دور حاضر میں جہاں باقی گناہوں نے معاشرے کو اپنے لپیٹ میں لے رکھا ہے وہیں پر ان سب گناہوں کی ایک جڑ بے حیائی بھی ہے جس کا اضافہ وقت کے ساتھ بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے اور اس کا زیادہ تر شکار آج کی مسلمان نسل ہو رہی ہے۔ قرآن پاک میں اللہ پاک کا ارشاد ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِؕ-وَ مَنْ یَّتَّبِـعْ خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ فَاِنَّهٗ یَاْمُرُ بِالْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِؕ- (پ 18، النور: 21) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو شیطان کے قدموں پر نہ چلو اور جو شیطان کے قدموں پر چلے تو وہ تو بے حیائی اور بُری ہی بات بتائے گا۔

بے حیائی کی ایک بنیادی وجہ سوشل میڈیا اور اس پر دکھایا جانے والا بےہودہ مواد ہے جس نے آج کی نسل کی آنکھوں سے حیا کا نام و نشان مٹا دیا ہے۔ حضور اکرم ﷺ کا فرمان ہے: بے شک حیا اور ایمان آپس میں ملے ہوئے ہیں جب ایک اٹھ جاتا ہے تو دوسرا بھی اٹھا لیا جاتا ہے۔ (مستدرک، 1 / 176، حدیث: 66)

آج کی ہماری نسل موویز، ڈرامے اور بے باک ناولز میں اس قدر محو ہو چکی ہے کہ دین اسلام کی تمام تعلیمات فراموش کر چکی ہے سکولز، کالجز اور یونیورسٹیز میں کو ایجوکیشن کے نام پر جو بے حیائی دیکھنے میں آتی ہے الامان! یہ سب ہماری ثقافت کا حصہ تو نہیں یا ہمارے آئین میں شامل تو نہیں تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ سب کس کی ثقافت اور کس کا آئین ہے جو ہماری نوجوان نسل میں نظر آ رہا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ سب مغربی تہذیب ہے جو آج ہماری مشرقی تہذیب کا حصہ بن چکی ہے اور جس کا نقصان ہم آئے روز دل دہلا دینے والے واقعات سے اٹھارہے ہیں۔

ہمارے تعلیمی نظام میں مغربی نظام اتنا نافذ ہو چکا ہے کہ آج کی نوجوان نسل اپنے پیارے انبیاء کرام اور اصحاب کی تعلیمات کو چھوڑ کر آئن سٹائن اور مسٹر چپس جیسے یہودیوں کی طرز زندگی سے رہنمائی حاصل کرتی ہے اور انہی کو اپنا آئیڈیل شمار کر کےاپنے عظیم لیجنڈز کو بھول چکی ہے۔ جب یہ سب کتابوں میں پڑھایا اور سکھایا جائے گا تو بے حیائی عام نہ ہو تو پھر کیا ہو۔

نبی کریم ﷺ کا فرمان عبرت ہے: جب کسی قوم میں اعلانیہ طور پر بے حیائی فروغ پا جائے تو ان پر طاعون مسلط کر دیا جاتا ہے اور ایسی بیماریوں میں انہیں مبتلا کر دیا جاتا ہے جن کا پچھلی قوموں نے نام تک نہیں سنا ہوتا۔ (ابن ماجہ، 4/367، حدیث: 4019)

اس حدیث مبارکہ کا حوالہ لیا جائے تو آج کے اس دور میں کئی طرح کی ایسی بیماریاں عام ہو چکی ہیں جن کا پہلے ہمارے آباؤاجداد نے نام تک نہیں سنا جیسے چکن گونیا، کرونا وائرس اور پنک وائرس وغیرہ۔

حضور اکرم ﷺ کا فرمان ہے: حیا بھلائی لاتی ہے۔ (مسلم، ص 40، حدیث: 37) اگر انسان شرم و حیا کے تقاضوں پر عمل پیرا ہوگا تو معاشرے میں بھلائی اور خیر و برکت پیدا ہوگی اور معاشرے میں سکون کی لہر دوڑے گی۔

