
دین و اسلام کو ترقی و عروج دینے کا ایک ذریعہ حیا بھی
ہے اور اگر اس کے برعکس معاملہ ہوتو اس سے دین اسلام کو بہت نقصان ہوتا کیونکہ حیا
ایمان سے ہے جب انسان میں حیا نہ ہوگی تو انسان بہت سی وعیدوں کا مستحق ہوگا اور صرف
بے حیائی کرنے والا ان وعیدوں کا مستحق نہ ہوگا بلکہ اس کی دعوت دینے والا بھی گناہوں
کا مستحق ہوگا۔ اللہ کریم قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: اِنَّ
الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا
لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۙ-فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِؕ-وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ
اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(۱۹) (پ
18، النور: 19) ترجمہ کنز الایمان: وہ لوگ جو چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بُرا چرچا
پھیلے ان کے لیے دردناک عذاب ہے دنیا اور آخرت میں اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں
جانتے۔
اس آیت کا معنی یہ ہے کہ وہ لوگ جو یہ ارادہ کرتے اور
چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بے حیائی کی بات پھیلے ان کے لیے دنیا اور آخرت میں دردناک
عذاب ہے۔ دنیا کے عذاب سے مراد حد قائم کرنا ہے، چنانچہ عبد اللہ بن ابی، حضرت حسّان
اور حضرت مسطح رضی اللہ عنہما کو حدلگائی گئی اور آخرت کے عذاب سے مراد یہ ہے کہ اگر
توبہ کئے بغیر مر گئے تو آخرت میں دوزخ ہے۔ مزید فرمایا کہ اللہ تعالیٰ دلوں کے راز
اور باطن کے احوال جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔ (مدارک، ص 774)
آئیے اس بارے میں احادیث مبارکہ ملاحظہ ہوں:
(1)حضرت جریر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،نبی اکرم ﷺ نے
ارشاد فرمایا: جس نے اسلام میں اچھا طریقہ رائج کیا، اس کے لئے اسے رائج کرنے اور اپنے
بعد اس پر عمل کرنے والوں کا ثواب ہے، اور ان عمل کرنے والوں کے ثواب میں سے بھی کچھ
کم نہ ہوگا اور جس نے اسلام میں برا طریقہ رائج کیا، اس پر اس طریقے کو رائج کرنے اور
اس پر عمل کرنے والوں کا گناہ ہے اور ان عمل کرنے والوں کے گناہ میں بھی کوئی کمی نہ
ہوگی۔ (مسلم، ص 508، حدیث: 1017)
(2)سید المرسلین ﷺ نے روم کے شہنشاہ ہرقل کو جو مکتوب
بھجوایا ا س میں تحریر تھا کہ (اے ہرقل!) میں تمہیں اسلام کی طرف دعوت دیتا ہوں، تم
اسلام قبول کر لو تو سلامت رہو گے اور اللہ تعالیٰ تمہیں دگنا اجر عطا فرمائے گا اور
اگر تم (اسلام قبول کرنے سے) پیٹھ پھیرو گے تو رعایا کا گناہ بھی تم پر ہوگا۔ (بخاری،
1 / 10، حدیث: 7)
(3)حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایاجو شخص ظلماً قتل کیا جاتا ہے تو اس کے ناحق خون میں حضرت
آدم علیہ الصّلٰوۃ والسّلام کے پہلے بیٹے (قابیل) کا حصہ ضرور ہوتا ہے کیونکہ اسی نے
پہلے ظلماً قتل کرناایجاد کیا۔ (بخاری، 2 / 413، حدیث:
3335)
پیاری پیاری اسلامی بہنو! سنا آپ نے کہ بے حیائی اور
بے حیائی کو فروغ دینے والوں کے لیے وعیدیں ہیں، عورت گھر میں ٹھہرنے کی چیز فی زمانہ
معاذ اللہ بے حیائی کی اتنی ترویج الامان و الحفیظ نہ صرف مرد بلکہ عورتیں بھی اس برے
فعل سے دور نہیں ہیں حالانکہ عورت کو قرآن کریم میں گھر میں رہنے کا حکم دیا گیا ہے
لیکن فی زمانہ مرد بے حیائی سے دور نہ عورت۔

اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ
تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۙ-فِی
الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِؕ-وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(۱۹) (پ
18، النور: 19) ترجمہ کنز الایمان: وہ لوگ جو چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بُرا چرچا
پھیلے ان کے لیے دردناک عذاب ہے دنیا اور آخرت میں اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں
جانتے۔
اگر انسان خود شرم و حیا کے تقاضوں پر عمل پیرا ہو گا
تبھی اس کی اولاد بھی ان صفات و خصائل کی حامل ہوگی اور اگر وہ خود شرم و حیا کا خیال
نہ رکھے گا تو اولاد میں بھی اس طرح کے خراب جراثیم سرایت کرجائیں گے۔ آج ضرورت اس
امر (بات) کی ہے کہ حیا کو متأثّر کرنے والے تمام عوامل سے دور رہا جا ئے اور اپنےتشخّص
اور روح ایمان کی حفاظت کی جائے۔
بے شرمی و بے حیائی تباہی لاتے ہیں یہ ایک حقیقت ہے
کہ مردوں کے اخلاق و عادات بگڑنے سے معاشرہ بگڑنے لگتا ہے اور جب عورتوں میں یہ بیماری
پھیل جائے تو نسلیں تباہ و برباد ہوجاتی ہیں۔ لہٰذا مرد ہو یا عورت اسلام دونوں کو
حیا اپنانے کی تلقین کرتا ہے اور حیا کو تمام اخلاقیات کا سرچشمہ قرار دیتا ہے۔ حدیث
شریف میں ہے: بے شک ہر دین کا ایک خلق ہے اور اسلام کا خلق حیا ہے۔ (ابن ماجہ، 4/460،
حدیث: 4181) صرف اسلام ہی ایسا مذہب ہے جو حقیقی حیا کو فروغ دیتا ہے۔رسول خدا ﷺ نے
ایسی تعلیمات عطا فرمائی ہیں جن پر عمل کرنا پورے معاشرے کو حیا دار بنا سکتا ہے۔ اسلامی
تعلیمات فطرت انسانی میں موجود شرم و حیا کی صفت کو ابھارتی ہیں اور پھر اس میں فکر
و شعور کے رنگ بھر کر اسے انسان کا خوشنما لباس بنا دیتی ہیں۔ رسول خدا ﷺ کی شرم و
حیا حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: مصطفےٰ جان رحمت ﷺ کنواری، پردہ نشین
لڑکی سے بھی زیادہ باحیا تھے۔ (ابن ماجہ، 4/460، حدیث:4180)
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول
اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص ظلماً قتل کیا جاتا ہے تو اس کے ناحق خون میں حضرت
آدم کے پہلے بیٹے (قابیل) کا حصہ ضرور ہوتا ہے کیونکہ اسی نے پہلے ظلماً قتل کرنا ایجاد
کیا۔ (بخاری، 2 / 413، حدیث: 3335)
حضرت امّ خلاد رضی اللہ عنہا کا بیٹا جنگ میں شہید ہوگیا۔
