بے حیائی کے متعلق آیت مبارکہ: یٰبَنِیْۤ اٰدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَیْكُمْ لِبَاسًا یُّوَارِیْ سَوْاٰتِكُمْ وَ رِیْشًاؕ-وَ لِبَاسُ التَّقْوٰىۙ-ذٰلِكَ خَیْرٌؕ- (پ 8، الاعراف: 26) ترجمہ: اے بنی آدم! ہم نے تم پر لباس اتارا جو تمہاری شرمگاہوں کو ڈھانپے اور زینت کا باعث ہو۔ اور تقویٰ کا لباس سب سے بہتر ہے۔

حیاء کے متعلق احکام: حیاء کبھی فرض و واجب ہوتی ہے جیسے کسی حرام و ناجائز کام سے حیاء کرنا کبھی مستحب جیسے مکروہ تنزیہی سے بچنے میں حیاء اور کبھی مباح (یعنی کرنا نہ کرنا یکساں) جیسے کسی مباح شرعی کے کرنے سے حیاء۔ (نزہۃ القاری، 1/334)

بے حیائی کے متعلق احادیث مبارکہ ملاحظہ فرمائیں:

زبان کو برائیوں سے بچاتے ہوئے بد زبانی اور بے حیائی کی باتوں سے ہر وقت پر ہیز کرنی چاہئے، اور یاد رکھئے! اپنے بھائی کو گالی دینا گناہ ہے اور بے حیائی کی باتیں کرنے والے بد نصیب پر جنت حرام ہے۔ چنانچہ حضورﷺ کا فرمان ہے: اس شخص پر جنت حرام ہے جو فحش گوئی (یعنی بے حیائی کی بات) سے کام لیتا ہے۔ (الجامع الصغير للسّيوطي، ص 221، حدیث: 3648)

منقول ہے: چار طرح کے جہنمی کہ جو کھو لتے پانی اور آگ کے مائین (یعنی درمیان) بھاگتے پھرتے ویل و ثبور (هلاکت) مانگتے ہونگے۔ ان میں سے ایک وہ شخص کہ اس کے منہ سے پیپ اور خون بہتے ہونگے جہنمی کہیں گے: اس بد بخت کو کیا ہوا ہماری تکلیف میں اضافہ کئے دیتا ہے؟ کہا جائے گا: یہ بد بخت خبیث اور بری بات کی طرف متوجہ ہو کر اس سے لذت اٹھاتا تھا جیسا کہ جماع کی باتوں سے۔ (اتحاف السادة للزبيدی، 9/187)

فحش کلامی (یعنی بے حیائی کی باتیں) کرنے والا قیامت کے دن کتے کی شکل میں آئے گا۔ (اتحاف السادة للزبیدی، 9/190)

مفسر شہير حكیم الامت حضرت مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃ الحنان فرماتے ہیں: خیال رہے کہ تمام انسان قبروں سے بشکل انسانی اٹھیں گے پھر محشر میں پہنچ کر بعض کی صورتیں مسخ ہو جائیں گی۔ (مراة المناجیح، 6/66)

حضرت بشر حافی علیہ رحمۃ اللہ الکافی نہایت کم گفتگو کرتے اور اپنے دوستوں کو فرماتے: تم غور تو کرو کہ اپنے اعمال ناموں میں کیا لکھوا رہے ہو! یہ تمہارے رب کے سامنے پڑھا جائے گا تو جوشخص قبیح (یعنی شرمناک) گفتگو کرتا ہے اس پر حیف (یعنی افسوس) ہے، اگر اپنے دوست کو کچھ لکھواتے ہوئے کبھی اس میں برے الفاظ لکھوا ؤ تو یہ تمہاری حیا کی کمی کی وجہ سے ہے۔ تو اپنے رب کے ساتھ ایسا معاملہ کتنا برا ہو گا (یعنی جب نامہ اعمال میں بے حیائی کی باتیں ہوں)۔ (تنبیہ المغترين، ص 228)

حضورﷺ نے فرمایا: حیاء اور کم گوئی ایمان کے دو شعبے ہیں اور فحش بکنا اور زیادہ باتیں کرنا نفاق کے دو شعبے ہیں۔ (ترمذى، 3/414، حدیث: 2034)

