
ایک سنگین اخلاقی مسئلہ ہے جو معاشرے کی بگاڑ کا سبب
بنتی ہے۔ اسلام میں بے حیائی سے سختی سے منع کیا گیا ہے کیونکہ یہ فرد اور معاشرے دونوں
کے لیے نقصان دہ ہے۔ بے حیائی کا مطلب ہے اخلاقی حدود کو توڑنا، شرم و حیا کا دامن
چھوڑنا، اور ایسے کام کرنا جو دینی اور معاشرتی اقدار کے خلاف ہوں۔
قرآن و سنت میں کئی مقامات پر بے حیائی سے بچنے کی ہدایت
کی گئی ہے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَ
لَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَ مَا بَطَنَۚ- (پ
8، الانعام: 151) ترجمہ: اور بے حیائی کے قریب بھی نہ جاؤ، چاہے وہ کھلی ہو یا
چھپی ہوئی۔
بے حیائی کے اثرات:
1۔ اخلاقی بگاڑ: بے حیائی انسان کے کردار کو خراب کرتی
ہے اور اخلاقی بگاڑ کا سبب بنتی ہے۔
2۔ معاشرتی نقصان: بے حیائی سے معاشرتی اقدار زوال پذیر
ہو جاتی ہیں اور معاشرت میں انتشار پھیلتا ہے۔
3۔ خاندانی نظام کی تباہی: بے حیائی خاندانوں کو توڑ
پھوڑ کا شکار کر دیتی ہے اور مضبوط خاندانی تعلقات کو کمزور کرتی ہے۔
بے حیائی سے بچنے کے طریقے:
1۔ حیا کا فروغ: اپنی اور دوسروں کی عزت و احترام کا
خیال رکھنا اور حیا کو اپنا زیور بنانا۔
2۔ صحیح ماحول: ایسے لوگوں کے ساتھ وقت گزارنا جو نیک
اور شریف ہوں، تاکہ آپ پر مثبت اثرات ہوں۔
3۔ دین کی تعلیمات پر عمل: قرآن اور سنت کی روشنی میں
زندگی گزارنا اور ان کی تعلیمات پر عمل کرنا۔
بے حیائی سے بچنے اور معاشرتی بگاڑ کو روکنے کے لیے
ضروری ہے کہ ہم اپنی زندگیوں میں حیا اور اخلاقیات کو ترجیح دیں۔

آج کل ہمارے معاشرے میں بے حیائی عام ہوتی جا رہی ہے۔
آج کل بے حیائی والی بات کرتے وقت حیا ذرا محسوس نہیں کرتے۔ جو جی چاہتا ہے۔ بولتے
جاتے ہیں۔ اس وجہ سے آج کل دنیا کے اتنے گھر بے حیائی کی وجہ سے تباہ ہو رہے ہیں۔
آج کل لڑکے لڑکیاں اکھٹے گھومنے پھرنے میں کیا محسوس نہیں کرتے فیشن پرستی عام ہوتی
جارہی ہے۔ موبائل وغیرہ پر باتیں کرتے ہیں لڑکے لڑکیاں والے جوتے اور لڑکیاں لڑکوں
والے جوتے پہنتی ہیں۔ حیا ذرا سی بھی محسوس نہیں کرتے۔ لباس بھی لڑکے جیسے پہنتی ہیں
جیسے پینٹ وغیرہ۔
آیت مبارکہ: اِنَّ
الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا
لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۙ-فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِؕ-وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ
اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(۱۹) (پ
18، النور: 19) ترجمہ کنز الایمان: وہ لوگ جو چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بُرا چرچا
پھیلے ان کے لیے دردناک عذاب ہے دنیا اور آخرت میں اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں
جانتے۔
حدیث مبارکہ: سرکار مدینہ ﷺ
نے ارشاد فرمایا: بے شک کیا اور ایمان آپس میں ملے ہوئے ہیں جب ایک اٹھ جاتا ہے تو
دوسرا بھی اٹھا لیا جاتا ہے۔ (مستدرک، 1 / 176، حدیث: 66)نیز فرمایا: حیا ایمان سے
ہے۔ (ترمذی، 3/406، حدیث: 2016)
حدیث مبارکہ: مرد ہو یا عورت
اسلام دونوں کو حیا اپنانے کی تلقین کرتا ہے اور حیا کو تمام اخلاقیات کا سرچشمہ قرار
دیتا ہے، چنانچہ فرمان مصطفیٰ ﷺ: بےشک ہر دین کا ایک خلق ہے، اسلام کا خلق حیا ہے۔
(ابن ماجہ، 4/460، حدیث: 4181)
حدیث مبارکہ: حضور کے صحابہ
ہوں یا صحابیات حالت جنگ ہو یا امن کسی بھی حال میں حیا کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑتے
تھے۔ چنانچہ حضرت ام خلاد کا بیٹا جنگ میں شہید ہو گیا یہ اپنے بیٹے کے بارے میں معلومات
حاصل کرنے کے لیے نقاب ڈالے بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئیں تو اس پر کسی نے حیرت سے کہا
اس وقت بھی باپردہ ہیں۔ کہنے لگیں: میں نے بیٹا ضرور کھویا ہے حیا نہیں کھوئی۔ (ابو
داود، 3/9، حدیث: 2488)
یا الہی دے ہمیں بھی دوست شرم حیا حضرت عثمان غنی با حیا
کے واسطے
ہمیں اپنے معاشرے گھروں کو بچانا چاہیے بے حیائی سے
