حضرت حسّان اور حضرت مسطح رضی اللہ عنہما کو حدلگائی گئی اور آخرت کے عذاب سے مراد یہ ہے کہ اگر توبہ کئے بغیر مر گئے تو آخرت میں دوزخ ہے۔ مزید فرمایا کہ اللہ تعالیٰ دلوں کے راز اور باطن کے احوال جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔ (مدارک، ص 774)

اشاعت فاحشہ میں ملوث افراد کو نصیحت: اشاعت سے مراد تشہیر کرنا اور ظاہر کرنا ہے جبکہ فاحشہ سے وہ تمام اقوال اور افعال مراد ہیں جن کی قباحت بہت زیادہ ہے اور یہاں آیت میں اصل مراد زنا ہے۔ (روح البیان، 6 / 130، ملخصاً) البتہ یہ یاد رہے کہ اشاعت فاحشہ کے اصل معنیٰ میں بہت وسعت ہے چنانچہ اشاعت فاحشہ میں جو چیزیں داخل ہیں ان میں سے بعض یہ ہیں:

(1)کسی پر لگائے گئے بہتان کی اشاعت کرنا۔

(2)کسی کے خفیہ عیب پر مطلع ہونے کے بعد اسے پھیلانا۔

(3)علمائے اہلسنّت سے بتقدیر الٰہی کوئی لغزش فاحش واقع ہو تو ا س کی اشاعت کرنا۔

(4) حرام کاموں کی ترغیب دینا۔

(5) ایسی کتابیں لکھنا، شائع کرنا اور تقسیم کرنا جن میں موجود کلام سے لوگ کفر اور گمراہی میں مبتلا ہوں۔

(6) ایسی کتابیں، اخبارات، ناول، رسائل اورڈائجسٹ وغیرہ لکھنا اور شائع کرنا جن سے شہوانی جذبات متحرک ہوں۔

(7)فحش تصاویر اور وڈیوز بنانا، بیچنا اور انہیں دیکھنے کے ذرائع مہیا کرنا۔

(8)ایسے اشتہارات اور سائن بورڈ وغیرہ بنانا اور بنوا کر لگانا، لگوانا جن میں جاذبیت اور کشش پیدا کرنے کے لئے جنسی عریانیّت کا سہارا لیا گیا ہو۔

(9) حیا سوز مناظر پر مشتمل فلمیں اور ڈرامے بنانا،ان کی تشہیر کرنا اور انہیں دیکھنے کی ترغیب دینا۔

(10) فیشن شو کے نام پر عورت اور حیا سے عاری لباسوں کی نمائش کرکے بے حیائی پھیلانا۔

(11)زنا کاری کے اڈّے چلانا وغیرہ۔

احادیث میں بھی اس بارے میں ممانعت بیان فرمائی گئی ہیں۔ ذیل میں چند احادیث ملاحظہ ہوں:

فرمان مصطفٰی ﷺ ہے بے حیائی جس چیز میں ہو اسے عیب دار کر دیتی ہے اور حیا جس چیز میں ہو اسے زینت بخشتی ہے۔ (ابن ماجہ، 4 / 461، حدیث: 4185)

حضور جان عالم ﷺ نے فرمایا: اس شخص پر جنت حرام ہے جو فحش گوئی (بے حیائی کی بات) سے کام لیتا ہے۔ (الجامع الصغیر للسیوطی، ص 221، حدیث: 3648)

منقول ہے چار طرح کے جہنمی جو کھولتے پانی اور آگ کے مابین بھاگتے پھرتے ویل و ثبور مانگتے (ہلاکت) مانگتے ہو گے ان میں سے ایک شخص وہ کے جس کے منہ سے خون اور پیپ بہتے ہوں گے جہنمی کہیں گے اس بد بخت کو کیا ہوا ہماری تکلیف میں اضافہ کیے دیتا ہے ؟کہا جائے گا یہ بد بخت خبیث اور بری بات کی طرف متوجہ ہو کر اس سے لذت اٹھاتا تھا جیسا کہ جماع کی باتوں سے۔ (اتحاف السادۃ للزبيدی، 9/147)