اللہ پاک ہمیں ہماری نسلوں کو باحیا اور دین اسلام کا پیروکار بنائے اور ہمیں عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی حیا میں سے کچھ حصہ عطا فرمائے۔ آمین


اسلام حیا کا علمبردار ہے اور حیا کو ایمان کا جزء عظیم قرار دیتا ہے جب بے حیائی کا فتنہ کسی انسان کو اپنے شکنجے میں جھگڑ لیتا ہے تو اس کے نتیجے میں وہ کسی بھی قسم کے جرم کے ارتکاب میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتا ارشاد باری تعالیٰ ہے: قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهِمْ وَ یَحْفَظُوْا فُرُوْجَهُمْؕ-ذٰلِكَ اَزْكٰى لَهُمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ خَبِیْرٌۢ بِمَا یَصْنَعُوْنَ(۳۰) (پ 18، النور: 30) ترجمہ: مسلمان مردوں کو حکم دو کہ اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں، یہ ان کے لئے زیادہ پاکیزہ ہے، بیشک اللہ ان کے کاموں سے خبردار ہے۔

جہاں حیا کے خاتمے سے انسان کا ضمیر مردہ ہو جاتا ہے وہاں سوچنے سمجھنےکی صلاحیتیں سلب ہو جاتی ہیں انسان کے افعال اس کے کنٹرول سے باہر ہو جاتے ہیں نتیجۃً تباہی اور بربادی اس کا مقدر ٹھہرتی ہے۔

ہمارے یہاں آج کل معاشرے میں بے حیائی کا بازار گرم ہے کاروبار کے نام پر مرد و عورت کے ناجائز تعلقات، بری صحبت، انٹرنیٹ کا غیر ضروری استعمال، فحش گوئی، فیشن شو کے نام پر عورتوں کی نمائش، وغیرہ یہ سب بے حیائی ہی نہیں تو اور کیا ہے؟غلط خیالات پر مبنی گانے ڈرامے وغیرہ شیطانی راہ کے بہت بڑے حمایتی ہیں ان کو فروغ دینے کے لیے انٹرنیٹ کا استعمال بہت گھناونا ہے جس میں بےہودہ مواد نشر کیا جاتا ہے اور اس کا وبال یہ ہے کہ ہمارے مسلمانوں کی 90 فیصد آبادی گناہوں بھری اور بے حیائی پر مبنی فلمیں دیکھ کر اور اس سے لطف اٹھا کر گناہوں کے ایک بڑے دندل میں دھنستی جا رہی ہے حضور ﷺ نے فرمایا: جب تمہیں حیا نہ ہو تو جو چاہو کرو۔ (بخاری، 4/131، حدیث: 6125)

اس کے برعکس کتنے خوش نصیب ہیں وہ اسلامی بھائی اور اسلامی بہنیں جو صرف اللہ کی رضا والے کام کرتے ہیں اور اپنی زبان کان اور ہاتھوں کو صرف نیکیوں کے کاموں میں ہی گزارتے ہیں اور فحش گوئی سے بچتے ہیں بخاری شریف اور مشکات شریف میں حضرت سعد رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا: کون ہے جو مجھے دو چیزوں (زبان اور شرمگاہ) کی ضمانت دے میں اس کے لیے جنت کا ضامن ہوں گا۔ (ترمذی، 4/182، حدیث: 2416)

امیمہ بنت رقیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے عورتوں کے مجمع میں شامل ہو کر نبی کریم ﷺ سے بیعت کی آپ ﷺ نے فرمایا: میں ان کاموں کے بارے میں بیعت لے رہا ہوں جو تم کر سکو میں نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسول ہم پر ہماری نسبت زیادہ مہربان ہیں پھر میں نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسول ہم سے بیعت لیجئے یعنی مصافحہ کیجئے آپ ﷺ نے فرمایا: میرا زبانی سو عورتوں سے بیعت لے لینا ایسے ہی ہے جیسا میرا ایک عورت سے زبانی بیعت لے لینا۔ (مشکوۃ المصابیح، 2/69، حدیث: 4048)