اس کا سب سے بہتر ذریعہ گھر درس بھی ہے اور مدنی چینل بھی الله پاک ہمارے معاشرے کو
بے حیائی سے محفوظ فرمائے اور آقا ﷺ کی سیرت پر چلنے کی توفیق دے اور ان کے نقش قدم
پر چلنے کی توفیق دے۔ آمین

ہمارے معاشرے میں بھی بے حیائی عام ہوتی جا رہی ہے۔
بے حیائی کی وجہ سے معاشرے میں طرح طرح کے بگاڑ پیدا ہو رہے ہیں۔ سب سے بڑا بگاڑ ایک
نامحرم مرد اور نامحرم عورت کے تعلقات ہیں۔ جنکی وجہ سے زنا بھی عام ہو رہا ہے۔ ہر
آدمی خصوصا عورتوں کے حق میں حیاء کی عادت وہ انمول زیور ہے۔ جو عورت کی عفو و پاک
دامنی کا دار و مدار اور نسوانیت کے حسن و جمال کی جان ہے۔
مرد ہو یا عورت اسلام نے دونوں کو حیاء اپنانے کی تلقین
کی ہے۔اور حیاء کو تمام اخلاقیات کا سر چشمہ قرار دیا ہے۔ قرآن کریم میں اللہ پاک ارشاد
فرماتا ہے: وَّ لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِؕ-اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ
مُّبِیْنٌ(۱۶۸) اِنَّمَا
یَاْمُرُكُمْ بِالسُّوْٓءِ وَ الْفَحْشَآءِ وَ اَنْ تَقُوْلُوْا عَلَى اللّٰهِ مَا
لَا تَعْلَمُوْنَ(۱۶۹) (پ 2، البقرۃ: 168، 169) ترجمہ
کنز الایمان: اور شیطان کے قدم پر قدم نہ رکھو، بےشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔ وہ
تو تمہیں یہی حکم دے گا بدی اور بے حیائی کا اور یہ کہ اللہ پر وہ بات جوڑو جس کی
تمہیں خبر نہیں۔
احادیث مبارکہ کی روشنی میں بے حیائی کی مذمت ملاحظہ
فرمائیے:
01) حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے
فرمایا: فحاشی جس چیز میں ہو گی اسے بدنما کر دے گی اور حیاء جس چیز میں بھی ہوگی اسے
آراستہ کر دےگی۔ (ابن ماجہ، 4 / 461، حدیث: 4185)
02) حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول
ﷺ نے فرمایا کہ حیاء اور ایمان کو ایک دوسرے کے ساتھ یکجا کیا گیا ہے لہذا جب کسی کو
ان دونوں میں سے کسی ایک سے محروم کیا جاتا تو وہ دوسرے سے بھی محروم رکھا جاتا ہے
یعنی جو شخض ایما ن سے محروم رہتا ہے وہ حیاء سے بھی محروم رکھا جاتا ہے اور جس میں
حیاء نہیں ہوتی اس میں ایمان بھی نہیں ہوتا۔
03) نبی ﷺ نے فرمایا کہ اللہ پاک سے زیادہ غیرت مند
اور کوئی نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ اس نے بے حیائی کے کاموں کو حرام کیا ہے اور اللہ سے
بڑھ کر کوئی اپنی تعریف پسند کرنے والا نہیں ہے۔(بخاری، 3/225، حدیث: 4637)
04) نبی ﷺ نے فرمایا کہ جب تجھ میں حیاء نہ رہے تو جو
چاہے کر۔ (بخاری، 2/470، حدیث:3484)
05) حضرت ام خلاد رضی اللہ عنہا کا بیٹا جنگ میں شہید
ہو گیا یہ اپنے بیٹے کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے نقاب ڈالے بارگاہ رسالت
میں حاضر ہوءیں تو اس پر کسی نے حیرت سے کہا اس وقت بھی باپردہ ہیں کہنے لگیں میں نے
بیٹا ضرور کھویا ہے حیاء نہیں کھوئی۔ (ابو داود، 3/9، حدیث: 2488)
شرم و حیاء کیا ہے؟ وہ کام جو اللہ پاک اور اس کی مخلوق
کے نزدیک ناپسند ہو ان سے بچانے والے وصف کوشرم وحیاء کہتے ہیں۔ (با حیاء نوجوان، ص
7)

عدل، اقوال اور افعال میں انصاف و مساوات کا نام ہے۔
اس کے مقابل فحشا یعنی بے حیائی ہے۔ اس سے مراد قبیح اقوال اور افعال ہیں۔ شیطان کے
بے حیائی اور بری بات کا حکم شیطان دیتا ہے جب کہ اس کے مقابلے میں رحمان کا حکم کیا
ہے؟
فرمایا: وَ یَنْهٰى عَنِ
الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِ وَ الْبَغْیِۚ-(پ 14، النحل:
90)ترجمہ کنز الایمان: اور منع فرماتا ہے بے حیائی اور بری بات اور سرکشی سے۔
اس آیت میں اللہ تعالی نے ہر شرمناک اور مذموم قول و
فعل سے نیز شرک، کفر، گناہ اور تمام ممنوعات شرعیہ سے منع فرمایا ہے۔ حضرت سفیان بن
عیینہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: فحشاء، منکر اور بغی یہ ہے کہ ظاہر اچھا ہو اور باطن
ایسا نہ ہو اسی طرح بے حیائی کے متعلق پیارے اقا ﷺ نے فرمایا: بے حیائی جس چیز میں
بھی ہو اس کو عیب دار بنا دے گی اور حیا جس چیز میں بھی ہو اس کو خوبصورت بنا دے گی۔
(ابن ماجہ، 4 / 461، حدیث: 4185)
