بےحیائی سے مراد انسان کا ان چیزوں کو کرنا جو اللہ و رسول ﷺ اور مخلوق کے نزدیک ناپسندیدہ ہو جیسے: عورت کا بے پردگی کرنا۔

انسان بےحیائی کرتے وقت کیوں بھول جاتا ہے کہ اللہ دیکھ رہا ہے۔ جو لوگ اپنے ناقص خیال میں چھپ کر برائیاں کرتے ہیں ان کو یہ بات خوب ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ جن خطاؤں کو یہ پوشیدہ سمجھ بیٹھے ہیں وہ سب کی سب برائیاں اور بے حیائیاں بدیاں لکھنے والا فرشتہ جانتا ہے اور لکھ بھی رہا ہے! اگرکسی بندے کو اس بات کا کما حقّہ احساس ہو جائے تو اس کو اس قدر شرمندگی اور ندامت ہو کہ جی چاہے بس ابھی زمین پھٹ جائے اور وہ اس میں سما جائے۔ آہ افسوس بےحیائی کرتے وقت کیوں انسان غور نہیں کرتا۔

حدیث مبارکہ کی روشنی میں بےحیائی کی مذمّت:

رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: تجھے حیا نہیں تو تو جو چاہے کر۔ (بخاری، 2 / 470، حدیث: 3484)

مفسر شہیر حکیم الامّت حضرت مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃ الحنّان اس حدیث پاک کے تحت فرماتے ہیں: جب تیرے دل میں اللہ رسول کی، اپنے بزرگوں کی شرم و حیاء نہ ہوگی تو تو برے سے براکام کر گزرے گا کیونکہ برائیوں سے روکنے والی چیز تو غیرت ہے جب وہ نہ رہی تو برائی سے کون روکے! بہت لوگ اپنی بدنامی کے خوف سے برائیاں نہیں کرتے مگر جنہیں نیک نامی بدنامی کی پرواہ نہ ہو وہ ہر گناہ کر گزرتے ہیں۔ (مراۃ المناجیح، 6 / 638)

فرمان مصطفٰے ﷺ ہے: بے حیائی جس چیز میں بھی ہو اسے عیب ناک کر دیتی ہے اور شرم وحیا جس چیز میں بھی ہو اسے زینت دیتی ہے۔ (ترمذی، 3 / 392، حدیث: 1981)

یعنی اگر بے حیائی اور حیا و شرم انسان کے علاوہ اور مخلوق میں بھی ہوں تو اسے بھی بے حیائی خراب کردے اور حیا اچھا کردے تو انسان کا کیا پوچھنا! حیا ایمان کی زینت، انسانیت کا زیور ہے، بے حیائی انسانیت کے دامن پر بدنما دھبہ ہے۔ (مراۃ المناجیح، 6 / 473)

بےحیاء نیک نہیں کہلا سکتا! یقینا ہر رسول، ہر نبی اور ہر ولی با حیاء (ہی) ہوتا ہے۔ اللہ پاک کے مقبول بندے کے بارے میں بے حیائی کا تصوّر بھی نہیں کیا جاسکتا اور جو بے حیاء ہے وہ نیک بندہ کہلانے کا حقدار نہیں۔ چچا، تایا، خالہ، ماموں اور پھوپھی کی لڑکیوں، چچی، تائی، ممانی، اپنی بھابھی، نامحرم پڑوسیوں اور دیگر نامحرم عورتوں کو جو قصداً دیکھے، ان سے بے تکلّف بنے، فلمیں ڈرامے دیکھے، گانے باجے سنے، فحش کلامی یا گالم گلوچ کرے وہ بےحیائی کرنے والا ہے۔ اور اپنے لیے جہنم میں جانے کا سامان تیار کرتا ہے۔

گھریلو بے حیائیاں: ذرا غور فرمائیے! اگر آپ کے گھر کے باہری دروازے پرکوئی جوان لڑکی اور لڑکا آپس میں ناشائستہ حرکتیں کر رہے ہوں تو شاید آپ شور مچا دیں کہ یہ کیا بے حیائی کر رہے ہو بلکہ انہیں مارنے کو دوڑ پڑیں! اس میں کوئی شک نہیں کہ یہاں آپ کا غصّہ حیاء کی وجہ سے ہے۔ لیکن جب آپ نے گھر میں ٹی وی آن کیا جس میں ایک رقّاص اور رقاصہ (Dancers) ناچ رہے ہیں، ایک دوسرے کو اشارے کر رہے ہیں، چھو رہے ہیں، تب آپ کی حیا کہاں سو جاتی ہے ؟ خدا کے لئے سوچئے! کیا یہ بے حیائی کا منظر نہیں ہے ؟ یہ آپ کی کیسی الٹی منطق ہے گھر کے باہر ہورہا تھا تو آپ نے اسے بے حیائی قرار دیکر احتجاج کیا اور یقینا وہی کام گھر کے اندر آپ کی بہو بیٹیوں کی موجودگی میں ٹی وی کے پردۂ سکرین پرہو رہا ہے تو گویا بے حیائی نہ رہا! توبہ! توبہ! آپ کے سامنے لڑکا اور لڑکی ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے ناچ رہے ہیں اور آپ ہیں کہ آنکھیں پھاڑ کر مزے سے دیکھے جا رہے ہیں! اور اسکی داد دے رہے ہیں! آخر اس طرح خدا کے قہر و غضب کو کب تک ابھارتے رہیں گے؟

