
حیا کی نشو و نما میں ماحول اور تربیت کا بہت عمل دخل
ہے۔ حیادار ماحول ملنے کی صورت میں حیا کو خوب نکھار ملتا ہے جبکہ بے حیا لوگوں کی
صحبت دل اور آنکھ کی پاکیزگی چھین کر بے شرم و بے حیا کر دیتی ہے اور بندہ بےشمار غیر
اخلاقی اور ناجائز کاموں میں لگ جاتا ہے اس لیے کہ حیا ہی ہے جو برائیوں اور گناہوں
سے روکتی ہے۔ جب حیا ہی نہ رہی تو اب برائی سے کون روکے؟
بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو بدنامی کے خوف سے شرما
کر برائیاں نہیں کرتے مگر جنہیں اپنی نیک نامی اور بدنامی اور دوسروں کی بدنامی کی
پرواہ نہ ہو ایسے بے حیا لوگ ہر گناہ کر بیٹھتے ہیں۔
حیا وہ وصف ہے جو ان چیزوں سے روک دے جو اللہ اور مخلوق
کے نزدیک ناپسندیدہ ہوں اور بے حیائی وہ وصف یا برائی ہے جو اس کے برعکس ہو۔ اسلام
میں حیا کو بہت اہمیت دی گئی ہے۔ اسلام اپنے ماننے والوں کو حیا کا درس دیتا ہے، چنانچہ
حدیث پاک میں ہے: فرمایا: بے شک ہر دین کا ایک خلق ہےاور اسلام کا خلق حیا ہے۔ (ابن
ماجہ، 4/460، حدیث: 4181)یعنی ہر امت کی کوئی نہ کوئی خاص خصلت ہوتی ہے جو دیگر خصلتوں
پر غالب ہوتی ہے اور اسلام کی وہ خصلت وہ خوبی حیا ہے۔ حیا کی ضد بے حیائی ہے جو انسان
بے حیائی میں مبتلا ہو جاتا ہے وہ بغیر کسی خوف سے بڑے بڑے جرم کرنے میں دلیر ہو جاتا
ہے۔
حدیث پاک میں ہے: جب تو حیا نہ کرے تو جو چاہے کر۔ (بخاری، 4/131، حدیث: 6125)
بے حیائی صرف آنکھوں کے ذریعے ہی نہیں ہوتی بلکہ کان
ہاتھ زبان اور لباس سے بھی بے حیائی کا ارتکاب کیا جاتا ہے۔ افسوس!صد کروڑ افسوس! ایک
طرف گلیوں، بازاروں، تقریبوں اور سینما گھروں میں مرد عورت سے ملنا اور بدنگاہیاں اور
بے تکلفیاں ہیں تو دوسری طرف گھر گھر میں ایک بھی سینما گھر کھل گیا ہے۔ مسلمانوں کی
اکثریت ٹی وی وغیرہ کے ذریعے بد نگاہی و بے حیائی میں ملوث ہے۔
آج مسلمانوں کی عورتوں کی حالت ایسی ہے کہ سر شرم سے
جھک جائے۔ پردے کا تصور ہی نہیں رہا بال کھول کر صرف نام کا لباس پہن کر تفریح گاہوں
شادیوں میں شرکت کرنا ناچ گانے کی بے حیائی پھیلانے والی محافل میں شرکت کرنا کوئی
معیوب ہی نہیں رہا اب جوان لڑکی چادر اور چاردیواری سے نکل کر مخلوط تعلیمی اداروں
میں دندناتی پھرتی ہے۔ لیکن اس کے برعکس بھی ہے کہ اب بھی جو چادر و چار دیواری میں
ہوگی وہ ان شاءاللہ با حیا ہی ہوگی۔ حدیث پاک میں ہے: حیا ایمان سے ہے۔(ترمذی،
3/406، حدیث: 2016)معلوم ہوا حیا دار عورت ایمان دار دینی کام کرنے والی ہوگی۔لیکن
جس میں حیا نہ ہوگی وہ اسلام کی حدود اسکے اصول توڑنے میں بھی دیر نہیں کرے گی۔
سمجھ نہیں آتا کہ اس بگڑے ہوئے معاشرے کا رخ اللہ اور
اسکے محبوب ﷺ کی اطاعت کی طرف کیسے پھیرا جائے اور اسکو جہنم کی طرف دوڑے چلے جانے
سے روک کر کس طرح جنت کی طرف لے جایا جائے؟
افسوس!صد کروڑ افسوس!ذرائع ابلاغ مثال کے طور پر ٹی
وی کے بے حیا چینلز اور بے حیائی کی باتوں سے بھر پور ناول اور ڈائجسٹ بے حیائی کو
فروغ دینے میں مصروف ہیں۔
حضور ﷺ نے فرمایا: اس شخص پر جنت حرام ہے جو بے حیائی
کی بات سے کام لیتا ہے۔ (جامع صغیر للسیوطی، ص 221، حدیث: 3648)
میرے مدنی مصطفی ﷺ شرم و حیا کے پیکر تھے۔ آپ ﷺ شرم
و حیا کے باعث اکثر نیچی نگاہیں رکھا کرتے تھے۔ حدیث پاک میں فرمایا: حیا صرف خیر ہی
لاتی ہے۔ (مسلم، ص40، حدیث: 37) باحیا بننے کے لیے دعوت اسلامی کے مدنی ماحول سے ہر
دم وابستہ رہیے۔

شرم و حیا اور اسلام کا آپس میں وہی تعلق ہے جو جسم
اور روح کا ہے آقا ﷺ نے فرمایا: بے حیا جس چیز میں ہو اسے عیب دار کر دیتی ہے اور حیا
جس چیز میں ہو اسے زینت بخشتی ہے۔ (ابن ماجہ، 4 / 461، حدیث: 4185)اللہ پاک قرآن پاک
میں سورہ اعراف آیت نمبر 33 میں ارشاد فرماتا ہے: قُلْ
اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّیَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَ مَا بَطَنَ (پ
8، الاعراف: 33) ترجمہ کنز الایمان: تم فرماؤ میرے رب نے تو بے حیائیاں حرام
فرمائی ہیں (ف۴۹) جو ان میں کھلی ہیں اور جو چھپی۔
حضور ﷺ نے فرمایا: جب تم میں حیا باقی نہ رہے تو تو
جو چاہے کر۔ (بخاری، 4/131، حدیث: 6125)
بے حیائی سے دل سخت ہو جاتا ہے جیسا کہ آقا ﷺ نے فرمایا:
حیا ایمان کا حصہ ہے اور ایمان جنت میں پہنچاتا ہے جبکہ بے حیائی اور بدکلامی سنگدلی
ہے اور سنگدلی جہنم میں پہنچاتی ہے۔(ترمذی، 3/406، حدیث: 2016)
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ محبوب دوجہاں
ﷺ نے فرمایا: اللہ پاک جب کسی بندے کی ہلاکت کا فیصلہ فرماتا ہے تو سب سے پہلے اس سے
شرم و حیا چھین لیتا ہے اور جب اس سے حیا جاتی رہی تو تم اسے اس کی بے حیائیوں کی وجہ
سے شدید مبغوض اور قابل نفرت پاؤ گے اور جب اسکی یہ حالت ہو جائے تو
اس سے امانت چھین لی جاتی ہے اور جب اس سے امانت چھن جائے تو
تم اسے اس کی بد دیانتی کی وجہ سے خائن اور دھوکے باز پاؤ گے جب اسکی حالت یہاں تک
پہنچ جائے تو
اس سے رحمت بھی چھین لی جاتی ہے جب رحمت چھن جائے تو