اللہ کریم تمام مسلمانوں کو بے حیائی سے بچتے ہوئے اپنی زندگی اسلام کے بتائے ہوئے خوبصورت انداز کے مطابق گزرانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

بے حیائی کا مطلب ہے بے شرم اور حیا کی کمی۔ یہ ایک ایسی کیفیت ہے جس میں انسان کے اندر شرم و حیا کی صفت نہیں رہتی۔حیا ایک ایسی صفت ہے جس کے نتیجے میں انسان برائی اور غلطی سے باز رہتا ہے اور اگر یہ ختم ہو جائے تو انسان کو اپنے جرم کے ارتکاب پر ذرا بھی شرمندگی نہیں ہوتی ہے۔ شرم و حیا رخصت ہو جائے تو باقی تمام اچھائیوں پر خود بخود پانی پھر جاتا ہے اور دیگر تمام نیک اوصاف کی موجودگی کے باوجود اپنی وقعت کھو دیتے ہیں۔ جب تک انسان شرم وحیا کے حصار (دائرے) میں رہتا ہے ذلت و رسوائی سے بچا رہتا ہے اور جب اس قلعے کو ڈھا دیتا ہے تو پھر گھٹیا و بدترین کام بھی بڑی ڈھٹائی کے ساتھ کرتا چلا جاتا ہے۔رسول خدا ﷺ نے اسی لئے ارشاد فرمایا: جب تجھ میں حیا نہ رہے تو جو چاہے کر۔ (بخاری، 2/470، حدیث:3484) معلوم ہوا کہ کسی بھی برے کام سے رکنے کا ایک سبب شرم و حیا بھی ہے۔

شرم وحیا کیا ہے؟ وہ کام جو اللہ پاک اور اس کی مخلوق کے نزدیک ناپسند ہوں ان سے بچانے والے وصف کو شرم وحیا کہتے ہیں۔ اسلام اور حیا کا آپس میں وہی تعلق ہے جو روح کا جسم سے ہے۔ سرکار مدینہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:بے شک حیا اور ایمان آپس میں ملے ہوئے ہیں، جب ایک اٹھ جاتا ہے تو دوسرا بھی اٹھا لیا جاتا ہے۔(مستدرک للحاکم، 1/176، حدیث:66) اسی لئے اسلام کے دشمن مسلمانوں کی حیا پر وار کرتے نظر آتے ہیں۔ ڈراموں، فلموں، اشتہارات اور مارننگ شوز وغیرہ کے نام پر معاشرے میں شرم و حیا کے سائبان (شیڈ) میں چھید (سوراخ) کرنا کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ مردوں کے اخلاق و عادات بگڑنے سے معاشرہ بگڑنے لگتا ہے اور جب عورتوں میں یہ بیماری پھیل جائے تو نسلیں تباہ و برباد ہوجاتی ہیں۔ لہٰذا مرد ہو یا عورت اسلام دونوں کو حیا اپنانے کی تلقین کرتا ہے اور حیا کو تمام اخلاقیات کا سرچشمہ قرار دیتا ہے۔ حدیث شریف میں ہے: بے شک ہر دین کا ایک خلق ہے اور اسلام کا خلق حیا ہے۔ (ابن ماجہ، 4/460، حدیث: 4181)

صرف اسلام ہی ایسا مذہب ہے جو حقیقی حیا کو فروغ دیتا ہے۔رسول خدا ﷺ نے ایسی تعلیمات عطا فرمائی ہیں جن پر عمل کرنا پورے معاشرے کو حیا دار بنا سکتا ہے۔ اسلامی تعلیمات فطرت انسانی میں موجود شرم و حیا کی صفت کو ابھارتی ہیں اور پھر اس میں فکر و شعور کے رنگ بھر کر اسے انسان کا خوشنما لباس بنا دیتی ہیں۔میڈیا جس تواتر سے بچّوں اور بڑوں کو بےحیائی کا درس دے رہا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ قابل غور ہے کہ جو نسل نو (نئی نسل) والدین کے پہلو میں بیٹھ کر فلموں ڈراموں کے گندے اور حیا سوز مناظر دیکھ کر پروان چڑھے گی اس میں شرم و حیا کا جوہر کیسے پیدا ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ نسل نو کی ایک تعداد شرم و حیا کے تصوّر سے بھی کوسوں دور دکھائی دیتی ہے۔ شرم و حیا کی چادر کو تار تار کرنے میں رہی سہی کسر انٹر نیٹ نے پوری کردی ہے۔ اس کے فوائد اپنی جگہ مگر بےحیائی اور بے شرمی کے فروغ میں بھی انٹرنیٹ نے یہ ثابت کر دکھایا ہے کہ وہ واقعی تیزترین ہے۔