اعضاء کی حیاء: انسان کو چاہیئے کی وہ اپنی زبان کو اپنے سر کو اپنی آنکھ کو اپنے کان کو اپنے لباس کو بےحیائی سے بچائے کہ زبان کو بےحیائی بدزبانی و گالی گلوچ سے بچائے، سر کو برے خیالات و تصورات سے بچائے، آنکھ کو بدنگاہی سے بچائے، کان کو گانے سننے بری بات سننے سے بچائے اور لباس ایسا زیب تن کرے کہ ستر عورت کو چھپائے اور شرم و حیاء ہر ہر اعضاء سے یوں جھلکے کہ شیطان بھاگنے پر مجبور ہوجائے۔

جنت کی خوشبو بھی نصیب نہ ہوگی: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جہنمیوں کی دو قسمیں ایسی ہیں جنہیں میں نے (اپنے زمانے میں) نہیں دیکھا (بلکہ وہ میرے بعد والے زمانے میں ہوں گی) (1)وہ لوگ جن کے پاس گائے کی دم کی طرح کوڑے ہوں گے جن سے وہ لوگوں کو (ناحق) ماریں گے۔ (2)وہ عورتیں جو لباس پہننے کے باوجود ننگی ہوں گی، مائل کرنے والی اور مائل ہونے والی ہوں گی، ان کے سر موٹی اونٹنیوں کے کوہانوں کی طرح ہوں گے۔یہ نہ جنت میں جائیں گی اور نہ اس کی خوشبو پائیں گی حالانکہ اس کی خوشبو بہت دور سے آتی ہوگی۔ (مسلم، ص 1177، حدیث: 2128)

آقا ﷺ نے صدیوں پہلے جو خبر دی وہ آج حرف بہ حرف پوری ہوتی نظر آ رہی ہے اور ہمارے معاشرے کی عورتوں کا حال یہ ہے کہ وہ لباس ایسے پہنتی ہیں جس سے ان کے جسم کا کچھ حصہ ڈھکا ہوتا ہے اور کچھ ننگا ہوتا ہے،یا ان کا لباس اتنا باریک ہوتا ہے جس سے ان کے جسم کی رنگت صاف نظر آرہی ہوتی ہے، یا ان کا لباس جسم پر اتنا فٹ ہوتا ہے جس سے ان کی جسمانی ساخت نمایاں ہو رہی ہوتی ہے تو یہ بظاہر تو کپڑے پہنے ہوئی ہیں لیکن در حقیقت ننگی ہیں کیونکہ لباس پہننے سے مقصود جسم کو چھپانا اور اس کی ساخت کو نمایاں ہونے سے بچانا ہے اور ان کے لباس سے چونکہ یہ مقصود حاصل نہیں ہورہا، اس لئے وہ ایسی ہیں جیسے انہوں نے لباس پہنا ہی نہیں اوران کے چلنے، بولنے اور دیکھنے کا انداز ایسا ہوتا ہے جس سے وہ لوگوں کے دلوں کو اپنی طرف مائل کر رہی ہوتی ہیں اور خود کا حال بھی یہ ہوتا ہے کہ غیر مردوں کی طرف بہت مائل ہوتی ہیں، دوپٹے ان کے سر سے غائب ہوتے ہیں اور برقعہ پہننے والیاں نقاب منہ سے ہٹا کر چلتی ہیں تاکہ لوگ ان کا چہرہ دیکھیں۔ ایسی عورتوں کو اللہ تعالیٰ کے عذاب اور جہنم کی خوفناک سزاؤں سے ڈرنا چاہیے۔

اللہ تعالیٰ ہماری عورتوں کو ہدایت اور عقل سلیم عطا فرمائے اور اپنی بگڑی حالت سدھارنے کی توفیق نصیب کرے۔ آمین