اس بے رحمی کی وجہ سے مردود و ملعون پاؤ گے اور جب وہ اس مقام پر پہنچ جائے تو
اس کے گلے سے اسلام کا پٹہ نکال لیا جاتا ہے اور اسے اسلام سے عار آنے لگتی ہے۔
وہ بہترین عمل جس کا انسان تصور کر سکتا ہے وہ اس کا
اچھا اخلاق ہی ہے چنانچہ یہی عمل میزان میں زیادہ وزنی ہوگا بے حیائی اور بدگوئی کو
وہی شخص اپنا سکتا ہے جو اخلاق سے اصلًا عاری ہوتا ہے۔

پردہ حجاب گویا اسلامی شہر کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ
اسلام سے قبل عورت بے پردہ تھی اور اسلام نے اسے پردہ و حجاب کے زیور سے آراستہ کر
کے عظمت و کردار کی بلندی عطا فرمائی جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے: وَ قَرْنَ فِیْ بُیُوْتِكُنَّ وَ لَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ
الْجَاهِلِیَّةِ الْاُوْلٰى (پ 22، الاحزاب: ) ترجمہ کنز الا
یمان: اور اپنے گھروں میں ٹھہری رہو اوربے پردہ نہ رہو جیسے اگلی جاہلیت کی بے
پردگی۔
خلیفہ اعلی حضرت صدر الافاضل حضرت علامہ مولانا سید
محمد نعیم الدین مراد ابادی رحمۃ اللہ علیہ اس آیت مبارکہ کے تحت تفسیر حزائن العرفان
میں فرماتے ہیں: اگلی جاہلیت سے مراد قبل اسلام کا زمانہ ہے اس زمانے میں عورتیں اتراتی
نکلتی تھیں اپنی زینت و محاسن یعنی بناؤ سنگار اور جسم کی خوبیاں مثلا سینے کے ابھار
وغیرہ کا اظہار کرتی تھیں کہ غیر مرد دیکھیں۔لباس ایسے پہنتی تھیں جن سے جسم کے اعضا
اچھی طرح نہ ڈھکیں۔ افسوس موجودہ دور میں بھی زمانہ جاہلیت والی بے پردگی پائی جا رہی
ہیں۔ یقینا جسے اس زمانے میں پردہ ضروری تھا ویسے ہی اب بھی ہے۔
شرم و حیا صرف بھلائی کا باعث بنتی ہے محسن انسانیت
نے دوسرے ادیان کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ہر دین کی ایک پہچان ہوتی ہے اور ہمارے دین
کی پہچان شرم و حیا ہے۔
حیا کی غیر موجودگی کے بارے میں پیارے آقا ﷺ نے فرمایا:
جب تجھ میں حیا نہ رہے تو جو چاہے کرتا رہ۔ (بخاری، 2/470، حدیث: 3484)
حیا ایمان کا حصہ ہے اور ایمان جنت میں لے جانے کا سبب
ہے بے حیائی جفا ہے اور جفا دوزخ میں لے جانے کا سبب ہے۔ (ترمذی، 3/406، حدیث: 2016)حیا
ان صفات میں سے ہے جن کی وجہ سے انسان کے کردار میں خوبصورتی پیدا ہوتی ہے۔

بے حیائی حیا کی ضد ہے حیا کے معنی ہیں: عیب لگائے جانے
کے خوف سے چھپ جانا، نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: حیا ایمان کی ایک شاخ ہے اور ایمان
جنت میں لے جائے گا شرم و حیا اور بری باتوں سے خاموش رہنا ایمان کی شاخیں ہیں بے حیائی
اور بے شرمی بدکاری میں سے ہے جو قوم بے حیائی کی طرف قدم بڑھائے گی اللہ پاک اسے مصیبتوں
میں مبتلا کر دے گا بے حیائی ہر چیز کو داغ دار کر دیتی ہے اور شرم و حیا زینت دیتی
ہے۔ بے حیائی حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے
اللہ پاک قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: وَ لَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَ مَا بَطَنَۚ- (پ
8، الانعام: 151) ترجمہ: اور بے حیائی کے قریب بھی نہ جاؤ، چاہے وہ کھلی ہو یا
چھپی ہوئی۔
جس معاشرے میں بے حیائی عام ہو جائے گی اس معاشرے میں
امن و سکون ختم ہو جاتا ہے، فساد شروع ہو جاتے ہیں، ادب ختم ہو جاتا ہے، محبتوں کا
اعتماد ختم ہو جاتا ہے، نفرتیں پروان چڑھتی ہیں، گناہ اچھے لگتے ہیں اور نیکیاں کرنے
میں سستی ہوتی ہے۔
حیا ایمان کا حصہ ہے جب حیا انسان کے اندر سے ختم ہو
جاتی ہے تو ایمان بھی خطرے میں پڑ جاتا ہے آج ہم معاشرے میں بہت سی بے حیائی کے کام
ہوتے دیکھ رہے ہیں اور بہت سے طریقوں سے ہوتے دیکھ رہے ہیں کانوں سے، زبان سے، انکھ
سے، دل سے، الغرض ہم اپنے تمام اعضاء کو بے حیائی کے کاموں میں استعمال کر رہے ہیں۔
اللہ پاک نے جو ہاتھ ہمیں لوگوں کی مدد کے لیے عطا کیے
اس سے ہم رشوت دیتے اور سود لینے میں استعمال کرتے ہیں جن پیروں کو مسجد میں لے جانے
کے لیے بنایا ہم انہیں گناہ کے لیے اٹھاتے ہیں جس زبان کو ذکر و اذکار کے لیے بنایا
گیا ہم اسے غیبت و چغلی وغیرہ جیسے گناہ میں استعمال کرتے ہیں آج بے حیائی پھیلانے
کا سب سے بڑا ذریعہ ٹی وی سسٹم اور انٹرنیٹ موبائل وغیرہ ہے آج معاشرے کا ہر فرد ہر
بچہ اسے بے حیائی کے طریقے سیکھ رہا ہے اور بے حیائی کا ارتکاب کر رہا ہے۔
نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے: جب تم میں حیا نہ ہو تو پھر
جو چاہو کرو۔(بخاری، 4/131، حدیث: 6125)
رفرد کو چاہیے کہ وہ اللہ کے غضب کو یاد کرے عذاب قبر
کو یاد کرے تو ضرور انشاءاللہ اس گناہ سے بچنے میں کامیاب ہوگا۔
یاد رکھیے کوئی گناہ لذت کے لیے نہیں کرنا چاہیے کیونکہ
لذت ختم ہو جاتی ہے لیکن گناہ باقی رہتا ہے اور کوئی نیکی تکلیف کی وجہ سے مت چھوڑیے
کیونکہ تکلیف ختم ہو جاتی ہے لیکن نیکی باقی رہتی ہے

قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ لَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَ مَا بَطَنَۚ- (پ
8، الانعام: 151) ترجمہ: اور بے حیائی کے قریب بھی نہ جاؤ، چاہے وہ کھلی ہو یا
