اس میں کوئی شک نہیں کہ شرم و حیا ایک ایسا مضبوط قلعہ ہے، جو ذلّت و رسوائی سے بچاتا ہے اور جب کوئی شرم و حیا کےا س دائرے سے تجاوز کر لے تو وہ بے شرمی اور بے حیائی کی گہرائیوں میں ڈوبتا چلا جاتا ہے۔

یوں تو انسان میں کئی اور عادتیں اور اوصاف بھی ہوتے ہیں لیکن شرم و حیا ایک ایسا وصف ہےکہ اگر لب و لہجے، عادات و اطوار اور حرکات و سکنات سے یہ پاکیزہ وصف نکل جائے تو دیگر کئی اچھے اوصاف اور عمدہ عادات (Good Habits) پر پانی پھر جاتا ہے۔ دیگر کئی نیک اوصاف شرم و حیا کے ختم ہو جانے کی وجہ سے اپنی اہمیت کھو دیتے ہیں اور ایسا شخص لوگوں کی نظروں سے گر جاتا ہے۔

یادرکھئے! جانوروں میں بھی کئی اوصاف پائے جاتے ہیں جبکہ شرم و حیا ایک ایسا وصف ہے جو صرف انسانوں میں پایا جاتا ہے۔ شرم و حیا کے ذریعے انسانوں اور جانوروں میں فرق ہوتا ہے۔ اب اگر کسی سے شرم و حیا جاتی رہے تواس میں اور جانور میں کچھ خاص فرق نہیں رہ جاتا ہے۔ یہی وجہ ہےکہ ہمارے دین اسلام نےشرم و حیا اپنانے کی بہت ترغیب دلائی ہے۔

بے حیائی کے متعلق آیت مبارکہ ملاحظہ فرمائیں: اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۙ-فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِؕ-وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(۱۹) (پ 18، النور: 19) ترجمہ کنز الایمان: وہ لوگ جو چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بُرا چرچا پھیلے ان کے لیے دردناک عذاب ہے دنیا اور آخرت میں اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔

اس آیت کا معنی یہ ہے کہ وہ لوگ جو یہ ارادہ کرتے اور چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بے حیائی کی بات پھیلے ان کے لیے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے۔ دنیا کے عذاب سے مراد حد قائم کرنا ہے، چنانچہ عبد اللہ بن ابی، حضرت حسّان اور حضرت مسطح رضی اللہ عنہما کو حدلگائی گئی اور آخرت کے عذاب سے مراد یہ ہے کہ اگر توبہ کئے بغیر مر گئے تو آخرت میں دوزخ ہے۔ مزید فرمایا کہ اللہ تعالیٰ دلوں کے راز اور باطن کے احوال جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔ (مدارک، ص 774)

حیا کے متعلق احادیث مبارکہ ملاحظہ فرمائیں:

جنت حرام ہے: حضور تاجدار مدینہ کا فرمان با قرینہ ہے: اس شخص پر جنت حرام ہے جو فحش گوئی (یعنی بے حیائی کی بات) سے کام لیتا ہے۔ (الجامع الصغير للسّيوطي، ص 221، حديث: 3648)

جہنمی بھی بیزار: منقول ہے: چار طرح کے جہنمی کہ جو کھو لتےپانی اور آگ کے مابین (یعنی درمیان) بھاگتے پھرتے ویل و ثبور (هلاکت) ما نگتے ہونگے۔ ان میں ایک وہ شخص کہ اس کے منہ سے پیپ اور خون بہتے سے ہونگے جہنمی کہیں گے: اس بد بخت کو کیا ہوا ہماری تکلیف میں اضافہ کئے دیتا ہے؟ کہا جائے گا: یہ بد بخت خبیث اور بری بات کی طرف متوجہ ہو کر اس سے لذت اٹھاتا تھا جیسا کہ جماع کی باتوں سے۔ (اتحاف السادة للزبیدی، 9/187)

شعیب بن ابی سعید رضی اللہ عنہ سے مروی، فرماتے ہیں: جو بے حیائی کی باتوں سے لذت اٹھائے بروز قیامت اس کے منہ سے پیپ اور خون جاری ہونگے۔ (اتحاف السادة للزبیدی، 9/188)

حضورﷺ نے ارشاد فرمایا: بے شک حیا اور ایمان آپس میں ملے ہوئے ہیں، تو جب ایک اٹھ جاتا ہے تو دوسرا بھی اٹھا لیا جاتا ہے۔ (مستدرک، 1 / 176، حدیث: 66)

حضورﷺ نے ارشاد فرمایا: بے حیائی جس چیز میں ہو اسے عیب دارکر دیتی ہے اور حیا جس چیز میں ہو اسے زینت بخشتی ہے۔ (ابن ماجہ، 4 / 461، حدیث: 4185)

