بے حیائی حیا کی ضد ہے حیا کے معنی ہیں: عیب لگائے جانے
کے خوف سے چھپ جانا، نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: حیا ایمان کی ایک شاخ ہے اور ایمان
جنت میں لے جائے گا شرم و حیا اور بری باتوں سے خاموش رہنا ایمان کی شاخیں ہیں بے حیائی
اور بے شرمی بدکاری میں سے ہے جو قوم بے حیائی کی طرف قدم بڑھائے گی اللہ پاک اسے مصیبتوں
میں مبتلا کر دے گا بے حیائی ہر چیز کو داغ دار کر دیتی ہے اور شرم و حیا زینت دیتی
ہے۔ بے حیائی حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے
اللہ پاک قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: وَ لَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَ مَا بَطَنَۚ- (پ
8، الانعام: 151) ترجمہ: اور بے حیائی کے قریب بھی نہ جاؤ، چاہے وہ کھلی ہو یا
چھپی ہوئی۔
جس معاشرے میں بے حیائی عام ہو جائے گی اس معاشرے میں
امن و سکون ختم ہو جاتا ہے، فساد شروع ہو جاتے ہیں، ادب ختم ہو جاتا ہے، محبتوں کا
اعتماد ختم ہو جاتا ہے، نفرتیں پروان چڑھتی ہیں، گناہ اچھے لگتے ہیں اور نیکیاں کرنے
میں سستی ہوتی ہے۔
حیا ایمان کا حصہ ہے جب حیا انسان کے اندر سے ختم ہو
جاتی ہے تو ایمان بھی خطرے میں پڑ جاتا ہے آج ہم معاشرے میں بہت سی بے حیائی کے کام
ہوتے دیکھ رہے ہیں اور بہت سے طریقوں سے ہوتے دیکھ رہے ہیں کانوں سے، زبان سے، انکھ
سے، دل سے، الغرض ہم اپنے تمام اعضاء کو بے حیائی کے کاموں میں استعمال کر رہے ہیں۔
اللہ پاک نے جو ہاتھ ہمیں لوگوں کی مدد کے لیے عطا کیے
اس سے ہم رشوت دیتے اور سود لینے میں استعمال کرتے ہیں جن پیروں کو مسجد میں لے جانے
کے لیے بنایا ہم انہیں گناہ کے لیے اٹھاتے ہیں جس زبان کو ذکر و اذکار کے لیے بنایا
گیا ہم اسے غیبت و چغلی وغیرہ جیسے گناہ میں استعمال کرتے ہیں آج بے حیائی پھیلانے
کا سب سے بڑا ذریعہ ٹی وی سسٹم اور انٹرنیٹ موبائل وغیرہ ہے آج معاشرے کا ہر فرد ہر
بچہ اسے بے حیائی کے طریقے سیکھ رہا ہے اور بے حیائی کا ارتکاب کر رہا ہے۔
نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے: جب تم میں حیا نہ ہو تو پھر
جو چاہو کرو۔(بخاری، 4/131، حدیث: 6125)
رفرد کو چاہیے کہ وہ اللہ کے غضب کو یاد کرے عذاب قبر
کو یاد کرے تو ضرور انشاءاللہ اس گناہ سے بچنے میں کامیاب ہوگا۔
یاد رکھیے کوئی گناہ لذت کے لیے نہیں کرنا چاہیے کیونکہ
لذت ختم ہو جاتی ہے لیکن گناہ باقی رہتا ہے اور کوئی نیکی تکلیف کی وجہ سے مت چھوڑیے
کیونکہ تکلیف ختم ہو جاتی ہے لیکن نیکی باقی رہتی ہے