آپ ﷺ بلا شبہ رحمت اللعالمین ہیں لیکن آپ ﷺ نے اس کے باوجود عورتوں سے مصافحہ کرنے سے پرہیز کیا اب ذرا سوچیے کہ ہمارے آقا مدنی والے مصطفی ﷺ کی حیا کا یہ عالم ہے کہ آپ پردے میں بیٹھی کنواری لڑکی سے بھی زیادہ حیا فرماتے تو پھر مصافحہ تو دور کی بات آپ نے کبھی آنکھ مبارک اٹھا کر نامحرم عورتوں کی طرف نظر نہ فرمائی اور آپ ﷺ نے مصافحہ سے اس لیے پرہیز کیا تاکہ قیامت تک غلط قسم کے مذہبی پیشوا اس کی آڑ میں سنت کے نام پر بے شرمی اور بے حیائی کا طوفان اٹھانے میں دلیر نہ ہو جائیں اللہ پاک ہمیں حضور ﷺ کی تعلیمات پر عمل کرنے اور بے حیائی کے کاموں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔


بے حیائی (فحاشی یا اخلاقی بدکاری) ایک ایسا مسئلہ ہے جو معاشرتی اور اخلاقی زوال کا باعث بنتی ہے۔ یہ وہ رویے اور اعمال ہیں جو اخلاقی اقدار، تہذیبی روایات اور دینی اصولوں کے خلاف ہوتے ہیں۔ بے حیائی کی کئی شکلیں ہوتی ہیں، جیسے نازیبا لباس، غیر اخلاقی گفتگو، فحش مواد دیکھنا یا پھیلانا، اور بے پردگی۔

معاشرتی اثرات: بے حیائی کے معاشرتی اثرات انتہائی نقصان دہ ہوتے ہیں۔ اس سے خاندان کا نظام کمزور ہوتا ہے، لوگوں کے درمیان اعتماد کا فقدان پیدا ہوتا ہے، اور معاشرے میں جرائم کی شرح بڑھتی ہے۔ ایک ایسا معاشرہ جہاں بے حیائی عام ہو، وہاں رشتوں میں بگاڑ، عزت و احترام کی کمی اور خواتین کی عزت کے تحفظ میں کمی ہوتی ہے۔

مذہبی نقطہ نظر: اسلام میں بے حیائی کو سختی سے منع کیا گیا ہے۔ قرآن و حدیث میں بار بار پردہ اور عفت کے احکامات دیئے گئے ہیں۔ اسلام میں شرم و حیا کو ایمان کا حصہ قرار دیا گیا ہے، نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: حیا ایمان کا ایک حصہ ہے۔ (ترمذی، 3/406، حدیث: 2016)

اسباب: بے حیائی کے پھیلنے کے کئی اسباب ہوتے ہیں، جن میں جدید میڈیا، فحش مواد کی آسان دستیابی، مغربی ثقافت کی اندھی تقلید، اور مذہبی تعلیمات سے دوری شامل ہیں۔ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے دور میں بےحیائی کو فروغ دینا اور بھی آسان ہو گیا ہے، جہاں نوجوان نسل غیر مناسب مواد تک بآسانی رسائی حاصل کر سکتی ہے۔

حل: بے حیائی کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اس پر فتن دور میں جس قدر ہو سکا معاشرے میں دینی تعلیمات کا فروغ کیا جائے، خاندان کے نظام کو مضبوط بنایا جائے، اور والدین بچوں کی تربیت پر خصوصی توجہ دیں۔ ساتھ ہی ساتھ حکومت کو چاہیے کہ وہ ایسے قوانین بنائے جو فحش مواد کے پھیلاؤ کو روکے اور بے حیائی کے خلاف سخت اقدامات کرے۔

بے حیائی کے خلاف سب سے اہم ہتھیار شعور اور تعلیم ہے۔ جب لوگ اپنے دین اور اخلاقیات کی اہمیت کو سمجھیں گے، تو معاشرے میں فحاشی اور بدکاری کا خاتمہ ممکن ہوگا۔ الغرض ہر وہ کام جو بے حیائی کی طرف لے جائے اس سے دور رہیے۔

