قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ لَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَ مَا بَطَنَۚ- (پ
8، الانعام: 151) ترجمہ: اور بے حیائی کے قریب بھی نہ جاؤ، چاہے وہ کھلی ہو یا
چھپی ہوئی۔ قرآن و سنت میں بے حیائی کے کاموں سے بچنے اور حیا کی تلقین کی گئی ہے۔
آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ سے حیا کرو جیسا کہ اس سے حیا کرنے کا حق ہے۔ صحابہ نے عرض کی:
یارسول اللہ ﷺ ہم اللہ سے حیا کرتے ہیں۔ اور اس پر اس کا شکر ادا کرتے ہیں۔ آپ ﷺ نے
فرمایا: حیا کا حق یہ نہیں جو تم نے سمجھا ہے، اللہ سے حیا کرنے کا حق یہ ہے کہ تم
اپنے سر اور اس کے ساتھ جتنی چیزیں ہیں ان سب کی حفاظت کرو اور اپنے پیٹ اور اس کے
اندر جو چیزیں ہیں، ان کی حفاظت کرو اور موت اور ہڈیوں کے سڑ جانے کو یاد کرو اور جسے
آخرت کی چاہت ہو وہ دنیا کی زینت کو ترک کر دے، پس جس نے اسے پورا کیا تو حقیقت میں
اس نے اللہ سے حیا کی جیسا کہ اس سے حیا کرنے کا حق ہے۔ (ترمذی، 4/207، حدیث: 2466)
افسوس! آج ہمارے معاشرے میں ذرائع ابلاغ (میڈیا) مثلاً:
ریڈیو، ٹی وی کے مختلف چینلز اور متعدد رسائل اور اخبارات بے حیائی کو فروغ دینے میں
مصروف ہیں جس کی بناء پر ہمارا معاشرہ تیزی سے فحاشی و بے حیائی کی لپیٹ میں آتا جا
رہا ہے جس کے سبب خاص کر نئی نسل بداخلاقی اور شدید بے عملی کا شکار ہوتی جارہی ہے
شب و روز بے حیائی و بے شرمی کی وجہ سے مسلم معاشرے میں ایسا بگاڑ پیدا ہوتا جا رہا
ہے کہ جس کی وجہ سے مسلم معاشرے اور غیر مسلم معاشرے میں تمیز مشکل ہو چکی ہے۔
قرآن و حدیث میں بے حیائی کی سخت مذمت بیان فرمائی گئی
ہے۔
ارشاد باری تعالی ہے: اِنَّ الَّذِیْنَ
یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ
اَلِیْمٌۙ-فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِؕ-وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(۱۹) (پ
18، النور: 19) ترجمہ کنز الایمان: وہ لوگ جو چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بُرا چرچا
پھیلے ان کے لیے دردناک عذاب ہے دنیا اور آخرت میں اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں
جانتے۔
فرمان مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم: حضرت عبداللہ ابن
مسعود سے روایت ہے، رسول الله ﷺ نے ارشاد فرمایا: الله عز وجل سے زیادہ کوئی غیور نہیں،
اسی لئے اللہ نے تمام ظاہری اور باطنی فواحش یعنی بے حیائیوں کو حرام کردیا۔ (بخاری،
3/225، حدیث: 4637)
حضرت ابراہیم بن میسرہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: فحش
کلام (یعنی بے حیائی کی باتیں) کرنے والا قیامت کے دن کتے کی شکل میں آئے گا۔ (اتحاف
السادة للزبیدی، 9/190)
بے حیائی سخت حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے
چاہے بے حیائی ظاہری ہو یا باطنی، اعلانیہ ہو یا پوشیدہ، قولی ہو یافعلی۔
بے حیائی اللہ کی ناراضگی اور آخرت میں سخت عذاب کا
سبب ہے اور اس کے بہت سے دنیاوی نقصانات بھی ہیں جن میں سے چند درج ذیل ہیں:
بے حیا انسان معاشرے میں ذلیل و خوار ہو جاتا ہے اس کا رعب و دبدبہ بھی ختم ہو جاتا ہے لوگوں کے دلوں
میں اس کیلئے ذرا سی بھی عزت و وقعت نہیں رہتی۔ اس کے علاوہ اور بھی کئی نقصانات ہیں
بہر حال بے حیائی سے بچنے اور اپنے اندر شرم و حیا پیدا
کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ ہم بے حیائی کے نقصانات پر غور کریں، اللہ کی ناراضگی
اور آخرت میں ہونے والے اس کے قہر و غضب کو یاد کرے تو ان شاء الله بے حیائی سے نجات
ملے گی اور حیا کی چادر نصیب ہوگی۔
حیا انسان کو ہر اچھے کام پر ابھارتی اور بڑے کام سے
روکتی ہے گویا کہ حیا اخلاق کا سرچشمہ ہے، ایمان کی زینت ہے اور اسلام کا شعار ہے۔
فرمان مصطفی: حیا صرف خیر ہی لاتی ہے۔ (مسلم، ص 40،
حدیث: 37)
شرم و حیا ہر چیز کو زینت دیتی ہے جبکہ بے حیائی ہر
چیز کو داغ دار کر دیتی ہے۔ فرمان مصطفی: جب تجھ میں حیا نہ رہے تو جو چاہے کر۔ (بخاری،
2/410، حدیث: 3484)
معلوم ہوا کہ کسی بھی برے کام سے رکنے کا ایک سبب شرم
و حیا بھی ہے کہ جب تک انسانی حیا کے حصار (دائرے) میں رہتا ہے ذلت ورسوائی سے سے بچارہتا
ہے ہے اور جب بے حیائی میں جا پڑتا ہے تو پھر گھٹیا اور بد ترین کام بھی بڑی آسانی
کے ساتھ کرتا چلا جاتا ہے۔
فرمان مصطفیٰ: بے شک حیا اور ایمان آپس میں ملے ہوئے
ہیں، جب ایک اٹھ جاتا ہے تو دوسرا بھی اٹھا لیا جاتا ہے۔(مستدرک، 1 / 176، حدیث:
66)
یہی وجہ ہے کہ اسلام کے دشمن مسلمانوں کی حیا پر وار
کرتے نظر آرہے ہیں۔ ڈراموں، فلموں، اشتہارات اور مارننگ شوز وغیرہ کے نام پر معاشرے
میں شرم وحیا کے سائبان پر جو وار کیے جا رہے ہیں وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