ایک اور مقام پر رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: لوگوں
نے پہلی نبوت کی جن باتوں کو جانا ہے ان میں سے یہ بات بھی ہے کہ جب تم میں حیا ہی
نہ رہے تو تم جو چاہو کرو۔ (بخاری، 4/131، حدیث: 6125)
اس حدیث پاک
سے معلوم ہوا کہ حیا ایک ایسی صفت ہے جس کے نتیجے میں انسان برائی اور غلطی کے ارتکاب
سے باز رہتا ہے اور اگر یہ ختم ہو جائے تو انسان کو جرم کے ارتکاب پر ذرا بھی شرمندگی
نہیں ہوتی عام طور پر کسی جرم کے بارے میں انسان کی حیا اس وقت ختم ہوتی ہے جب وہ بار
بار کسی جرم کا ارتکاب کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ اسلام نے کبیرہ گناہوں کے ارتکاب سے تو
سختی سے منع کیا ہی ہے اس کے ساتھ صغیرہ گناہوں کے بار بار ارتکاب سے بھی سختی سے منع
کیا ہے۔ معلوم ہوا کہ بے حیائی کے معاملات میں شیطان کو کھل کر کھیلنے کا موقع ملتا
ہے کہ جب انسان سے شرم و حیا ختم ہو جائے تو شیطان کے چکر میں انا بہت آسان ہو جاتا
ہے اور اسی لیے دنیا بھر میں اب کفار اور لبرلز نے اسی کو اپنا ہتھیار بنا لیا ہے کہ
مسلمانوں کو شیطان کی پیروی پر لگانا ہے تو ان میں بے حیائی عام کر دو چنانچہ اب ٹی
وی، ڈرامے، فلمیں، ٹی وی پروگرام، موسیقی، فیشن شوز، اخبارات، تعلیمی اداروں، نوکریوں،
دفتروں، پارکوں، تفریح گاہوں، ہوائی جہازوں، ہوٹلوں اور دیگر جگہوں کو بے حیائی سے
بھرا جا رہا ہے۔ البتہ وہ تمام طریقے شیطان کے ہیں جن پر بے حیائی اور بری بات ہونے
کا اطلاق ہوتا ہے۔

بے حیائی ایک ایسا گناہ ہے جو مسلمانوں میں بڑھتا ہی
جا رہا ہے۔ بےحیائی کو عام طور پر آزادی کا نام دیا جا رہا ہے معاشرے میں پھیلتی ہوئی
یہ بے حیائیاں نسلوں کو تباہ کر رہی ہے۔ اس بے حیائی جس کو آزادی کا نام دیا جارہا
ہے اس کی بنا پر آج نا محرم اور نا محرمہ کے تعلقات بڑھ رہے ہیں، تو کہیں بیٹی باپ
کے سامنے ناچ رہی ہے۔ (والعیاذ باللہ)کہیں فلموں ڈراموں کو دیکھ کر بھی اپنی آنکھوں
کو آلودہ کیا جا رہا ہے یہ ایسے درد ناک حالات ہیں مسلمانوں میں جس کو ہر مسلمان اپنے
طور پر ختم کرنے کی کوشش کرے۔ بے حیائی کہیں ہمارے ایمان کو تباہ نہ کر دے۔ کہیں یہ
ہماری بے حیائیاں ہم سے ایسا گناہ نہ کر ر وادے جس سے اللہ کی سخت پکڑ ہو جائے۔ اللہ
پاک قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: اِنَّ الَّذِیْنَ
یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۙ-فِی
الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِؕ-وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(۱۹) (پ
18، النور: 19) ترجمہ کنز الایمان: وہ لوگ جو چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بُرا چرچا
پھیلے ان کے لیے دردناک عذاب ہے دنیا اور آخرت میں اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں
جانتے۔
اس آیت کا معنی یہ ہے کہ وہ لوگ جو یہ ارادہ کرتے اور
چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بے حیائی کی بات پھیلے ان کے لیے دنیا اور آخرت میں دردناک
عذاب ہے۔ دنیا کے عذاب سے مراد حد قائم کرنا ہے۔رسول خدا ﷺ نے اسی لئے ارشاد فرمایا:
جب تجھ میں حیا نہ رہے تو جو چاہے کر۔ (بخاری،
2/470، حدیث: 3484)
حدیث طیبہ میں بھی بے حیائی کی بہت مذمت آئی ہے اور
اس سے بچنے کی ترکیب دی گئی ہےچونکہ حیا ایمان کا حصہ ہے اور جب ایمان کا یہ حصہ ہی
مومن میں نہ ہوگا تو اس ایمان کے باقی حصہ خود بخود ہی ختم ہو تے جائیں گے۔ احادیث
طیبہ سے بھی بے حیائی کی مذمت کے بارے میں جانتی ہیں تاکہ ہمیں اندازہ ہو سکے کہ یہ
کس قدر قبیح فعل ہے
1:سرکار مدینہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:بے شک حیا اور ایمان
آپس میں ملے ہوئے ہیں، جب ایک اٹھ جاتا ہے تو دوسرا بھی اٹھا لیا جاتا ہے۔(مستدرک للحاکم،
1/176، حدیث:66)
2:حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی پاک ﷺ نے
فرمایا: بے حیائی جس شے میں ہو تی ہے اسے بدنما کر دیتی ہے۔ اور حیاء جس شے میں ہوتی
