
جہنمیوں کی دو جماعتیں میں نے ابھی تک نہیں دیکھیں ایک
جماعت ان لوگوں کی ہوگی جنکے پاس بیل کی دم کی طرح کوڑے ہوگے اور وہ لوگوں کو ناحق
مارے گے دوسری جماعت ایسی عورتوں کی ہوگی جو لباس پہنے ہوئے ہوں گی (مردوں کو اپنی
طرف) مائل کرنے والی خود انکی طرف مائل ہونے والی ہوں گی ان کے سر بڑے بڑے اونٹوں کے
کوہانوں کی طرح ہوں گے ایسی عورتیں جنت میں داخل ہونا تو درکنار جنت کی خوشبو بھی نہیں
سونگھ پائیں گی حالانکہ جنت کی خوشبو بہت دور سے سونگھی جا سکے گی۔
بے حیائی پھیلانے کا انجام: اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۙ-فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِؕ-وَ
اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(۱۹) (پ
18، النور: 19) ترجمہ کنز الایمان: وہ لوگ جو چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بُرا چرچا
پھیلے ان کے لیے دردناک عذاب ہے دنیا اور آخرت میں اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں
جانتے۔
بے حیائی ہمارے چہرے کا نور کھا گئی زنا اتنا عام کیا ہے کہ نوجوان لڑکے
اور لڑکیاں اس کے بغیر خود کو ادھورا تصور کرنے لگتی ہیں کبھی اپنے گناہوں کی معافی
مانگنے کی توفیق نہیں ہوتی بلکہ ہمیں اب گناہ گناہ ہی نہیں لگتا ہم اردگرد کا ماحول
دیکھتے ہیں کہ سب یہی کر رہے ہیں تو ہم بھی اسی دلدل میں چھلانگ لگا دیتے ہیں آج کل
کے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں سوچتے ہیں کہ ہماری تنہائی میں ہمیں کوئی نہیں دیکھ رہا
حالانکہ اللہ اور اس کے فرشتے دیکھ رہے ہیں کہ کیسے ہم اپنے والدین کی عزت کو اپنے
قدموں تلے روند رہے ہیں اسلام میں جسمانی ضروتیں پوری کرنے سے نہیں روکتی اگرچہ اسے
حلال طریقے سے پورا کیا جاتا ہے کبھی سوچا ہے کہ ہماری زندگی میں کتنا باقی ہے اک لمحے
کا بھی اعتبار نہیں اگر ہویہی مر گئے تو ہم اپنا کردار چہرہ کیسے دکھائیں گے اللہ کو
چلو مان لیا تم اور کئی سال جی لوگے لیکن تمہاری جوانی تو چند سالوں تک ہیں جب یہ مانند
پڑھ جائے گی تو کچھ کرنے کی ہمت نہیں رہے گی تب اللہ کے اگے جھکنے سے کیا حاصل ہوگا
اللہ نوجوان کی توبہ پہ اتنا خوش ہوتا ہے کہ جس کا اندازہ بھی نہیں لگا سکتے تو کیوں
نہ ہم ابھی لوٹ چلیں اس اللہ کے پاس جو ہمیں ستر ماؤں سے بھی زیادہ پیار کرتا ہے اور
قیامت کے دن ہم اس ہستی کو اپنا منہ کیسے دکھائیں گے جو ہمارے لیے چودہ سو سال پہلے
ہاتھ اٹھا کر روئے تھے۔
عورت کا مقام گھر ہے اپنے گھروں میں بیٹھی رہو اور گزشتہ زمانہ جاہلیت کی
طرح بناؤ سنگھار دکھاتی نہ پھرؤ۔ سر پر دوپٹہ رکھنے سے عورت اللہ کی رحمت کے سائے میں
رہتی ہے۔ حیا بڑی دولت ہے اور جو عورت اس دولت کو سنبھال نہیں سکتی اسے آخرت میں کبھی
معافی نہیں اور جو عورت اس دولت کو سنبھال کر چلتی ہے کبھی کنگال نہیں ہوتی۔

اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ
تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۙ-فِی
الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِؕ-وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(۱۹) (پ
18، النور: 19) ترجمہ کنز الایمان: وہ لوگ جو چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بُرا چرچا
پھیلے ان کے لیے دردناک عذاب ہے دنیا اور آخرت میں اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں
جانتے۔
