
بے حیائی کے بارے میں آیت مبارکہ اللہ کا ارشاد ہے:
وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰۤى اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةًؕ-وَ سَآءَ
سَبِیْلًا(۳۲) (پ
15، بنی اسرائیل: 32) ترجمہ کنز الایمان: اور بدکاری کے پاس نہ جاؤ بےشک وہ
بےحیائی ہے اور بہت ہی بری راہ۔اس آیت میں زنا کو فاحشہ سے تعبیر فرمایا ہے نیز دوسرے
مقام پر عمل قوم لوط کو بھی فاحشہ سے تعبیر کیا گیا ہے: وَ
لُوْطًا اِذْ قَالَ لِقَوْمِهٖۤ اَتَاْتُوْنَ الْفَاحِشَةَ مَا سَبَقَكُمْ بِهَا
مِنْ اَحَدٍ مِّنَ الْعٰلَمِیْنَ(۸۰)
(پ 8، الاعر اف: 80) ترجمہ: اور لوط نے جب اپنی قوم سے کہا کیا تم ایسی بے حیائی
کا کام کرتے ہو جو تم سے پہلے جہاں والوں میں سے کسی نے نہیں کیا۔
اللہ جہاں عدل و انصاف اور صلہ رحمی کا حکم فرماتا
ہے۔ وہاں ظلم اور زیادتی اور بے حیائی کے کاموں سے منع فرماتا ہے۔
احادیث مبارکہ:
قرآن و سنت میں بے حیائی کے کاموں سے بچنے اور حیا
کی تلقین کی گئی ہے آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ سے حیا کرو جیسا کہ اس سے حیا کرنے کا
حکم ہے۔ صحابہ نے عرض کی: یا رسول اللہ! الله ہم اللہ سے حیا کرتے ہیں اور اس پر
اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: حیا کا حق یہ نہیں جو تم نے سمجھا ہے۔
اللہ سے حیا کرنے کا حق یہ ہے کہ تم اپنے سر اور اس کے ساتھ جنتی چیزیں ہیں ان کی حفاظت
کرو اور اللہ سے حیا کرو جیسا کہ حیا کرنے کا حق ہے۔ (ترمذی، 4/207، حدیث: 2466)
ایمان کے ساٹھ سے زیادہ شعبے ہیں اور حیا بھی ایمان
کا ایک شعبہ ہے۔(مسلم، ص 39، حدیث: 35)
حیا ایمان کا حصہ ہے اور اہل ایمان جنت میں ہوں گے،
بے حیائی ظلم ہے اور ظالم جہنم میں جائیں گے۔ (ترمذی، 3/406، حدیث: 2016)
حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں۔ نبی
کریم ﷺ نے فرمایا: حیاء کی کمی ناشکری ہے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، 5/213، حدیث: 25349)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اکرم
ﷺ نے فرمایا کہ اگر بے حیائی کسی مخلوق کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے تو وہ اللہ کی بدترین
مخلوق ہوتی۔ (فتح الکبیر، 3/42، حدیث: 10059)
حضور ﷺ نے فرمایا: بےحیا شخص پر جنت کا داخلہ حرام ہے۔
(بریقہ محمودیہ، 13/203)
قرآن پاک میں اللہ کا ارشاد ہے: قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهِمْ وَ یَحْفَظُوْا
فُرُوْجَهُمْؕ-ذٰلِكَ اَزْكٰى لَهُمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ خَبِیْرٌۢ بِمَا
یَصْنَعُوْنَ(۳۰) (پ
18، النور: 30) ترجمہ: مسلمان مردوں کو حکم دو کہ
اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں، یہ ان کے لئے زیادہ
پاکیزہ ہے، بیشک اللہ ان کے کاموں سے خبردار ہے۔
وَ لَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا
ظَهَرَ مِنْهَا وَ مَا بَطَنَۚ- (پ 8، الانعام: 151) ترجمہ: اور بے
حیائی کے قریب بھی نہ جاؤ، چاہے وہ کھلی ہو یا چھپی ہوئی۔
پیاری پیاری اسلامی بہنو! ہمیں بے حیائی اور برے کاموں
سے بچنا چاہیے اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے ہمیں بے حیائی اور برے کاموں سے منع فرمایا
ہے اور بے حیائی تو جہنم میں لے جانے والا عذاب ہے اللہ تعالیٰ نے بےحیائی کے متعلق
قرآن پاک میں کئی جگہ ذکر فرمایا ہے۔

حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: بے شک حیا اور ایمان آپس میں
ملے ہوئے ہیں، تو جب ایک اٹھ جاتا ہے تو دوسرا بھی اٹھا لیا جاتا ہے۔ (مستدرک، 1 / 176، حدیث: 66)
بے شک ہر دین کا ایک خلق ہے اور اسلام کا خلق حیا ہے۔
(ابن ماجہ، 4 / 460، حدیث: 4181)
بے حیائی جس چیز میں ہو اسے عیب دارکر دیتی ہے اور حیا
جس چیز میں ہو اسے زینت بخشتی ہے۔ (ابن ماجہ، 4/ 461،
حدیث: 4185) یعنی جس میں جتنا ایمان زیادہ ہوگا اتنا
ہی وہ شرم و حیا والا ہوگا جبکہ جس کا ایمان جتنا کمزور ہوگا، شرم وحیا بھی اس میں
اتنی ہی کمزور ہوگی۔ (مسند ابی یعلی، 6 / 291، حدیث:
7463)
یاالٰہی دے ہمیں بھی دولت شرم و حیا حضرت عثماں غنی باحیا
کے واسطے
محبوب ذیشان ﷺ نے ارشاد فرمایا: حیا صرف خیر ہی لاتی
ہے۔ (مسلم، ص40، حدیث: 37) جبکہ خود ہمارے آقا ﷺ کی شرم و حیا کا کیا عالم تھا، آئیے
سنتے ہیں، چنانچہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ کنواری پردہ
نشین لڑکی سے بھی زیادہ باحیا تھے۔ (معجم کبیر، 18 / 206،
حدیث: 508) اس سے ہمیں بھی یہ درس ملتا ہے کہ اگر
ہم اپنے گھر میں شرم و حیا کا ماحول بنانا چاہتے ہیں تو پہلے ہمیں خود اپنے اندر شرم