چھپی ہوئی۔ قرآن و سنت میں بے حیائی کے کاموں سے بچنے اور حیا کی تلقین کی گئی ہے۔
آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ سے حیا کرو جیسا کہ اس سے حیا کرنے کا حق ہے۔ صحابہ نے عرض کی:
یارسول اللہ ﷺ ہم اللہ سے حیا کرتے ہیں۔ اور اس پر اس کا شکر ادا کرتے ہیں۔ آپ ﷺ نے
فرمایا: حیا کا حق یہ نہیں جو تم نے سمجھا ہے، اللہ سے حیا کرنے کا حق یہ ہے کہ تم
اپنے سر اور اس کے ساتھ جتنی چیزیں ہیں ان سب کی حفاظت کرو اور اپنے پیٹ اور اس کے
اندر جو چیزیں ہیں، ان کی حفاظت کرو اور موت اور ہڈیوں کے سڑ جانے کو یاد کرو اور جسے
آخرت کی چاہت ہو وہ دنیا کی زینت کو ترک کر دے، پس جس نے اسے پورا کیا تو حقیقت میں
اس نے اللہ سے حیا کی جیسا کہ اس سے حیا کرنے کا حق ہے۔ (ترمذی، 4/207، حدیث: 2466)
افسوس! آج ہمارے معاشرے میں ذرائع ابلاغ (میڈیا) مثلاً:
ریڈیو، ٹی وی کے مختلف چینلز اور متعدد رسائل اور اخبارات بے حیائی کو فروغ دینے میں
مصروف ہیں جس کی بناء پر ہمارا معاشرہ تیزی سے فحاشی و بے حیائی کی لپیٹ میں آتا جا
رہا ہے جس کے سبب خاص کر نئی نسل بداخلاقی اور شدید بے عملی کا شکار ہوتی جارہی ہے
شب و روز بے حیائی و بے شرمی کی وجہ سے مسلم معاشرے میں ایسا بگاڑ پیدا ہوتا جا رہا
ہے کہ جس کی وجہ سے مسلم معاشرے اور غیر مسلم معاشرے میں تمیز مشکل ہو چکی ہے۔
قرآن و حدیث میں بے حیائی کی سخت مذمت بیان فرمائی گئی
ہے۔
ارشاد باری تعالی ہے: اِنَّ الَّذِیْنَ
یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ
اَلِیْمٌۙ-فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِؕ-وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(۱۹) (پ
18، النور: 19) ترجمہ کنز الایمان: وہ لوگ جو چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بُرا چرچا
پھیلے ان کے لیے دردناک عذاب ہے دنیا اور آخرت میں اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں
جانتے۔
فرمان مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم: حضرت عبداللہ ابن
مسعود سے روایت ہے، رسول الله ﷺ نے ارشاد فرمایا: الله عز وجل سے زیادہ کوئی غیور نہیں،
اسی لئے اللہ نے تمام ظاہری اور باطنی فواحش یعنی بے حیائیوں کو حرام کردیا۔ (بخاری،
3/225، حدیث: 4637)
حضرت ابراہیم بن میسرہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: فحش
کلام (یعنی بے حیائی کی باتیں) کرنے والا قیامت کے دن کتے کی شکل میں آئے گا۔ (اتحاف
السادة للزبیدی، 9/190)
بے حیائی سخت حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے
چاہے بے حیائی ظاہری ہو یا باطنی، اعلانیہ ہو یا پوشیدہ، قولی ہو یافعلی۔
بے حیائی اللہ کی ناراضگی اور آخرت میں سخت عذاب کا
سبب ہے اور اس کے بہت سے دنیاوی نقصانات بھی ہیں جن میں سے چند درج ذیل ہیں:
بے حیا انسان معاشرے میں ذلیل و خوار ہو جاتا ہے اس کا رعب و دبدبہ بھی ختم ہو جاتا ہے لوگوں کے دلوں
میں اس کیلئے ذرا سی بھی عزت و وقعت نہیں رہتی۔ اس کے علاوہ اور بھی کئی نقصانات ہیں
بہر حال بے حیائی سے بچنے اور اپنے اندر شرم و حیا پیدا
کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ ہم بے حیائی کے نقصانات پر غور کریں، اللہ کی ناراضگی
اور آخرت میں ہونے والے اس کے قہر و غضب کو یاد کرے تو ان شاء الله بے حیائی سے نجات
ملے گی اور حیا کی چادر نصیب ہوگی۔
حیا انسان کو ہر اچھے کام پر ابھارتی اور بڑے کام سے
روکتی ہے گویا کہ حیا اخلاق کا سرچشمہ ہے، ایمان کی زینت ہے اور اسلام کا شعار ہے۔
فرمان مصطفی: حیا صرف خیر ہی لاتی ہے۔ (مسلم، ص 40،
حدیث: 37)
شرم و حیا ہر چیز کو زینت دیتی ہے جبکہ بے حیائی ہر
چیز کو داغ دار کر دیتی ہے۔ فرمان مصطفی: جب تجھ میں حیا نہ رہے تو جو چاہے کر۔ (بخاری،
2/410، حدیث: 3484)
معلوم ہوا کہ کسی بھی برے کام سے رکنے کا ایک سبب شرم
و حیا بھی ہے کہ جب تک انسانی حیا کے حصار (دائرے) میں رہتا ہے ذلت ورسوائی سے سے بچارہتا
ہے ہے اور جب بے حیائی میں جا پڑتا ہے تو پھر گھٹیا اور بد ترین کام بھی بڑی آسانی
کے ساتھ کرتا چلا جاتا ہے۔
فرمان مصطفیٰ: بے شک حیا اور ایمان آپس میں ملے ہوئے
ہیں، جب ایک اٹھ جاتا ہے تو دوسرا بھی اٹھا لیا جاتا ہے۔(مستدرک، 1 / 176، حدیث:
66)
یہی وجہ ہے کہ اسلام کے دشمن مسلمانوں کی حیا پر وار
کرتے نظر آرہے ہیں۔ ڈراموں، فلموں، اشتہارات اور مارننگ شوز وغیرہ کے نام پر معاشرے
میں شرم وحیا کے سائبان پر جو وار کیے جا رہے ہیں وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔

بے حیائی ایک مذموم صفت ہے افسوس آج کل ہمارے معاشرے
میں انتہائی عام ہو چکی ہے خواہ وہ عورتوں ہوں یا مرد عورتوں کے حوالے سے بات کی جائے
تو بے حیائی اتنی عام ہوچکی ہے کہ عورتوں نے ایسے لباس پہننا شروع کر دیئے کہ صرف نام
کے لباس ہوتے ہیں حقیقتاً جسم کی پوری ہیئت واضح ہورہی ہوتی ہے یا پھر اتنا باریک کپڑا
ہوتا ہے کہ جسم جھلکتا ہے، اسی طرح کہ بغیر پردہ سج سنور غیر محرموں کے سامنے آنا ان
