حیا کے معنی ہیں عیب لگائے جانے کے خوف سے چھیننا اس
سے مراد وہ وصف وہ عادت ہے جو ان چیزوں سے روک دے جو اللہ تعالی اور مخلوق کے نزدیک
نہ پسندیدہ ہو لیکن حیا کے لیے اچھا ہونے کے لیے ضروری ہے کہ مخلوق سے شرمانے میں خالق
کی نافرمانی نہ ہوتی ہو اور نہ کسی کے حقوق کی ادائیگی میں وہ حیا رکاوٹ بن رہی ہو۔
روایت ہے کہ اللہ پاک جب کسی بندے کو ہلاک کرنا چاہتا ہے تو اس سے حیا چھین لیتا ہے
جب اس سے حیا چھین لی جاتی ہے تو اسے اعنات پرست ہی پائے گا پھر جب تو اسے اعنات پرست
پائے گا تو جان لے کہ اس سے امانت چھین لی گئی ہے تو جب اس سے امانت چھین لی گئی تو
تو اسے بددیانت و بداعتماد پائے گا پھر جب تو اسے بد و دیانت اور بداعتماد پائے تو
اس سے رحمت کھینچ لی جاتی ہے جب رحمت بھی کھینچ لی گئی تو تم اسے مردود و ملعون پائے
گا اور پھر جب اسے مردود ملعون پائے تو اس سے سلام کا قلاواں بھی اتار لیا گیا۔
اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ
تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۙ-فِی
الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِؕ-وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(۱۹) (پ
18، النور: 19) ترجمہ کنز الایمان: وہ لوگ جو چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بُرا چرچا
پھیلے ان کے لیے دردناک عذاب ہے دنیا اور آخرت میں اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں
جانتے۔
قُلْ اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّیَ
الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَ مَا بَطَنَ (پ 8،
الاعراف: 33) ترجمہ کنز الایمان: تم فرماؤ میرے رب نے تو بے حیائیاں حرام فرمائی
ہیں (ف۴۹) جو ان میں کھلی ہیں اور جو چھپی۔
احادیث مبارکہ:
حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب تم حیا نہ کرو تو جو
چاہو کرو (یعنی جب حیا ہی نہیں تو سب برائیاں برابر ہیں)۔ (بخاری، 4/131، حدیث: 6125)
حیا ایمان کا حصہ ہے اور ایمان جنت میں پہنچاتا ہے جبکہ
بے حیائی اور بد کلامی سنگدلی ہے اور سنگدلی جہنم میں پہنچاتی ہے۔ (ترمذی، 3/406، حدیث:
2016)