و حیا پیدا کرنا ہوگی۔ اگر ہماری خواہش ہے کہ ہمارے گھر والے بے پردگی سے بچیں تو پہلے
ہمیں خود حیا کا پیکر بننا ہوگا۔

فحش فاحشہ،
فواحش و فحشاء کے الفاظ عام طور بدر کاری اور عمل قوم لوط کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔
اللہ کا ارشاد ہے: اِنَّ
الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا
لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۙ-فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِؕ-وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ
اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(۱۹) (پ
18، النور: 19) ترجمہ کنز الایمان: وہ لوگ جو چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بُرا چرچا
پھیلے ان کے لیے دردناک عذاب ہے دنیا اور آخرت میں اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں
جانتے۔
قُلْ اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّیَ
الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَ مَا بَطَنَ (پ 8،
الاعراف: 33) ترجمہ کنز الایمان: تم فرماؤ میرے رب نے تو بے حیائیاں حرام فرمائی
ہیں (ف۴۹) جو ان میں کھلی ہیں اور جو چھپی۔
حدیث مبارکہ: ایمان اور حیا باہم پیوست ہیں۔ جب ان میں
سے ایک اٹھ جائے تو دوسرا بھی جاتارہتا ہے۔ (مستدرک للحاکم، 1/176، حدیث:22)
نبی کریم علیہ السلام پردہ میں رہنے والی کنواری لڑکی
سے بھی زیادہ حیاءوالے ہیں۔ (ابن ماجہ، 4 / 460، حدیث: 4180)
حیا ایمان کا حصہ ہے اور ایمان جنت میں پہنچاتا ہے۔
(ترمذی، 3/406، حدیث: 2016)
اخلاق باختگی اور حیا سوزی کی وبا بھی جسمانی وباؤں
کے مقابلے میں کچھ کم ہلاکت نہیں ہے نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اس رب کی قسم جس کے قبضہ
قدرت میں میری جان ہے، یہ امت اس وقت تک فنا نہیں ہوگی جب تک وہ عورت سے اعلانیہ بدکاری
کے ارتکاب کو نہ دیکھ لے اب اس میں بہتر لوگ وہ کہلائیں گے جو کہیں گے کاش تم نے یہ
جرم پردے کے پیچھے کیا ہوتا۔
جب کسی قوم میں علانیہ طور پر بے حیائی فروغ پا جائے
تو ان پر طاعون کو مسلط کر دیا جاتا ہے جن کا پچھلی قوموں نے نام تک نہیں سنا۔ (ابن
ماجہ، 4/367، حدیث: 4019)

بے حیائی کے متعلق آیت مبارکہ: یٰبَنِیْۤ اٰدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَیْكُمْ لِبَاسًا یُّوَارِیْ
سَوْاٰتِكُمْ وَ رِیْشًاؕ-وَ لِبَاسُ التَّقْوٰىۙ-ذٰلِكَ خَیْرٌؕ-
(پ 8، الاعراف: 26) ترجمہ: اے بنی آدم! ہم نے تم پر لباس اتارا جو تمہاری شرمگاہوں
کو ڈھانپے اور زینت کا باعث ہو۔ اور تقویٰ کا لباس سب سے بہتر ہے۔
حیاء کے متعلق احکام: حیاء
کبھی فرض و واجب ہوتی ہے جیسے کسی حرام و ناجائز کام سے حیاء کرنا کبھی مستحب جیسے
مکروہ تنزیہی سے بچنے میں حیاء اور کبھی مباح (یعنی کرنا نہ کرنا یکساں) جیسے کسی مباح
شرعی کے کرنے سے حیاء۔ (نزہۃ القاری، 1/334)
بے حیائی کے متعلق احادیث مبارکہ ملاحظہ فرمائیں:
زبان کو برائیوں سے بچاتے ہوئے بد زبانی اور بے حیائی
کی باتوں سے ہر وقت پر ہیز کرنی چاہئے، اور یاد رکھئے! اپنے بھائی کو گالی دینا گناہ
ہے اور بے حیائی کی باتیں کرنے والے بد نصیب پر جنت حرام ہے۔ چنانچہ حضورﷺ کا فرمان
ہے: اس شخص پر جنت حرام ہے جو فحش گوئی (یعنی بے حیائی کی بات) سے کام لیتا ہے۔ (الجامع
الصغير للسّيوطي، ص 221، حدیث:
3648)
منقول ہے: چار طرح کے جہنمی کہ جو کھو لتے پانی اور
آگ کے مائین (یعنی درمیان) بھاگتے پھرتے ویل و ثبور (هلاکت) مانگتے ہونگے۔ ان میں سے
ایک وہ شخص کہ اس کے منہ سے پیپ اور خون بہتے ہونگے جہنمی کہیں گے: اس بد بخت کو کیا
ہوا ہماری تکلیف میں اضافہ کئے دیتا ہے؟ کہا جائے گا: یہ بد بخت خبیث اور بری بات کی
طرف متوجہ ہو کر اس سے لذت اٹھاتا تھا جیسا کہ جماع کی باتوں سے۔ (اتحاف السادة للزبيدی، 9/187)
فحش کلامی (یعنی بے حیائی کی باتیں) کرنے والا قیامت
کے دن کتے کی شکل میں آئے گا۔ (اتحاف السادة للزبیدی، 9/190)
مفسر شہير حكیم الامت حضرت مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃ
الحنان فرماتے ہیں: خیال رہے کہ تمام انسان قبروں سے بشکل انسانی اٹھیں گے پھر محشر
میں پہنچ کر بعض کی صورتیں مسخ ہو جائیں گی۔ (مراة المناجیح، 6/66)
حضرت بشر حافی علیہ رحمۃ اللہ الکافی نہایت کم گفتگو
کرتے اور اپنے دوستوں کو فرماتے: تم غور تو کرو کہ اپنے اعمال ناموں میں کیا لکھوا
رہے ہو! یہ تمہارے رب کے سامنے پڑھا جائے گا تو جوشخص قبیح (یعنی شرمناک) گفتگو کرتا
ہے اس پر حیف (یعنی افسوس) ہے، اگر اپنے دوست کو کچھ لکھواتے ہوئے کبھی اس میں برے
الفاظ لکھوا ؤ تو یہ تمہاری حیا کی کمی کی وجہ سے ہے۔ تو اپنے رب کے ساتھ ایسا معاملہ