یاد رکھئے! اگر انسان خود شرم و حیا کے تقاضوں پر عمل پیرا ہو گا تبھی اس کی اولاد بھی ان صفات و خصائل کی حامل ہوگی اور اگر وہ خود شرم و حیا کا خیال نہ رکھے گا تو اولاد میں بھی اس طرح کے خراب جراثیم سرایت کرجائیں گے۔ آج ضرورت اس امر (بات) کی ہے کہ حیا کو متأثّر کرنے والے تمام عوامل سے دور رہا جا ئے اور اپنےتشخّص اور روح ایمان کی حفاظت کی جائے۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے اور تمام امت محمدیہ کو باحیا زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔


جب تک انسان شرم وحیا کے حصار (دائرے) میں رہتا ہے ذلت و رسوائی سے بچا رہتا ہے اور جب اس قلعے کو ڈھا دیتا ہے تو پھر گھٹیا و بدترین کام بھی بڑی ڈھٹائی کے ساتھ کرتا چلا جاتا ہے۔رسول خدا ﷺ نے اسی لئے ارشاد فرمایا: جب تجھ میں حیا نہ رہے تو جو چاہے کر۔ (بخاری، 2/470، حدیث:3484) معلوم ہوا کہ کسی بھی برے کام سے رکنے کا ایک سبب شرم و حیا بھی ہے۔ شرم وحیا کیا ہے؟ وہ کام جو اللہ پاک اور اس کی مخلوق کے نزدیک ناپسند ہوں ان سے بچانے والے وصف کو شرم وحیا کہتے ہیں۔ (باحیا نوجوان، ص 7ماخوذاً)

حیاء کے احکام حیاء کبھی فرض و واجب ہوتی ہے جیسے کسی حرام و ناجائز کام سے حیاء کرنا کبھی مستحب جیسے مکروہ تنزیہی سے بچنے میں حیائی، اور کبھی مباح (یعنی کرنا نہ کرنا یکساں) جیسے کسی مباح شرعی کے کرنے سے حیاء۔

یہ حقیقت ہے کہ مردوں کے اخلاق و عادات بگڑنے سے معاشرہ بگڑنے لگتا ہے اور جب عورتوں میں یہ بیماری پھیل جائے تو نسلیں تباہ و برباد ہوجاتی ہیں۔ لہٰذا مرد ہو یا عورت اسلام دونوں کو حیا اپنانے کی تلقین کرتا ہے اور حیا کو تمام اخلاقیات کا سرچشمہ قرار دیتا ہے۔ حدیث شریف میں ہے: بے شک ہر دین کا ایک خلق ہے اور اسلام کا خلق حیا ہے۔ (ابن ماجہ، 4/460، حدیث: 4181) صرف اسلام ہی ایسا مذہب ہے جو حقیقی حیا کو فروغ دیتا ہے۔

رسول خدا ﷺ نے ایسی تعلیمات عطا فرمائی ہیں جن پر عمل کرنا پورے معاشرے کو حیا دار بنا سکتا ہے۔ اسلامی تعلیمات فطرت انسانی میں موجود شرم و حیا کی صفت کو ابھارتی ہیں اور پھر اس میں فکر و شعور کے رنگ بھر کر اسے انسان کا خوشنما لباس بنا دیتی ہیں۔ رسول خدا ﷺ کی شرم و حیا حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: مصطفےٰ جان رحمت ﷺ کنواری، پردہ نشین لڑکی سے بھی زیادہ باحیا تھے۔ (ابن ماجہ، 4/460، حدیث:4180)

