حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ تعالی علیہ سے مرسلا مروی ہے کہتے ہیں مجھے خبر پہنچی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ دیکھنے والے پر اور اس پر جس کی طرف نظر کی گئی اللہ پاک لعنت فرماتا ہے یعنی دیکھنے والا جب بلا عذر قصدا دیکھے اور دوسرا اپنے کو بلا عذر قصدا دکھائے۔ (مشکاۃ المصابیح، 1/574، حدیث: 3125)

نبی کریم ﷺ نے فرمایا: تم میں سے کسی کے سر میں لوہے کی سوئی گھونپ دی جائے تو یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ ایسی عورت کو چھوئے جو اس کے لیے حلال نہیں۔ (معجم کبیر، 2/211، حدیث: 486)

ایک اور حدیث مبارکہ میں ہے: حیا ایمان سے ہے یعنی جس طرح ایمان مومن کو کفر کے ارتکاب سے روکتا ہے اسی طرح حیا با حیا کو نافرمانیوں سے بچاتی ہے یوں مجازا اسے ایمان سے فرمایا گیا جس کی مزید وضاحت و تائید حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کی اس روایت سے ہوتی ہے کہ بے شک حیا اور ایمان دونوں آپس میں ملے ہوئے ہیں تو جب ایک اٹھ جائے تو دوسرا بھی اٹھا لیا جاتا ہے۔ (مستدرک للحاکم، 1/176، حدیث:22)

حیا اور ایمان دو ایسے پرندے ہیں کہ اگر ان میں سے ایک اڑ جائے تو دوسرا خود ہی اڑ جاتا ہے۔

ذرائے ابلاغ مثلا ریڈیو ٹی وی کے مختلف چینلز متعدد رسائل اور اخبارات بے حیائی کو فروغ دینے میں مصروف ہیں جس کی بنا پر ہمارا معاشرہ تیزی سے فحاشی عرفانی و بےحیائی کی آگ کی لپیٹ میں آتا جا رہا ہے جس کے سبب خاص کر نئی نسل اخلاقی بے راہ روی و شدید بدعملی کا شکار ہوتی جا رہی ہے فلمیں ڈرامے گانے باجے بیہودہ فنکشنز رواج پا رہے ہیں اکثر گھر سینما گھر اور اکثر مجالی نکار خانے کا سماں پیش کر رہی ہیں بات صرف یہیں تک محدود نہیں رہی بلکہ اب تو ایمان کے بھی لالے پڑھ لیے ہیں کہ شیطان کے ایماء پر کفاربد اطوار نےگانوں میں کفریہ کلمات کے ایسے ایسے زہر گھول دیے ہیں جنہیں دلچسپی سے سننا گنگنانا کفر ہے۔

ذرا غور فرمائیے کہ اگر آپ کے گھر کے باہر ہی دروازے پر کوئی جوان لڑکی اور لڑکا اپس میں ناشائستہ حرکتیں کر رہے ہوں تو شاید آپ شور مچا دیں کہ یہ کیا بے حیائی کر رہے ہو بلکہ انہیں مارنے کو دوڑ پڑے اس میں کوئی شک نہیں کہ یہاں غصہ حیا کی وجہ سے ہے لیکن آپ نے گھر میں ٹی وی ان کیا جس میں ایک رقاص اور رقاصہ ناچ رہے ہیں ایک دوسرے کو اشارے کر رہے ہیں چھو رہے ہیں تب آپ کی حیا کہاں سو جاتی ہے؟خدا کے لیے سوچیے! کیا یہ بے حیائی کا منظر نہیں ہے؟یہ آپ کی کیسی الٹی منطق ہے گھر کے باہر ہو رہا تھا تو آپ نے اسے بے حیائی قرار دے کر احتجاج کیا اور یقینا وہی کام گھر کے اندر آپ کی بہو بیٹیوں کی موجودگی میں ٹی وی کے پردہ اسکرین ہو رہا ہے تو گویا بے حیائی نہ رہا!

کر لے تو بارب کی رحمت ہے بڑی قبر میں ورنہ سزا ہوگی کڑی

اچھی صحبت اپنائیے حیا کی نشونما میں ماحول اور تربیت کا بھی بہت عمل و دخل ہوتا ہے حیا دار ماحول میسر آنے کی صورت میں حیا کو خوب نکھار ملتا ہے جبکہ بے حیائی والا ماحول قلب و نگاہ کی پاکیزگی سلب کر کے بے شرم کر دیتا ہے اور انسان بے شمار غیر اخلاقی اور ناجائز کاموں میں مبتلا ہو جاتا ہے حضرت عمر بن فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: سچے دوست تلاش کرو ان کی پناہ میں زندگی گزارو کیونکہ وہ خوشی کی حالت میں زینت اور آزمائش کے وقت سامان ہے اور کسی گنہگار کی صحبت اختیار نہ کرو ورنہ اس سے گناہ کرنا ہی سیکھو گے۔

بزرگان دین کی سیرت کا مطالعہ کیجئے شرم و حیا پیدا کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ بزرگان دین کے واقعات اور ان کی سنت کا مطالعہ کیا جائے بعض اوقات اللہ والوں کی سیرت کو کردار سے متاثر ہو کر بے حیائی اور گناہ کے کاموں سے نفرت، نیکیوں کی طرف رغبت اور ان جیسا بننے کی چاہت پیدا ہوتی ہے۔

بے حیائی کے اخروی نقصانات پر غور کریں بے حیائی کے اخروی نقصانات تو اپنی جگہ ہیں اس کی دنیاوی نقصانات بھی کم نہیں ہیں بے حیا انسان معاشرے میں ذلیل و خوار ہوتا ہے اس کا روب و دبدبہ کبھی ختم ہو جاتا ہے لوگوں کے دلوں میں اس کی ذرا بھی عزت اور وقعت نہیں رہتی اس کے علاوہ اور بھی کئی نقصانات ہیں بہرحال اپنے اندر شرم و حیا پیدا کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ ہم بے حیائی کے نقصانات پر غور کریں

اور اس کے اخروی نقصانات تو زیادہ سخت ہیں اور جیسا کہ حضرت ابراہیم بن میسرہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ فحش کلامی یعنی بے حیائی کی باتیں کرنے والا قیامت کے دن کتے کی شکل میں اٹھایا جائے گا۔