کتنا برا ہو گا (یعنی جب نامہ اعمال میں بے حیائی کی باتیں ہوں)۔ (تنبیہ المغترين،
ص 228)
حضورﷺ نے فرمایا: حیاء اور کم گوئی ایمان کے دو شعبے
ہیں اور فحش بکنا اور زیادہ باتیں کرنا نفاق کے دو شعبے ہیں۔ (ترمذى، 3/414، حدیث: 2034)
مفسر شہیر حکیم الامت حضرت مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃ
الحنان اس حدیث پاک کی شرح میں فرماتے ہیں: یعنی ہر بات بے دھڑک منہ سے نکال دینا منافق
کی پہچان ہے۔ زیادہ بولنے والا گناہ بھی زیادہ کرتا ہے یعنی اسی فیصد گناہ زبان سے
ہوتے ہیں۔ (مراة المناجيح، 6/435)
حضورﷺ کا فرمان باصفا ہے: جب تجھے حیاء نہیں تو جو چاہے
کر۔ (الاحسان بترتيب صحيح ابن حبان، 2/3 حديث: 606) یہ فرمان تہدید و تخویف کے
طور پر (یعنی ڈراتے ہوئے اور خوف دلاتے ہوئے) ہے کہ جو چاہے کرو جیسا کرو گے ویسا بھرو
گے۔ برا (بے حیائی والا کام) کرو گے تو اس کی سزا پاؤ گے۔
کسی بزرگ نے اپنے بیٹے کو نصیحت فرمائی۔(جس کا خلاصہ
یہ ہے کہ) جب گناہ کرتے ہوئے تجھے آسمان و زمین میں سے کسی سے(شرم و حیاء) نہ آئے تو
اپنے آپ کو چو پایوں میں شمار کر۔
حضرت سید نا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے:: حیاء
کی غایت(یعنی انتہا) یہ ہے کہ اپنے آپ سے بھی حیاء کرے۔ (باحیا نوجوان ص58)
سب سے برا: بری صحبت اور گندے
ماحول کے دلدادہ بعض نادان لوگ معاذ اللہ گھر کی پوشیدہ باتیں نیز ازدواجی خفیہ معاملات
بھی اپنے بے حیا دوستوں کے سامنے بیان کر ڈالتے ہیں! ایک حدیث پاک سنئے اور عبرت سے
سر دھنئے۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضورﷺ نے ارشاد فرمایا: بے
شک اللہ تعالیٰ کے نزدیک بروز قیامت مرتبے کے اعتبار سے سب سے برا شخص وہ ہے جو اپنی
بیوی کے پاس آئے اور بیوی اس کے پاس آئے پھر وہ اپنی بیوی کے راز کو (لوگوں میں) ظاہر
کر دے۔ (مسلم، ص 753، حدیث: 1437)
حیاء کی نشو و نما میں ماحول اور تربیت کا بہت عمل دخل
ہے۔ حیادار ماحول میسر آنے کی صورت میں حیاء کو خوب نکھار ملتا ہے جبکہ بے حیاء لوگوں
کی صحبت قلب و نگاہ کی پاکیزگی سلب کر کے بے شرم کر دیتی ہے اور بندہ بے شمار غیر اخلاقی
اور ناجائز کاموں میں مبتلا ہو جاتا ہے اس لئے کہ حیاء ہی تو تھی جو برائیوں اور گناہوں
سے روکتی تھی۔ جب حیاء ہی نہ رہی تو اب برائی سے کون روکے؟ بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں
جو بدنامی کے خوف سے شرما کر برائیاں نہیں کرتے مگر جنہیں نیک نامی و بدنامی کی پرواہ
نہیں ہوتی ایسے بے حیا لوگ ہر گناہ کر گزرتے، اخلاقیات کی حدود توڑ کر بداخلاقی کے
میدان میں اتر آتے اور انسانیت سے گرے ہوئے کام کرنے میں بھی ننگ و عار محسوس نہیں
کرتے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ شرم و حیا ایک ایسا مضبوط قلعہ ہے، جو ذلّت و رسوائی
سے بچاتا ہے اور جب کوئی شرم و حیا کےا س دائرے سے تجاوز کر لے تو وہ بے شرمی اور بے
حیائی کی گہرائیوں میں ڈوبتا چلا جاتا ہے۔
یوں تو انسان میں کئی اور عادتیں اور اوصاف بھی ہوتے ہیں لیکن شرم و حیا
ایک ایسا وصف ہےکہ اگر لب و لہجے، عادات و اطوار اور حرکات و سکنات سے یہ پاکیزہ وصف
نکل جائے تو دیگر کئی اچھے اوصاف اور عمدہ عادات (Good Habits)
پر پانی پھر جاتا ہے۔ دیگر کئی نیک اوصاف شرم و حیا کے ختم ہو جانے کی وجہ سے اپنی
اہمیت کھو دیتے ہیں اور ایسا شخص لوگوں کی نظروں سے گر جاتا ہے۔
یادرکھئے! جانوروں میں بھی کئی اوصاف پائے جاتے ہیں
جبکہ شرم و حیا ایک ایسا وصف ہے جو صرف انسانوں میں پایا جاتا ہے۔ شرم و حیا کے ذریعے
انسانوں اور جانوروں میں فرق ہوتا ہے۔ اب اگر کسی سے شرم و حیا جاتی رہے تواس میں اور
جانور میں کچھ خاص فرق نہیں رہ جاتا ہے۔ یہی وجہ ہےکہ ہمارے دین اسلام نےشرم و حیا
اپنانے کی بہت ترغیب دلائی ہے۔
بے حیائی کے متعلق آیت مبارکہ ملاحظہ فرمائیں: اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۙ-فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِؕ-وَ
اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(۱۹) (پ
18، النور: 19) ترجمہ کنز الایمان: وہ لوگ جو چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بُرا چرچا
پھیلے ان کے لیے دردناک عذاب ہے دنیا اور آخرت میں اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں
جانتے۔
اس آیت کا معنی یہ ہے کہ وہ لوگ جو یہ ارادہ کرتے اور
چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بے حیائی کی بات پھیلے ان کے لیے دنیا اور آخرت میں دردناک
عذاب ہے۔ دنیا کے عذاب سے مراد حد قائم کرنا ہے، چنانچہ عبد اللہ بن ابی، حضرت حسّان
اور حضرت مسطح رضی اللہ عنہما کو حدلگائی گئی اور آخرت کے عذاب سے مراد یہ ہے کہ اگر