یہ اپنے بیٹے کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کیلئے نقاب ڈالے بارگاہ رسالت میں حاضر
ہوئیں تو اس پر کسی نے حیرت سے کہا: اس وقت بھی باپردہ ہیں! کہنے لگیں: میں نے بیٹا
ضرور کھویا ہے،حیا نہیں کھوئی۔ (ابو داؤد، 3/9، حدیث:2488 ملتقطاً)
نور ایمان جتنا زیادہ ہوگا شرم و حیا بھی اسی قدر پروان
چڑھے گی۔

فحش، فاحشۃ، فواحش و فحشاء کے الفاظ عام طور پر بدکاری
اور عمل قوم لوط کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ بےحیائی پھیلنے کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں:
ایک یہ کہ خود فحش پھیلے اور دوسری یہ کہ فحش کا الزام اور بہتان عام ہو جائے۔ دونوں
چیزوں سے مسلم معاشرے پر برے اثرات مترتب ہوتے ہیں اور ساتھ بہتان عائد کرنا مقام انسان
کے خلاف ہے اور کسی مؤمن کے وقار کو مجروح کرنا خود بڑا جرم ہے۔
بےحیائی کے متعلق اللہ کریم نے ارشاد فرمایا ہے: اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۙ-فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِؕ-وَ
اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(۱۹) (پ
18، النور: 19) ترجمہ کنز الایمان: وہ لوگ جو چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بُرا چرچا
پھیلے ان کے لیے دردناک عذاب ہے دنیا اور آخرت میں اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں
جانتے۔
اس آیت کا معنی یہ ہے کہ وہ لوگ جو یہ ارادہ کرتے اور
چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بے حیائی کی بات پھیلے ان کے لیے دنیا اور آخرت میں دردناک
عذاب ہے۔ دنیا کے عذاب سے مراد حد قائم کرنا ہے، چنانچہ عبد اللہ بن ابی، حضرت حسّان
اور حضرت مسطح رضی اللہ عنہما کو حدلگائی گئی اور آخرت کے عذاب سے مراد یہ ہے کہ اگر
توبہ کئے بغیر مر گئے تو آخرت میں دوزخ ہے۔ مزید فرمایا کہ اللہ تعالیٰ دلوں کے راز
اور باطن کے احوال جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔ (مدارک، ص 774)
اشاعت فاحشہ میں ملوث افراد کو نصیحت: اشاعت
سے مراد تشہیر کرنا اور ظاہر کرنا ہے جبکہ فاحشہ سے وہ تمام اقوال اور افعال مراد ہیں
جن کی قباحت بہت زیادہ ہے اور یہاں آیت میں اصل مراد زنا ہے۔ (روح البیان، 6 / 130 ملخصاً) البتہ
یہ یاد رہے کہ اشاعت فاحشہ کے اصل معنیٰ میں بہت وسعت ہے چنانچہ اشاعت فاحشہ میں جو
چیزیں داخل ہیں ان میں سے بعض یہ ہیں:
(1)کسی پر لگائے گئے بہتان کی اشاعت کرنا۔
(2)کسی کے خفیہ عیب پر مطلع ہونے کے بعد اسے پھیلانا۔
(3)علمائے اہلسنّت سے بتقدیر الٰہی کوئی لغزش فاحش واقع
ہو تو ا س کی اشاعت کرنا۔
(4) حرام کاموں کی ترغیب دینا۔
(5) ایسی کتابیں لکھنا، شائع کرنا اور تقسیم کرنا جن
میں موجود کلام سے لوگ کفر اور گمراہی میں مبتلا ہوں۔
(6) ایسی کتابیں، اخبارات، ناول، رسائل اورڈائجسٹ وغیرہ
لکھنا اور شائع کرنا جن سے شہوانی جذبات متحرک ہوں۔
(7)فحش تصاویر اور وڈیوز بنانا، بیچنا اور انہیں دیکھنے
کے ذرائع مہیا کرنا۔
(8)ایسے اشتہارات اور سائن بورڈ وغیرہ بنانا اور بنوا
کر لگانا، لگوانا جن میں جاذبیت اور کشش پیدا کرنے کے لئے جنسی عریانیّت کا سہارا لیا
گیا ہو۔
(9) حیا سوز مناظر پر مشتمل فلمیں اور ڈرامے بنانا،ان
کی تشہیر کرنا اور انہیں دیکھنے کی ترغیب دینا۔
(10) فیشن شو کے نام پر عورت اور حیا سے عاری لباسوں
کی نمائش کرکے بے حیائی پھیلانا۔
احادیث میں بھی اس بارے میں ممانعت بیان فرمائی گئی
ہیں۔ ذیل میں چند احادیث ملاحظہ ہوں:
فرمان مصطفٰی
ﷺ ہے : حضور جان عالم ﷺ نے فرمایا اس شخص پر جنت حرام ہے جو فحش گوئی (بے حیائی کی
بات) سے کام لیتا ہے۔ (الجامع الصغیر للسیوطی، ص 221، حدیث: 3648)
منقول ہے چار طرح کے جہنمی جو کھولتے پانی اور آگ کے
مابین بھاگتے پھرتے ویل و ثبور مانگتے (ہلاکت) مانگتے ہو گے ان میں سے ایک شخص وہ کے
جس کے منہ سے خون اور پیپ بہتے ہوں گے جہنمی کہیں گے اس بد بخت کو کیا ہوا ہماری تکلیف
میں اضافہ کیے دیتا ہے ؟کہا جائے گا یہ بد بخت خبیث اور بری بات کی طرف متوجہ ہو کر
اس سے لذت اٹھاتا تھا جیسا کہ جماع کی باتوں سے۔ (اتحاف السادۃ للزبيدی، 9/147)

قرآن و سنت میں بے حیائی کے کاموں سے بچنے اور حیاکی
تلقین کی گئی ہے۔ قرآن کریم میں ہے: قُلْ اِنَّمَا
حَرَّمَ رَبِّیَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَ مَا بَطَنَ (پ
8، الاعراف: 33) ترجمہ کنز الایمان: تم فرماؤ میرے رب نے تو بے حیائیاں حرام
فرمائی ہیں (ف۴۹) جو ان میں کھلی ہیں اور جو چھپی۔
حدیث مبارکہ میں آپﷺ کا فرمان ہے: لوگوں تک گزشتہ نبیوں
کا جو کلام پہنچا، اس میں یہ بھی مذکور تھا: جب تم میں حیا نہ رہے تو پھر جو چاہے کرو۔
(بخاری، 4/131، حدیث: 6125)
صفت حیاء فطرت سلیمہ کو جانچنے کی ایک کسوٹی ہے تو جب
انسان قرآن وحدیث پر بھی عمل نئی کرےگاتو پھر ان فحش و بے حیائی کے کاموں میں خود تو
ملوث ہوگا ہی ساتھ اسکی اشاعت کرکے دوسروں کو بھی نقصان پہنچائے گا۔
الله پاک قرآن کریم میں ارشاد فرماتا: اِنَّ الَّذِیْنَ
یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ
اَلِیْمٌۙ-فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِؕ-وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا
تَعْلَمُوْنَ(۱۹) (پ
18، النور: 19) ترجمہ کنز الایمان: وہ لوگ جو چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بُرا چرچا
پھیلے ان کے لیے دردناک عذاب ہے دنیا اور آخرت میں اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں
جانتے۔
اشاعت سے مراد تشہیر کرنا اور ظاہر کرنا ہے جبکہ فاحشہ
سے مراد وہ تمام اقوال اور افعال ہیں جن کی قباحت بہت زیادہ ہے البتہ یہ یاد رہے کہ
اشاعت فاحشہ کے اصل معنیٰ میں بہت وسعت ہے چنانچہ اشاعت فاحشہ میں جو چیزیں داخل ہیں