حیا نہیں کھوئی: اسی حیا پرور ماحول کا نتیجہ تھا کہ حضرت امّ خلاد رضی اللہ عنہا کا بیٹا جنگ میں شہید ہوگیا۔ یہ اپنے بیٹے کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کیلئے نقاب ڈالے بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئیں تو اس پر کسی نے حیرت سے کہا: اس وقت بھی باپردہ ہیں! کہنے لگیں: میں نے بیٹا ضرور کھویا ہے،حیا نہیں کھوئی۔ (ابو داؤد، 3/9، حدیث:2488 ملتقطاً) شرم و حیا بڑھائیے نور ایمان جتنا زیادہ ہوگا شرم و حیا بھی اسی قدر پروان چڑھے گی۔ اسی لئے آقا کریم ﷺ نے فرمایا: حیا ایمان سے ہے۔ (مسند ابی یعلیٰ، 6/291، حدیث: 7463) وہ لوگ جو مخلوط محفلوں (جہاں مردوعورت میں بے پردگی ہوتی ہو)،مکمل بدن نہ ڈھانپنے والے لباس، روشن خیالی اور مادر پدر آزادی کو جدّت و ترقی کا زینہ سمجھ کر انہیں فروغ دیتے ہیں انہیں سوچنا چاہئے کہ ان میں نور ایمان کتنا کم ہوگیا ہے؟ حیا تو ایسا وصف ہے کہ جتنا زیادہ ہو خیر ہی بڑھاتا ہے۔ اسی لئے آقا کریم ﷺ نے فرمایا:حیا صرف خیر ہی لاتی ہے۔ (مسلم، ص40، حدیث: 37)

حیاء کرنے کا حق: حضرت عبد اﷲ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور اکرم، نور مجسّم، شاہ بنی آدم، رسول محتشم ﷺ نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا: اللہ سے حیاء کرو جیسا حیاء کرنے کا حق ہے۔ عبداﷲ ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہم نے عرض کیا: ہم اللہ سے حیاء کرتے ہیں اور سب خوبیاں اللہ کیلئے ہیں۔ ارشاد فرمایا: یہ نہیں، بلکہ اللہ سے کما حقّہ حیاء کرنے کے معنیٰ یہ ہیں کہ سر اور سر میں جتنے اعضاء ہیں انکی اور پیٹ کی اور پیٹ جن جن اعضاء کو گھیرے ہے ان کی حفاظت کرے اور موت اور مرنے کے بعد گلنے سڑنے کو یاد کرے اور آخرت کو چاہنے والا دنیا کی زیب و زینت چھوڑ دیتا ہے تو جس نے ایسا کیا اس نے اللہ سے شرمانے کا حق ادا کر دیا۔ (مسند امام احمد، 2 /33، حدیث: 3671)

اللہ کریم ہم سب کو باحیا بنائے۔ آمین


الله تعالیٰ فرماتاہے: اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۙ-فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِؕ-وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(۱۹) (پ 18، النور: 19) ترجمہ کنز الایمان: وہ لوگ جو چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بُرا چرچا پھیلے ان کے لیے دردناک عذاب ہے دنیا اور آخرت میں اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔

بے حیائی (فحش) کی اشاعت ایک جامع بات ہے جس میں زنا، تہمت زنا، بے حیائی کی باتوں کا چرچا کرنا اور انسان کو زنا کی طرف مائل کرنے وا لی باتیں اور حرکتیں کرنا سب شامل ہیں۔ موجودہ زمانہ میں اشاعت فحش کے موڈرن طور طریقے ایجاد ہوگئے ہیں مثلاً نائٹ کلب، مخلوط تیراکی کے مظاہرے، عشق بازی کا جنون پیدا کرنے وا لی فلمیں، جنسی بے راہ روی پیدا کرنے والے اور اخلاق سوز گانے، ذہنوں پر عورت کا بھوت سوار کرانے والے اشتہارات، حسن کے مقابلے، ٹی وی پر عورتوں کے بے ڈھنگے پن کے مظاہرے، ہیجان انگیز ناولیں اور افسانے، اخبارات و رسائل میں عورتوں کی برہنہ اور نیم برہنہ تصویریں اور ڈانس کے پروگرام وغیرہ۔

ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جو شخص ہدایت (نیکی) کی طرف بلائے اسے ہدایت پر چلنے والوں کا بھی ثواب ملے گا اور چلنے والوں کے ثواب میں کسی قسم کی کمی نہیں کی جائے گی۔ اور جو شخص گمراہی( برائی) کی طرف بلائے اس کو گمراہی پر چلنے والوں کا بھی گناہ ہوگا اور ان چلنے والوں کے گناہ میں بھی کسی قسم کی کمی نہیں کی جائے گی۔

قارئین کرام! اس حدیث مبارکہ کو سمجھنے کے لئے انٹرنیٹ ایک بہترین مثال ہے! یعنی جو لوگ اپنی اور لوگوں کی اصلاح و ہدایت کے لئے اسلامک پیجز، ویب سائٹس وغیرہ بنا کر دین کی تبلیغ کے لئے کوشاں ہیں وہ بھی ثواب کے مستحق ہیں اور جو لوگ اسلامک پیجز، ویب سائٹس وغیرہ سے منسلک ہیں اور دینی پوسٹ شئیر کرکے اللہ کا پیغام آگے پھیلاتے ہیں تو ثواب کے حقدار وہ بھی ہیں۔

اسی طرح جو لوگ انٹرنیٹ کے ذریعہ لوگوں میں فحاشی پھیلا رہے ہیں تو ان پر گمراہ ہونے اور لوگوں کو گمراہ کرنے کا گناہ ہوگا اور جو لوگ بھی ایسے پیجز سے منسلک ہیں وہ بھی برابر کے گناہ گار ہو رہے ہیں۔

اللہ ہم سب کو صراط مستقیم پر چلنے اور ہر گناہ سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین والحمد للہ رب العالمین


ان لوگوں کی کتنی بڑی بد نصیبی و محرومی ہے کہ نفلی عبادتیں و ریاضتیں کریں، فرائض کے علاوہ نفلی نمازیں پڑھیں، نفلی روزے رکھیں مگر گانوں باجوں، فلموں ڈراموں، غیر عورتوں کو تاکنے جھانکنے اور امردوں (یعنی بے ریش خوبصورت لڑکوں) پر بری نظر ڈالنے جیسے بے حیائی کے کاموں سے باز نہ آئیں۔ یا د رکھئے! ہزاروں سال کی نفلی نمازوں، نفلی روزوں، کروڑوں، اربوں روپیوں کی نفلی خیراتوں، بہت سارے نفلی حج اور عمرے کی سعادتوں کے بجائے صرف ایک گناہ صغیرہ سے اپنے آپ کو بچا لینا افضل ہے۔ کیونکہ کروڑوں نفلی کاموں کے ترک پربھی قیامت میں عذاب کی کوئی وعید نہیں جبکہ گناہ صغیرہ سے بچنا واجب اور اس کے ارتکاب پر بروز قیامت مؤاخذہ اور سزا کا استحقاق ہے۔

بری صحبت اور گندے ماحول کے دلدادہ بعض نادان لوگ معاذ اللہ گھر کی پوشیدہ باتیں نیز ازدواجی خفیہ معاملات بھی اپنے بے حیا دوستوں کے سامنے بیان کر ڈالتے ہیں۔

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، پیکر شرم و حیا، مکی مدنی آقا ﷺ نے ارشاد فرمایا: بےشک اللہ کے نزدیک بروز قیامت مرتبے کے اعتبارسے سب سے برا شخص وہ ہے جواپنی بیوی کے پاس آئے اور بیوی اس کے پاس آئے پھر وہ اپنی بیوی کے راز کو (لوگوں میں) ظاہر کردے۔ (مسلم، ص 753، حدیث: 1437)

حیا کرنے کا حق: حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور اکرمﷺ نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا: اللہ سے حیاء کرو جیسا حیاء کرنے کا حق ہے۔ عبداﷲ ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہم نے عرض کیا: ہم اللہ سے حیاء کرتے ہیں اور سب خوبیاں اللہ کیلئے ہیں۔ ارشاد فرمایا: یہ نہیں، بلکہ اللہ سے کما حقّہ حیاء کرنے کے معنیٰ یہ ہیں کہ سر اور سر میں جتنے اعضاء ہیں انکی اور پیٹ کی اور پیٹ جن جن اعضاء کو گھیرے ہے ان کی حفاظت کرے اور موت اور مرنے کے بعد گلنے سڑنے کو یاد کرے۔ اور آخرت کو چاہنے والا دنیا کی زیب و زینت چھوڑ دیتا ہے تو جس نے ایسا کیا اس نے اللہ سے شرمانے کا حق ادا کر دیا۔ (مسند امام احمد، 2/33، حدیث: 3671)