توبہ کئے بغیر مر گئے تو آخرت میں دوزخ ہے۔ مزید فرمایا کہ اللہ تعالیٰ دلوں کے راز
اور باطن کے احوال جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔ (مدارک، ص 774)
حیا کے متعلق احادیث مبارکہ ملاحظہ فرمائیں:
جنت حرام ہے: حضور تاجدار مدینہ
کا فرمان با قرینہ ہے: اس شخص پر جنت حرام ہے جو فحش گوئی (یعنی بے حیائی کی بات) سے
کام لیتا ہے۔ (الجامع الصغير للسّيوطي، ص 221، حديث:
3648)
جہنمی بھی بیزار: منقول
ہے: چار طرح کے جہنمی کہ جو کھو لتےپانی اور آگ کے مابین (یعنی درمیان) بھاگتے پھرتے
ویل و ثبور (هلاکت) ما نگتے ہونگے۔ ان میں ایک وہ شخص کہ اس کے منہ سے پیپ اور خون
بہتے سے ہونگے جہنمی کہیں گے: اس بد بخت کو کیا ہوا ہماری تکلیف میں اضافہ کئے دیتا
ہے؟ کہا جائے گا: یہ بد بخت خبیث اور بری بات کی طرف متوجہ ہو کر اس سے لذت اٹھاتا
تھا جیسا کہ جماع کی باتوں سے۔ (اتحاف السادة للزبیدی، 9/187)
شعیب بن ابی سعید رضی اللہ عنہ سے مروی، فرماتے ہیں:
جو بے حیائی کی باتوں سے لذت اٹھائے بروز قیامت اس کے منہ سے پیپ اور خون جاری ہونگے۔
(اتحاف السادة للزبیدی، 9/188)
حضورﷺ نے ارشاد فرمایا: بے شک حیا اور ایمان آپس میں
ملے ہوئے ہیں، تو جب ایک اٹھ جاتا ہے تو دوسرا بھی اٹھا لیا جاتا ہے۔ (مستدرک، 1 / 176، حدیث: 66)
حضورﷺ نے ارشاد فرمایا: بے حیائی جس چیز میں ہو اسے
عیب دارکر دیتی ہے اور حیا جس چیز میں ہو اسے زینت بخشتی ہے۔ (ابن ماجہ، 4 / 461، حدیث: 4185)
رسول خدا ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب تجھ میں حیا نہ رہے
تو جو چاہے کر۔ (بخاری، 2/470، حدیث: 3484)
یہ فرمان تہدیدوتخویف کے طور پر (یعنی ڈراتے اور خوف
دلاتے ہوئے) ہے کہ جو چاہے کرو جیسا کرو گے ویسا بھروگے۔ برا (بے حیائی والا کام) کرو
گے تو اس کی سزا پاؤ گے۔
کسی بزرگ نے اپنے بیٹے کو نصیحت فرمائی (جس کا خلاصہ
یہ ہے کہ) جب گناہ کرتے ہوئے تجھے آسمان وزمین میں سے کسی سےشرم و حیاء) نہ آئے تو
اپنے آپ کو چو پایوں میں شمار کر۔
حضرت سید نا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے: حیاء
کی غایت یعنی انتہا یہ ہے کہ اپنے آپ سے بھی حیاء کرے۔
بے شرمی و بے حیائی تباہی لاتے ہیں یہ ایک حقیقت ہے
کہ مردوں کے اخلاق و عادات بگڑنے سے معاشرہ بگڑنے لگتا ہے اور جب عورتوں میں یہ بیماری
پھیل جائے تو نسلیں تباہ و برباد ہوجاتی ہیں۔ لہٰذا مرد ہو یا عورت اسلام دونوں کو
حیا اپنانے کی تلقین کرتا ہے اور حیا کو تمام اخلاقیات کا سرچشمہ قرار دیتا ہے۔ حدیث
شریف میں ہے: بے شک ہر دین کا ایک خلق ہے اور اسلام کا خلق حیا ہے۔ (ابن ماجہ، 4/460،
حدیث: 4181)
غور کیجئے! اسلام میں شرم و حیا کی کتنی اہمیت ہے، ایک
حدیث میں فرمایا گیا کہ ایمان و حیاآپس میں ملے ہوئے ہیں، جب ایک بھی ختم ہوتاہے تو
دوسرا خودبخود(Automatic)
ختم ہوجاتا ہے۔ آج اسلام کے دشمنوں کی یہی سازش ہے کہ مسلمانوں سےکسی طرح چادر حیا
کھینچ لی جائے، جب حیا ہی نہ رہے گی تو ایمان خود ہی رخصت ہو جائے گا۔
آج ہمارے معاشرے میں کیسی کیسی بے حیائیاں ہو رہی ہیں،
آئیے کچھ سنتے ہیں: 1)زنا کاری کے اڈّے چلانا 2)فیشن
شو کے نام پر عورت اور حیا سے عاری لباسوں کی نمائش کرکے بے حیائی پھیلانا۔ 3)
حیا سوز مناظر پر مشتمل فلمیں اور ڈرامے بنانا،ان کی تشہیر کرنا اور انہیں دیکھنے کی
ترغیب دینا۔ 4)حرام کاموں کی ترغیب دینا۔ (5)
کسی پر لگائے گئے بہتان کی اشاعت کرنا۔ (6ایسی کتابیں، اخبارات، ناول، رسائل
اورڈائجسٹ وغیرہ لکھنا اور شائع کرنا جن سے شہوانی جذبات متحرک ہوں۔ (7)فحش تصاویر اور وڈیوز بنانا، بیچنا اور انہیں
دیکھنے کے ذرائع مہیا کرنا۔ (8)ایسے اشتہارات اور سائن بورڈ وغیرہ بنانا اور
بنوا کر لگانا، لگوانا جن میں جاذبیت اور کشش پیدا کرنے کے لئے جنسی عریانیّت کا سہارا
لیا گیا ہو۔ (9)کسی کے خفیہ عیب پر مطلع ہونے کے بعد اسے پھیلانا۔
(10)علمائے اہلسنّت سے بتقدیر الٰہی کوئی لغزش فاحش
واقع ہو تو ا س کی اشاعت کرنا۔
یاد رکھئے حدیث پاک میں ہے: حیا ایمان کا حصہ ہے۔ یعنی
جس میں جتنا ایمان زیادہ ہوگا اتنا ہی وہ شرم و حیا والا ہوگا جبکہ جس کا ایمان جتنا
کمزور ہوگا، شرم وحیا بھی اس میں اتنی ہی کمزور ہوگی۔ (مسند ابی یعلی، 6 / 291، حدیث: 7463)
ان تمام کاموں میں مبتلا حضرات کو چاہئے کہ خدارا! اپنے
طرز عمل پر غور فرمائیں بلکہ بطور خاص ان حضرات کو زیادہ غورکرناچاہئے جو فحاشی وعریانی
اور اسلامی روایات سے جدا کلچر کو عام کر کے مسلمانوں کے اخلاق اور کردار میں بگاڑ
پیدا کر رہے ہیں اور بے حیائی، فحاشی و عریانی کے خلاف اسلام نے نفرت کی جو دیوار قائم