ہے اسے مزیّن کر دیتی ہے۔ (ابن ماجہ، 4 / 461، حدیث: 4185)
3:
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی پاک ﷺ نے فرمایا: قیامت کی علامت
میں سے ہے کہ فحش و بے حیائی کی باتیں، اور فحش اور بے حیائی کے کام ہوں گے، رشتے داریاں
توڑی جائیں گی، امانت دار کو خائن قرار دیا جائے گا، اور خائن کو امین قرار دیا جائے
گا۔
4: حیاء ایمان کا حصہ ہے اور ایمان جنت میں جانے کاسبب
ہے اور بے حیائی جفاء(زیادتی) ہے اور جفا دوزخ میں جانے کا سبب ہے۔ (ترمذی، 3/406،
حدیث: 2016)
احادیث میں صراحتاً بتا دیا گیا کہ حیا ایمان کا حصہ
ہے اب جو بے حیائی کرے گا وہ بے حیائی اس کے دوزخ میں جانے کا سبب ہے۔ہم کمزور بدن
والے کیا جہنم کا عذاب برداشت کر سکیں گی۔بے حیائی کرنا یہ ایک مومن کی شان کے لائق
نہیں مومن تو حیا دار ہوتا ہےمندرجہ بالا احادیث سے بے حیائی جیسے جرم کا اندازہ کیا
جاسکتا ہے کہ آخر یہ کس قدر قبیح ومذموم فعل ہےائیے اب سچی توبہ کرلیتی ہیں اور عہد
کرتے ہیں کہ بے حیائی سے بچتے ہوئے اللہ اور اس کے رسول کی رضا کے مطابق زندگی گزاریں
شرم وحیا کے پیکر حضور ﷺ کی سیرت کو اپنائیں گے۔ اللہ پاک سے دعا بھی کرتے رہئیے کی
دعا مومن کا ہتھیار بھی اللہ پاک سے دعا ہے کے کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی کامل
حیا کے صدقہ ہمیں بےحیائیوں اور برے کاموں سے بچائے۔ آمین

شرمناک امور گندے اور برئے معاملات کا ذکر کرنا دوسروں
پر گندی نظریں جمانا۔ منہ سے پیپ اور خون بہہ رہا ہوگا۔ منقول ہے: چار طرح کے جہنمی
کہ جو کھولتے پانی اور آگ کے درمیان بھاگتے پھرتے ویل و ثبور مانگتے ہوں گے، ان میں
سے ایک وہ شخص کہ جس کے منہ سے خون، پیپ بہہ رہا ہوگا، جہنمی کہیں گے: اس بد بخت کو
کیا ہوا کے ہماری تکلیف میں اضافہ کئے جاتا ہے: کہا جائے گا یہ کو بد بخت بری اور خبیث
یعنی گندی بات کی طرف متوجہ ہو کر اس سے لذت اٹھاتا تھا جیسا کہ جماع کی باتوں سے۔
(اتحاف السادۃ للربیدی، 9/187)
بےحیائی کا حکم: بے
حیائی حرام ہے اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔ آج کل بے حیائی عام دیکھی جاتی ہے
اس بے حیائی سے تو آج کل کے لوگ کم ہی بچ پاتے ہیں۔ آج کل سب سے بڑا ذریعہ بے حیائی
کا انٹرنیٹ، کالج، اسکولز، کلبز وغیرہ ہیں۔ جہاں پر لڑکیاں لڑکے کہ جن کو ایک ساتھ
تعلیم دی جاتی ہے اور وہ بے حیائی اور شہوت کی تسکین میں پڑ جاتے ہیں۔ جس کے سبب اکثر
نوجوان نسل زنا، بدکار، بے حیائی جیسے افعال میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ یاد رکھیں کہ اس
بے حیائی میں سب سے بڑا اور برا گناہ زنا ہے زنا کبیرہ گناہ ہے اور زانی دنیا اور آخرت
میں بد بخت ہے۔ اللہ پاک نے اپنی کتاب میں متعدد مقامات پر اس کی ممانعت فرمائی ہے
چنانچہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ لَا تَقْرَبُوا
الزِّنٰۤى اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةًؕ-وَ سَآءَ سَبِیْلًا(۳۲) (پ
15، بنی اسرائیل: 32) ترجمہ کنز الایمان: اور بدکاری کے پاس نہ جاؤ بےشک وہ
بےحیائی ہے اور بہت ہی بری راہ۔
کامل مومنین کی بہت سی خصوصیات ہیں۔ جن میں ایک بے حیائی
اور برے کاموں سے اجتناب کرنا ہے۔ عربی اشعارکا ترجمہ ہے: اے وہ شخص کے اندھیرے میں
چھپ کر اللہ کی نا فرمانیاں کرتا ہےقلم قدرت سے نامہ اعمال میں برا عمل لکھا جا رہا
ہے۔ خلوتیں نہ فرمانیوں میں گزار رہا ہے، حالانکہ اللہ تعالیٰ کی ذات دیکھ رہی ہے تو
گناہ کرتے وقت اس سے نہیں چھپ سکتا۔
بے حیائی سے بچنے کا اہم جز: نور
کے پیکر، تمام نبیوں کے سرور ﷺ کا ارشاد ہے: جو شخص اپنی نگاہوں کی حفاظت کرے گا اللہ
پاک اسے عبادت کی توفیق عطا فرمائے گا۔ جس کی حلاوت وہ اپنے دل میں پائے گا۔

حیا کے معنی ہیں عیب لگائے جانے کے خوف سے چھیننا اس
سے مراد وہ وصف وہ عادت ہے جو ان چیزوں سے روک دے جو اللہ تعالی اور مخلوق کے نزدیک
نہ پسندیدہ ہو لیکن حیا کے لیے اچھا ہونے کے لیے ضروری ہے کہ مخلوق سے شرمانے میں خالق