ان میں سے کچھ یہ ہیں:
(1) کسی پر لگائے گئے بہتان کی اشاعت کرنا۔
(2) کسی کے خفیہ عیب پر مطلع ہونے کے بعد اسے پھیلانا۔
(3) علمائے اہلسنّت سے بتقدیر الٰہی کوئی لغزش فاحش
واقع ہو تو ا س کی اشاعت کرنا۔
(4) حرام کاموں کی
ترغیب دینا۔
(5) ایسی کتابیں لکھنا، شائع کرنا اور تقسیم کرنا
جن میں موجود کلام سے لوگ کفر اور گمراہی میں مبتلا ہوں۔
(6)ایسی کتابیں، اخبارات، ناول، رسائل اورڈائجسٹ
وغیرہ لکھنا اور شائع کرنا جن سے شہوانی جذبات متحرک ہوں۔
(7)فحش تصاویر اور وڈیوز بنانا، بیچنا اور انہیں
دیکھنے کے ذرائع مہیا کرنا۔
(8) ایسے اشتہارات اور سائن بورڈ وغیرہ بنانا اور
بنوا کر لگانا، لگوانا جن میں جاذبیت اور کشش پیدا کرنے کے لئے جنسی عریانیّت کا سہارا
لیا گیا ہو۔
(9) حیا سوز مناظر پر مشتمل فلمیں اور ڈرامے بنانا،ان
کی تشہیر کرنا اور انہیں دیکھنے کی ترغیب دینا۔
(10) فیشن شو کے نام پر عورت اور حیا سے عاری لباسوں
کی نمائش کرکے بے حیائی پھیلانا۔
ان تمام کاموں میں مبتلا حضرات کو چاہئے کہ اپنے طرز عمل پر غور وفکر فرمائیں
بلکہ بطور خاص ان حضرات کو زیادہ غورکرناچاہئے جو فحاشی وعریانی اور اسلامی روایات
سے جدا کلچر کو عام کر کے مسلمانوں کے اخلاق اور کردار میں بگاڑ پیدا کر رہے ہیں۔ لہذا
ہمیں چاہئے کہ ہم ہر وہ کام جو اللہ پاک اور اس کی مخلوق کے نزدیک ناپسند یدہ ہوں ان
سے بچائیں کہ یہ وصف شرم وحیا کہلاتا ہے۔
اور اس کا برعکس بے حیائی و بے شرمی ہے قرآن و سنت ہمارا
پیارا دین اسلام ہمیں بے حیائی فحش سے بچنے کی تلقین کرتا ہے اسلام اور حیا کا آپس
میں وہی تعلق ہے جو روح کا جسم سے ہے۔ حیاء ایمان کا حصہ ہے۔
سرکار مدینہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:بے شک حیا اور ایمان
آپس میں ملے ہوئے ہیں، جب ایک اٹھ جاتا ہے تو دوسرا بھی اٹھا لیا جاتا ہے۔ (مستدرک
للحاکم، 1/176، حدیث:66)
یاد رکھئے! اگر ہم خود شرم و حیا کے تقاضوں پر عمل پیرا
ہونگے تبھی ہماری اولاد، گھر والےاور دوسرے بھی ان صفات و خصائل کی حامل ہوں گے اور
اگر خود شرم و حیا کا خیال نہ رکھیں گے تو دوسروں کو کیسے اس مرض سے بچائیں گے اب ضرورت
اس امر (بات) کی ہے کہ حیا کو متأثّر کرنے والے تمام عوامل سے خو بھی دور رہا جا ئے
اور اپنےتشخّص اور روح ایمان کی حفاظت کی جائے۔ اہر دوسروں کو بھی بچایا جائے۔

نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: (حیاء ایمان کا حصہ ہے)
حیاء جنت میں جانے کا سبب ہے بے حیائی دوزخ میں جانے کا سبب ہے۔ (ترمذی، 3/406، حدیث:
2016)
اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۙ-فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِؕ-وَ
اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(۱۹) (پ
18، النور: 19) ترجمہ کنز الایمان: وہ لوگ جو چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بُرا چرچا
پھیلے ان کے لیے دردناک عذاب ہے دنیا اور آخرت میں اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں
جانتے۔
نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: بلاشبہ اللہ تعالیٰ جب
کسی بندہ کو ہلاک کرنا چاہتا ہے تو اس سے شرم حیاء کو کھینچ لیتا ہے تو اس شخص کو صرف
ایسا ہی پاؤ گے کہ وہ بغض سے بھرا ہوا اور لوگوں کے نزدیک نہایت ہی مبغوض پاؤ گے خود
بھی سب سے بغض رکھے گا اور سب لوگ بھی اس سے بغض رکھے گئے جب وہ شخص اس درجہ مبغوض
ہو جاتا ہے تو اس سے ایمان سلب کر لیا جاتا ہے اب اس شخص کو جہاں بھی موقع ملے گا وہ
خیانت ہی کرے گا اور لوگوں کے نزدیک بھی خیانت میں مشہور ہو جائے گا تو جی اس کا یہ
وصف ہو جائے گا تو اس سے رحمت کھینچ لی جائے گی نہ اس کے دل میں نرمی ہو گی اور نہ
ہی وہ مخلوق پر مہربان ہو گا تو جب اس کی یہ حالت ہو جائے گی تو اس کو جہاں بھی پاؤ
گے ملعون ہی پاؤ گےاس پر لعنت ہی برستی ہو گی اس کی گردن سے اسلام کا حلقہ نکال لیا
جائے گا پھر وہ بے باک ہو کر اسلام کی حدود کو توڑنے لگے گا۔
نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ پاک تین شخصوں پر
جنت حرام فرما دی ہے:1 شراب پینے والا۔ 2 والدین کا نافرمان۔ 3 تیسرا وہ جو بے حیائی
کو برقرار رکھتا ہو۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی
کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ سے ایسی شرم کرو جیسا اس سے کرنے کا حق ہے لوگوں
نے کہا ہم تو اللہ سے حیاء کرتے ہے خدا کے رسول اللہ تعالیٰ کے لیے حمد سزاوار ہے
آپ نے فرمایا کہ اتنی سی بات نہیں لیکن جسا اللہ سے شرم کرنے کا حق ہے وہ یہ ہے کہ
سر کی حفاظت کرے اور ان سب کی حفاظت کرے جو سر میں جمع ہے اور پیٹ کی حفاظت کرے اور
ان سب کی جن کو پیٹ نے گھیر رکھا ہے اور موت کو یاد رکھے کہ ایک دن مرنا ہے اور جسم
کا بوسیدہ ہو جانا ہے دنیا کی زینت کو چھوڑ دے آخرت کو پہلی زندگی پر ترجیح دے جس نے
ان تمام چیزوں پر عمل کر لیا تو اس نے اللہ سے شرم کرنے کا حق ادا کر لیا۔
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب جب بھی کسی غیر محرم
عورت کے ساتھ تنہائی میں ہوتا ہے تو ان کے ساتھ تیسرا شیطان ہوتا ہے۔(ترمذی، 4/67،
حدیث: 2172)
اللہ پاک ہمیں حیاء جیسی عظیم دولت سے مالامال فرمائے۔
آمین یارب العالمین

حدیث شریف میں ہے: شرم غیرت اور ایمان سارے ساتھی ہیں
تو جب ان میں سے ایک اٹھالیا جاتا ہے تو دوسرا بھی اٹھالیا جاتا ہے۔ (مستدرک، 1 /
176، حدیث: 66)
بے حیائی کے نقصانات: مسلمانوں
میں بے حیائی کی بات پھیلے ان کے لیے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے۔ دنیا کے عذاب
سے مراد حد قائم کرنا ہے، چنانچہ عبد اللہ بن ابی، حضرت حسّان اور حضرت مسطح رضی اللہ