دکھ خوشی اور غصے کےاظہار کا طریقے انسانوں کے ساتھ
ساتھ جانوروں میں بھی پائے جاتے ہیں جبکہ شرم و حیا اس وجہ صرف انسان میں پایا جاتا
ہے اور یہ جانور انسان کے درمیان وجہ امتیاز اور ان دونوں میں فرق کی بنیادی علامات
ہے اگر لب و لہجے حرکات و سکنات اور عادات و اطوار سے شرم و حیا رخصت ہو جائے تو باقی
تمام اچھائیوں پر جاتا ہے اور دیگر تمام نیک اوصاف کی موجودگی کے باوجود اپنی وقعت
کھو دیتے ہیں جب تک انسان شرم و حیا کے حصار یعنی دائرے میں رہتا ہے ذلت و رسوائی سے
بچا رہتا ہے اور جب اس کا ایک اور ڈھا دیتا ہے تو پھر گھٹیا اور بدترین کام بھی بھری
ڈھٹائی کے ساتھ کرتا ہے رسول خدا ﷺ نے ارشاد فرمایا جب تجھ میں حیا نہ رہے تو جو چاہے
کر۔ (بخاری، 2/470، حدیث: 3484)
حدیث پاک میں ہے: جس نے اسلام میں اچھا طریقہ رائج کیا
اس کے لیے اسے رائج کرنے اور اپنے بعد اس پر عمل کرنے والوں کا ثواب ہے اور ان عمل
کرنے والوں کے ثواب میں بھی کچھ کم نہ ہوگا اور جس نے اسلام میں برا طریقہ رائج کیا
اس پر اس طریقے کو رائج کرنے اور اس پر عمل کرنے والوں کا گناہ ہے۔
یاد رکھیں اگر انسان خود شرم و حیا کے تقاضوں پر عمل
پیرا ہوگا تبھی اس کی اولاد بھی ان صفات و خصائص کے حامل ہوگی اور اگر وہ خود شرم
و حیا کا خیال نہ رکھے گا تو اس کی اولاد بھی شرم و حیا سے خالی ہوگی، آج ضرورت اس
امر کی ہے کہ حیا کو متاثر کرنے والے تمام عوامل سے دور رہا جائے اور اپنے تشخص اور
روح ایمان کی حفاظت کی جائے۔
حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: خبردار کوئی شخص کسی اجنبی
عورت کے ساتھ تنہائی میں نہیں ہوتا مگر ان کے ساتھ تیسرا شیطان ہوتا ہے۔ (ترمذی، 4/67،
حدیث: 2172)

وہ کام جو اللہ پاک اور اس کی مخلوق کے نزدیک ناپسندیدہ
ہو بے حیائی ہے۔ آج کل اتنی بے حیائی ہو گئی ہے کہ بچیاں اور عورتیں آواروں کی طرح
گھومتی ہیں۔ بدن پر پورے کپڑے نہیں سر پر دوپٹہ نہیں بے حیائی بہت بڑا عیب ہے۔ یہاں
ہم جب ماؤں بہنوں کو کہیں پردہ کرو تو وہ کہتی ہیں پردہ تو دل میں ہونا چاہیے نہیں
اگر پردہ دل میں رکھنا ہوتا تو سورۃ نور میں رب تعالیٰ یہ نہ فرماتا: اپنی خواتین کو
چادروں میں ڈالو۔
ہمارے معاشرے میں آج کل بے حیائی بہت عام ہو چکی ہے۔
لڑکیاں لڑکوں والے لباس پہن رہی ہیں۔ لڑکے لڑکیوں والے عورتیں گلیوں بازاروں میں بے
پردہ گھوم رہی ہیں۔ ملازموں چوکیداروں ڈرائیوروں سے بے تکلفی بات چیت کرنے میں شرم
محسوس نہیں کرتی اور ایسا باریک نا مکمل یا تنگ لباس پہنتی ہیں جو ستر عورت کو ظاہر
کرتا ہے۔
بے حیائی کی بات کرنا نفاق کی علامت ہے جس پر اللہ سب
سے زیادہ ناراض ہوتا ہے۔ اتنا کفر پر ناراض نہیں ہوتا جتنا اللہ بے حیائی پر ناراض
ہوتا ہے۔
یا الہی دے ہمیں بھی دولت شرم و حیا حضرت عثمان غنی باحیا
کے واسطے
اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۙ-فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِؕ-وَ
اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(۱۹) (پ
18، النور: 19) ترجمہ کنز الایمان: وہ لوگ جو چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بُرا چرچا
پھیلے ان کے لیے دردناک عذاب ہے دنیا اور آخرت میں اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں
جانتے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا کہ رسول کریم