کی نافرمانی نہ ہوتی ہو اور نہ کسی کے حقوق کی ادائیگی میں وہ حیا رکاوٹ بن رہی ہو۔
روایت ہے کہ اللہ پاک جب کسی بندے کو ہلاک کرنا چاہتا ہے تو اس سے حیا چھین لیتا ہے
جب اس سے حیا چھین لی جاتی ہے تو اسے اعنات پرست ہی پائے گا پھر جب تو اسے اعنات پرست
پائے گا تو جان لے کہ اس سے امانت چھین لی گئی ہے تو جب اس سے امانت چھین لی گئی تو
تو اسے بددیانت و بداعتماد پائے گا پھر جب تو اسے بد و دیانت اور بداعتماد پائے تو
اس سے رحمت کھینچ لی جاتی ہے جب رحمت بھی کھینچ لی گئی تو تم اسے مردود و ملعون پائے
گا اور پھر جب اسے مردود ملعون پائے تو اس سے سلام کا قلاواں بھی اتار لیا گیا۔
اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ
تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۙ-فِی
الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِؕ-وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(۱۹) (پ
18، النور: 19) ترجمہ کنز الایمان: وہ لوگ جو چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بُرا چرچا
پھیلے ان کے لیے دردناک عذاب ہے دنیا اور آخرت میں اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں
جانتے۔
قُلْ اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّیَ
الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَ مَا بَطَنَ (پ 8،
الاعراف: 33) ترجمہ کنز الایمان: تم فرماؤ میرے رب نے تو بے حیائیاں حرام فرمائی
ہیں (ف۴۹) جو ان میں کھلی ہیں اور جو چھپی۔
احادیث مبارکہ:
حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب تم حیا نہ کرو تو جو
چاہو کرو (یعنی جب حیا ہی نہیں تو سب برائیاں برابر ہیں)۔ (بخاری، 4/131، حدیث: 6125)
حیا ایمان کا حصہ ہے اور ایمان جنت میں پہنچاتا ہے جبکہ
بے حیائی اور بد کلامی سنگدلی ہے اور سنگدلی جہنم میں پہنچاتی ہے۔ (ترمذی، 3/406، حدیث:
2016)

آج کل ہمارا معاشرہ طرح طرح کی بے حیائیوں میں گرا پڑا
ہے مغربی رسم و رواج نے ہماری نسلوں کو گمراہ کر رکھا ہے۔ ہماری نوجوان نسل مغربی رسم
و رواج یعنی بےپردگی بے حیائیوں کو فیشن کا نام دے کر اپنی ترقی سمجھ رہی ہے ماڈلنگ
شوز کے نام طرح طرح کی برائیاں جنم لے رہی ہیں بےحیائی کو فروغ دیا جا رہا ہے بےحیائی
کے فروغ کی سب سے بڑی وجہ دین سے دوری اور مغربی رسم و رواج کے قریب ہونا ہے بے حیائی
کے فروغ کی وجہ سوشل میڈیا اور دوسرے ایپس ہے سوشل میڈیا پر ڈراموں میں رشتوں کی بےحرمتی،
جنسی بے راہ روی پیدا کرنے والے گانے،ڈانس پروگرام،ناںٹ کلب،بے پردگی اور حرام کام
کیے جارہے ہیں افسوس تو اس بات کا ہے کہ ہمارے مسلمان بہن، بھائی بھی اس میں شامل ہیں
افسوس در افسوس کچھ تو سمجھتے بھی نہیں کہ یہ گناہ،حرام اور جہنم میں لے جانے والے
اعمال ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ یہ بے حیائی کے کام کرنا،پھیلانا ہمارا پیشہ، روزی کمانے
کا ذریعہ ہے صرف یہ ہی نہیں بلکہ بعض بد نصیب والدین بھی انہیں سمجھانے کے بجائے فخر
کرتے ہیں انہیں اور گمراہ کرتے ہیں یہ کھ کر کے انہیں عزت مل رہی ہیں وہ کامیابی کی
طرف جارہے ہیں مگر درحقیقت یہ عزت نہیں ذلت ہے کامیابی نہیں ناکامی اور تباہی ہے، حضور
نبی اکرم ﷺ کا فرمان ہے: بے حیائی جس چیز میں ہو اسے عیب دار بنا دے گی اور حیا جس
چیز میں ہو اسے خوبصورت بنادے گی۔ (ابن ماجہ، 4 / 461، حدیث: 4185)
افسوس ہمارا معاشرہ بے حیائی اور بہت سی برائیوں کی
وجہ سے عیب دار بنا ہوا ہے اپنے معاشرے کو عیب دار ہونے سے بچانے کے لئے بے حیائی سے
بچانا ضروری ہے بے حیائی سے بچانے کا طریقہ اللہ کی حدوں کو جاننا ہے اچھے،برے،حلال،حرام
کی پہچان ہے اللہ تبارک وتعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِؕ- (پ
21، العنکبوت: 45) ترجمہ کنز الایمان: بےشک نماز منع کرتی ہے بے حیائی اور بری بات
سے۔ جیسا کہ معلوم ہوا کہ بے حیائی سے بچنے کا ذریعہ نماز بھی ہے قرآن مجید کی تعلیمات
پر عمل پیرا ہو کر حضور ﷺ کی سیرت اپنا کر، سنتیں اپنا کر بے حیائیوں سے بچ سکتے ہیں