اللہ کا فرمان ہے: وَ لَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَ مَا بَطَنَۚ- (پ 8، الانعام: 151) ترجمہ: اور بے حیائی کے قریب بھی نہ جاؤ، چاہے وہ کھلی ہو یا چھپی ہوئی۔

وہ قوم جو کل کھیلتی تھی شمشيروں کے ساتھ                      سینما دیکھتی ہے آج وہ ہمشیروں کے ساتھ

مسلمانوں کی تاريخ تابناک ہے کہ جب تک مسلمانوں میں پردہ اور حیاء کا دور دورہ رہا مسلمان غالب رہے بہت سی فتوحات کیں اور غیر مسلموں کا غرور خاک میں ملاتےرہے مگر افسوس صد افسوس کہ سوچ نے ایسا پلٹا کھایاکہ حیاءاور پردہ کو آگے بڑھنے اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ کہا جانے لگا۔ حیاء اور پردہ کی اہميت کو فراموش کرکے براؤٹ مائنڈڈ بننےکا ذہن دینےوالوں نے بے حیائی کو عام کرنے میں کردار ادا کرنا شروع کردیا۔

تاريخ گواہ ہے کہ حیا دار ماؤں نے ایسے ایسے جرنیل پیدا کئے جنہوں نے اندھیروں کو دور کرنے میں شمع جلانے کا ایسا لوہا منوایا کہ نا قابل فراموش ہے۔ مگر اس کےمقابلے میں آجکل کی بے حیا عورتوں نے ایسا ماحول پیدا کر دیا کہ ان جرنیلوں کی جگہ ایسے مردوں نے لے لی جو بے حیائی پرراضی ہو گئے اور اسی کو تنگ نظری کا نام دیا جانے لگا جبکہ حیا تو وہ عنصر ہے جو بعض جانوروں میں بھی پایا جاتا ہے تو ایک مسلمان بلکہ ایک انسان بھی اس وصف کو پیچھے چھوڑ کر آگے نہیں بڑھ سکتا۔ مگر ہائے افسوس! کہ مسلمان نے اس حیا کو پس پشت ڈال کر اللہ اور پیارے آقا ﷺ کے احکام کی نافرمانی کر کے اللہ کی ناراضگی کو مول لیا قرآن مجید میں بےحیائی کی مذمت سورۃ بنی اسرائیل کی آیت نمبر 32 میں فرمایا گیا: وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰۤى اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةًؕ-وَ سَآءَ سَبِیْلًا(۳۲) (پ 15، بنی اسرائیل: 32) ترجمہ کنز الایمان: اور بدکاری کے پاس نہ جاؤ بےشک وہ بےحیائی ہے اور بہت ہی بری راہ۔

اسی طرح سورہ نور کی آیت نمبر 19میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۙ-فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِؕ-وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(۱۹) (پ 18، النور: 19) ترجمہ کنز الایمان: وہ لوگ جو چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بُرا چرچا پھیلے ان کے لیے دردناک عذاب ہے دنیا اور آخرت میں اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔

سورہ نور کی آیت نمبر 21 فرمایا گیا: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِؕ-وَ مَنْ یَّتَّبِـعْ خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ فَاِنَّهٗ یَاْمُرُ بِالْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِؕ- (پ 18، النور: 21) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو شیطان کے قدموں پر نہ چلو اور جو شیطان کے قدموں پر چلے تو وہ تو بے حیائی اور بُری ہی بات بتائے گا۔

حدیث مبارکہ کی روشنی میں: نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: سابقہ انبیاء کے کلام سے جو چیز لوگوں نے پائی ہے ان میں سے ایک یہ بات ہے جب تمہیں حیا نہ آئے تو جو تم چاہو کرلو۔ (بخاری، 4/131، حدیث: 6125)

اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ باحیا مسلمانوں کے صدقےسے امت مسلمہ کو اس بے حیائی جیسی آفت سے چھٹکارا نصيب فرمائے۔ آمین

