عدل، اقوال اور افعال میں انصاف و مساوات کا نام ہے۔
اس کے مقابل فحشا یعنی بے حیائی ہے۔ اس سے مراد قبیح اقوال اور افعال ہیں۔ شیطان کے
بے حیائی اور بری بات کا حکم شیطان دیتا ہے جب کہ اس کے مقابلے میں رحمان کا حکم کیا
ہے؟
فرمایا: وَ یَنْهٰى عَنِ
الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِ وَ الْبَغْیِۚ-(پ 14، النحل:
90)ترجمہ کنز الایمان: اور منع فرماتا ہے بے حیائی اور بری بات اور سرکشی سے۔
اس آیت میں اللہ تعالی نے ہر شرمناک اور مذموم قول و
فعل سے نیز شرک، کفر، گناہ اور تمام ممنوعات شرعیہ سے منع فرمایا ہے۔ حضرت سفیان بن
عیینہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: فحشاء، منکر اور بغی یہ ہے کہ ظاہر اچھا ہو اور باطن
ایسا نہ ہو اسی طرح بے حیائی کے متعلق پیارے اقا ﷺ نے فرمایا: بے حیائی جس چیز میں
بھی ہو اس کو عیب دار بنا دے گی اور حیا جس چیز میں بھی ہو اس کو خوبصورت بنا دے گی۔
(ابن ماجہ، 4 / 461، حدیث: 4185)
ایک اور مقام پر رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: لوگوں
نے پہلی نبوت کی جن باتوں کو جانا ہے ان میں سے یہ بات بھی ہے کہ جب تم میں حیا ہی
نہ رہے تو تم جو چاہو کرو۔ (بخاری، 4/131، حدیث: 6125)
اس حدیث پاک
سے معلوم ہوا کہ حیا ایک ایسی صفت ہے جس کے نتیجے میں انسان برائی اور غلطی کے ارتکاب
سے باز رہتا ہے اور اگر یہ ختم ہو جائے تو انسان کو جرم کے ارتکاب پر ذرا بھی شرمندگی
نہیں ہوتی عام طور پر کسی جرم کے بارے میں انسان کی حیا اس وقت ختم ہوتی ہے جب وہ بار
بار کسی جرم کا ارتکاب کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ اسلام نے کبیرہ گناہوں کے ارتکاب سے تو
سختی سے منع کیا ہی ہے اس کے ساتھ صغیرہ گناہوں کے بار بار ارتکاب سے بھی سختی سے منع
کیا ہے۔ معلوم ہوا کہ بے حیائی کے معاملات میں شیطان کو کھل کر کھیلنے کا موقع ملتا
ہے کہ جب انسان سے شرم و حیا ختم ہو جائے تو شیطان کے چکر میں انا بہت آسان ہو جاتا
ہے اور اسی لیے دنیا بھر میں اب کفار اور لبرلز نے اسی کو اپنا ہتھیار بنا لیا ہے کہ
مسلمانوں کو شیطان کی پیروی پر لگانا ہے تو ان میں بے حیائی عام کر دو چنانچہ اب ٹی
وی، ڈرامے، فلمیں، ٹی وی پروگرام، موسیقی، فیشن شوز، اخبارات، تعلیمی اداروں، نوکریوں،
دفتروں، پارکوں، تفریح گاہوں، ہوائی جہازوں، ہوٹلوں اور دیگر جگہوں کو بے حیائی سے
بھرا جا رہا ہے۔ البتہ وہ تمام طریقے شیطان کے ہیں جن پر بے حیائی اور بری بات ہونے
کا اطلاق ہوتا ہے۔