بے حیائی کو مسلمانوں میں پھیلانے کا عذاب دنیا اور آخرت میں بہت دردناک اور سخت ہے
چنانچہ اللہ تبارک وتعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۙ-فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِؕ-وَ
اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(۱۹) (پ
18، النور: 19) ترجمہ کنز الایمان: وہ لوگ جو چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بُرا چرچا
پھیلے ان کے لیے دردناک عذاب ہے دنیا اور آخرت میں اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں
جانتے۔
اللہ پاک ہمیں دنیا و آخرت میں ذلت و رسوائی سے بچائے
اور ہمیں با حیا بنائے۔

اس دنیا میں علانیہ گناہ (بے پردگی،فحاشی و عریانی،حیا
سوز مناظر پر مشتمل فلمیں،ڈرامے دیکھنا،ان کی تشہیر کرنا اور دوسروں کو بھی دیکھنے
کی ترغیب دینا وغیرہ) کرنے والوں کو اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے کی مکمل اجازت
ہے۔
لیکن اللہ کے احکام کی بجاآوری کرتے ہوئے اللہ و رسولﷺ
کے اطاعت گزار کو قطعاً اجازت نہیں کہ وہ اپنی مرضی کی زندگی گزار سکے اس کی مرضی کی
زندگی کیا ہے؟ فقط اللہ و رسول ﷺ کی اطاعت۔
جو قوم جہاد کو چھوڑ دے گی اللہ اس کو ذلیل فرما دے
گا۔ جس قوم میں بے حیائی، فحاشی، عریانی، بے راہ روی پھیل جائے گی اللہ تعالی اس کو
ایسی بلاؤں، مصیبتوں، بیماریوں میں مبتلا کر دے گا کہ وہ سوچ بھی نہیں سکتی۔
لمحہ فکریہ ہے کہ معاشرے میں جو بگاڑ پیدا ہو چکا ہے
اس کی زد میں زیادہ تر نوجوان ہیں جو کہ کسی بھی ملک کو تباہ کرنے کے لیے کافی ہے۔
سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے کہ اگر کسی قوم کو بغیر کسی جنگ کے شکست
دینی ہو تو اس کے نوجوانوں میں فحاشی پھیلا دو۔
ہمارا معاشرہ مغربی تہذیب کا دلدادہ ہو چکا ہے۔ ہماری
نوجوان نسل اپنے مقصد تخلیق سے ہٹ کر فحاشی اور عریانیت کے راستے پر اپنے لیے مقصد
حیات تلاش کر رہے ہیں۔ مسلم نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں میں یہ وسوسہ پیدا کیا جاتا ہے
کہ بے پردگی اور فحاشی میں ہی ترقی ہے۔ ہماری نوجوان نسل جو مستقبل میں معمار پاکستان
ہے وہ مغربی تہذیب اور معاشرے میں پھیلنے والی برائیوں کی زد میں پروان چڑھ رہی ہے۔
اگر آج کے دور جدید میں دیکھا جائے تو مختلف ایپس نے پوری دنیا میں فحاشی کا بازار
گرم کر رکھا ہے۔ جن کی مقبولیت ایسے شیطانی ذرائع ہیں جن کی وجہ سے بے حیائی مسلمانوں
کے گھروں تک پہنچ رہی ہے۔ جس کی زد میں آ کر مسلمان اپنی اسلامی اقدار سے دور ہوتے
جا رہے ہیں۔ مسلمان عورتوں میں پردہ اور مردوں میں حیا کا خاتمہ ہوتا جا رہا ہے۔ جس
سے کسی بھی معاشرے کو زوال کا شکار ہوتا دیکھ سکتے ہیں۔ ایسے لوگ جو مسلمانوں کو دین
اسلام سے دور اور ان میں بے حیائی و فحاشی کو پھیلاتے ہیں ایسے لوگوں کے بارے میں اللہ
تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے: اِنَّ
الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا
لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۙ-فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِؕ-وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ
اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(۱۹) (پ
18، النور: 19) ترجمہ کنز الایمان: وہ لوگ جو چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بُرا چرچا
پھیلے ان کے لیے دردناک عذاب ہے دنیا اور آخرت میں اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں
جانتے۔
پیارے آقا ﷺ نے فرمایا: جب تجھ میں حیا نہ ہو، تو پھر
جو دل چاہے وہ کر۔ (بخاری، 4/131، حدیث: 6125)
اللہ پاک ہم سب کو بے حیائی اور برے کاموں سے بچنے کی
توفیق عطا فرمائے اور ہدایت کا راستہ دکھائے۔

بے حیائی بہت برا فعل ہے معاشرے میں بے حیائی عام ہوتی
جارہی ہے۔ اللہ کے نزدیک سب سے برا کام بےحیائی ہے۔ اس سے بچنے میں ہی عافیت ہے۔
حدیث مبارکہ پیارے آقا ﷺ نے فرمایا: جب تجھ میں حیا
