ارشادِ باری تعالیٰ: وَ قَرْنَ فِیْ بُیُوْتِكُنَّ وَ لَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِیَّةِ الْاُوْلٰى (پ 22، الاحزاب: ) ترجمہ کنز الا یمان: اور اپنے گھروں میں ٹھہری رہو اوربے پردہ نہ رہو جیسے اگلی جاہلیت کی بے پردگی۔

حضرت علامہ مولانا سید محمد نعیم الدین مرادآبادی علیہ الرحمہ اس آیت مبارکہ کے تحت تفسیر خزائن العرفان میں فرماتے ہیں: اگلی جاہلیت سے مراد یہاں قبل اسلام کا زمانہ ہے، اس زمانے میں عورتیں اتراتی نکلتی تھیں، اپنی زینت ومحاسن (یعنی بناؤ سنگھار اور جسم کی خوبیاں مثلاً سینے کے ابھار وغیرہ) کا اظہار کرتی تھیں کہ غیر مرد دیکھیں لباس ایسے پہنتی تھیں جن سے جسم کے اعضاء اچھی طرح نہ ڈھکیں۔ (خزائن العرفان، ص 780)

حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہیکہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد عبرت بنیاد ہے: اللہ کی لعنت ہو دیکھنے والے پر اور اس پر جس کی طرف دیکھا جائے۔ (شعب الایمان، 6/162، حدیث: 7722)

مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ حدیث پاک کے تحت فرماتے ہیں: مطلب یہ ہیکہ جو مرد،اجنبی عورت کو قصداً (یعنی جان بوجھ کر)بلا ضرورت دیکھے اس پر بھی لعنت ہے اور جو عورت قصداً بلا ضرورت اجنبی مرد کو اپنا آپ دکھائے اس پر بھی لعنت ہے غرضیکہ اس میں تین قیدیں لگانی پڑیں گی: 1۔ اجنبی عورت کو دیکھنا 2۔ بلا ضرورت دیکھنا 3۔ قصداً دیکھنا۔ (مراۃ المناجیح، 5/24)

حضور ﷺ کا فرمان ہے: اس شخص پر جنت حرام ہے جو فحش گوئی (یعنی بےحیائی کی بات)سے کام لیتا ہے۔ (الجامع الصغیر للسیوطی، ص 221، حدیث: 3648)

نازک شیشیاں: اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: لڑکیوں کو سورہ یوسف کی تفسیر مت پڑھاؤ بلکہ انہیں سورہ نور کی تفسیر پڑھاؤ کہ سورہ یوسف میں ایک نسوانی (یعنی عورت کے)مکر کا ذکر ہے کہ نازک شیشیاں ذرا سی ٹھیس سے ٹوٹ جائیں گی۔ (فتاویٰ رضویہ، 24/400 ملخصا)

محترم قارئات سورہ یوسف تک جنہیں پڑھنے سے منع کیا گیا ہے کروڑ ہا کروڑ افسوس آج کل وہی لڑکیاں ناولز، غیر اخلاقی افسانے، عشقیہ و فسقیہ مضامین پڑھنے سے نہیں کتراتیں یہ بے حیائی نہیں تو اور کیا ہے بے حیا ڈرامے دیکھنا گانے سننا گانا اور جن کی حیا بالکل ختم ہوگئی وہ تو ان میں کام بھی کرتی ہونگی۔ معاذاللہ

ایسا کیوں نہ ہو کہ ان بے حیائی کے کاموں میں گھر والے بڑھ چڑھ کر انکا نا صرف ساتھ دیتے بلکہ بچپن سے انہی کے ذریعے ان کی تربیت کرتے ہیں۔ الامان و الحفیظ

جو چاہو کرو مکی مدنی سلطان کا فرمان عالیشان ہے: جب تجھے حیا نہیں تو تو جو چاہے کر۔ (الاحسان بترتیب صحیح ابن حبان، 2/3، حدیث: 606)

محترم قارئین یہ فرمان ڈرانے اور خوف دلانے کیلئے ہیکہ جو چاہو کرو جیسا کروگے ویسا بھرو گے بے حیائی والا کام کروگے تو اس کی سزا (بھی) پاؤ گے۔ (باحیا نوجوان،ص 58)

کسی بزرگ کی نصیحت کا خلاصہ ہے جو انہوں نے اپنے بیٹے کو فرمائی کہ جب گناہ کرتے ہوئے تجھے آسمان و زمین میں سے کسی سے (شرم و حیاء)نہ آئے تو خود کو چوپایوں (یعنی جانوروں)میں شمار کر۔ (ایضاً)

محترم قارئین آج کل بے حیائی یقیناً بہت زیادہ عام ہوگئی ہے ایسے میں اپنی اپنے گھر والوں کی عزت کی حفاظت فرمائیے۔ اللہ کریم حیا کی چادر نصیب فرمائے۔ آمین