سے بےتکلف ہوجانا، اسی طرح آپس میں گفتگو کرتے ہوئے بھی حیا سے عاری گفتگو کرنا، اسی
طرح شادیوں میں اپنے بالوں کو غیر محرم کے سامنے میں کھول کر پھرنا، غیر محرموں سے
ہاتھ ملانا، اسی طرح بات مردوں کی جائے مرد خصوصا صبح کے ٹائم گھٹنے کھولے سڑکوں پر
نکل آتے ہیں اسی طرح بعض مرد گھر کے اندر بھی گھٹنے کھول لیتے ہیں وہ یہ سمجھتے ہیں
کہ گھر میں میری محارم عورتیں ہی تو ہیں بیٹی بیوی ماں تو ایسے مرد ذرا اس شرعی مسئلہ
پر توجہ دیں کہ ان کے گھٹنے صرف انکی بیوی ہی دیکھ سکتی ہے بیٹی، ماں اگرچہ محارم
ہے لیکن ان کے سامنے گھٹنوں کو ظاہر کرنا گناہ ہے، ان کے اندر ذرا شرم نہیں ہوتی ان
لوگوں کو ذرا جھجھک نہیں آتی کہ ہم کتنی بڑی بے حیائی کے مرتکب ہے اگر اس فعل پر انہیں
بے غیرت کہا جائے تو غصے سے لال پیلے ہوجائیں یہ نہیں دیکھتے کہ کام خود ہی ایسے کرتے
ہیں۔
بے حیائی کا مرتکب وہی ہوگا جس کے اندر غیرت نہیں ہوگی
حیرت ہے کام بے غیرتی والے کریں لیکن جب انہیں بے غیرت کہا جائے تو آپے سے باہر ہو
جائیں، اسی طرح مردوں کا آپس میں بلا ضرورت اپنے گھر کی عورتوں کے بارے میں گفتگو کرنا
حال یہ ہے کہ گفتگو کرتے ہیں جناب کو جھجک تک محسوس نہیں ہوتی۔ حدیث مبارکہ ہے: جب
تجھ میں حیا نہ رہے تو جو چاہے کر۔ (بخاری، 2/470، حدیث:3484)
آیت مبارکہ ہے: اِنَّ
الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا
لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۙ-فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِؕ-وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ
اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(۱۹) (پ
18، النور: 19) ترجمہ کنز الایمان: وہ لوگ جو چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بُرا چرچا
پھیلے ان کے لیے دردناک عذاب ہے دنیا اور آخرت میں اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں
جانتے۔
بے حیائی کرنے والوں ذرا عبرت پکڑو برا چرچا یعنی بے
حیائی کرنے پر عذاب ہوگا۔
قارئین حیا کا ہونا بہت زیادہ ضروری ہے کیونکہ حیا وہ
شے ہے کہ جس انسان کے اندر حیا آجائے تو وہ ہر طرح کے مذموم افعال سے اجتناب کرتا
ہے یوں وہ ذلت و رسوائی سے محفوط ہوجاتا ہے۔
قارئین ذرا غور کیجئے کہ کسی مسلمان کے لیے مناسب ہے
کہ وہ بے حیائی کا ارتکاب کریں نہیں ہر گز نہیں بلکہ اسلام تو ہمیں شرم و حیا کا درس
دیتا ہے۔
سرکار مدینہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: بے شک حیا اور ایمان
آپس میں ملے ہوئے ہیں، جب ایک اٹھ جاتا ہے تو دوسرا بھی اٹھا لیا جاتا ہے۔ (مستدرک
للحاکم، 1/176، حدیث:66)
ہمیں چاہیے کہ ہم حیا کو اپنائیں ہمارا کردار ایسا ہو
کہ جسے دیکھ کر غیر مسلم بھی متاثر ہوجائے، ہمارا بولنے کا انداز اٹھنے کا، سونے کا،
بولنے کا ایسا ہو کہ جس سے حیا کی خوشبو آئے۔
پیارے رسول ﷺ کی پیاری لاڈلی شہزادی حضرت فاطمہ زہرا
رضی اللہ عنہا کی شرم و حیا پر ہماری جانیں قربان! شرم و حیا اور پردہ کرنا آپ کے اعلیٰ
اوصاف میں سے تھا، کبھی کسی غیر محرم کی نظر نہ پڑی، بلکہ آپ کی یہ تمنا تھی کہ وصا
ل کے بعد بھی مجھ پرکسی غیر مرد کی نظر نہ پڑے، چنانچہ بروز محشر لوگوں کو نگاہیں جھکانے
کا حکم ہوگا تاکہ آپ رضی اللہ عنہا پل صراط سے گزر جائیں۔ (مستدرک، 4 / 136، حدیث:
4781)

ارشادِ باری تعالیٰ: وَ
قَرْنَ فِیْ بُیُوْتِكُنَّ وَ لَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِیَّةِ
الْاُوْلٰى
(پ 22، الاحزاب: ) ترجمہ کنز الا یمان: اور اپنے گھروں میں ٹھہری رہو اوربے پردہ
نہ رہو جیسے اگلی جاہلیت کی بے پردگی۔
حضرت علامہ مولانا سید محمد نعیم الدین مرادآبادی علیہ
الرحمہ اس آیت مبارکہ کے تحت تفسیر خزائن العرفان میں فرماتے ہیں: اگلی جاہلیت سے مراد
یہاں قبل اسلام کا زمانہ ہے، اس زمانے میں عورتیں اتراتی نکلتی تھیں، اپنی زینت ومحاسن
(یعنی بناؤ سنگھار اور جسم کی خوبیاں مثلاً سینے کے ابھار وغیرہ) کا اظہار کرتی تھیں
کہ غیر مرد دیکھیں لباس ایسے پہنتی تھیں جن سے جسم کے اعضاء اچھی طرح نہ ڈھکیں۔ (خزائن
العرفان، ص 780)
حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہیکہ رسول اللہ
ﷺ کا ارشاد عبرت بنیاد ہے: اللہ کی لعنت ہو دیکھنے والے پر اور اس پر جس کی طرف دیکھا
جائے۔
(شعب
الایمان، 6/162، حدیث: 7722)
مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ حدیث پاک کے
تحت فرماتے ہیں: مطلب یہ ہیکہ جو مرد،اجنبی عورت کو قصداً (یعنی جان بوجھ کر)بلا ضرورت
دیکھے اس پر بھی لعنت ہے اور جو عورت قصداً بلا ضرورت اجنبی مرد کو اپنا آپ دکھائے اس
پر بھی لعنت ہے غرضیکہ اس میں تین قیدیں لگانی پڑیں گی: 1۔ اجنبی عورت کو دیکھنا 2۔
بلا ضرورت دیکھنا 3۔ قصداً دیکھنا۔ (مراۃ المناجیح، 5/24)
حضور ﷺ کا فرمان ہے: اس شخص پر جنت حرام ہے جو فحش گوئی
(یعنی بےحیائی کی بات)سے کام لیتا ہے۔ (الجامع الصغیر للسیوطی، ص 221، حدیث: 3648)