دین اسلام ایک کامل و مکمل دین ہے۔ جس طرح دین اسلام نے ہماری دیگر شعبہ جات کے اندر رہنمائی کی ہے اسی طرح اس نے ہمیں حیا کا بھی درس دیا ہے اور عورت کو عزت دی اور ایک مقام عطا فرماکر باپردہ رہنے کا حکم دیا ہے۔ حیا اللہ تبارک و تعالی کا محبوب وصف ہے گناہوں سے بچنے میں حیا بہت ہی مؤثر ہے۔ حیا سے مراد وہ وصف ہے جو ان چیزوں سے روک دے جو اللہ تعالی اور مخلوق کے نزدیک ناپسندیدہ ہوں۔

بے حیائی کے متعلق اللہ تبارک و تعالی قرآن پاک میں کچھ یوں ارشاد فرماتا ہے: قُلْ اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّیَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَ مَا بَطَنَ (پ 8، الاعراف: 33) ترجمہ کنز الایمان: تم فرماؤ میرے رب نے تو بے حیائیاں حرام فرمائی ہیں (ف۴۹) جو ان میں کھلی ہیں اور جو چھپی۔

اسلام میں حیا کو بہت اہمیت دی گئی ہے چنانچہ حدیث شریف میں ہے: بے شک ہر دین کا ایک خلق ہوتا ہے اور اسلام کا خلق حیا ہے۔ (ابن ماجہ، 4/460، حدیث: 4181) یعنی ہر امت کی کوئی نہ کوئی خاص خصلت ہوتی ہے جو دیگر خصلتوں پر غالب ہوتی ہے اور اسلام کی وہ خصلت حیا ہے اس لیے کہ حیا ایک ایسا خلق ہے جو اخلاقی اچھائیوں کی تکمیل اور ایمان کی مضبوطی کا باعث اور اس کی علامات میں سے ہے۔

بے حیائی کا ماحول سے تعلق: حیا کی نشوونما میں ماحول اور تربیت کا بہت عمل دخل ہے حیادار ماحول میسر آنے کی صورت میں حیا کو خوب نکھار ملتا ہے۔ جبکہ بے حیا لوگوں کی صحبت قلب و نگاہ کی پاکیزگی سلب کرکے بےحیائی کے دہانے پر لے جاکر کھڑا کر دیتی اور بندہ بے شمار غیر اخلاقی اور ناجائز کاموں میں مبتلا ہو جاتا ہے اس لیے کہ حیا ہی تو ہے جو برائیوں اور گناہوں سے روکتی ہے۔ جب حیا ہی نہ رہی تو اب برائی سے کون روکے؟ بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو بدنامی کے خوف سے شرما کر برائیاں نہیں کرتے مگر جنہیں نیک نامی اور بدنامی کی پرواہ نہیں ہوتی ایسے بے حیا لوگ ہر گناہ کر گزرتے، اخلاقیات کی حدود توڑ کر بداخلاقی کے میدان میں اتر آتے اور انسانیت سے گرے ہوئے کام کرنے میں بھی شرم محسوس نہیں کرتے۔

جنت حرام ہے: تاجدار مدینہ ﷺ کا فرمان باقرینہ ہے: اس شخص پر جنت حرام ہے جو فحش گوئی (یعنی بے حیائی کی بات) سے کام لیتا ہے۔ (جامع صغیر للسیوطی، ص 221، حدیث: 3648)

ایمان کے دو شعبے: سرکار مدینہ ﷺ کا فرمان عالیشان ہے: حیا اور کم گوئی ایمان کے دو شعبے ہیں اور فحش بکنا اور زیادہ باتیں کرنا نفاق کے دو شعبے ہیں۔ (ترمذی، 3/414، حدیث: 2034)

بد نگاہی کا عذاب: منقول ہے جو شخص اپنی آنکھ کو حرام سے پر کرتا ہے اللہ پاک بروز قیامت اس کی آنکھ میں جہنم کی آگ بھر دے گا۔ (مکاشفۃ القلوب، ص 10)