ہمیں اپنے جسم کے تمام اعضاء کو حیا کا عادی بنانا اور گناہوں سے بچانا چاہئے۔

سر کی حیاء: سر کو برائیوں سے بچانا یہ ہے کہ برے خیالات، گندی سوچ اور کسی مسلمان کے بارے میں بدگمانی وغیرہ سے احتراز (پرہیز) کیا جائے اور سر کے اعضاء جیسے ہونٹ، زبان، کان اور آنکھوں وغیرہ کے ذریعے بھی گناہ نہ کئے جائیں۔

زبان کی حیاء زبان کو برائیوں سے بچاتے ہوئے بدزبانی اور بے حیائی کی باتوں سے ہر وقت پرہیز کرنی چاہئے، اپنے بھائی کو گالی دینا گناہ ہے اور بے حیائی کی باتیں کرنے والے بد نصیب پر جنّت حرام ہے۔

جنّت حرام ہے: حضور تاجدار مدینہ ﷺ کا فرمان باقرینہ ہے: اس شخص پر جنّت حرام ہے جو فحش گوئی (یعنی بے حیائی کی بات) سے کام لیتا ہے۔ (ا لجامع الصّغیر للسّیوطی، ص 221، حدیث: 3648)

جہنّمی بھی بیزار: منقول ہے: چار طرح کے جہنّمی کہ جو کھولتے پانی اور آگ کے مابین(یعنی درمیان) بھاگتے پھرتے ویل وثبور (ھلاکت) مانگتے ہونگے۔ ان میں سے ایک وہ شخص کہ اس کے منہ سے پیپ اور خون بہتے ہونگے۔ جہنّمی کہیں گے: اس بد بخت کو کیا ہوا ہماری تکلیف میں اضافہ کئے دیتا ہے ؟ کہا جائے گا: یہ بدبخت خبیث اور بری بات کرتا تھا۔

شعیب بن ابی سعید رضی اللہ عنہ سے مروی، فرماتے ہیں: جو بے حیائی کی باتوں سے لذّت اٹھائے بروز قیامت اس کے منہ سے پیپ اور خون جاری ہونگے۔ (ایضاً ص188)

کتّے کی شکل میں شہوت کی تسکین کی خاطر تیری شادی، میری شادی کہتے ہوئے بے شرمی کی باتیں کرنے والے ڈراموں کے شائقین، وی سی آر پر فحش فلمیں دیکھنے والے، سینما گھروں میں جانے والے، فلمی گانے گنگنانے والے بیان کردہ حدیث پاک سے درس عبرت حاصل کریں۔

حضرت ابراہیم بن میسرہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ: فحش کلامی (یعنی بے حیائی کی باتیں) کرنے والا قیامت کے دن کتے کی شکل میں آئے گا۔ (اتحاف السّادۃ للزّبیدی 9 /190)

مفسّر شہیر حکیم الامّت حضر ت مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃ الحنّان فرماتے ہیں: خیال رہے کہ تمام انسان قبروں سے بشکل انسانی اٹھیں گے پھر محشر میں پہونچ کر بعض کی صورتیں مسخ ہو جائیں گی۔ (مراۃ المناجیح، 6/660)

انسان اکثر اوقات معزّزین کے سامنے بے حیائی کی باتیں کرتے ہوئے شرماتا ہے، لیکن افسوس الٹی سیدھی باتیں کرتے وقت یہ احساس نہیں رہتا کہ معزّز ترین ربّ العٰلمین جلّ جلالہٗ سب کچھ سن رہا ہے۔