رسول خدا ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب تجھ میں حیا نہ رہے تو جو چاہے کر۔ (بخاری، 2/470، حدیث: 3484)

یہ فرمان تہدیدوتخویف کے طور پر (یعنی ڈراتے اور خوف دلاتے ہوئے) ہے کہ جو چاہے کرو جیسا کرو گے ویسا بھروگے۔ برا (بے حیائی والا کام) کرو گے تو اس کی سزا پاؤ گے۔

کسی بزرگ نے اپنے بیٹے کو نصیحت فرمائی (جس کا خلاصہ یہ ہے کہ) جب گناہ کرتے ہوئے تجھے آسمان وزمین میں سے کسی سےشرم و حیاء) نہ آئے تو اپنے آپ کو چو پایوں میں شمار کر۔

حضرت سید نا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے: حیاء کی غایت یعنی انتہا یہ ہے کہ اپنے آپ سے بھی حیاء کرے۔

بے شرمی و بے حیائی تباہی لاتے ہیں یہ ایک حقیقت ہے کہ مردوں کے اخلاق و عادات بگڑنے سے معاشرہ بگڑنے لگتا ہے اور جب عورتوں میں یہ بیماری پھیل جائے تو نسلیں تباہ و برباد ہوجاتی ہیں۔ لہٰذا مرد ہو یا عورت اسلام دونوں کو حیا اپنانے کی تلقین کرتا ہے اور حیا کو تمام اخلاقیات کا سرچشمہ قرار دیتا ہے۔ حدیث شریف میں ہے: بے شک ہر دین کا ایک خلق ہے اور اسلام کا خلق حیا ہے۔ (ابن ماجہ، 4/460، حدیث: 4181)

غور کیجئے! اسلام میں شرم و حیا کی کتنی اہمیت ہے، ایک حدیث میں فرمایا گیا کہ ایمان و حیاآپس میں ملے ہوئے ہیں، جب ایک بھی ختم ہوتاہے تو دوسرا خودبخود(Automatic) ختم ہوجاتا ہے۔ آج اسلام کے دشمنوں کی یہی سازش ہے کہ مسلمانوں سےکسی طرح چادر حیا کھینچ لی جائے، جب حیا ہی نہ رہے گی تو ایمان خود ہی رخصت ہو جائے گا۔

آج ہمارے معاشرے میں کیسی کیسی بے حیائیاں ہو رہی ہیں، آئیے کچھ سنتے ہیں: 1)زنا کاری کے اڈّے چلانا 2)فیشن شو کے نام پر عورت اور حیا سے عاری لباسوں کی نمائش کرکے بے حیائی پھیلانا۔ 3) حیا سوز مناظر پر مشتمل فلمیں اور ڈرامے بنانا،ان کی تشہیر کرنا اور انہیں دیکھنے کی ترغیب دینا۔ 4)حرام کاموں کی ترغیب دینا۔ (5) کسی پر لگائے گئے بہتان کی اشاعت کرنا۔ (6ایسی کتابیں، اخبارات، ناول، رسائل اورڈائجسٹ وغیرہ لکھنا اور شائع کرنا جن سے شہوانی جذبات متحرک ہوں۔ (7)فحش تصاویر اور وڈیوز بنانا، بیچنا اور انہیں دیکھنے کے ذرائع مہیا کرنا۔ (8)ایسے اشتہارات اور سائن بورڈ وغیرہ بنانا اور بنوا کر لگانا، لگوانا جن میں جاذبیت اور کشش پیدا کرنے کے لئے جنسی عریانیّت کا سہارا لیا گیا ہو۔ (9)کسی کے خفیہ عیب پر مطلع ہونے کے بعد اسے پھیلانا۔ (10)علمائے اہلسنّت سے بتقدیر الٰہی کوئی لغزش فاحش واقع ہو تو ا س کی اشاعت کرنا۔

یاد رکھئے حدیث پاک میں ہے: حیا ایمان کا حصہ ہے۔ یعنی جس میں جتنا ایمان زیادہ ہوگا اتنا ہی وہ شرم و حیا والا ہوگا جبکہ جس کا ایمان جتنا کمزور ہوگا، شرم وحیا بھی اس میں اتنی ہی کمزور ہوگی۔ (مسند ابی یعلی، 6 / 291، حدیث: 7463)

ان تمام کاموں میں مبتلا حضرات کو چاہئے کہ خدارا! اپنے طرز عمل پر غور فرمائیں بلکہ بطور خاص ان حضرات کو زیادہ غورکرناچاہئے جو فحاشی وعریانی اور اسلامی روایات سے جدا کلچر کو عام کر کے مسلمانوں کے اخلاق اور کردار میں بگاڑ پیدا کر رہے ہیں اور بے حیائی، فحاشی و عریانی کے خلاف اسلام نے نفرت کی جو دیوار قائم کی ہے اسے گرانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت اور عقل سلیم عطا فرمائے۔