حیا کے معنی وقار سنجیدگی اور متانت کے ہیں یہ بےشرمی اور بے حیائی کی ضد ہے۔جبکہ اسلام حیا کا علمبردار ہے۔ اسلام معاشرے میں پاکیزگی کا خواہش مند ہے۔ جب بے حیائی کا فتنہ انسان کو اپنے شکنجے میں لے لیتا ہے تو وہ بڑے بڑے گناہوں کا ارتکاب کرتے ہوئے ذرا بھی شرمندگی محسوس نہیں کرتا۔جب انسان کے اندر سے حیا ختم ہوجائے تو اس کا ضمیر مردہ ہوجاتا ہے۔

فقیہ ابو اللیث ثمر قندی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حیا کی دو قسمیں ہیں۔ 1: لوگوں کے معاملے میں حیا 2: اللہ کے معاملے میں حیا لوگوں کے معاملے میں حیا کرنے کا مطلب یہ ہے کہ تو اپنی نظر کو حرام کردہ اشیاء سے بچا اور اللہ کے معاملے میں حیا کرنے سے مراد ہےتو اس کی نعمت کو پہچان اور اس کی نافرمانی کرنے سے حیا کر۔ (تنبیہ الغافلین، ص 258)

انسان کی تخلیق اور اسے دنیا میں مبعوث فرمانے کے بعد اللہ نے انسان کو دین اسلام کے ذریعے تمام تر تعلیم سے آراستہ کیا ہے کہ اسے زندگی کی کن راہوں کی طرف اپنے اقدام کو اٹھانا ہے۔ اور کن راہوں سے اجتناب کرنا ہے۔ یعنی آنکھوں سے کیا دیکھنا ہے کانوں سے کیا سننا ہے ہاتھوں سے کیا کرنا ہے وغیرہ اسلام نے برائی کی طرف جانے والے تمام راستوں کو بند کیا ہے۔

یقینا ہر نبی ہر رسول اور ہر ولی باحیا ہی ہیں اللہ کے نیک پارسا اور مقرب بندوں کو بے حیا کہنے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا لہذا اس بات کی طرف بھی نظر ثانی کی جائے کہ بےحیا شخص کو نیک کہنا بھی سراسر غلط ہے چاہے بندہ بہت عبادت و ریاضت گزار ہو مگر فحاشی بے حیائی اور برائی کے کاموں سے اجتناب نہ کرتا ہو تو اس کی عبادت تو ایک جگہ مگر اس کا عبادت کے ساتھ ساتھ برائی کے کاموں کو کرنے سے اس کی نیک ہونے کی صفت سلب ہوگئی۔ لہذا ہمیں اپنے نفس کا محاسبہ کرنا چاہیے کہ ہم کہیں بے حیائی والے کام تو نہیں کر رہے۔ جب تک ہم نیکیوں کے ساتھ ساتھ گناہوں والے کام جیسے فلمیں ڈرامے دیکھنے گانے باجے سننے نامحرم کو قصدا دیکھنے ان سے بے تکلف ہونے سے نہیں بچیں گے تب تک ہمیں عبادت کی حلاوت نصیب نہیں ہوگی۔ نبی کریم ﷺ تو کنواری لڑکی سے بھی زیادہ حیا فرمانے والے ہیں۔

بے حیائی پھیلانے والوں کے متعلق اللہ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۙ-فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِؕ-وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(۱۹) (پ 18، النور: 19) ترجمہ کنز الایمان: وہ لوگ جو چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بُرا چرچا پھیلے ان کے لیے دردناک عذاب ہے دنیا اور آخرت میں اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔

ایک اور مقام پر اللہ ارشاد فرماتا ہے: اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِؕ- (پ 21، العنکبوت: 45) ترجمہ کنز الایمان: بےشک نماز منع کرتی ہے بے حیائی اور بری بات سے۔

بے حیائی کی مذمت پر تین فرامین مصطفیٰ:

1:جب تجھ میں حیا نہ رہے تو جو چاہے کر۔ (بخاری، 2/470، حدیث: 3484)

2:بے حیائی جس چیز میں ہو اسے عیب دار کردیتی ہے اور حیا جس چیز میں ہو اسے زینت بخشتی ہے۔ (ابن ماجہ 4/461،حدیث: 4185)

3:بے شک حیا اور ایمان آپس میں ملے ہوئے ہیں جب ایک اٹھ جاتا ہے تو دوسرا بھی اٹھا لیا جاتا ہے۔ (مستدرک، 1/176، حدیث: 66)

بے حیائی کی وجہ سے معاشرے میں بہت بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ بہت سی معاشرتی برائیاں جنم لیتی ہیں۔