عنہما کو حدلگائی گئی اور آخرت کے عذاب سے مراد یہ ہے کہ اگر توبہ کئے بغیر مر گئے
تو آخرت میں دوزخ ہے۔ مزید فرمایا کہ اللہ تعالیٰ دلوں کے راز اور باطن کے احوال جانتا
ہے اور تم نہیں جانتے۔
واقعہ ملاحظہ فرمائیں: سید المرسلین ﷺ نے روم کے شہنشاہ
ہرقل کو جو مکتوب بھجوایا ا س میں تحریر تھا کہ اے ہرقل! میں تمہیں اسلام کی طرف دعوت
دیتا ہوں، تم اسلام قبول کر لو تو سلامت رہو گے اور اللہ تعالیٰ تمہیں دگنا اجر عطا
فرمائے گا اور اگر تم (اسلام قبول کرنے سے) پیٹھ پھیرو گے تو رعایا کا گناہ بھی تم
پر ہوگا۔ (بخاری، 1 / 10، حدیث: 7)
جب تیرے دل میں الله رسول کی اپنے بزرگوں کی شرم و حیاء
نہ ہوگی تو برے سے برے کام کر گزرے گا کیونکہ برائیوں سے روکنے والی چیز تو غیرت ہے
جب وہ نہ رہی تو برائی سے کون روکے،بہت لوگ اپنی بدنامی کے خوف سے برائیاں نہیں کرتے
مگر جنہیں نیک نامی بدنامی کی پرواہ نہ ہو وہ ہر گناہ کر گزرتے ہیں۔
بے حیائی میں داخل ہونے والی چند چیزیں:
(1)کسی پر لگائے گئے بہتان کی اشاعت کرنا۔
(2)علمائے اہلسنّت
سے بتقدیر الٰہی کوئی لغزش فاحش واقع ہو تو ا س کی اشاعت کرنا۔
(3) ایسی کتابیں لکھنا، شائع کرنا اور تقسیم کرنا جن
میں موجود کلام سے لوگ کفر اور گمراہی میں مبتلا ہوں۔
(4)فحش تصاویر
اور وڈیوز بنانا، بیچنا اور انہیں دیکھنے کے ذرائع مہیا کرنا۔
(5) حیا سوز مناظر پر مشتمل فلمیں اور ڈرامے بنانا،ان
کی تشہیر کرنا اور انہیں دیکھنے کی ترغیب دینا۔
(10) فیشن شو کے نام پر عورت اور حیا سے عاری لباسوں
کی نمائش کرکے بے حیائی پھیلانا۔
(11)زنا کاری کے اڈّے چلانا وغیرہ۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ شرم و حیا ایک ایسا مضبوط قلعہ
ہے، جو ذلّت و رسوائی سے بچاتا ہے اور جب کوئی شرم و حیا کےا س دائرے سے تجاوز کر لے
تو وہ بے شرمی اور بے حیائی کی گہرائیوں میں ڈوبتا چلا جاتا ہے۔
یوں تو انسان
میں کئی اور عادتیں اور اوصاف بھی ہوتے ہیں لیکن شرم و حیا ایک ایسا وصف ہےکہ اگر لب
و لہجے، عادات و اطوار اور حرکات و سکنات سے یہ پاکیزہ وصف نکل جائے تو دیگر کئی اچھے
اوصاف اور عمدہ عادات (Good Habits) پر پانی پھر جاتا ہے۔ دیگر کئی نیک اوصاف شرم
و حیا کے ختم ہو جانے کی وجہ سے اپنی اہمیت کھو دیتے ہیں اور ایسا شخص لوگوں کی نظروں
سے گر جاتا ہے۔
اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ
تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۙ-فِی
الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِؕ-وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(۱۹) (پ
18، النور: 19) ترجمہ کنز الایمان: وہ لوگ جو چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بُرا چرچا
پھیلے ان کے لیے دردناک عذاب ہے دنیا اور آخرت میں اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں
جانتے۔
آیت کا معنیٰ یہ ہے کہ وہ لوگ جو ارادہ کرتے اور چاہتے
ہیں کہ مسلمانوں میں بے حیائی کی بات پھیلے ان کے لیے دنیا اور آخرت میں درد ناک عذاب
ہے دنیا کے عذاب سے مراد حد قائم کرنا ہے۔
فرمان مصطفٰی ﷺ ہے: بے حیائی جس چیز میں ہو اسے عیب
دار کر دیتی ہے اور حیا جس چیز میں ہو اسے زینت بخشتی ہے۔ (ابن ماجہ، 4 / 461،
حدیث: 4185)
حضور جان عالم ﷺ نے فرمایا: اس شخص پر جنت حرام ہے جو
فحش گوئی (بے حیائی کی بات) سے کام لیتا ہے۔ (الجامع الصغیر للسیوطی، ص 221، حدیث:
3648)
منقول ہے چار طرح کے جہنمی جو کھولتے پانی اور آگ کے
مابین بھاگتے پھرتے ویل و ثبور (ہلاکت) مانگتے ہو گے ان میں سے ایک شخص وہ کے جس کے
منہ سے خون اور پیپ بہتے ہوں گے جہنمی کہیں گے اس بد بخت کو کیا ھوا ہماری تکلیف میں
اضافہ کیے دیتا ہے ؟کہا جائے گا یہ بد بخت خبیث اور بری بات کی طرف متوجہ ہو کر اس
سے لذت اٹھاتا تھا جیسا کہ جماع کی باتوں سے۔ (اتحاف السادۃ للزبيدی، 9/147)
شعیب بن ابی سعید رضی اللہ عنہ سے مروی فرماتے ہیں جو
بے حیائی کی باتوں سے لذت اٹھائے بروز قیامت اس کے منہ سے خون اور پیپ جاری ہوں گے۔
(اتحاف السادۃ للزبيدی، 9/188)
حضرت ابراہیم بن میسرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: فحش
کلامی یعنی بے حیائی کی بات کرنے والا قیامت کے دن کتے کی شکل میں آئے گا۔
پیارے آقا ﷺ نے فرمایا: جب تم میں حیا نہ رہے تو جو
چاہے کر۔ (بخاری، 2/470، حدیث: 3484)
حقیقت ہے کہ مردوں کے اخلاق و عادات بگڑنے سے معاشرہ
بگڑنے لگتا ہے اور جب عورتوں میں یہ بیماری پھیل جائے تو نسلیں تباہ و برباد ہوجاتی
ہیں۔ لہٰذا مرد ہو یا عورت اسلام دونوں کو حیا اپنانے کی تلقین کرتا ہے اور حیا کو
تمام اخلاقیات کا سرچشمہ قرار دیتا ہے۔ حدیث شریف میں ہے: بے شک ہر دین کا ایک خلق
ہے اور اسلام کا خلق حیا ہے۔ (ابن ماجہ، 4/460، حدیث: 4181)
یا الہٰی دے ہمیں بھی دولت شرم و حیا حضرت عثمان غنی با حیا
کے واسطے

حیا ایک ایسا وصف ہے جو انسان کو دیگر برائیوں سے روکتی
ہے۔اگر انسان میں حیا ہی نہ رہے تو اسکا دل جلد ہی گناہوں کی طرف مائل ہوجاتا ہے۔ فرمان
مصطفٰے ﷺ ہے: ایمان کے ستّرسے زائد شعبے (یعنی خصلتیں) ہیں اور حیا ایمان کا ایک شعبہ
ہے۔ (مسلم، ص 39، حدیث: 35)
مفسرشہیرحکیم الامّت حضر ت مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃ
الحنّان لکھتے ہیں: صرف ظاہری نیکیاں کرلینا اور زبان سے حیا کا اقرار کرنا پوری حیا
نہیں بلکہ ظاہری اور باطنی اعضاء کو گناہوں سے بچانا حیاہے۔ چنانچہ سرکو غیرخدا کے
سجدے سے بچائے، اندرون دماغ کو ریا اورتکبرسے بچائے، زبان، آنکھ اور کان کو ناجائز
بولنے، دیکھنے، سننے سے بچائے، یہ سر کی حفاظت ہوئی، پیٹ کو حرام کھانوں سے، شرمگاہ
کو زنا سے، دل کو بری خواہشوں سے محفوظ رکھے یہ پیٹ کی حفاظت ہے۔ حق یہ ہے کہ یہ نعمتیں