نازک شیشیاں: اعلیٰ حضرت رحمۃ
اللہ علیہ فرماتے ہیں: لڑکیوں کو سورہ یوسف کی تفسیر مت پڑھاؤ بلکہ انہیں سورہ نور
کی تفسیر پڑھاؤ کہ سورہ یوسف میں ایک نسوانی (یعنی عورت کے)مکر کا ذکر ہے کہ نازک شیشیاں
ذرا سی ٹھیس سے ٹوٹ جائیں گی۔ (فتاویٰ رضویہ، 24/400 ملخصا)
محترم قارئات سورہ یوسف تک جنہیں پڑھنے سے منع کیا گیا
ہے کروڑ ہا کروڑ افسوس آج کل وہی لڑکیاں ناولز، غیر اخلاقی افسانے، عشقیہ و فسقیہ مضامین
پڑھنے سے نہیں کتراتیں یہ بے حیائی نہیں تو اور کیا ہے بے حیا ڈرامے دیکھنا گانے سننا
گانا اور جن کی حیا بالکل ختم ہوگئی وہ تو ان میں کام بھی کرتی ہونگی۔ معاذاللہ
ایسا کیوں نہ ہو کہ ان بے حیائی کے کاموں میں گھر والے
بڑھ چڑھ کر انکا نا صرف ساتھ دیتے بلکہ بچپن سے انہی کے ذریعے ان کی تربیت کرتے ہیں۔
الامان و الحفیظ
جو چاہو کرو مکی مدنی سلطان کا فرمان عالیشان ہے: جب
تجھے حیا نہیں تو تو جو چاہے کر۔ (الاحسان بترتیب صحیح ابن حبان، 2/3، حدیث: 606)
محترم قارئین یہ فرمان ڈرانے اور خوف دلانے کیلئے ہیکہ
جو چاہو کرو جیسا کروگے ویسا بھرو گے بے حیائی والا کام کروگے تو اس کی سزا (بھی) پاؤ
گے۔ (باحیا نوجوان،ص 58)
کسی بزرگ کی نصیحت کا خلاصہ ہے جو انہوں نے اپنے بیٹے
کو فرمائی کہ جب گناہ کرتے ہوئے تجھے آسمان و زمین میں سے کسی سے (شرم و حیاء)نہ آئے تو
خود کو چوپایوں (یعنی جانوروں)میں شمار کر۔ (ایضاً)

بےحیائی سے مراد انسان کا ان چیزوں کو کرنا جو اللہ
و رسول ﷺ اور مخلوق کے نزدیک ناپسندیدہ ہو جیسے: عورت کا بے پردگی کرنا۔
انسان بےحیائی کرتے وقت کیوں بھول جاتا ہے کہ اللہ دیکھ
رہا ہے۔ جو لوگ اپنے ناقص خیال میں چھپ کر برائیاں کرتے ہیں ان کو یہ بات خوب ذہن نشین
کرلینی چاہئے کہ جن خطاؤں کو یہ پوشیدہ سمجھ بیٹھے ہیں وہ سب کی سب برائیاں اور بے
حیائیاں بدیاں لکھنے والا فرشتہ جانتا ہے اور لکھ بھی رہا ہے! اگرکسی بندے کو اس بات
کا کما حقّہ احساس ہو جائے تو اس کو اس قدر شرمندگی اور ندامت ہو کہ جی چاہے بس ابھی
زمین پھٹ جائے اور وہ اس میں سما جائے۔ آہ افسوس بےحیائی کرتے وقت کیوں انسان غور نہیں
کرتا۔
حدیث مبارکہ کی روشنی میں بےحیائی کی مذمّت:
رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: تجھے حیا نہیں تو تو جو چاہے
کر۔ (بخاری، 2 / 470، حدیث: 3484)
مفسر شہیر حکیم الامّت حضرت مفتی احمد یار خان علیہ
رحمۃ الحنّان اس حدیث پاک کے تحت فرماتے ہیں: جب تیرے دل میں اللہ رسول کی، اپنے بزرگوں
کی شرم و حیاء نہ ہوگی تو تو برے سے براکام کر گزرے گا کیونکہ برائیوں سے روکنے والی
چیز تو غیرت ہے جب وہ نہ رہی تو برائی سے کون روکے! بہت لوگ اپنی بدنامی کے خوف سے
برائیاں نہیں کرتے مگر جنہیں نیک نامی بدنامی کی پرواہ نہ ہو وہ ہر گناہ کر گزرتے ہیں۔
(مراۃ المناجیح، 6 / 638)
فرمان مصطفٰے ﷺ ہے: بے حیائی جس چیز میں بھی ہو اسے
عیب ناک کر دیتی ہے اور شرم وحیا جس چیز میں بھی ہو اسے زینت دیتی ہے۔ (ترمذی، 3 / 392، حدیث: 1981)
یعنی اگر بے حیائی اور حیا و شرم انسان کے علاوہ اور
مخلوق میں بھی ہوں تو اسے بھی بے حیائی خراب کردے اور حیا اچھا کردے تو انسان کا کیا
پوچھنا! حیا ایمان کی زینت، انسانیت کا زیور ہے، بے حیائی انسانیت کے دامن پر بدنما
دھبہ ہے۔ (مراۃ المناجیح، 6 / 473)
بےحیاء نیک نہیں کہلا سکتا! یقینا ہر رسول، ہر نبی اور
ہر ولی با حیاء (ہی) ہوتا ہے۔ اللہ پاک کے مقبول بندے کے بارے میں بے حیائی کا تصوّر
بھی نہیں کیا جاسکتا اور جو بے حیاء ہے وہ نیک بندہ کہلانے کا حقدار نہیں۔ چچا، تایا،
خالہ، ماموں اور پھوپھی کی لڑکیوں، چچی، تائی، ممانی، اپنی بھابھی، نامحرم پڑوسیوں
اور دیگر نامحرم عورتوں کو جو قصداً دیکھے، ان سے بے تکلّف بنے، فلمیں ڈرامے دیکھے،
گانے باجے سنے، فحش کلامی یا گالم گلوچ کرے وہ بےحیائی کرنے والا ہے۔ اور اپنے لیے
جہنم میں جانے کا سامان تیار کرتا ہے۔
گھریلو بے حیائیاں: ذرا غور فرمائیے!
اگر آپ کے گھر کے باہری دروازے پرکوئی جوان لڑکی اور لڑکا آپس میں ناشائستہ حرکتیں
کر رہے ہوں تو شاید آپ شور مچا دیں کہ یہ کیا بے حیائی کر رہے ہو بلکہ انہیں مارنے
کو دوڑ پڑیں! اس میں کوئی شک نہیں کہ یہاں آپ کا غصّہ حیاء کی وجہ سے ہے۔ لیکن جب
آپ نے گھر میں ٹی وی آن کیا جس میں ایک رقّاص اور رقاصہ (Dancers)
ناچ رہے ہیں، ایک دوسرے کو اشارے کر رہے ہیں، چھو رہے ہیں، تب آپ کی حیا کہاں سو جاتی
ہے ؟ خدا کے لئے سوچئے! کیا یہ بے حیائی کا منظر نہیں ہے ؟ یہ آپ کی کیسی الٹی منطق
ہے گھر کے باہر ہورہا تھا تو آپ نے اسے بے حیائی قرار دیکر احتجاج کیا اور یقینا وہی
کام گھر کے اندر آپ کی بہو بیٹیوں کی موجودگی میں ٹی وی کے پردۂ سکرین پرہو رہا ہے
تو گویا بے حیائی نہ رہا! توبہ! توبہ! آپ کے سامنے لڑکا اور لڑکی ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے
ناچ رہے ہیں اور آپ ہیں کہ آنکھیں پھاڑ کر مزے سے دیکھے جا رہے ہیں! اور اسکی داد دے
رہے ہیں! آخر اس طرح خدا کے قہر و غضب کو کب تک ابھارتے رہیں گے؟
