بے حیائی کے اردو معنی ٰبے شرمی، بے غیرتی بے شرم ہونے
کی کیفیت۔ عام طور پر اس کیلئے فحش فحشاء وغیرہ الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں بے حیائی
ایک معاشرتی بیماری ہے جو آجکل بہت عام ہو رہی ہے قرآن کریم میں اس کی بہت مذمت بیان
کی گئی ہے اور اس کے قریب جانے سے بھی منع کیا گیا ہے، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۙ-فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِؕ-وَ
اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(۱۹) (پ
18، النور: 19) ترجمہ کنز الایمان: وہ لوگ جو چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بُرا چرچا
پھیلے ان کے لیے دردناک عذاب ہے دنیا اور آخرت میں اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں
جانتے۔
رسول اللہ ﷺ کا فرمان جنت نشان ہے: ہر دین کا ایک
اخلاق ہوتا ہے اور اسلام کا اخلاق حیاء ہے۔ (ابن ماجہ، 4/460، حدیث: 4181)حیا وہ خوبی
ہے جس کی وجہ سے انسان گناہوں سے باز رہتا ہے۔ شرم و حیا ایسا وصف ہے جو صرف انسان
میں پایا جاتا ہے اور یہ جانور اور انسان کے درمیان وجہ امتیاز اور ان دونوں میں فرق
کی بنیادی علامت ہے۔ جب تک انسان شرم وحیا کے حصار (دائرے) میں رہتا ہے ذلت و رسوائی
سے بچا رہتا ہے اور جب اس قلعے کو ڈھا دیتا ہے تو پھر گھٹیا و بدترین کام بھی بڑی ڈھٹائی
کے ساتھ کرتا چلا جاتا ہے۔ رسول اللہﷺ نے اسی لئے ارشاد فرمایا: جب تجھ میں حیا نہ
رہے تو جو چاہے کر۔ (بخاری، 2/470، حدیث:3484) معلوم ہوا کہ کسی بھی برے کام سے رکنے
کا ایک سبب شرم و حیا بھی ہے۔
اسلام اور حیا کا آپس میں وہی تعلق ہے جو روح کا جسم
سے ہے۔ سرکار مدینہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:بے شک حیا اور ایمان آپس میں ملے ہوئے ہیں، جب
ایک اٹھ جاتا ہے تو دوسرا بھی اٹھا لیا جاتا ہے۔(مستدرک للحاکم، 1/176، حدیث:66) اسی
لئے اسلام کے دشمن مسلمانوں کی حیا پر وار کرتے نظر آتے ہیں۔ ڈراموں، فلموں، اشتہارات
اور مارننگ شوز وغیرہ کے نام پر معاشرے میں شرم و حیا کے سائبان (شیڈ) میں چھید (سوراخ)
کرنا کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ بے شرمی و بے حیائی تباہی لاتے ہیں یہ ایک حقیقت ہے کہ
مردوں کے اخلاق و عادات بگڑنے سے معاشرہ بگڑنے لگتا ہے اور جب عورتوں میں یہ بیماری
پھیل جائے تو نسلیں تباہ و برباد ہوجاتی ہیں۔ لہٰذا مرد ہو یا عورت اسلام دونوں کو
حیا اپنانے کی تلقین کرتا ہے اور حیا کو تمام اخلاقیات کا سرچشمہ قرار دیتا ہے۔
رسول خدا ﷺ کی شرم و حیاحضرت ابو سعید خدری رضی اللہ
عنہ فرماتے ہیں: مصطفےٰ جان رحمت ﷺ کنواری، پردہ نشین لڑکی سے بھی زیادہ باحیا تھے۔
(ابن ماجہ، 4/460، حدیث:4180)
آئیے حیا کے متعلق ایک ایمان افروز حکایت سنتی ہیں،
چنانچہ حضرت امّ خلاد رضی اللہ عنہا کا بیٹا جنگ میں شہید ہوگیا۔ یہ اپنے بیٹے کے بارے
میں معلومات حاصل کرنے کیلئے نقاب ڈالے بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئیں تو اس پر کسی نے
حیرت سے کہا: اس وقت بھی باپردہ ہیں! کہنے لگیں: میں نے بیٹا ضرور کھویا ہے،حیا نہیں
کھوئی۔ (ابو داؤد، 3/9، حدیث:2488 ملتقطاً)
نور ایمان جتنا زیادہ ہوگا شرم و حیا بھی اسی قدر پروان
چڑھے گی۔ اسی لئے آقا کریم ﷺ نے فرمایا: حیا ایمان سے ہے۔(مسند ابی یعلیٰ، 6/291، حدیث:
7463)
اس میں شک نہیں کہ جیسے جیسے ہم زمانۂ رسالت سے دور
ہوتے جا رہے ہیں شرم و حیا کی روشنیاں ماڈرن،اندھی اور تاریک تہذیب کی وجہ سے بجھتی
جا رہی ہیں۔ اس منحوس تہذیب کے جراثیم مسلم معاشرے میں بھی اپنے پنجے گاڑنے لگے ہیں۔
افسوس! وہ شرم و حیا جسے اسلام مرد و زن کا جھومر قرار دیتا ہے آج اس جھومر کو کلنک
کا ٹیکا (بدنامی کا دھبّا) بتایا جا رہا ہے۔ محرم و نامحرم کا تصوّر اور شعور دے کر
اسلام نے مرد و زن کے اختلاط پر جو بند باندھا تھا آج اس میں چھید (سوراخ) نمایاں ہیں۔
رسول خدا ﷺ نے فرمایا: خبردار کوئی شخص کسی(اجنبیہ) عورت کے ساتھ تنہائی میں نہیں ہوتا
مگر ان کے ساتھ تیسرا شیطان ہوتا ہے۔(ترمذی، 4/67، حدیث: 2172)