افسوس صد کروڑ افسوس! ایک طرف گلیوں بازاروں اور تقریبوں میں مردوں اور عورتوں کا اختلاط بدنگاہیاں اور بے تکلفیاں ہیں تو دوسری طرف گھر گھر میں ایک طرح سے سینما گھر کھل گیا ہے مسلمانوں کی اکثریت ٹی وی وغیرہ کے ذریعے بدنگاہی میں مبتلا ہیں اے کاش! ہم سب کو آنکھوں کا قفل مدینہ نصیب ہو جائے۔ کاش! ہم سب حیا سے نگاہیں جھکانے والیاں بن جائیں۔

بے حیائی کی تعریف: بے حیائی اس وصف کو کہتے ہیں جو بندے کو ہر اس چیز سے نہ روک دے جو اللہ پاک اور اس کی مخلوق کے نزدیک ناپسندیدہ ہو یعنی وہ وصف جو انسان کو اس کام یا اس چیز سے نہ بچائے جیسے اللہ پاک اور اس کی مخلوق ناپسند کرتے ہوں اسے بےحیائی کا نام دیا جاتا ہے۔

بےحیائی کی چند مثالیں: بے پردہ اجنبی عورتوں کو دیکھنا، پردہ دار عورت کو شہوت کے ساتھ دیکھنا، ایسا چست لباس پہنانا جس سے کسی عضو کی ہیئت(یعنی شکل و صورت یا ابھار وغیرہ) ظاہر ہو یا دوپٹہ اتنا باریک اوڑھنا کہ بالوں کی سیاہی چمکے یہ سب بھی بے حیائی و بے پردگی ہے، اسی طرح راہ چلتی عورت کو دیکھنا وغیرہ وغیرہ۔

بے حیائی کے متعلق مختلف احکام: بے حیائی حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔سرے سے پردے کی فرضیت کا انکار کفر ہے۔عورت کا ہر اجنبی مرد سے پردہ ہے چاہے اس میں استاد وغیرہ عالم پیر سب برابر ہیں۔امرد(یعنی خوبصورت مرد)لڑکے کو شہوت سے دیکھنا حرام ہے واضح رہے کہ جس کو دیکھنا حرام ہے اس پر قصداً (یعنی جان بوجھ کر) ڈالی جانے والی پہلی نظر بھی حرام ہے اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔

اللہ پاک سورۃ النور آیت نمبر 19میں بے حیائی کے متعلق ارشاد فرماتا ہے: اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۙ-فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِؕ-وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(۱۹) (پ 18، النور: 19) ترجمہ کنز الایمان: وہ لوگ جو چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بُرا چرچا پھیلے ان کے لیے دردناک عذاب ہے دنیا اور آخرت میں اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔

فرامین مصطفیٰ:

آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جہنمیوں کی دو قسمیں ایسی ہیں جنہیں میں نے (اپنے زمانے میں) نہیں دیکھا (بلکہ وہ میرے بعد والے زمانے میں ہوں گے): 1۔وہ لوگ جن کے پاس گائے کی دم کی طرح کوڑے ہوں گے جن سے وہ لوگوں کو (ناحق) ماریں گے۔ 2۔وہ عورتیں جو لباس پہننے کے باوجود ننگی ہونگی، مائل کرنے والی یا مائل ہونے والی ہوں گی،ان کے سر بختی اونٹنیوں کے کوہانوں کی طرح ہوں گے (یعنی راہ چلتے وقت شرم سے سر نیچا نہ کریں گی،اونٹ کی کوہان کی طرح ان کے سر بے حیائی سے اونچے رہا کریں گے)یہ جنت میں نہ جائیں گی اور نہ اس کی خوشبو پائیں گی حالانکہ اس کی خوشبو بہت دور آتی ہوگی۔

بے حیائی کی آفت میں مبتلا ہونے کے بعض اسباب: علم دین سے دوری (بعض لوگ اسی وجہ سے بھی بے حیائی کرنے کے گناہ میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ انہیں معلومات نہیں ہوتی)۔فیشن ایبل اور دین بیزار لوگوں کے ساتھ میل جول اور ان کے پاس اٹھنا بیٹھنا (اس وجہ سے آدمی بے عملی کا شکار ہوتا ہے وہیں ان دین بیزار لوگوں کے پاس اٹھنے بیٹھنے کی نحوست سے عقائد بگڑنے کا بھی شدید خطرہ رہتا ہے)۔ مخلوط تعلیم تفریح گاہوں میں گھومنا (عام طور پر ایسی جگہوں میں بے پردہ عورتوں کی کثرت ہوتی ہے جس کی وجہ سے نظر کی حفاظت مشکل ہو جاتی ہے) انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کا استعمال۔ فلمیں ڈرامے دیکھنا۔ ڈانس کلب اور سوئمنگ پول وغیرہ میں جانا۔ جدید فیشن اور مغربی تہذیب کو پسند کرنا وغیرہ وغیرہ۔