اعضاء کی حیاء: انسان کو چاہیئے
کی وہ اپنی زبان کو اپنے سر کو اپنی آنکھ کو اپنے کان کو اپنے لباس کو بےحیائی سے بچائے کہ
زبان کو بےحیائی بدزبانی و گالی گلوچ سے بچائے، سر
کو برے خیالات و تصورات سے بچائے، آنکھ کو بدنگاہی
سے بچائے، کان
کو گانے سننے بری بات سننے سے بچائے اور لباس ایسا
زیب تن کرے کہ ستر عورت کو چھپائے اور شرم و حیاء ہر ہر اعضاء سے یوں جھلکے کہ شیطان
بھاگنے پر مجبور ہوجائے۔
جنت کی خوشبو بھی نصیب نہ ہوگی: حضرت
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جہنمیوں کی دو قسمیں
ایسی ہیں جنہیں میں نے (اپنے زمانے میں) نہیں دیکھا (بلکہ وہ میرے بعد والے زمانے میں
ہوں گی) (1)وہ لوگ جن کے پاس گائے کی دم کی طرح کوڑے ہوں گے جن سے وہ لوگوں کو (ناحق)
ماریں گے۔ (2)وہ عورتیں جو لباس پہننے کے باوجود ننگی ہوں گی، مائل کرنے والی اور مائل
ہونے والی ہوں گی، ان کے سر موٹی اونٹنیوں کے کوہانوں کی طرح ہوں گے۔یہ نہ جنت میں
جائیں گی اور نہ اس کی خوشبو پائیں گی حالانکہ اس کی خوشبو بہت دور سے آتی ہوگی۔ (مسلم،
ص 1177، حدیث: 2128)
آقا ﷺ نے صدیوں پہلے جو خبر دی وہ آج حرف بہ حرف پوری
ہوتی نظر آ رہی ہے اور ہمارے معاشرے کی عورتوں کا حال یہ ہے کہ وہ لباس ایسے پہنتی
ہیں جس سے ان کے جسم کا کچھ حصہ ڈھکا ہوتا ہے اور کچھ ننگا ہوتا ہے،یا ان کا لباس اتنا
باریک ہوتا ہے جس سے ان کے جسم کی رنگت صاف نظر آرہی ہوتی ہے، یا ان کا لباس جسم پر
اتنا فٹ ہوتا ہے جس سے ان کی جسمانی ساخت نمایاں ہو رہی ہوتی ہے تو یہ بظاہر تو کپڑے
پہنے ہوئی ہیں لیکن در حقیقت ننگی ہیں کیونکہ لباس پہننے سے مقصود جسم کو چھپانا اور
اس کی ساخت کو نمایاں ہونے سے بچانا ہے اور ان کے لباس سے چونکہ یہ مقصود حاصل نہیں
ہورہا، اس لئے وہ ایسی ہیں جیسے انہوں نے لباس پہنا ہی نہیں اوران کے چلنے، بولنے اور
دیکھنے کا انداز ایسا ہوتا ہے جس سے وہ لوگوں کے دلوں کو اپنی طرف مائل کر رہی ہوتی
ہیں اور خود کا حال بھی یہ ہوتا ہے کہ غیر مردوں کی طرف بہت مائل ہوتی ہیں، دوپٹے ان
کے سر سے غائب ہوتے ہیں اور برقعہ پہننے والیاں نقاب منہ سے ہٹا کر چلتی ہیں تاکہ لوگ
ان کا چہرہ دیکھیں۔ ایسی عورتوں کو اللہ تعالیٰ کے عذاب اور جہنم کی خوفناک سزاؤں
سے ڈرنا چاہیے۔

حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ تعالی علیہ سے مرسلا مروی ہے
کہتے ہیں مجھے خبر پہنچی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ دیکھنے والے پر اور اس پر جس
کی طرف نظر کی گئی اللہ پاک لعنت فرماتا ہے یعنی دیکھنے والا جب بلا عذر قصدا دیکھے
اور دوسرا اپنے کو بلا عذر قصدا دکھائے۔ (مشکاۃ المصابیح، 1/574، حدیث: 3125)
نبی کریم ﷺ نے فرمایا: تم میں سے کسی کے سر میں لوہے
کی سوئی گھونپ دی جائے تو یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ ایسی عورت کو چھوئے جو اس کے لیے
حلال نہیں۔ (معجم کبیر، 2/211، حدیث: 486)
ایک اور حدیث مبارکہ میں ہے: حیا ایمان سے ہے یعنی جس
طرح ایمان مومن کو کفر کے ارتکاب سے روکتا ہے اسی طرح حیا با حیا کو نافرمانیوں سے
بچاتی ہے یوں مجازا اسے ایمان سے فرمایا گیا جس کی مزید وضاحت و تائید حضرت ابن عمر
رضی اللہ عنہ کی اس روایت سے ہوتی ہے کہ بے شک حیا اور ایمان دونوں آپس میں ملے ہوئے
ہیں تو جب ایک اٹھ جائے تو دوسرا بھی اٹھا لیا جاتا ہے۔ (مستدرک للحاکم، 1/176، حدیث:22)
حیا اور ایمان دو ایسے پرندے ہیں کہ اگر ان میں سے ایک
اڑ جائے تو دوسرا خود ہی اڑ جاتا ہے۔
ذرائے ابلاغ مثلا ریڈیو ٹی وی کے مختلف چینلز متعدد
رسائل اور اخبارات بے حیائی کو فروغ دینے میں مصروف ہیں جس کی بنا پر ہمارا معاشرہ
تیزی سے فحاشی عرفانی و بےحیائی کی آگ کی لپیٹ میں آتا جا رہا ہے جس کے سبب خاص کر
نئی نسل اخلاقی بے راہ روی و شدید بدعملی کا شکار ہوتی جا رہی ہے فلمیں ڈرامے گانے
باجے بیہودہ فنکشنز رواج پا رہے ہیں اکثر گھر سینما گھر اور اکثر مجالی نکار خانے کا
سماں پیش کر رہی ہیں بات صرف یہیں تک محدود نہیں رہی بلکہ اب تو ایمان کے بھی لالے
پڑھ لیے ہیں کہ شیطان کے ایماء پر کفاربد اطوار نےگانوں میں کفریہ کلمات کے ایسے ایسے
زہر گھول دیے ہیں جنہیں دلچسپی سے سننا گنگنانا کفر ہے۔
ذرا غور فرمائیے کہ اگر آپ کے گھر کے باہر ہی دروازے
پر کوئی جوان لڑکی اور لڑکا اپس میں ناشائستہ حرکتیں کر رہے ہوں تو شاید آپ شور مچا
دیں کہ یہ کیا بے حیائی کر رہے ہو بلکہ انہیں مارنے کو دوڑ پڑے اس میں کوئی شک نہیں
کہ یہاں غصہ حیا کی وجہ سے ہے لیکن آپ نے گھر میں ٹی وی ان کیا جس میں ایک رقاص اور
رقاصہ ناچ رہے ہیں ایک دوسرے کو اشارے کر رہے ہیں چھو رہے ہیں تب آپ کی حیا کہاں سو
جاتی ہے؟خدا کے لیے سوچیے! کیا یہ بے حیائی کا منظر نہیں ہے؟یہ آپ کی کیسی الٹی منطق
ہے گھر کے باہر ہو رہا تھا تو آپ نے اسے بے حیائی قرار دے کر احتجاج کیا اور یقینا
وہی کام گھر کے اندر آپ کی بہو بیٹیوں کی موجودگی میں ٹی وی کے پردہ اسکرین ہو رہا
ہے تو گویا بے حیائی نہ رہا!