رب کی عطاء اور جناب مصطفیٰ ﷺ کی سخا سے نصیب ہوسکتی ہیں۔ (مراٰۃ المناجیح، 2 / 440)
اللہ فرماتا ہے: قُلْ
لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهِمْ وَ یَحْفَظُوْا
فُرُوْجَهُمْؕ-ذٰلِكَ اَزْكٰى لَهُمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ خَبِیْرٌۢ بِمَا
یَصْنَعُوْنَ(۳۰) (پ
18، النور: 30) ترجمہ: مسلمان مردوں کو حکم دو کہ
اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں، یہ ان کے لئے زیادہ
پاکیزہ ہے، بیشک اللہ ان کے کاموں سے خبردار ہے۔
وَ قُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ یَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِهِنَّ وَ یَحْفَظْنَ
فُرُوْجَهُنَّ وَ لَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَهُنَّ اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا (پ
18، النور: 31) ترجمہ: اور مسلمان عورتوں کوحکم دو کہ وہ اپنی نگاہیں کچھ نیچی
رکھیں اور اپنی پارسائی کی حفاظت کریں اور اپنی زینت نہ دکھائیں مگر جتنا خود ہی
ظاہر ہے۔
احادیث مبارکہ میں ہے: حسن بصری رحمۃاللہ علیہ سے مرسلاً
مروی ہے، کہتے ہیں مجھے یہ خبر پہنچی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ دیکھنے والے پر اور
اس پر جس کی طرف نظر کی گئی اللہ لعنت فرماتا ہے (یعنی دیکھنے والا جب بلا عذر قصداً
دیکھے اور دوسرا اپنے کو بلا عذر قصد ادکھائے)۔ (مشکاۃ المصابیح، 1/ 574، حدیث: 3125)
سنن ابو داؤد میں ہے: اور ہاتھ زنا کرتے ہیں اور ان
کا زنا (حرام کو) پکڑنا ہے اور پاؤں زنا کرتے ہیں اور ان کا زنا (حرام کی طرف) چلنا
ہے اور منہ (بھی) زنا کرتا ہے اور اس کا زنا بوسہ دینا ہے۔ (ابو داود، 2 / 359، حدیث: 2153)
صحیح مسلم میں ہے: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی
ہے، فرماتے ہیں کہ رسولاللہ ﷺ نے فرمایا: دوزخیوں کی دو جماعتیں ایسی ہونگی جن میں
نے (اپنے اس عہد مبارک میں) نہیں دیکھا (یعنی آئندہ پیدا ہونے والی ہیں، ان میں) ایک
وہ قوم جن کے ساتھ گائے کی دم کی طرح کوڑے ہونگے جن سے لوگوں کو ماریں گے اور (دوسری
قسم) ان عورتوں کی ہے جو پہن کر ننگی ہوں گی دوسروں کو (اپنی طرف) مائل کرنے والی اور
مائل ہونے والی ہوں گی، ان کے سر بختی اونٹوں کی ایک طرف جھکی ہوئی کوہانوں کی طرح
ہوں گے وہ جنت میں داخل نہ ہوں گی اور نہ ا س کی خوشبو پائیں گی حالانکہ اس کی خوشبو
اتنی اتنی دور سے پائی جائے گی۔ (مسلم، ص 1177، حدیث:
2128)
نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: تم میں سے کسی کے سر میں
لوہے کی سوئی گھونپ دی جائے تو یہ اس کے لیے اس سے بہتر ہے کہ وہ ایسی عورت کو چھوئے
جو اس کے لئے حلال نہیں۔ (معجم کبیر، 20 / 211، حدیث:
486)
نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: عورتوں کے ساتھ تنہائی
اختیار کرنے سے بچو! اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! کوئی شخص کسی
عورت کے ساتھ تنہائی اختیار نہیں کرتا مگر ان کے درمیان شیطان داخل ہوجاتا ہے اور مٹی
یا سیاہ بدبودار کیچڑ میں لتھڑا ہوا خنزیر کسی شخص سے ٹکرا جائے تو یہ اس کے لئے اس
سے بہتر ہے کہ اس کے کندھے ایسی عورت سے ٹکرائیں جو اس کے لئے حلال نہیں۔ (الزواجر
عن اقتراف الکبائر، 2 / 6)

بے حیائی اور بد اخلاقی سے بچنے کے بارے میں قرآن اور
حدیث میں بہت تاکید کی گئی ہے۔ قرآن مجید نے بے حیائی اس کے کاموں سے روکا اور اچھے
اخلاق کی تعلیم دی ہے، اور نبی اکرم ﷺ نے اپنی احادیث میں بھی اس بارے میں واضح احکامات
اور نصیحتیں فرمائی ہیں۔
قرآن مجید میں بے حیائی کے متعلق آیات:
1۔ سورۃ الاعراف (7:33):
قُلْ اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّیَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَ مَا بَطَنَ (پ
8، الاعراف: 33) ترجمہ کنز الایمان: تم فرماؤ میرے رب نے تو بے حیائیاں حرام
فرمائی ہیں (ف۴۹) جو ان میں کھلی ہیں اور جو چھپی۔
2۔ *سورۃ النور (24:19): اِنَّ
الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا
لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۙ-فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِؕ-وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ
اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(۱۹) (پ
18، النور: 19) ترجمہ کنز الایمان: وہ لوگ جو چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بُرا چرچا
پھیلے ان کے لیے دردناک عذاب ہے دنیا اور آخرت میں اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں
جانتے۔
3۔ *سورۃ بنی اسرائیل (17:32): وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰۤى اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةًؕ-وَ سَآءَ
سَبِیْلًا(۳۲) (پ
15، بنی اسرائیل: 32) ترجمہ کنز الایمان: اور بدکاری کے پاس نہ جاؤ بےشک وہ
بےحیائی ہے اور بہت ہی بری راہ۔
4۔ *سورۃ النور (30، 31): قُلْ
لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهِمْ وَ یَحْفَظُوْا
فُرُوْجَهُمْؕ-ذٰلِكَ اَزْكٰى لَهُمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ خَبِیْرٌۢ بِمَا
یَصْنَعُوْنَ(۳۰) (پ
18، النور: 30) ترجمہ: مسلمان مردوں کو حکم دو کہ
اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں، یہ ان کے لئے زیادہ
پاکیزہ ہے، بیشک اللہ ان کے کاموں سے خبردار ہے۔
وَ قُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ یَغْضُضْنَ
مِنْ اَبْصَارِهِنَّ وَ یَحْفَظْنَ فُرُوْجَهُنَّ وَ لَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَهُنَّ
اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا (پ 18، النور: 31) ترجمہ: اور مسلمان