مفسر شہیر حکیم الامت حضرت مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃ الحنان اس حدیث پاک کی شرح میں فرماتے ہیں: یعنی ہر بات بے دھڑک منہ سے نکال دینا منافق کی پہچان ہے۔ زیادہ بولنے والا گناہ بھی زیادہ کرتا ہے یعنی اسی فیصد گناہ زبان سے ہوتے ہیں۔ (مراة المناجيح، 6/435)

حضورﷺ کا فرمان باصفا ہے: جب تجھے حیاء نہیں تو جو چاہے کر۔ (الاحسان بترتيب صحيح ابن حبان، 2/3 حديث: 606) یہ فرمان تہدید و تخویف کے طور پر (یعنی ڈراتے ہوئے اور خوف دلاتے ہوئے) ہے کہ جو چاہے کرو جیسا کرو گے ویسا بھرو گے۔ برا (بے حیائی والا کام) کرو گے تو اس کی سزا پاؤ گے۔

کسی بزرگ نے اپنے بیٹے کو نصیحت فرمائی۔(جس کا خلاصہ یہ ہے کہ) جب گناہ کرتے ہوئے تجھے آسمان و زمین میں سے کسی سے(شرم و حیاء) نہ آئے تو اپنے آپ کو چو پایوں میں شمار کر۔

حضرت سید نا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے:: حیاء کی غایت(یعنی انتہا) یہ ہے کہ اپنے آپ سے بھی حیاء کرے۔ (باحیا نوجوان ص58)

سب سے برا: بری صحبت اور گندے ماحول کے دلدادہ بعض نادان لوگ معاذ اللہ گھر کی پوشیدہ باتیں نیز ازدواجی خفیہ معاملات بھی اپنے بے حیا دوستوں کے سامنے بیان کر ڈالتے ہیں! ایک حدیث پاک سنئے اور عبرت سے سر دھنئے۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضورﷺ نے ارشاد فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ کے نزدیک بروز قیامت مرتبے کے اعتبار سے سب سے برا شخص وہ ہے جو اپنی بیوی کے پاس آئے اور بیوی اس کے پاس آئے پھر وہ اپنی بیوی کے راز کو (لوگوں میں) ظاہر کر دے۔ (مسلم، ص 753، حدیث: 1437)

حیاء کی نشو و نما میں ماحول اور تربیت کا بہت عمل دخل ہے۔ حیادار ماحول میسر آنے کی صورت میں حیاء کو خوب نکھار ملتا ہے جبکہ بے حیاء لوگوں کی صحبت قلب و نگاہ کی پاکیزگی سلب کر کے بے شرم کر دیتی ہے اور بندہ بے شمار غیر اخلاقی اور ناجائز کاموں میں مبتلا ہو جاتا ہے اس لئے کہ حیاء ہی تو تھی جو برائیوں اور گناہوں سے روکتی تھی۔ جب حیاء ہی نہ رہی تو اب برائی سے کون روکے؟ بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو بدنامی کے خوف سے شرما کر برائیاں نہیں کرتے مگر جنہیں نیک نامی و بدنامی کی پرواہ نہیں ہوتی ایسے بے حیا لوگ ہر گناہ کر گزرتے، اخلاقیات کی حدود توڑ کر بداخلاقی کے میدان میں اتر آتے اور انسانیت سے گرے ہوئے کام کرنے میں بھی ننگ و عار محسوس نہیں کرتے۔

بےحیائی روکنے اور شرم و حیا کو بڑھانے کے لیے ہمیں چاہیےکہ شرم و حیا کو بڑھانے کےلیے شرم و حیا سے ہم آہنگ ماحول پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ اس کاایک طریقہ یہ بھی ہے کہ ہم اپنے گھر میں ایسا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کریں کہ جس کی برکت سے گھرکے سارے افراد اس کی برکتیں حاصل کرسکیں۔ حکمت عملی کے ساتھ گھر میں درس فیضان سنت کا اہتمام کریں اوروقتا فوقتاً گھر والوں کو شرم و حیا پر ابھارنے والے واقعات سنائیں۔ مدنی انعامات کے رسالے کے آخر میں امیر اہلسنت دامت برکاتہم العالیہ کی طرف سے دیئے گئے گھرمیں مدنی ماحول بنانے کے 19مدنی پھول بہترین رہنما ہیں۔