دین اسلام ایک کامل و مکمل دین ہے۔ جس طرح دین اسلام
نے ہماری دیگر شعبہ جات کے اندر رہنمائی کی ہے اسی طرح اس نے ہمیں حیا کا بھی درس دیا
ہے اور عورت کو عزت دی اور ایک مقام عطا فرماکر باپردہ رہنے کا حکم دیا ہے۔ حیا اللہ
تبارک و تعالی کا محبوب وصف ہے گناہوں سے بچنے میں حیا بہت ہی مؤثر ہے۔ حیا سے مراد
وہ وصف ہے جو ان چیزوں سے روک دے جو اللہ تعالی اور مخلوق کے نزدیک ناپسندیدہ ہوں۔
بے حیائی کے متعلق اللہ تبارک و تعالی قرآن پاک میں
کچھ یوں ارشاد فرماتا ہے: قُلْ اِنَّمَا حَرَّمَ
رَبِّیَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَ مَا بَطَنَ (پ 8،
الاعراف: 33) ترجمہ کنز الایمان: تم فرماؤ میرے رب نے تو بے حیائیاں حرام فرمائی ہیں
(ف۴۹) جو ان میں کھلی ہیں اور جو چھپی۔
اسلام میں حیا کو بہت اہمیت دی گئی ہے چنانچہ حدیث شریف
میں ہے: بے شک ہر دین کا ایک خلق ہوتا ہے اور اسلام کا خلق حیا ہے۔ (ابن ماجہ، 4/460، حدیث:
4181) یعنی ہر امت کی کوئی نہ کوئی خاص خصلت ہوتی
ہے جو دیگر خصلتوں پر غالب ہوتی ہے اور اسلام کی وہ خصلت حیا ہے اس لیے کہ حیا ایک
ایسا خلق ہے جو اخلاقی اچھائیوں کی تکمیل اور ایمان کی مضبوطی کا باعث اور اس کی علامات
میں سے ہے۔
بے حیائی کا ماحول سے تعلق: حیا
کی نشوونما میں ماحول اور تربیت کا بہت عمل دخل ہے حیادار ماحول میسر آنے کی صورت میں
حیا کو خوب نکھار ملتا ہے۔ جبکہ بے حیا لوگوں کی صحبت قلب و نگاہ کی پاکیزگی سلب کرکے
بےحیائی کے دہانے پر لے جاکر کھڑا کر دیتی اور بندہ بے شمار غیر اخلاقی اور ناجائز
کاموں میں مبتلا ہو جاتا ہے اس لیے کہ حیا ہی تو ہے جو برائیوں اور گناہوں سے روکتی
ہے۔ جب حیا ہی نہ رہی تو اب برائی سے کون روکے؟ بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو بدنامی
کے خوف سے شرما کر برائیاں نہیں کرتے مگر جنہیں نیک نامی اور بدنامی کی پرواہ نہیں
ہوتی ایسے بے حیا لوگ ہر گناہ کر گزرتے، اخلاقیات کی حدود توڑ کر بداخلاقی کے میدان
میں اتر آتے اور انسانیت سے گرے ہوئے کام کرنے میں بھی شرم محسوس نہیں کرتے۔
جنت حرام ہے: تاجدار مدینہ ﷺ
کا فرمان باقرینہ ہے: اس شخص پر جنت حرام ہے جو فحش گوئی (یعنی بے حیائی کی بات) سے
کام لیتا ہے۔ (جامع صغیر للسیوطی، ص 221، حدیث:
3648)
ایمان کے دو شعبے: سرکار
مدینہ ﷺ کا فرمان عالیشان ہے: حیا اور کم گوئی ایمان کے دو شعبے ہیں اور فحش بکنا اور
زیادہ باتیں کرنا نفاق کے دو شعبے ہیں۔ (ترمذی، 3/414، حدیث: 2034)
بد نگاہی کا عذاب: منقول
ہے جو شخص اپنی آنکھ کو حرام سے پر کرتا ہے اللہ پاک بروز قیامت اس کی آنکھ میں جہنم
کی آگ بھر دے گا۔ (مکاشفۃ القلوب، ص 10)