اللہ تمام باتیں سنتا ہے حضرت بشر حافی علیہ رحمۃ اللہ الکافی نہایت کم گفتگو کرتے اور اپنے دوستوں کو فرماتے: تم غور تو کرو کہ اپنے اعمال ناموں میں کیا لکھوا رہے ہو! یہ تمہارے رب کے سامنے پڑھا جائے گا، تو جو شخص قبیح (یعنی شرمناک) گفتگو کرتا ہے اس پر حیف (یعنی افسوس) ہے، اگر اپنے دوست کو کچھ لکھواتے ہوئے کبھی اس میں برے الفاظ لکھواؤ تو یہ تمہاری حیا کی کمی کی وجہ سے ہے۔ تو اپنے رب کے ساتھ ایسا معاملہ کتنا برا ہوگا (یعنی جب نامہ اعمال میں بے حیائی کی باتیں ہوں۔ (تنبیہ المغترین، ص 228)

ایمان کے دو شعبے: سرکار مدینہ راحت قلب و سینہ ﷺ کا فرمان عالیشان ہے: حیاء اور کم گوئی ایمان کے دو شعبے ہیں اور فحش بکنا اور زیادہ باتیں کرنا نفاق کے دو شعبے ہیں۔ (ترمذی، 3/414، حدیث: 2034)

مفسّر شہیر حکیم الامّت حضر ت مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃ الحنّان اس حدیث پاک کے اس حصے زیادہ بولنا کی شرح میں فرماتے ہیں: یعنی ہر بات بے دھڑک منہ سے نکال دینا منافق کی پہچان ہے۔ زیادہ بولنے والا گناہ بھی زیادہ کرتا ہے یعنی اسی فیصدی گناہ زبان سے ہوتے ہیں۔ (مراٰۃ المناجیح، 6/435)

سر کے اعضاء میں آنکھیں بھی شامل ہیں، انکو بھی بد نگاہی اور جن چیزوں کی طرف نظر کرنا شرعًا ناجائز ہے، ان سے بچانا اشدّ ضروری و تقاضائے حیاء ہے۔

حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں مروں پھر زندہ ہوں، پھر مروں پھر زندہ ہوں، پھر مروں پھر زندہ ہوں تب بھی میرے نزدیک یہ اس سے بہتر ہے کہ میں کسی کے ستر (یعنی شرمگاہ) کو دیکھوں یا کوئی میرے ستر کو دیکھے۔ (تنبیہ الغافلین، ص 258)

فاسق کون؟ کسی دانا سے پوچھا گیا کہ فاسق کون ہے ؟ فرمایا: فاسق وہ ہے جو اپنی نظر لوگوں کے دروازوں اور انکے ستروں (پردے کی جگہوں) سے نہ بچائے۔ (تنبیہ الغافلین، ص 258)

ملعون ہے حضرت حسن بصری علیہ رحمۃ اللہ القوی سے روایت ہے کہ: رسول اکرم ﷺ کا ارشاد عبرت بنیاد ہے: اللہ تبارک و تعالیٰ کی لعنت ہو دیکھنے والے پر اور اس پر جس کی طرف دیکھاجائے۔ (شعب الایمان، 6/162، حدیث: 7788) مفسّر شہیر حکیم الامّت حضر ت مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃ الحنّان اس حدیث پاک کے تحت فرماتے ہیں: مطلب یہ ہے کہ جو مرد اجنبی عورت کوقصداً بلا ضرورت دیکھے اس پر بھی لعنت ہے اور جو عورت قصداً بلا ضرورت اجنبی مرد کو اپنا آپ دکھائے اس پر بھی لعنت غرضیکہ اس میں تین قیدیں لگانی پڑیں گی اجنبی عورت کو دیکھنا، بلاضرورت دیکھنا، قصداً دیکھنا۔ (مراۃ المناجیح، 5/24) سرکارمدینۂ منوّرہ، سردارمکّۂ مکرّمہ ﷺ کاارشاد عبرت بنیاد ہے: اپنی ران مت کھولواورکسی کی ران نہ دیکھو خواہ وہ زندہ ہو یا مردہ۔ (ابو داود، 3/263، حدیث: 3140)

اللہ سے دعا ہے کہ اللہ رب العزت ہمیں بے حیائی سے محفوظ فرمائے۔ آمین