بے حیائی کی آفت سے بچنے کے لیے: علم دین حاصل کیجئے۔ اکثر نگاہیں نیچی رکھیں۔ راہ چلتے وقت اور دوران سفر جب ڈرائیونگ نہ کر رہے ہوں تو بلا ضرورت ادھر ادھر جھانکنے وغیرہ سے پرہیز کریں۔ آنکھوں کی حفاظت کے فضائل اور بے حیائی کے عذابات کا مطالعہ کیجیئے۔ موبائل اور انٹرنیٹ کا استعمال ضرورت کے مطابق کیجیے اور شریعت کے دائرے میں رہ کر کیجئےنیز ان کے استعمال کے متعلق شرعی احتیاطیں بھی سیکھئے۔ گناہوں بھرے چینلز دیکھنے اور فلموں ڈراموں کے ذریعے آنکھوں کو حرام سے پر کرنے سے ہمیشہ بچتے رہیں۔ اگر آنکھ بہک جائے اور بے حیائی کر بیٹھیں تو فوراً سچے دل سے توبہ کرلیجیئے۔ بری صحبت سے کنارہ کشی اختیار کیجئے۔

اللہ پاک کی بارگاہ میں دعا ہے کہ ہمیں حضور اکرم ﷺ کے مبارک فرامین پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں بے حیائی جیسی گندی بیماری سے نجات حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ہمیں شرم وحیاء کا پیکر بنائے اور نبی کریم کی سنتوں کے مطابق زندگی گزارنے کی سعادت نصیب فرمائے۔ آمین

جوں جوں وقت گزرتا جا رہا ہے۔بے حیائی بہت زیادہ بڑھتی جا رہی ہے۔افسوس! صد کروڑ افسوس! جوان لڑکی اب چادر اور چار دیواری سے نکل کر مخلوط تعلیم کی نحوست میں گرفتار، بوائے فرینڈ کے چکر میں پھنس گئی، اسے جب تک چادر اور چار دیواری میں رہنے کی سعادت حاصل تھی وہ شرمیلی تھی اور اب بھی جو چادر و چار دیواری میں ہوگی وہ انشاء اللہ باحیا ہی ہوگی۔ افسوس! حالات بلکل بدل چکے ہیں، اب تو اکثر کنواری لڑکیاں شادیوں میں خوب ناچتیں اور مہندی و مائیوں کی رسموں وغیرہ میں بے با کانہ بے حیائی کے مظاہرے کرتی ہیں، بعض قوموں میں یہ بھی رواج ہے کہ دولہا نکاح کے بعد رخصتی سے قبل نامحرمات کہ جن سے پردہ ضروری ہے ان جوان لڑکیوں کے جھرمٹ میں جاتا ہے اور وہ دولھا کے ساتھ کھینچا تانی و ہنسی مزاق کرتی ہیں یہ سراسر ناجائز و حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔ الغرض آج کی فیشن ایبل و بے پردہ لڑکیاں افعال و اقول ہر لحاظ سے چادر حیاء کو تار تار کر رہی ہیں۔ پارہ 22 سورة الا حزاب کی آیت نمبر 33 میں پردے کا حکم دیتے ہوئے اللہ پاک کا ارشاد ہے: وَ قَرْنَ فِیْ بُیُوْتِكُنَّ وَ لَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِیَّةِ الْاُوْلٰى (پ 22، الاحزاب: ) ترجمہ کنز الا یمان: اور اپنے گھروں میں ٹھہری رہو اوربے پردہ نہ رہو جیسے اگلی جاہلیت کی بے پردگی۔