عورتوں کوحکم دو کہ وہ اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور اپنی پارسائی کی حفاظت کریں
اور اپنی زینت نہ دکھائیں مگر جتنا خود ہی ظاہر ہے۔
5۔ *سورۃ الاعراف (7:26): یٰبَنِیْۤ
اٰدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَیْكُمْ لِبَاسًا یُّوَارِیْ سَوْاٰتِكُمْ وَ
رِیْشًاؕ-وَ لِبَاسُ التَّقْوٰىۙ-ذٰلِكَ خَیْرٌؕ- (پ 8،
الاعراف: 26) ترجمہ: اے بنی آدم! ہم نے تم پر لباس اتارا جو تمہاری شرمگاہوں کو ڈھانپے
اور زینت کا باعث ہو۔ اور تقویٰ کا لباس سب سے بہتر ہے۔
احادیث میں بے حیائی کے بارے میں تعلیمات:
1۔ بے حیائی جب بھی کسی چیز میں ہوتی ہے تو وہ اسے عیب
دار بنادیتی ہے، اور جب بھی حیا کسی چیز میں ہوتی ہے تو اسے خوبصورت بنادیتی ہے۔(ابن
ماجہ، 4 / 461، حدیث: 4185)
2۔ ایمان اور حیا دونوں ہمیشہ ساتھ ساتھ رہتے ہیں۔ اگر
ان میں سے ایک اٹھ جائے تو دوسرا بھی چلا جاتا ہے۔ (مستدرک للحاکم، 1/176، حدیث:22)
3۔ جب تم میں حیا نہ رہے تو جو چاہو کرو۔ (بخاری، 4/131،
حدیث: 6125)
4۔ اللہ حیا
کرنے والا اور پردہ پوشی فرمانے والا ہے، وہ فحش باتیں اور بے حیائی کو پسند نہیں کرتا۔
(ابو داود، 4/56، حدیث: 4012)

ارشاد فرمایا: بے حیائی جس چیز میں ہو اسے عیب دارکر
دیتی ہے اور حیا جس چیز میں ہو اسے زینت بخشتی ہے۔ (ابن ماجہ، 4 / 461، حدیث: 4185)پىارے
پىارے اسلامى بھائىو! غور کیجئے! اسلام میں شرم و حیا کی کتنی اہمیت ہے، ایک حدیث میں
فرمایا گیا کہ ایمان و حیاآپس میں ملے ہوئے ہیں، جب ایک بھی ختم ہوتاہے تو دوسرا خودبخود
ختم ہوجاتا ہے۔ آج اسلام کے دشمنوں کی یہی سازش ہے کہ مسلمانوں سےکسی طرح چادر حیا
کھینچ لی جائے، جب حیا ہی نہ رہے گی تو ایمان خود ہی رخصت ہو جائے گا۔
آج ہمارے معاشرے میں کیسی کیسی بے حیائیاں ہورہی ہیں،
آئیے کچھ سنتے ہیں: ٭ فحش یعنی بے حیائی والی گفتگو کرنا۔ ٭ گالیاں دینا۔ ٭ چست یعنی
بدن۔
فحش، فاحشۃ، فواحش و فحشاء کے الفاظ عام طور پر بدکاری
اور عمل قوم لوط کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰۤى اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةًؕ-وَ سَآءَ
سَبِیْلًا(۳۲) (پ
15، بنی اسرائیل: 32) ترجمہ کنز الایمان: اور بدکاری کے پاس نہ جاؤ بےشک وہ
بےحیائی ہے اور بہت ہی بری راہ۔
اس آیت میں زنا کو فاحشہ سے تعبیر فرمایا ہے۔ نیز دوسرے
مقام پر عمل قوم لوط کو بھی فاحشہ سے تعبیر کیا گیا ہے: وَ
لُوْطًا اِذْ قَالَ لِقَوْمِهٖۤ اَتَاْتُوْنَ الْفَاحِشَةَ مَا سَبَقَكُمْ بِهَا
مِنْ اَحَدٍ مِّنَ الْعٰلَمِیْنَ(۸۰)
(پ 8، الاعر اف: 80) ترجمہ: اور لوط نے جب اپنی قوم سے کہا کیا تم ایسی بے حیائی
کا کام کرتے ہو جو تم سے پہلے جہاں والوں میں سے کسی نے نہیں کیا۔
لیکن یہ اصطلاح وسیع تر معنوں میں بھی استعمال ہوتی
ہے، اس میں بے حیائی، عریانی، بدکاری، حیا سوز فلمیں اور ڈرامے، برہنہ تصاویر، مجالس
میں بدن کی نمائش، عورتوں اور مردوں کا اختلاط اور بوس و کنار سب شامل ہیں۔ قرآن کریم
میں ہے: قُلْ اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّیَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَ
مَا بَطَنَ (پ
8، الاعراف: 33) ترجمہ کنز الایمان: تم فرماؤ میرے رب نے تو بے حیائیاں حرام
فرمائی ہیں (ف۴۹) جو ان میں کھلی ہیں اور جو چھپی۔
اللہ تعالیٰ
کا ارشاد ہے: اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۙ-فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِؕ-وَ
اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(۱۹) (پ
18، النور: 19) ترجمہ کنز الایمان: وہ لوگ جو چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بُرا چرچا
پھیلے ان کے لیے دردناک عذاب ہے دنیا اور آخرت میں اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں
جانتے۔
اس آیت میں
اللہ تعالیٰ نے بے حیائی کی ایک جھوٹی خبر کی اشاعت و ترویج کو بھی بے حیائی سے تعبیر
فرمایا ہے اور اسے دنیا و آخرت میں دردناک عذاب کا باعث قرار دیا ہے؛ پس جب بے حیائی
کی ایک جھوٹی خبر کی اشاعت اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس قدر بڑا جرم ہے، تو آج کل ذرائع
ابلاغ کے ذریعے شب و روز مسلم معاشرے میں جو بے حیائی پھیلائی جا رہی ہے، اللہ کے نزدیک
یہ کس قدر بڑا جرم اور گناہ ہو گا۔

بے حیائی کا تصور انسانی معاشرت میں ایک نازک موضوع
ہے۔ یہ ایک ایسی کیفیت ہے جس میں فرد یا معاشرہ اخلاقی اور سلیقے کی حدوں کو عبور کرتا
ہے۔ بے حیائی کی تعریف عام طور پر اس عمل کے طور پر کی جاتی ہے جس میں انسان اپنے کردار،
لباس یا گفتگو میں نامناسبیت دکھاتا ہے۔
بے حیائی کے کئی اسباب ہوتے ہیں، جن میں ثقافتی تبدیلیاں،
معاشرتی دباؤ، اور میڈیا کا اثر شامل ہیں۔ جدید دور میں، ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا
نے بے حیائی کے تصور کو مزید پھیلایا ہے۔ نوجوان نسل میں یہ رویے زیادہ دیکھے جاتے
ہیں، کیونکہ وہ سوشل میڈیا کے ذریعے مختلف ماڈلز اور طرز زندگی کو اپناتے ہیں۔
بے حیائی کے اثرات فرد اور معاشرے دونوں پر مرتب ہوتے
ہیں۔ فرد کی ذاتی زندگی متاثر ہوتی ہے، جس سے خود اعتمادی، عزت نفس، اور ذاتی تعلقات
میں مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔ معاشرتی سطح پر، بے حیائی کے باعث اخلاقی زوال، خاندانی
ڈھانچے میں کمزوری، اور معاشرتی تعلقات میں بے چینی پیدا ہوتی ہے۔
بے حیائی کے خلاف اقدامات ضروری ہیں۔ والدین کو چاہیے
کہ وہ اپنے بچوں کو اخلاقیات کی تعلیم دیں اور انہیں صحیح اور غلط کی پہچان کرائیں۔
تعلیمی اداروں میں بھی اس موضوع پر آگاہی پیدا کرنا ضروری ہے۔ مذہبی اور ثقافتی ادارے
بھی اس حوالے سے اہم کردار ادا کر سکتے ہیں، تاکہ معاشرتی اخلاقیات کو فروغ دیا جا
سکے۔