کر لے تو بارب کی رحمت ہے بڑی قبر میں ورنہ سزا ہوگی کڑی
اچھی صحبت اپنائیے حیا کی نشونما میں ماحول اور تربیت
کا بھی بہت عمل و دخل ہوتا ہے حیا دار ماحول میسر آنے کی صورت میں حیا کو خوب نکھار
ملتا ہے جبکہ بے حیائی والا ماحول قلب و نگاہ کی پاکیزگی سلب کر کے بے شرم کر دیتا
ہے اور انسان بے شمار غیر اخلاقی اور ناجائز کاموں میں مبتلا ہو جاتا ہے حضرت عمر بن
فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: سچے دوست تلاش کرو ان کی پناہ میں زندگی گزارو کیونکہ
وہ خوشی کی حالت میں زینت اور آزمائش کے وقت سامان ہے اور کسی گنہگار کی صحبت اختیار
نہ کرو ورنہ اس سے گناہ کرنا ہی سیکھو گے۔
بزرگان دین کی سیرت کا مطالعہ کیجئے شرم و حیا پیدا
کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ بزرگان دین کے واقعات اور ان کی سنت کا مطالعہ کیا
جائے بعض اوقات اللہ والوں کی سیرت کو کردار سے متاثر ہو کر بے حیائی اور گناہ کے کاموں
سے نفرت، نیکیوں کی طرف رغبت اور ان جیسا بننے کی چاہت پیدا ہوتی ہے۔
بے حیائی کے اخروی نقصانات پر غور کریں بے حیائی کے
اخروی نقصانات تو اپنی جگہ ہیں اس کی دنیاوی نقصانات بھی کم نہیں ہیں بے حیا انسان
معاشرے میں ذلیل و خوار ہوتا ہے اس کا روب و دبدبہ کبھی ختم ہو جاتا ہے لوگوں کے دلوں
میں اس کی ذرا بھی عزت اور وقعت نہیں رہتی اس کے علاوہ اور بھی کئی نقصانات ہیں بہرحال
اپنے اندر شرم و حیا پیدا کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ ہم بے حیائی کے نقصانات پر
غور کریں
اور اس کے اخروی
نقصانات تو زیادہ سخت ہیں اور جیسا کہ حضرت ابراہیم بن میسرہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے
ہیں کہ فحش کلامی یعنی بے حیائی کی باتیں کرنے والا قیامت کے دن کتے کی شکل میں اٹھایا
جائے گا۔

اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ
تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۙ-فِی
الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِؕ-وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(۱۹) (پ
18، النور: 19) ترجمہ کنز الایمان: وہ لوگ جو چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بُرا چرچا
پھیلے ان کے لیے دردناک عذاب ہے دنیا اور آخرت میں اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں
جانتے۔
یاد رکھئے! اگر انسان خود شرم و حیا کے تقاضوں پر عمل
پیرا ہو گا تبھی اس کی اولاد بھی ان صفات و خصائل کی حامل ہوگی اور اگر وہ خود شرم
و حیا کا خیال نہ رکھے گا تو اولاد میں بھی اس طرح کے خراب جراثیم سرایت کرجائیں گے۔
آج ضرورت اس امر (بات) کی ہے کہ حیا کو متأثّر کرنے والے تمام عوامل سے دور رہا جا
ئے اور اپنےتشخّص اور روح ایمان کی حفاظت کی جائے۔
حیا ایمان کا حصہ ہے اور ایمان جنت میں لے جانے کا سبب
ہے اور بے حیائی جفا ہے اور جفا دوزخ میں جانے کا سبب ہے۔ (ترمذی، 3/406، حدیث: 2016)حیا
ان صفات میں سے ہے جن کی وجہ سے انسان کے کردار میں خوبصورتی پیدا ہوتی ہے اور باحیا
انسان دوسروں کی نظر میں بھی ایک اچھا انسان ہوتا ہے اور خدا کے یہاں بھی اس کا شمار
اس کے پسندیدہ بندوں میں ہوتا ہے۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ایمان کے ساٹھ سے زائد شعبے ہیں
اور حیا ایمان کا عظیم شعبہ ہے۔ (مسلم، ص 39، حدیث: 35)
اسلام میں حیا کا ایک اہم مقام ہے اور اسے انسان کی
فطرت قرار دیا گیا ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے ایک مرتبہ ایک انصاری صحابی کو دیکھا جو اپنے
بھائی کو شرم و حیا کے بارے میں سمجھا رہا تھا یہ دیکھ کر رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
اس کو چھوڑ دو کیونکہ حیا ایمان کا حصہ ہے۔ (ابو داود، 4/331، حدیث: 4795)
باحیا انسان خدا کو پسند ہے اسی لیے قرآن مجید نے اس
لڑکی کی باحیا چال کا خصوصی طور پر ذکر کیا ہے جو حضرت موسی کو اپنے والد کے حکم پر
بلانے آئی تھی۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: فَجَآءَتْهُ
اِحْدٰىهُمَا تَمْشِیْ عَلَى اسْتِحْیَآءٍ٘- (پ 20، القصص:25)
ترجمہ: ان دونوں میں سے ایک لڑکی ان کے پاس حیا کے ساتھ چلتی ہوئی آئی
نبی کریم ﷺ نے اپنی کئی احادیث میں حیا کے بارے میں
ارشادات فرمائے ہیں، ایک حدیث میں ارشاد فرمایا ہے: حیا خیر ہی لاتی ہے۔ (مسلم،
ص40، حدیث: 37)
اور ایک روایت میں ہے کہ حیا سراسر خیر ہے۔
گویا انسان جس قدر باحیا ہو گا اتنا ہی خیر اس کے اندر
ہو گا اور وہ سراپا خیر بن جائے گا اور جو حیا سے محروم ہو جائے وہ حقیقت میں خیر سے
محروم ہو جاتا ہے۔ ایسے شخص سے خیر کی توقع رکھنا ہی فضول ہے۔ اسی لیے نبی کریمﷺ نے
ارشاد فرمایا: جب تم میں حیا باقی نہ رہے تو پھر جو دل چاہے کرو۔ (بخاری، 4/131، حدیث:
6125)
یہی وجہ ہے کہ ایک حدیث میں حیا کو ایمان کا ایک شعبہ
قرار دیا گیا ہے۔ ارشاد مبارک ہے: حیا ایمان کا حصہ ہے۔ (ترمذی، 3/406، حدیث: 2016)
اسی طرح ایک حدیث میں ارشاد فرمایا: ایمان کے ستّر اور کچھ شعبے ہیں یا فرمایا: ساٹھ
اور کچھ شعبے ہیں، پس ان میں سے سب سے افضل لا الہ الا اللہ اور سب سے ادنیٰ راستے
سے تکلیف دہ چیز کو دور کرنا ہے اور حیا ایمان کا حصہ ہے۔ (مسلم، ص 39، حدیث: 35)
اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں بھی حضور ﷺ کی شہزادی حضرت
فاطمۃ الزہرہ کی طرح باحیا اور با پردہ بنائے۔ آمین یا رب العالمین

شرم اور گناہ سے ہچکچاہٹ کرنا حیا کہلاتا ہے۔ رسول اللہ
ﷺ فرماتے ہیں: حیا ایمان سے ہے۔ حیا اس قلبی کیفیت کا نام ہے جس کی وجہ سے انسان نا
پسندیدہ کاموں سے اجتناب کرتا ہے۔ جس میں حیا ہوتی ہے وہ نہ کھلم کھلا اللہ کی نافرمانی
