اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو انسان کو دنیا اور
آخرت کی فلاح کی راہ دکھاتا ہے۔ اسلام کے بنیادی اصولوں میں ایک اہم پہلو انسان کے
اخلاق و کردار کی درستگی ہے۔ ان اخلاقی تعلیمات میں حیا کو بنیادی حیثیت حاصل ہے، جس
کے بغیر کوئی معاشرہ پرامن اور متوازن نہیں رہ سکتا۔ لیکن آج کل کے معاشرے میں بے حیائی
اور فحاشی کے بڑھتے ہوئے رجحانات نے ان اسلامی اقدار کو متاثر کیا ہے، جس کا نتیجہ
بے راہ روی، انتشار اور اخلاقی پستی کی صورت میں سامنے آ رہا ہے۔
بے حیائی، اخلاقی بدعنوانی اور فحاشی کو ظاہر کرتی ہے،
جو نہ صرف فرد کی ذات بلکہ پورے معاشرے کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔ اس سے مراد وہ
تمام اعمال ہیں جو شرم و حیا کے خلاف ہوں، مثلاً عریانی، فحش لباس، غیر مناسب تعلقات
اور نازیبا گفتگو وغیرہ۔ ایسے اعمال انسان کی اخلاقی قدروں کو پامال کرتے ہیں اور معاشرتی
انتشار کا باعث بنتے ہیں۔
اسلام میں حیا کی اہمیت:اسلام
میں حیا کو ایمان کا حصہ قرار دیا گیا ہے۔ حضرت محمد ﷺ نے فرمایا: حیا ایمان کا حصہ
ہے۔ (ترمذی، 3/406، حدیث: 2016)یہ حدیث ہمیں بتاتی ہے کہ حیا ایمان کا ایک لازمی جزو
ہے اور اس کے بغیر ایمان مکمل نہیں ہو سکتا۔ حیا انسان کو نیک اعمال کرنے اور برے کاموں
سے باز رکھنے کا سبب بنتی ہے۔
قرآن مجید میں حیا کا ذکر: قرآن
مجید میں بھی حیا اور عفت کو بڑی اہمیت دی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مومن مردوں اور عورتوں
کو نگاہیں نیچی رکھنے اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کا حکم دیا ہے: قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهِمْ وَ یَحْفَظُوْا
فُرُوْجَهُمْؕ-ذٰلِكَ اَزْكٰى لَهُمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ خَبِیْرٌۢ بِمَا
یَصْنَعُوْنَ(۳۰) (پ
18، النور: 30) ترجمہ: مسلمان مردوں کو حکم دو کہ
اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں، یہ ان کے لئے زیادہ
پاکیزہ ہے، بیشک اللہ ان کے کاموں سے خبردار ہے۔
اسی طرح مومن عورتوں کو بھی حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنی
نظریں نیچی رکھیں اور اپنی زینت کو چھپائیں: وَ
قُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ یَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِهِنَّ وَ یَحْفَظْنَ فُرُوْجَهُنَّ
وَ لَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَهُنَّ اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا (پ
18، النور: 31) ترجمہ: اور مسلمان عورتوں کوحکم دو کہ وہ اپنی نگاہیں کچھ نیچی
رکھیں اور اپنی پارسائی کی حفاظت کریں اور اپنی زینت نہ دکھائیں مگر جتنا خود ہی
ظاہر ہے۔ یہ آیات اس بات کی وضاحت کرتی ہیں کہ اسلامی معاشرتی نظام میں شرم و حیا کی
کتنی اہمیت ہے اور اسے کس طرح اپنانا چاہیے۔
حضور ﷺ کی احادیث میں حیا کی تلقین: حضرت
محمد ﷺ نے اپنی حیات طیبہ میں بارہا حیا کی تلقین فرمائی ہے۔ ایک حدیث میں فرمایا:
پہلے نبیوں کے کلام میں سے جو بات لوگوں کو ملی وہ یہ ہے: جب تم میں حیا نہ رہے تو
جو چاہو کرو۔ (بخاری، 4/131، حدیث: 6125)یہ
حدیث واضح کرتی ہے کہ جب انسان سے حیا ختم ہو جاتی ہے تو وہ کسی بھی برے عمل کو انجام
دے سکتا ہے۔ لہٰذا حیا انسان کو برائیوں سے بچاتی ہے اور اس کے ایمان کی حفاظت کرتی
ہے۔
بے حیائی کے معاشرتی اثرات:آج
کے معاشرے میں بے حیائی کے بڑھتے ہوئے رجحانات نے کئی مسائل کو جنم دیا ہے۔ میڈیا،
سوشل میڈیا اور فیشن کی دنیا میں فحاشی اور عریانی کو عام کیا جا رہا ہے، جس سے نوجوان
نسل خاص طور پر متاثر ہو رہی ہے۔ اخلاقی قدریں زوال پذیر ہو چکی ہیں اور خاندانوں کا
نظام کمزور ہو رہا ہے۔بے حیائی کی وجہ سے طلاق کی شرح میں اضافہ، غیر اخلاقی تعلقات
اور جنسی جرائم جیسے مسائل نے سر اٹھا لیا ہے۔ نوجوان نسل گمراہی کی راہ پر گامزن ہے
اور اس کی وجہ سے معاشرتی امن و سکون تباہ ہو رہا ہے۔
اسلام میں بے حیائی کے خلاف سزائیں: اسلام
نے بے حیائی اور فحاشی کو روکنے کے لیے سخت احکامات دیئے ہیں۔ قرآن میں واضح کیا گیا
ہے کہ زنا ایک بہت بڑا گناہ ہے اور اس کی سزا مقرر ہے: اَلزَّانِیَةُ
وَ الزَّانِیْ فَاجْلِدُوْا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ۪- (پ
18، النور: 2) ترجمہ: جو عورت بدکار ہو اور جو مرد تو ان میں ہر ایک کو سو کوڑے
لگاؤ۔
یہ اسلامی سزائیں اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ اسلام
میں بے حیائی اور فحاشی کو بالکل برداشت نہیں کیا جاتا اور اس کے سدباب کے لیے سخت
اقدامات کیے گئے ہیں۔
معاشرتی اصلاح کی ضرورت: بے
حیائی کے بڑھتے ہوئے رجحانات کو روکنے کے لیے ہمیں اسلامی تعلیمات کو اپنانا ہوگا۔
میڈیا اور سوشل میڈیا کے منفی اثرات سے بچنے کے لیے والدین کو اپنے بچوں کی تربیت پر
خصوصی توجہ دینی چاہیے۔ اسلامی معاشرتی اقدار کو فروغ دینا اور اپنے کردار میں حیا
کو شامل کرنا آج کے دور کی اہم ضرورت ہے۔