بے حیائی ایک سنگین مسئلہ ہے جو ہماری معاشرتی اور اخلاقی
زندگی پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اس کا مقابلہ کرنے کے لئے اجتماعی کوششیں اور بہتر تعلیم
کی ضرورت ہے۔ اگر ہم اس مسئلے کی نشاندہی کریں اور اس کے خلاف اقدام کریں تو ہم ایک
صحت مند معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں۔
بے حیائی، اسلامی تعلیمات کے مطابق ایک ناپسندیدہ عمل
ہے۔ قرآن اور سنت میں بے حیائی کی مذمت کی گئی ہے۔ اس حوالے سے کچھ اہم نکات درج ذیل
ہیں:
1۔ عزت نفس اور شرم حضرت محمد ﷺ نے فرمایا: ہر دین کا
ایک خاص طرز عمل ہے اور اسلام کا طرز عمل حیا ہے۔ (ابن ماجہ، 4/460، حدیث: 4181)اس
حدیث میں حیا کی اہمیت کو بیان کیا گیا ہے، جو کہ بے حیائی کے متضاد ہے۔
2۔ اجتماعی ذمہ داری نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جب کسی
قوم میں اعلانیہ طور پر بے حیائی فروغ پا جائے تو ان پر طاعون کو مسلط کر دیا جاتا
ہے اور ایسی بیماریوں میں انہیں مبتلا کر دیا جاتا ہے جن کا پچھلی قوموں نے نام تک
نہیں سنا ہوتا۔ (ابن ماجہ، 4/367، حدیث: 4019)یہ حدیث بتاتی ہے کہ بے حیائی کی جڑیں
معاشرتی سطح پر بھی پھیلتی ہیں اور اس کا نتیجہ پورے معاشرے کو متاثر کرتا ہے۔
3۔ خود احتسابی حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے: حیا
ایمان کا حصہ ہے۔ یہ ہمیں بتاتا ہے کہ بے حیائی کا راستہ اختیار کرنے سے ایمان میں
کمزوری آتی ہے۔
4۔ صحیح معاشرتی رویے نبی کریم ﷺ نے اپنے ماننے والوں
کو ہدایت دی کہ وہ اپنی زبان، ہاتھ، اور آنکھوں کی حفاظت کریں۔ بے حیائی کے مختلف مظاہر
جیسے کہ بے ہودہ گفتگو، نامناسب لباس، اور غیر اخلاقی رویے، ان ہدایات کے منافی ہیں۔
اسلام میں بے حیائی کو سخت ناپسند کیا گیا ہے۔ حدیث
کی روشنی میں یہ واضح ہے کہ حیا اور اخلاقی اقدار کی پاسداری ہماری ذمہ داری ہے، اور
ان کی اہمیت کو سمجھنا معاشرتی بہتری کے لئے ضروری ہے۔ ہمیں اپنے کردار اور رویے میں
اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہیے کہ ہم اسلام کی تعلیمات کے مطابق زندگی گزاریں۔ قرآن
پاک میں بے حیائی کے بارے میں متعدد مقامات پر ہدایت دی گئی ہے۔ چند اہم آیات درج ذیل
ہیں:
1۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَ یَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِ وَ الْبَغْیِۚ-(پ
14، النحل: 90)ترجمہ کنز الایمان: اور منع فرماتا ہے بے حیائی اور بری بات اور
سرکشی سے۔یہ آیت بتاتی ہے کہ بے حیائی کا ارتکاب انسانی اخلاقی قدروں کے منافی ہے۔
2۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهِمْ وَ یَحْفَظُوْا
فُرُوْجَهُمْؕ-ذٰلِكَ اَزْكٰى لَهُمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ خَبِیْرٌۢ بِمَا
یَصْنَعُوْنَ(۳۰) (پ
18، النور: 30) ترجمہ: مسلمان مردوں کو حکم دو کہ
اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں، یہ ان کے لئے زیادہ
پاکیزہ ہے، بیشک اللہ ان کے کاموں سے خبردار ہے۔یہ آیت اس بات کی تلقین کرتی ہے کہ
انسان کو اپنی آنکھوں اور شرمگاہوں کی حفاظت کرنی چاہیے تاکہ بے حیائی سے بچا جا سکے۔
قرآن پاک میں بے حیائی کی واضح مذمت کی گئی ہے، اور
مسلمانوں کو اخلاقی و روحانی پاکیزگی کی اہمیت کو سمجھایا گیا ہے۔ یہ ہدایات ہمیں ایک
باوقار اور بااخلاق زندگی گزارنے کی ترغیب دیتی ہیں۔حضرت محمد ﷺ کی حیا ایک اعلیٰ نمونہ
ہے جو تمام مسلمانوں کے لیے مشعل راہ ہے۔ آپ کی حیا کی خصوصیات درج ذیل ہیں:
1۔ اخلاقی معیار نبی کریم ﷺ کی زندگی میں حیا کا ایک
خاص مقام تھا۔ آپ نے کبھی بھی ایسی باتیں نہیں کیں جو اخلاقی طور پر ناپسندیدہ ہوں۔
آپ کی زبان اور اعمال ہمیشہ پاکیزگی کی علامت رہے۔
2۔ لباس اور ظاہری حالت آپ ﷺ کا لباس ہمیشہ سادہ، صاف
اور باوقار ہوتا تھا۔ آپ نے کبھی بھی ایسی چیزیں نہیں پہنی جو بے حیا کی علامت ہوں۔
3۔ نجی زندگی آپ نے اپنی ذاتی زندگی میں بھی حیا کا
مظاہرہ کیا۔ آپ نے اپنے خاندان اور ساتھیوں کے ساتھ بہترین سلوک کیا اور ہمیشہ شرم
و حیا کی تعلیم دی۔
4۔ اجتماعی رویہ آپ نے اپنی امت کو بھی حیا کی تلقین
کی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: حیا ایمان کا حصہ ہے۔ (ترمذی، 3/406، حدیث: 2016)یہ بات اس بات
کی عکاسی کرتی ہے کہ حیا کا تعلق دین سے ہے۔
ہمیں کیسی حیا کرنی چاہیے؟
1۔ آبرو کی حفاظت: ہمیں اپنی عزت و آبرو کی حفاظت کرنی
چاہیے، جیسے کہ لباس اور گفتگو میں سلیقہ ہونا چاہیے۔
2۔ اخلاقی اصولوں کی پاسداری: ہماری گفتگو، رویہ اور
تعاملات ہمیشہ اخلاقی اصولوں کے مطابق ہونے چاہئیں۔
3۔ معلومات کا انتخاب: ہمیں ان مواد سے پرہیز کرنا چاہیے
جو بے حیائی یا ناپسندیدہ رویوں کی ترویج کرتے ہیں۔
4۔ نوجوان نسل کی تربیت: ہمیں اپنے بچوں کو حیا کی اہمیت
سمجھانی چاہیے اور ان کی تربیت میں اس پہلو کو شامل کرنا چاہیے۔

بصریٰ کا ایک شخص رحمۃ اللہ علیہ مسکی کے نام سے مشہور
تھے مشک کو عربی میں مسک کہتے ہیں یعنی (مشکبار یعنی مشک کی خوشبو میں بسا ہوا) وہ
بزرگ ہر وقت مشکبار اور خوشبودار رہا کرتے تھے یہاں تک کہ جس راستے سے گزر جاتے وہ
راستہ مہک اٹھتا یہاں تک کہ مسجد میں جب داخل ہوتے تو سب کو معلوم ہو جاتا کہ حضرت
مسکی تشریف لائے ہیں کسی نے عرض کی: حضور آپ کو خوشبو پر کثیر رقم خرچ کرنی پڑتی ہوگی؟
تو انہوں نے فرمایا: نہیں نہ میں نے خوشبو کبھی خریدی ہے اور نہ کبھی لگائی ہے میرا
واقعہ بڑا عجیب و غریب ہے میں بغدادی ہوں اللہ کے فضل سے ایک خوشگوار گھرانے میں پیدا
ہوا ہوں جس طرح امرا اپنی اولاد کو تعلیم دلواتے ہیں اسی طرح میری بھی تعلیم ہوئی ہے۔
میں بہت با حیا تھا میرے والد صاحب سے کسی نے کہا تھا
کہ اسے بازار میں بٹھاؤ تاکہ یہ لوگوں سے گھل مل جائے اور اس کی حیا تھوڑی کم ہو جائے،