کرتا ہے نہ بلاوجہ کسی کی توہین کرتا ہے نہ کسی سے بغض وحسد رکھتا ہے۔ بلکہ اللہ کے
احکام پر عمل اور بندوں کے حقوق ادا کرتے رہنا اپنا فرض سمجھتا ہے اور کوشش کرتا ہے
کہ اللہ اس سے ناراض نہ ہو اور اسے کام سرانجام دیتا ہے جس سے اللہ پاک راضی ہوتا ہے،
نہ کسی کا حق غصب کرتا ہے اور نہ کسی کو آزار پہنچاتا ہے نہ جھوٹ بولتا ہے۔
حیا کے بارے میں حدیث مبارکہ میں ہے: حیا ایمان میں
سے ہے۔(ترمذی، 3/406، حدیث: 2016)
نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: سابقہ انبیا کے کلام میں
سے جو چیز لوگوں نے پائی ہے ان میں ایک یہ بات ہے جب تمہیں حیا نہ آئے تو تم جو چاہو
کر لو۔ (بخاری، 4/131، حدیث: 6125)
اس حدیث کا مرکزی مضمون حیا کی ترغیب دینا ہے حیا ایک
ایسی صفت ہے جس کے نتیجے میں انسان برائی اور غلطی کے ارتکاب سے باز رہتا ہے اور اگر
یہ ختم ہو جائے تو انسان کو جرم کے ارتکاب پر ذرا بھی شرمندگی نہیں ہوتی عام طور پر
کسی چیز کے بارے میں انسان کی حیا اس وقت ختم ہوتی ہے جب وہ بار بار کسی چپز کا ارتکاب
کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ اسلام نے کبیرہ گناہوں سے ارتکاب سے تو سختی سے منع کیا ہی ہے
اس کے ساتھ صغیرہ گنا ہوں کے بار بار ارتکاب سے بھی سختی سے منع کیا ہے بے حیائی سے
بچنے کا بہترین ذریعہ نماز ہے اس کے بارے میں ہے نماز بے حیائی اور برے کاموں سے روکتی
ہے نماز تو وہ ہے جو ہم پر فرض ہے اس کی ادائیگی لازم ہے تو کیوں نہ ہم نماز ادا کر
کے خود کو بے حیائی سے دور رکھیں اور اپنے فرائض کو پورا کریں اور بے حیائی سے بچیں
اور حیا کریں۔

بے حیائی کے اردو معنی ٰبے شرمی، بے غیرتی بے شرم ہونے
کی کیفیت۔ عام طور پر اس کیلئے فحش فحشاء وغیرہ الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں بے حیائی
ایک معاشرتی بیماری ہے جو آجکل بہت عام ہو رہی ہے قرآن کریم میں اس کی بہت مذمت بیان
کی گئی ہے اور اس کے قریب جانے سے بھی منع کیا گیا ہے، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۙ-فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِؕ-وَ
اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(۱۹) (پ
18، النور: 19) ترجمہ کنز الایمان: وہ لوگ جو چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بُرا چرچا
پھیلے ان کے لیے دردناک عذاب ہے دنیا اور آخرت میں اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں
جانتے۔
رسول اللہ ﷺ کا فرمان جنت نشان ہے: ہر دین کا ایک
اخلاق ہوتا ہے اور اسلام کا اخلاق حیاء ہے۔ (ابن ماجہ، 4/460، حدیث: 4181)حیا وہ خوبی
ہے جس کی وجہ سے انسان گناہوں سے باز رہتا ہے۔ شرم و حیا ایسا وصف ہے جو صرف انسان
میں پایا جاتا ہے اور یہ جانور اور انسان کے درمیان وجہ امتیاز اور ان دونوں میں فرق
کی بنیادی علامت ہے۔ جب تک انسان شرم وحیا کے حصار (دائرے) میں رہتا ہے ذلت و رسوائی
سے بچا رہتا ہے اور جب اس قلعے کو ڈھا دیتا ہے تو پھر گھٹیا و بدترین کام بھی بڑی ڈھٹائی
کے ساتھ کرتا چلا جاتا ہے۔ رسول اللہﷺ نے اسی لئے ارشاد فرمایا: جب تجھ میں حیا نہ
رہے تو جو چاہے کر۔ (بخاری، 2/470، حدیث:3484) معلوم ہوا کہ کسی بھی برے کام سے رکنے
کا ایک سبب شرم و حیا بھی ہے۔
اسلام اور حیا کا آپس میں وہی تعلق ہے جو روح کا جسم
سے ہے۔ سرکار مدینہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:بے شک حیا اور ایمان آپس میں ملے ہوئے ہیں، جب
ایک اٹھ جاتا ہے تو دوسرا بھی اٹھا لیا جاتا ہے۔(مستدرک للحاکم، 1/176، حدیث:66) اسی
لئے اسلام کے دشمن مسلمانوں کی حیا پر وار کرتے نظر آتے ہیں۔ ڈراموں، فلموں، اشتہارات
اور مارننگ شوز وغیرہ کے نام پر معاشرے میں شرم و حیا کے سائبان (شیڈ) میں چھید (سوراخ)
کرنا کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ بے شرمی و بے حیائی تباہی لاتے ہیں یہ ایک حقیقت ہے کہ
مردوں کے اخلاق و عادات بگڑنے سے معاشرہ بگڑنے لگتا ہے اور جب عورتوں میں یہ بیماری
پھیل جائے تو نسلیں تباہ و برباد ہوجاتی ہیں۔ لہٰذا مرد ہو یا عورت اسلام دونوں کو
حیا اپنانے کی تلقین کرتا ہے اور حیا کو تمام اخلاقیات کا سرچشمہ قرار دیتا ہے۔
رسول خدا ﷺ کی شرم و حیاحضرت ابو سعید خدری رضی اللہ
عنہ فرماتے ہیں: مصطفےٰ جان رحمت ﷺ کنواری، پردہ نشین لڑکی سے بھی زیادہ باحیا تھے۔
(ابن ماجہ، 4/460، حدیث:4180)
آئیے حیا کے متعلق ایک ایمان افروز حکایت سنتی ہیں،
چنانچہ حضرت امّ خلاد رضی اللہ عنہا کا بیٹا جنگ میں شہید ہوگیا۔ یہ اپنے بیٹے کے بارے
میں معلومات حاصل کرنے کیلئے نقاب ڈالے بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئیں تو اس پر کسی نے
حیرت سے کہا: اس وقت بھی باپردہ ہیں! کہنے لگیں: میں نے بیٹا ضرور کھویا ہے،حیا نہیں
کھوئی۔ (ابو داؤد، 3/9، حدیث:2488 ملتقطاً)
نور ایمان جتنا زیادہ ہوگا شرم و حیا بھی اسی قدر پروان
چڑھے گی۔ اسی لئے آقا کریم ﷺ نے فرمایا: حیا ایمان سے ہے۔(مسند ابی یعلیٰ، 6/291، حدیث:
7463)
اس میں شک نہیں کہ جیسے جیسے ہم زمانۂ رسالت سے دور
ہوتے جا رہے ہیں شرم و حیا کی روشنیاں ماڈرن،اندھی اور تاریک تہذیب کی وجہ سے بجھتی
جا رہی ہیں۔ اس منحوس تہذیب کے جراثیم مسلم معاشرے میں بھی اپنے پنجے گاڑنے لگے ہیں۔
افسوس! وہ شرم و حیا جسے اسلام مرد و زن کا جھومر قرار دیتا ہے آج اس جھومر کو کلنک
کا ٹیکا (بدنامی کا دھبّا) بتایا جا رہا ہے۔ محرم و نامحرم کا تصوّر اور شعور دے کر
اسلام نے مرد و زن کے اختلاط پر جو بند باندھا تھا آج اس میں چھید (سوراخ) نمایاں ہیں۔
رسول خدا ﷺ نے فرمایا: خبردار کوئی شخص کسی(اجنبیہ) عورت کے ساتھ تنہائی میں نہیں ہوتا
مگر ان کے ساتھ تیسرا شیطان ہوتا ہے۔(ترمذی، 4/67، حدیث: 2172)