کی ہے اسے گرانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت اور عقل سلیم عطا
فرمائے۔

آج ہم دیکھتے ہیں کہ جب معاشرے میں حیا ناپید ہوتی جارہی
ہے اور بے حیائی کا سیلاب ہے کہ رکنے کا نام ہی نہیں لیتا تو کیسے کیسے اخلاقی جرائم
سراٹھا رہے ہیں۔ اپنوں اور غیروں کا فرق تک ختم ہو گیا ہے۔ بے حیائی اس نہج پر پہنچ
چکی ہے کہ سگی بہن اپنے بھائی سے اور سگی بیٹی اپنے باپ تک سے محفوظ نہیں ہے۔ آخر یہ
معاشرہ کس طرف جارہا ہے ؟ کوئی اس معاشرے کو دیکھ کر نہیں کہہ سکتا کہ ایک اسلامی ملک
ہے کیونکہ اس کا حال بھی مغرب سے کچھ کم نہیں۔ جس تباہی کے دہانے پر آج مغربی دنیا
پہنچ چکی ہے، اس بے حیائی کے سبب اسی تباہی کے دہانے پر آج پاکستان پہنچ چکا ہے۔ اَلشَّیْطٰنُ یَعِدُكُمُ الْفَقْرَ وَ یَاْمُرُكُمْ
بِالْفَحْشَآءِۚ-وَ اللّٰهُ یَعِدُكُمْ مَّغْفِرَةً مِّنْهُ وَ فَضْلًاؕ- (پ
3، البقرة: 268) ترجمہ: شیطان وعدہ دیتا ہے تم کو تنگدستی کا اور حکم کرتا ہے بے
حیائی کا اور اللہ وعدہ دیتا ہے تم کو اپنی بخشش اور فضل کا۔
وَ یَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ
الْمُنْكَرِ وَ الْبَغْیِۚ-(پ 14، النحل: 90)ترجمہ کنز الایمان:
اور منع فرماتا ہے بے حیائی اور بری بات اور سرکشی سے۔
وَ لَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا
ظَهَرَ مِنْهَا وَ مَا بَطَنَۚ- (پ 8، الانعام: 151) ترجمہ: اور بے
حیائی کے قریب بھی نہ جاؤ، چاہے وہ کھلی ہو یا چھپی ہوئی۔
حدیث مبارکہ میں ہے: جب کسی قوم میں اعلانیہ طور پر
بے حیائی فروغ پا جائے تو ان پر طاعون کو مسلط کر دیا جاتا ہے اور ایسی بیماریوں
میں انہیں مبتلا کر دیا جاتا ہے جن کا پچھلی قوموں نے نام تک نہیں سنا ہوتا۔ (ابن ماجہ،
4/367، حدیث: 4019)
بے شرمی وبے حیائی تباہی لاتے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے
کہ مردوں کے اخلاق و عادات بگڑنے سے معاشرہ بگڑنے لگتا ہے اور جب عورتوں میں یہ بیماری
پھیل جائے تو نسلیں تباہ و برباد ہو جاتی ہیں۔ لہٰذا مرد ہو یا عورت اسلام دونوں کو
حیا اپنانے کی تلقین کرتا ہے اور حیا کو تمام اخلاقیات کا سرچشمہ قرار دیتا ہے۔ حدیث
شریف میں ہے: بے شک ہر دین کا ایک خلق ہے اور اسلام کا خلق حیا ہے۔ (ابن ماجہ، 4/460، حدیث: 4181)

حیا کے معنی وقار سنجیدگی اور متانت کے ہیں یہ بےشرمی
اور بے حیائی کی ضد ہے۔جبکہ اسلام حیا کا علمبردار ہے۔ اسلام معاشرے میں پاکیزگی کا
خواہش مند ہے۔ جب بے حیائی کا فتنہ انسان کو اپنے شکنجے میں لے لیتا ہے تو وہ بڑے بڑے
گناہوں کا ارتکاب کرتے ہوئے ذرا بھی شرمندگی محسوس نہیں کرتا۔جب انسان کے اندر سے حیا
ختم ہوجائے تو اس کا ضمیر مردہ ہوجاتا ہے۔
فقیہ ابو اللیث ثمر قندی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں
کہ حیا کی دو قسمیں ہیں۔ 1: لوگوں کے معاملے میں حیا 2: اللہ کے معاملے میں حیا لوگوں
کے معاملے میں حیا کرنے کا مطلب یہ ہے کہ تو اپنی نظر کو حرام کردہ اشیاء سے بچا اور
اللہ کے معاملے میں حیا کرنے سے مراد ہےتو اس کی نعمت کو پہچان اور اس کی نافرمانی
کرنے سے حیا کر۔ (تنبیہ الغافلین، ص 258)
انسان کی تخلیق اور اسے دنیا میں مبعوث فرمانے کے بعد
اللہ نے انسان کو دین اسلام کے ذریعے تمام تر تعلیم سے آراستہ کیا ہے کہ اسے زندگی
کی کن راہوں کی طرف اپنے اقدام کو اٹھانا ہے۔ اور کن راہوں سے اجتناب کرنا ہے۔ یعنی
آنکھوں سے کیا دیکھنا ہے کانوں سے کیا سننا ہے ہاتھوں سے کیا کرنا ہے وغیرہ اسلام نے
برائی کی طرف جانے والے تمام راستوں کو بند کیا ہے۔
یقینا ہر نبی
ہر رسول اور ہر ولی باحیا ہی ہیں اللہ کے نیک پارسا اور مقرب بندوں کو بے حیا کہنے
کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا لہذا اس بات کی طرف بھی نظر ثانی کی جائے کہ بےحیا شخص
کو نیک کہنا بھی سراسر غلط ہے چاہے بندہ بہت عبادت و ریاضت گزار ہو مگر فحاشی بے حیائی
اور برائی کے کاموں سے اجتناب نہ کرتا ہو تو اس کی عبادت تو ایک جگہ مگر اس کا عبادت
کے ساتھ ساتھ برائی کے کاموں کو کرنے سے اس کی نیک ہونے کی صفت سلب ہوگئی۔ لہذا ہمیں
اپنے نفس کا محاسبہ کرنا چاہیے کہ ہم کہیں بے حیائی والے کام تو نہیں کر رہے۔ جب تک
ہم نیکیوں کے ساتھ ساتھ گناہوں والے کام جیسے فلمیں ڈرامے دیکھنے گانے باجے سننے نامحرم
کو قصدا دیکھنے ان سے بے تکلف ہونے سے نہیں بچیں گے تب تک ہمیں عبادت کی حلاوت نصیب
نہیں ہوگی۔ نبی کریم ﷺ تو کنواری لڑکی سے بھی زیادہ حیا فرمانے والے ہیں۔
بے حیائی پھیلانے والوں کے متعلق اللہ قرآن مجید میں
ارشاد فرماتا ہے: اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ
تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۙ-فِی
الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِؕ-وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(۱۹) (پ
18، النور: 19) ترجمہ کنز الایمان: وہ لوگ جو چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بُرا چرچا
پھیلے ان کے لیے دردناک عذاب ہے دنیا اور آخرت میں اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں
جانتے۔
ایک اور مقام پر اللہ ارشاد فرماتا ہے: اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِؕ- (پ
21، العنکبوت: 45) ترجمہ کنز الایمان: بےشک نماز منع کرتی ہے بے حیائی اور بری بات
سے۔
بے حیائی کی مذمت پر تین فرامین مصطفیٰ:
1:جب تجھ میں حیا نہ رہے تو جو چاہے کر۔ (بخاری، 2/470، حدیث: 3484)
2:بے حیائی جس چیز میں ہو اسے عیب دار کردیتی ہے اور
حیا جس چیز میں ہو اسے زینت بخشتی ہے۔ (ابن ماجہ 4/461،حدیث: 4185)
3:بے شک حیا اور ایمان آپس میں ملے ہوئے ہیں جب ایک
اٹھ جاتا ہے تو دوسرا بھی اٹھا لیا جاتا ہے۔ (مستدرک، 1/176، حدیث: 66)

اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ
تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۙ-فِی
الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِؕ-وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(۱۹) (پ
18، النور: 19) ترجمہ کنز الایمان: وہ لوگ جو چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بُرا چرچا
پھیلے ان کے لیے دردناک عذاب ہے دنیا اور آخرت میں اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں
جانتے۔
ذرا غور فرمائیے اگر آپ کے گھر کے باہری دروازے پر کوئی
جوان لڑکی اور لڑکا آپس میں ناشائستہ حرکتیں کر رہے ہوں تو شاید آپ شور مچا دیں کہ
یہ کیا بے حیائی کر رہے ہو بلکہ انہیں مارنے کو دوڑ پڑیں! اس میں کوئی شک نہیں کہ یہاں آپ کا غصہ حیاء کی وجہ سے ہے۔ لیکن
جب آپ نے گھر میں ٹی وی آن کیا جس میں ایک رقاص اور رقاصہ ناچ رہے ہیں، ایک دوسرے کو
اشارے کر رہے ہیں، چھو رہے ہیں، تب آپ کی حیا کہاں سو جاتی ہے ؟ خدا کے لئے سوچئے!
کیا یہ بے حیائی کا منظر نہیں ہے ؟ یہ آپ کی کیسی الٹی منطق ہے گھر کے باہر ہو رہا
تھا تو آپ نے اسے بے حیائی قرار دیکر احتجاج کیا اور یقیناً وہی کام گھر کے اندر
آپ کی بہو بیٹیوں کی TV موجودگی میں کے پردہ سکرین
پر ہو رہا ہے تو گویا بے حیائی نہ رہا!
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ
اَهْلِیْكُمْ نَارًا (پ 28، التحریم: 6) ترجمہ: اپنے آپ کو اور اپنے گھر
والوں کو آگ سے بچاؤ۔
فی زمانہ آپ دیکھیں گے کہ اس موبائل اور انٹرنیت سے
کس قدر تباہیاں ہو رہی ہے کتنے گھروں کے لڑکے اور لڑکیاں گمراہی بے راہ روی اور اخلاقی
تنزلی کا شکار ہو کر بدنامی کا سبب بن رہے ہیں موبائیل اور انٹرنیٹ کے استعمال کو محدود
کرنے کے ساتھ ساتھ اسکے صبح استعمال کی فکر دیگرانی کرنا اس قوم کا اہم تقاضہ ہے بےحیائی
پھیلانے والے لوگ دنیا میں اذیت ناک سزا میں مبتلا ہوں گے جب بھی کسی قوم میں بے حیائی
بدکاری علانیہ ہوتے لگتی ہے تو ان میں طاعون اور ایسی بیماریاں پھیل جاتی۔ ہیں جو ان
سے پہلے کے لوگوں میں نہ تھیں فحاشی پھیلانے والے اللہ کی بدترین مخلوق شیطان کے مشن
کے علمبردار ہیں۔ معاشرے کی سب سے بڑی تباہی ہی بے پردگی ہے ظاہر سی بات ہے کہ جب عورت
بال کھول کر اور محلے میں دوپٹہ پہن کر گھومے گی تو معاشرے میں بے حیائی تو خود بخود
پھیلے گی۔


اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو انسان کو دنیا اور
آخرت کی فلاح کی راہ دکھاتا ہے۔ اسلام کے بنیادی اصولوں میں ایک اہم پہلو انسان کے
اخلاق و کردار کی درستگی ہے۔ ان اخلاقی تعلیمات میں حیا کو بنیادی حیثیت حاصل ہے، جس
کے بغیر کوئی معاشرہ پرامن اور متوازن نہیں رہ سکتا۔ لیکن آج کل کے معاشرے میں بے حیائی
اور فحاشی کے بڑھتے ہوئے رجحانات نے ان اسلامی اقدار کو متاثر کیا ہے، جس کا نتیجہ
بے راہ روی، انتشار اور اخلاقی پستی کی صورت میں سامنے آ رہا ہے۔
بے حیائی، اخلاقی بدعنوانی اور فحاشی کو ظاہر کرتی ہے،
جو نہ صرف فرد کی ذات بلکہ پورے معاشرے کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔ اس سے مراد وہ
تمام اعمال ہیں جو شرم و حیا کے خلاف ہوں، مثلاً عریانی، فحش لباس، غیر مناسب تعلقات
اور نازیبا گفتگو وغیرہ۔ ایسے اعمال انسان کی اخلاقی قدروں کو پامال کرتے ہیں اور معاشرتی
انتشار کا باعث بنتے ہیں۔
اسلام میں حیا کی اہمیت:اسلام
میں حیا کو ایمان کا حصہ قرار دیا گیا ہے۔ حضرت محمد ﷺ نے فرمایا: حیا ایمان کا حصہ
ہے۔ (ترمذی، 3/406، حدیث: 2016)یہ حدیث ہمیں بتاتی ہے کہ حیا ایمان کا ایک لازمی جزو