حضور ﷺ کی شرم و حیاء: ہر قبیح قول و فعل اور قابل مذمت حرکات و سکنات سے عمر بھر ہمیشہ آپ ﷺ کا دامن عصمت پاک و صاف ہی رہا۔ آپ ﷺ کی شان حیاء کی تصویر کھینچتے ہوئے ایک معزز صحابی حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے فرمایا: آپ ﷺ کنواری پردہ نشین عورت سے بھی کہیں زیادہ حیادار تھے۔ (ابن ماجہ، 4/460، حدیث:4180)

نیچی آنکھوں کی شرم و حیا پر درود اونچی بینی کی رفعت پہ لاکھوں سلام

سب سے بڑا با حیا امتی: آقائے دو جہاں ﷺ نے فرمایا: حیا ایمان سے ہے اور عثمان میری امّت میں سب سے بڑھ کر حیا کرنے والے ہیں۔ (جامع صغیر للسیوطی، ص 235، حدیث: 3869)

یاالٰہی! دے ہمیں بھی دولت شرم و حیا حضرت عثماں غنی با حیا کے واسطے

بد نگاہی کا عذاب: میٹھی میٹھی اسلامی بہنو! خدا کی قسم! بد نگاہی کا عذاب برداشت نہیں ہو سکے گا، منقول ہے: جوشخص اپنی آنکھ کو حرام سے پر کرتا ہے اللہ تعالیٰ بروز قیامت اسکی آنکھ میں جہنم کی آگ بھر دے گا۔ (مکاشفۃ القلوب، ص 10)

کثرت حیاء سے منع مت کرو: اگر کوئی بچی پردہ کرے تو اسکا مذاق اڑیا جاتا اور اسے کہا جاتا ہے ابھی کیوں پردہ شروع کردیا ابھی تو تم چھوٹی ہو۔ اور ماں باپ کو بھی منع کیا جاتا ہے کہ اسے پردہ نہ کرائیں بچی پر سختی ہے۔ کزنز ہیں بھائیوں کی طرح ہیں مل بیٹھنے دو حالانکہ یہی تربیت کا وقت ہے۔ جب یہی بچی بڑی ہو جاتی ہے تو پھر سنبھالنا مشکل ہو جاتا ہے۔ کیوں کہ اسکی تربیت تو خراب ہو جاتی ہے۔ اب یہ ماں باپ کی عزت کا جنازہ نکال دیتی ہے۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ سرکار نامدار مدینے کے تاجدار ﷺ نے ایک انصاری عورت کو ملاحظہ فرمایا: جو اپنے بھائی کو شرم و حیاء کے متعلق نصیحت کر رہے تھے (یعنی کثرت حیاء سے منع کر رہے تھے) تو فرمایا اسے چھوڑ دو، بے شک حیاء ایمان سے ہے۔ (ابو داود، 4/331، حدیث: 4795)

میٹھی میٹھی اسلامی بہنو! معلوم ہوا حیا جتنی زیادہ ہو اتنی ہی اچھی ہے۔ جو حیا کمزوری اور احساس کمتری کی وجہ سے نہ ہو بلکہ خوف خدا کے سبب ہو اس میں یقیناً بھلائی ہی بھلائی ہے۔

ہر حال میں پردہ: حضرت امّ خلاد رضی اللہ عنہا کا بیٹا جنگ میں شہید ہوگیا۔ آپ ان کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لئے نقاب ڈالے با پردہ بارگاہ رسالت ﷺ میں حاضر ہوئیں، اس پر کسی نے حیرت سے کہا: اس وقت بھی آپ نے نقاب ڈال رکھا ہے! کہنے لگیں: میں نے بیٹا ضرور کھویا ہے، حیا نہیں کھوئی۔ (ابو داود، 3/9، حدیث: 2488)

کلمہ کفر: فقہائے کرام فرماتے ہیں: کسی سے کہا گیا اللہ سے حیا کر اس نے کہا: میں نہیں کرتا۔ ایسا کہنا کفر ہے۔ (فتاویٰ تاتارخانیہ، 5/470)