نہ ہو، تو پھر جو دل چاہے وہ کر۔ (بخاری، 4/131، حدیث: 6125)
اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ
تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۙ-فِی
الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِؕ-وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(۱۹) (پ
18، النور: 19) ترجمہ کنز الایمان: وہ لوگ جو چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بُرا چرچا
پھیلے ان کے لیے دردناک عذاب ہے دنیا اور آخرت میں اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں
جانتے۔
اس آیت کا معنی یہ ہے کہ وہ لوگ جو یہ ارادہ کرتے اور
چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بے حیائی کی بات پھیلے ان کے لیے دنیا اور آخرت میں دردناک
عذاب ہے۔ دنیا کے عذاب سے مراد حد قائم کرنا ہے، چنانچہ عبد اللہ بن ابی، حضرت حسّان
اور حضرت مسطح رضی اللہ عنہما کو حدلگائی گئی اور آخرت کے عذاب سے مراد یہ ہے کہ اگر
توبہ کئے بغیر مر گئے تو آخرت میں دوزخ ہے۔ مزید فرمایا کہ اللہ تعالیٰ دلوں کے راز
اور باطن کے احوال جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔ (مدارک، ص774)
اشاعت فاحشہ میں ملوث افراد کو نصیحت: جبکہ
فاحشہ سے وہ تمام اقوال اور افعال مراد ہیں جن کی قباحت بہت زیادہ ہے اور یہاں آیت
میں اصل مراد زنا ہے۔ (روح البیان، 6 / 130، ملخصاً)
البتہ یہ یاد رہے کہ اشاعت فاحشہ کے اصل معنیٰ میں بہت وسعت ہے چنانچہ اشاعت فاحشہ
میں جو چیزیں داخل ہیں ان میں سے بعض یہ ہیں:
(1)کسی پر لگائے گئے بہتان کی اشاعت کرنا۔
(2)کسی کے خفیہ عیب پر مطلع ہونے کے بعد اسے پھیلانا۔
(3)علمائے اہلسنّت سے بتقدیر الٰہی کوئی لغزش فاحش واقع
ہو تو ا س کی اشاعت کرنا۔
(4) حرام کاموں کی ترغیب دینا۔
(5) ایسی کتابیں لکھنا، شائع کرنا اور تقسیم کرنا جن
میں موجود کلام سے لوگ کفر اور گمراہی میں مبتلا ہوں۔
(6) ایسی کتابیں، اخبارات، ناول، رسائل اورڈائجسٹ وغیرہ
لکھنا اور شائع کرنا جن سے شہوانی جذبات متحرک ہوں۔
(7)فحش تصاویر اور وڈیوز بنانا، بیچنا اور انہیں دیکھنے
کے ذرائع مہیا کرنا۔
(8)ایسے اشتہارات اور سائن بورڈ وغیرہ بنانا اور بنوا
کر لگانا، لگوانا جن میں جاذبیت اور کشش پیدا کرنے کے لئے جنسی عریانیّت کا سہارا لیا
گیا ہو۔
(9) حیا سوز مناظر پر مشتمل فلمیں اور ڈرامے بنانا،ان
کی تشہیر کرنا اور انہیں دیکھنے کی ترغیب دینا۔
(10) فیشن شو کے نام پر عورت اور حیا سے عاری لباسوں
کی نمائش کرکے بے حیائی پھیلانا۔
(11)زنا کاری کے اڈّے چلانا وغیرہ۔

وہ امور جو اللہ اور اسکی مخلوق کے نزدیک ناپسندیدہ
ہوں بے حیائی کہلاتے ہیں۔
بے حیائی کی مذمت پر آیت مبارکہ ہے ترجمہ کنز الایمان:
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ
الشَّیْطٰنِؕ-وَ مَنْ یَّتَّبِـعْ خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ فَاِنَّهٗ یَاْمُرُ
بِالْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِؕ- (پ 18، النور: 21) ترجمہ کنز الایمان:
اے ایمان والو شیطان کے قدموں پر نہ چلو اور جو شیطان کے قدموں پر چلے تو وہ تو بے
حیائی اور بُری ہی بات بتائے گا۔
بے حیائی کے متعلق احادیث مبارکہ ہیں:
نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: حیاء ایمان کا حصہ ہے اور
ایمان جنت میں پہنچاتا ہے جبکہ بےحیائی وبد کلامی، سنگدل ہے اور سنگدلی جہنم میں پہنچاتی
ہے۔ (ترمذی، 3/406، حدیث: 2016)
نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا جب تجھ میں حیا نہ رہے تو
جو چاہے کر۔ (بخاری، 2/470، حدیث: 3484)
نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: بےشک حیا اور ایمان آپس
میں ملے ہوئے ہیں ایک اٹھ جاتا ہے تو دوسرا بھی اٹھا لیا جاتا ہے۔ (مستدرک، 1/ 176، حدیث: 66)
نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: بے شک ہر دین کا ایک خلق
ہوتا ہے اسلام کا خلق شرم و حیا ہے۔ (ابن ماجہ، 4/460، حدیث: 4181)
نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: بے حیائی جس چیز میں ہو
اسے عیب دار کر دیتی ہےاور حیاء جس چیز میں ہو اسے زینت بخشی ہے۔ (ابن ماجہ، 4 /
461، حدیث: 4185)
حضرت خلاد رضی اللہ عنہا کا بیٹا جنگ میں شہید ہوگیا
یہ اپنے بیٹے کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے نقاب ڈالے بارگاہ رسالت میں حاضر
ہوئیں تو اس پر کسی نے نے حیرت سے کہا اس وقت بھی باپردہ ہیں کہنے لگی میں نے بیٹا
کھویا ہے حیا نہیں۔ (ابو داود، 3/9، حدیث: 2488)
اس واقعے سے معلوم ہوا اسلام میں حیا کی کتنی زیادہ
اہمیت ہیں۔ اسلام کے دشمنوں کی ہی سازش ہے کہ مسلمانوں سے کسی طرح حیاء کی چادر کھینچ
لی جائے جب حیا ہی نہ رہے گی تو ایمان خود ہی رخصت ہو جائے گا۔ آج کل ہمارے معاشرے
میں ایسی بے حیائی بہت زیادہ پھیلی ہوئی ہیں اللہ پاک ہم سب کو اس سے محفوظ رکھے۔ آمین
نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: لوگوں نے گزشتہ انبیاء
کرام علیہم السلام کے جو کلام سے جو کچھ پایا ہے اس میں سے یہ بھی ہے کہ جب تجھ میں
حیا نہ رہے تو جو چاہے کر۔ (بخاری، 4/131، حدیث: 6125)
نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ایمان کے دو شعبے میں اور
فحش بولنا یعنی بے حیائی کی بات کرتا اور زیادہ باتیں کرنا نفاق کے دو شعبے ہیں۔ (ترمذی،
3/414،
حدیث: 2034)

بےشرمی و بےحیائی تباہی لاتے ہیں یہ ایک حقیقت ہے کہ
مردوں کے اخلاق و عادات بگڑنے سے معاشرہ بگڑنے لگتا ہے اور جب عورتوں میں یہ بیماری
پھیل جائے تو نسلیں تباہ و برباد ہوجاتی ہیں۔ لہٰذا مرد ہو یا عورت اسلام دونوں کو
حیا اپنانے کی تلقین کرتا ہے اور حیا کو تمام اخلاقیات کا سرچشمہ قرار دیتا ہے۔
وَّ لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ
الشَّیْطٰنِؕ-اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ(۱۶۸) اِنَّمَا یَاْمُرُكُمْ بِالسُّوْٓءِ
وَ الْفَحْشَآءِ وَ اَنْ تَقُوْلُوْا عَلَى اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ(۱۶۹) (پ 2، البقرۃ: 168، 169) ترجمہ
کنز الایمان: اور شیطان کے قدم پر قدم نہ رکھو، بےشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔ وہ
تو تمہیں یہی حکم دے گا بدی اور بے حیائی کا اور یہ کہ اللہ پر وہ بات جوڑو جس کی
تمہیں خبر نہیں۔
بے حیائی کی مذمت پر احادیث مبارکہ:
نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: حیاء ایمان کا حصہ ہے اور
ایمان جنت میں جانے کاسبب ہے اور بے حیائی جفاء(زیادتی) ہے اور جفا دوزخ میں جانے کا
سبب ہے۔(ترمذی، 3/406، حدیث: 2016)
رسول خدا ﷺ نے اسی لئے ارشاد فرمایا: جب تجھ میں حیا
نہ رہے تو جو چاہے کر۔ (بخاری، 2/470، حدیث:3484)
مومن نہ تو طعنے دینے والا نہ لعنت و ملامت کرنے والا،
نہ فاحش یعنی نہ بے شرم وبے حیاوبدکار اورنہ زبان دراز ہوتا ہے۔
نبی کریم ﷺ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سے زیادہ غیرت مند
اور کوئی نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے بےحیائی کے کاموں کو حرام کیا ہے اور اللہ سے
بڑھ کر کوئی اپنی تعریف پسند کرنے والا نہیں ہے۔ (بخاری، 3/225، حدیث: 4637)
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی پاک ﷺ نے
فرمایا: بے حیائی جس شے میں ہو تی ہے اسے بدنما کر دیتی ہے۔ اور حیاء جس شے میں ہوتی
ہے اسے مزیّن کر دیتی ہے۔ (ابن ماجہ، 4 / 461، حدیث: 4185)
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی پاک ﷺ نے
فرمایا: قیامت کی علامت میں سے ہے کہ فحش و بے حیائی کی باتیں، اور فحش اور بے حیائی
کے کام ہوں گے، رشتے داریاں توڑی جائیں گی، امانت دار کو خائن قرار دیا جائے گا، اور
خائن کو امین قرار دیا جائے گا۔
حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی
پاک ﷺ نے فرمایا: بیشک فحش و بے حیائی کی باتیں کی، اور فحش اور بے حیائی کے کام کی
اسلام میں کچھ حیثیت نہیں اور اسلام کے اعتبار سے لوگوں میں سے بہترین وہ ہے جس کا
اخلاق سب سے اچھا ہے۔