ہے اور اس کے بغیر ایمان مکمل نہیں ہو سکتا۔ حیا انسان کو نیک اعمال کرنے اور برے کاموں
سے باز رکھنے کا سبب بنتی ہے۔
قرآن مجید میں حیا کا ذکر: قرآن
مجید میں بھی حیا اور عفت کو بڑی اہمیت دی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مومن مردوں اور عورتوں
کو نگاہیں نیچی رکھنے اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کا حکم دیا ہے: قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهِمْ وَ یَحْفَظُوْا
فُرُوْجَهُمْؕ-ذٰلِكَ اَزْكٰى لَهُمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ خَبِیْرٌۢ بِمَا
یَصْنَعُوْنَ(۳۰) (پ
18، النور: 30) ترجمہ: مسلمان مردوں کو حکم دو کہ
اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں، یہ ان کے لئے زیادہ
پاکیزہ ہے، بیشک اللہ ان کے کاموں سے خبردار ہے۔
اسی طرح مومن عورتوں کو بھی حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنی
نظریں نیچی رکھیں اور اپنی زینت کو چھپائیں: وَ
قُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ یَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِهِنَّ وَ یَحْفَظْنَ فُرُوْجَهُنَّ
وَ لَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَهُنَّ اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا (پ
18، النور: 31) ترجمہ: اور مسلمان عورتوں کوحکم دو کہ وہ اپنی نگاہیں کچھ نیچی
رکھیں اور اپنی پارسائی کی حفاظت کریں اور اپنی زینت نہ دکھائیں مگر جتنا خود ہی
ظاہر ہے۔ یہ آیات اس بات کی وضاحت کرتی ہیں کہ اسلامی معاشرتی نظام میں شرم و حیا کی
کتنی اہمیت ہے اور اسے کس طرح اپنانا چاہیے۔
حضور ﷺ کی احادیث میں حیا کی تلقین: حضرت
محمد ﷺ نے اپنی حیات طیبہ میں بارہا حیا کی تلقین فرمائی ہے۔ ایک حدیث میں فرمایا:
پہلے نبیوں کے کلام میں سے جو بات لوگوں کو ملی وہ یہ ہے: جب تم میں حیا نہ رہے تو
جو چاہو کرو۔ (بخاری، 4/131، حدیث: 6125)یہ
حدیث واضح کرتی ہے کہ جب انسان سے حیا ختم ہو جاتی ہے تو وہ کسی بھی برے عمل کو انجام
دے سکتا ہے۔ لہٰذا حیا انسان کو برائیوں سے بچاتی ہے اور اس کے ایمان کی حفاظت کرتی
ہے۔
بے حیائی کے معاشرتی اثرات:آج
کے معاشرے میں بے حیائی کے بڑھتے ہوئے رجحانات نے کئی مسائل کو جنم دیا ہے۔ میڈیا،
سوشل میڈیا اور فیشن کی دنیا میں فحاشی اور عریانی کو عام کیا جا رہا ہے، جس سے نوجوان
نسل خاص طور پر متاثر ہو رہی ہے۔ اخلاقی قدریں زوال پذیر ہو چکی ہیں اور خاندانوں کا
نظام کمزور ہو رہا ہے۔بے حیائی کی وجہ سے طلاق کی شرح میں اضافہ، غیر اخلاقی تعلقات
اور جنسی جرائم جیسے مسائل نے سر اٹھا لیا ہے۔ نوجوان نسل گمراہی کی راہ پر گامزن ہے
اور اس کی وجہ سے معاشرتی امن و سکون تباہ ہو رہا ہے۔
اسلام میں بے حیائی کے خلاف سزائیں: اسلام
نے بے حیائی اور فحاشی کو روکنے کے لیے سخت احکامات دیئے ہیں۔ قرآن میں واضح کیا گیا
ہے کہ زنا ایک بہت بڑا گناہ ہے اور اس کی سزا مقرر ہے: اَلزَّانِیَةُ
وَ الزَّانِیْ فَاجْلِدُوْا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ۪- (پ
18، النور: 2) ترجمہ: جو عورت بدکار ہو اور جو مرد تو ان میں ہر ایک کو سو کوڑے
لگاؤ۔
یہ اسلامی سزائیں اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ اسلام
میں بے حیائی اور فحاشی کو بالکل برداشت نہیں کیا جاتا اور اس کے سدباب کے لیے سخت
اقدامات کیے گئے ہیں۔
معاشرتی اصلاح کی ضرورت: بے
حیائی کے بڑھتے ہوئے رجحانات کو روکنے کے لیے ہمیں اسلامی تعلیمات کو اپنانا ہوگا۔
میڈیا اور سوشل میڈیا کے منفی اثرات سے بچنے کے لیے والدین کو اپنے بچوں کی تربیت پر
خصوصی توجہ دینی چاہیے۔ اسلامی معاشرتی اقدار کو فروغ دینا اور اپنے کردار میں حیا
کو شامل کرنا آج کے دور کی اہم ضرورت ہے۔

فحش بات کی تعریف: شرمناک
امور مثلاً گندے اور برے معاملات کا کھلے الفاظ میں تذکرہ کرنا تو وہ نوجوان جو شہوت
کی تسکین کی خاطر خواہ مخواہ شادیوں کی خلوتوں اور پردے میں رکھنے کی باتوں کے قصے
چھیڑتے ہیں نیز فحش یعنی بے حیائی کی باتیں کرنے والے بلکہ صرف سن کر دل بہلانے والے
گندی گالیاں زبان پر لانے والے بے شرمانہ اشارے کرنے والے ان گندے اشارے سے لطف اندوز
ہونے والے اور گندی لذتوں کے حصول کی خاطر فلمیں ڈرامے دیکھنے والے ایک دل ہلا دینے
والی روایت بار بار پڑھیں اور خوف خداوندی سے لرزیں، چنانچہ منقول ہے: چار طرح کے جہنمی
لوگ جو کہ کھولتے پانی اور آگ کے مابین ہلاکت مانگتے ہونگے ان میں سے ایک وہ شخص ہے
کہ اس کے منہ سے خون پیپ بہ رہا ہوگا جہنمی کہیں گے کہ اس بد بخت کو کیا ہوا ہے کہ
ہماری تکلیف میں اضافہ کیے دیتا ہے کہا جائے گا:
یہ بد بخت بری اور خبیث بات کی طرف متوجہ ہوکر اس سے لذت اٹھاتا تھا جیسا کہ جماع کی
باتوں سے۔ غیر عورتوں یا امردوں کے بارے میں آنے والے گندے وسوسوں پر توجہ جمانے، جان
بوجھ کر برے خیالات میں خود کو گمانے اور معاذاللہ گندی حرکت کے تصور کے ذریعے لذت
اٹھانے والوں کو بیان کردہ روایت سے عبرت حاصل کرنی چاہیئے۔
لوگوں کے ساتھ بات کرنے میں جن امور کو برا سمجھا جاتا
ہے ان کو صاف اور واضح لفظوں میں بیان کردینا فحش گوئی ہے فحش گوئی گناہ اور جہنم میں
لے جانے والا کام ہے۔
فحش گوئی کے گناہ میں مبتلاء ہونے کے بعض
اسباب: علم
دین سے دوری، مذاق مسخری کی عادت، فضول گوئی، غصہ، لڑائی جھگڑے، بری صحبت، فلمیں ڈرامے
دیکھنا، گانے باجی سننا وغیرہ۔
فحش گوئی سے بچے رہنے کے لیے: علم
دین حاصل کیجیے، بالخصوص گفتگو کی سنتیں اور آداب سیکھ لیجیئے، جہنم کے ہولناک عذابات
کا مطالعہ کیجئے اور اپنے نازک بدن پر غور کیجیے۔

بے حیا ئی ایک بہت ہی خطر ناک مہلک بیماری ہے اگر کوئی
مرد اس میں مبتلاء ہو جائے تو معاشرے کا نظام خراب ہو جاتا ہے اگر کوئی عورت بے حیائی
کے مرض میں مبتلاء ہو تو اس سے نسلیں در نسلیں بر باد ہو جاتیں۔ ہیں ہمارا اسلام ہمیں
بے حیائی کے کاموں سے روکنے کی تلقین کرتا ہے اور حیا کو اپنانے کا حکم دیتا ہے۔
حدیث مبارک میں ہے: بے شک ہر دین کا ایک خلق ہوتا ہے
اور اسلام کا خلق حیاء ہے۔ (ابن ماجہ، 4/ 460، حدیث: 4181)
بے حیائی کے معنی بے شرمی ہے جب کسی انسان میں حیاء
کو وصف ختم ہو جاتا ہے تو وہ بے حیائی کے کاموں میں مبتلاء ہو جاتا ہے: اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۙ-فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِؕ-وَ
اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(۱۹) (پ
18، النور: 19) ترجمہ کنز الایمان: وہ لوگ جو چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بُرا چرچا
پھیلے ان کے لیے دردناک عذاب ہے دنیا اور آخرت میں اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں
جانتے۔
اس آیت کا معنی یہ ہے کہ وہ لوگ جو یہ ارادہ کرتے اور
چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بے حیائی کی بات پھیلے ان کے لیے دنیا اور آخرت میں دردناک
عذاب ہے۔ دنیا کے عذاب سے مراد حد قائم کرنا ہے، چنانچہ عبد اللہ بن ابی، حضرت حسّان
اور حضرت مسطح رضی اللہ عنہما کو حدلگائی گئی اور آخرت کے عذاب سے مراد یہ ہے کہ اگر
توبہ کئے بغیر مر گئے تو آخرت میں دوزخ ہے۔ مزید فرمایا کہ اللہ تعالیٰ دلوں کے راز
اور باطن کے احوال جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔ (مدارک، ص 774)
اشاعت فاحشہ میں ملوث افراد کو نصیحت: اشاعت
سے مراد تشہیر کرنا اور ظاہر کرنا ہے جبکہ فاحشہ سے وہ تمام اقوال اور افعال مراد ہیں
جن کی قباحت بہت زیادہ ہے اور یہاں آیت میں اصل مراد زنا ہے۔ (روح البیان، 6 / 130 ملخصاً) البتہ
یہ یاد رہے کہ اشاعت فاحشہ کے اصل معنیٰ میں بہت وسعت ہے چنانچہ اشاعت فاحشہ میں جو
چیزیں داخل ہیں ان میں سے بعض یہ ہیں: (1)کسی پر لگائے گئے بہتان کی اشاعت کرنا۔(2)کسی
کے خفیہ عیب پر مطلع ہونے کے بعد اسے پھیلانا۔(3)علمائے اہلسنّت سے بتقدیر الٰہی کوئی لغزش فاحش
واقع ہو تو ا س کی اشاعت کرنا۔(4)حرام کاموں کی ترغیب دینا۔ (5)
ایسی کتابیں لکھنا، شائع کرنا اور تقسیم کرنا جن میں موجود کلام سے لوگ کفر اور گمراہی
میں مبتلا ہوں۔ (6)ایسی کتابیں، اخبارات، ناول، رسائل اورڈائجسٹ
وغیرہ لکھنا اور شائع کرنا جن سے شہوانی جذبات متحرک ہوں۔ (7)فحش تصاویر اور وڈیوز بنانا، بیچنا اور انہیں
دیکھنے کے ذرائع مہیا کرنا۔(8)ایسے اشتہارات اور سائن بورڈ وغیرہ بنانا اور
بنوا کر لگانا، لگوانا جن میں جاذبیت اور کشش پیدا کرنے کے لئے جنسی عریانیّت کا سہارا
لیا گیا ہو۔(9) حیا سوز مناظر پر مشتمل فلمیں اور ڈرامے بنانا،ان
کی تشہیر کرنا اور انہیں دیکھنے کی ترغیب دینا۔(10) فیشن شو کے نام پر عورت اور حیا سے عاری لباسوں
کی نمائش کرکے بے حیائی پھیلانا۔(11)زنا کاری کے اڈّے چلانا وغیرہ۔
ان تمام کاموں میں مبتلا حضرات کو چاہئے کہ خدارا! اپنے
طرز عمل پر غور فرمائیں بلکہ بطور خاص ان حضرات کو زیادہ غورکرناچاہئے جو فحاشی وعریانی
اور اسلامی روایات سے جدا کلچر کو عام کر کے مسلمانوں کے اخلاق اور کردار میں بگاڑ
پیدا کر رہے ہیں اور بے حیائی، فحاشی و عریانی کے خلاف اسلام نے نفرت کی جو دیوار قائم
کی ہے اسے گرانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔
اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت اور عقل سلیم عطا فرمائے اور ہمیں بے حیائی کے کاموں سے بچنے کی توفیق
عطا فر مائے۔