چنانچہ مجھے ایک کپڑے بیچنے والی دکان پر بٹھا دیا گیا ایک دن ایک بڑھیا نے قیمتی لباس
نکلوایا پھر بزاز سے کہا: میرے ساتھ کسی کو بھیج دو تاکہ جو پسند ہو انہیں لینے کے
بعد بقیہ قیمت اور کپڑے واپس لائیں بزاز نے مجھے اس کے ساتھ بھیج دیا بڑھیا مجھے ایک
عالی شان محل میں لے گئی اور ایک آراستہ کمرے میں بھیج دیا میں کیا دیکھتا ہوں کہ زیورات
سے آراستہ خوش لباس جوان لڑکی تخت پر بچھے ہوئے منقش قالین پر بیٹھی ہے سب کے سب زیریں
ہیں یعنی (اس کے پاس بیٹھے ہیں) ایسے نفیس کہ میں نے آج تک نہیں دیکھے مجھے دیکھتے
ہی اس لڑکی پر شیطان غالب آیا اور وہ ایک دم میری طرف لپکی اور چھیڑخانی کرتے ہوئے
منہ کالا کروانے کے در پہ ہوئی میں نے اسے کہا: اللہ سے ڈر مگر اس پر پوری طرح شیطان
مسلط تھا جب میں نے اس کی ضد دیکھی تو میں نے گناہ سے بچنے کے لیے ایک تجویز سوچ لی
کہ مجھے استنجاء جانا ہے اس نے آواز دی! چار لونڈیاں آگئی اور اس نے ان سے کہا کہ اپنے
آقا کو بیت الخلا میں لے جاؤ جب میں وہاں گیا تو مجھے بھاگنے کی کوئی راہ نظر نہیں
آرہی تھی مجھے اس عورت کے ساتھ منہ کالا کرتے ہوئے اللہ کے سامنے حیا آرہی تھی اور
مجھ پر عذاب جہنم کا خوف غالب تھا مجھے کوئی اور راستہ نظر نہ آیا تو میں نے استنجاء
کی نجاست کو اپنے ہاتھوں سے اپنے منہ پر لگا لیا اور اس کنیز کو ڈرایا جو باہر رومال
اور پانی لے کر کھڑی تھی۔
جب میں دیوانوں کی طرح پاگل ہو کر چیختا ہوا ان کی طرف
لپکا تو اس نے پاگل باگل کا شور مچا دیا تو سب کنیزیں اکٹھی ہو گئیں تو انہوں نے مجھے
ایک ٹاٹ میں بند کر دیا لپیٹ دیا ایک باغ میں ڈال دیا جب میں نے یقین کر لیا کہ سب
چلی گئی ہیں تو اٹھ کر اپنے کپڑے اور ہاتھ منہ پاک کر لیا اور گھر چلا گیا یہ بات کسی
کو نہیں بتائی اسی رات میں سویا تھا تو میں نے خواب میں دیکھا کہ مجھے کوئی کہہ رہا
ہے کہ تم حضرت یوسف علیہ السلام سے خوب مناسبت رکھتےہو! انہوں نے مجھے کہا: کہ کیا
تم مجھے جانتے ہو؟ میں نے کہا: نہیں تو انہوں نے کہا: میں حضرت جبرائیل ہوں اسی وقت
انہوں نے میرے بدن پر ہاتھ پھیرا تب سے میرے بدن سے خوشبوئیں آتی ہیں یہ جبرائیل امین
علیہ السلام کے دست مبارک کی خوشبو ہے۔ سبحان اللہ
اللہ پاک کا ارشاد ہے: وَ
لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰۤى اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةًؕ-وَ سَآءَ سَبِیْلًا(۳۲) (پ
15، بنی اسرائیل: 32) ترجمہ کنز الایمان: اور بدکاری کے پاس نہ جاؤ بےشک وہ
بےحیائی ہے اور بہت ہی بری راہ۔
اس آیت میں زنا کو فاحشہ سے تعبیر فرمایا ہے نیز دوسرے
مقام پر عمل قوم لوط کو بھی فاحشہ سے تعبیر کیا گیا ہے!
وَ لُوْطًا اِذْ قَالَ لِقَوْمِهٖۤ
اَتَاْتُوْنَ الْفَاحِشَةَ مَا سَبَقَكُمْ بِهَا مِنْ اَحَدٍ مِّنَ
الْعٰلَمِیْنَ(۸۰) (پ 8، الاعر اف: 80) ترجمہ: اور لوط نے جب اپنی قوم
سے کہا کیا تم ایسی بے حیائی کا کام کرتے ہو جو تم سے پہلے جہاں والوں میں سے کسی نے
نہیں کیا۔
لیکن یہ اصلاح وسیع تر معنوں میں بھی استعمال ہوتی ہے
اس میں بے حیائی عریانی بدکاری حیا سوز فلمیں اور ڈرامے برہنہ تصاویر مجالس میں بدن
کی نمائش عورتوں اور مردوں کا اختلاط اور بوس و کنار سب شامل ہیں۔
قرآن کریم میں ہے: قُلْ
اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّیَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَ مَا بَطَنَ (پ
8، الاعراف: 33) ترجمہ کنز الایمان: تم فرماؤ میرے رب نے تو بے حیائیاں حرام
فرمائی ہیں (ف۴۹) جو ان میں کھلی ہیں اور جو چھپی۔
اللہ تعالی فرماتا ہے: قُلْ
لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهِمْ وَ یَحْفَظُوْا
فُرُوْجَهُمْؕ-ذٰلِكَ اَزْكٰى لَهُمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ خَبِیْرٌۢ بِمَا
یَصْنَعُوْنَ(۳۰) (پ
18، النور: 30) ترجمہ: مسلمان مردوں کو حکم دو کہ
اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں، یہ ان کے لئے زیادہ
پاکیزہ ہے، بیشک اللہ ان کے کاموں سے خبردار ہے۔یہ آیت اس بات کی تلقین کرتی ہے کہ
انسان کو اپنی آنکھوں اور شرم گاہوں کی حفاظت کرنی چاہیے تاکہ بے حیائی سے بچا جا سکے۔
اللہ تعالی کا ارشاد ہے: اِنَّ
الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا
لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۙ-فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِؕ-وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ
اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(۱۹) (پ
18، النور: 19) ترجمہ کنز الایمان: وہ لوگ جو چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بُرا چرچا
پھیلے ان کے لیے دردناک عذاب ہے دنیا اور آخرت میں اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں
جانتے۔
قرآن پاک میں بے حیائی کی واضح مذمت کی گئی ہے اور مسلمانوں
کو اخلاقی اور روحانی پاکیزگی کی اہمیت کو سمجھایا گیا ہے حضرت محمد ﷺ کی حیا ہمارے
لیے ایک اعلی نمونہ ہے جو تمام مسلمانوں کے لیے مشعل راہ ہے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا
لوگوں تک گزشتہ نبیوں کا جو کلام پہنچا اس میں یہ بھی مذکور تھا جب تم میں حیا نہ رہے
تو پھر جو چاہے کرو۔(بخاری، 4/131، حدیث: 6125)
حیا ایک ایمان کا اہم شعبہ ہے احادیث مبارکہ میں ہے:
حیا ایمان کا حصہ ہے اور اہل ایمان جنت میں ہوں گے بے حیائی ظلم ہے وہ ظالم جہنم میں
جائیں گے۔(ترمذی، 3/406، حدیث: 2016)
ہمیں یہ معلوم ہوا کہ ہمیں ہمیشہ حیا کی چادر کو اپنانا
چاہیے اور کبھی بے پردگی نہیں کرنی چاہیے اور بے حیائی سے بچنا چاہیے اللہ سے دعا ہے
کہ وہ ہمیں ہمیشہ اپنے حفظ و امان میں رکھے اور ہمیں بے حیائی سے بچائے۔