ﷺ نے فرمایا کہ شرم و حیا ایمان کا حصہ ہے اور ایمان والا جنت میں جائے گا۔ بے حیائی
فحش گوئی برائی کا حصہ ہے اور برائی والا دوزخ میں جائے گا۔ (ترمذی، 3/406، حدیث: 2016)
نبی کریم ﷺ نے فرمایا: لوگوں نے گزشتہ انبیاء کرام کے
کلام سے جو کچھ پایا ہے اس میں سے یہ بھی ہے کہ جب تجھ میں حیا نہ رہے تو جو چاہے کر۔
(بخاری، 4/131، حدیث: 6125)
حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: حیا اور کم گوئی ایمان کے دو
شعبے ہیں اور فحش بولنا یعنی بے حیائی کی بات کرنا اور زیادہ باتیں کرنا نفاق کے دو
شعبے ہیں۔(ترمذی، 3/414،
حدیث: 2034)

وہ کام جو اللہ پاک اور اس کی مخلوق کے نزدیک ناپسندیدہ
ہو اس کام کو کرنا بے حیائی ہے بے حیائی نفاق کی علامت ہے نامحرم عورتوں کو دیکھنا
بے حیائی ہے اور عورت کا تنگ اور باریک لباس پہننا جس سے جسم کی ہیئت اور جسم دکھائی
دے یہ بھی بے حیائی ہے مردوں کا گھٹنوں سے اوپر پجامہ پہننا بے حیائی ہے اور عورتوں
کا مردوں کو دیکھنا بھی بے حیائی ہے اور ہمارے معاشرے میں یہ برائی بہت عام ہو چکی
ہے گندی باتیں کرنا یا بے حیائی کی تصویریں بنانا پھر اسے شیئر کرنا اور بے حیائی کی
باتیں سن کر اس سے لطف اٹھانا اور آنکھوں سے بے حیائی کے مناظر دیکھنا اور اپنی ماؤں
بہنوں کو بازاروں شاپنگ سینٹروں اور تفریح گاہوں وغیرہ میں بےپردہ جانے سے منع نہ کرنا
اور لڑکوں اور لڑکیوں کو اکٹھی تعلیم دلوانا اور اپنی عورتوں کو پردہ نہ کروانا اور
عورتوں کا نامحرم کو ملنا اور اس سے بے تکلف ہو کر باتیں کرنا یہ سب بے حیائی ہے اور
ہماری شریعت ہمیں حیا کا حکم دیتی ہے اور بے حیائی جیسے بڑے گناہ سے بچنے کی تلقین
کرتی ہے اور اللہ پاک نے بے حیائی کے پھیلانے والوں کی مذمت بیان فرمائی ہے اور جو
بے حیائی کرتے ہیں ان کے لیے اخرت میں عذاب ہے اللہ کا ارشاد ہے: وَّ لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِؕ-اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ
مُّبِیْنٌ(۱۶۸) اِنَّمَا
یَاْمُرُكُمْ بِالسُّوْٓءِ وَ الْفَحْشَآءِ وَ اَنْ تَقُوْلُوْا عَلَى اللّٰهِ مَا
لَا تَعْلَمُوْنَ(۱۶۹) (پ 2، البقرۃ: 168، 169) ترجمہ
کنز الایمان: اور شیطان کے قدم پر قدم نہ رکھو، بےشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔ وہ
تو تمہیں یہی حکم دے گا بدی اور بے حیائی کا اور یہ کہ اللہ پر وہ بات جوڑو جس کی
تمہیں خبر نہیں۔
نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے ارشاد فرمایا لوگوں نے گزشتہ
انبیاء کرام کے کلام سے جو کچھ پایا ہے اس میں یہ بھی ہے کہ جب تجھ میں حیا نہ رہے
تو جو چاہے کر۔ (بخاری، 4/131، حدیث: 6125)
شرم و حیا ایمان کا حصہ ہے اور ایمان والا جنت میں جائے
گا اور بے حیائی و فحش گوئی برائی کا حصہ ہے اور برائی والا دوزخ میں جائے گا۔ (ترمذی،
3/406، حدیث: 2016)
ایمان اور حیا دونوں ایک دوسرے کے ساتھی ہیں تو جب ان
میں سے ایک اٹھا لیا جاتا ہے تو دوسرا بھی اٹھا لیا جاتا ہے۔ (مستدرک للحاکم، 1/176،
حدیث:22)

وَ لَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا
ظَهَرَ مِنْهَا وَ مَا بَطَنَۚ- (پ 8، الانعام: 151) ترجمہ: اور بے
حیائی کے قریب بھی نہ جاؤ، چاہے وہ کھلی ہو یا چھپی ہوئی۔
احادیث مبارکہ کی روشنی میں بے حیائی کی مذمت:
1۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ فحش (بے حیائی) جس
چیز میں بھی ہوگا اس میں بد صورتی پیدا کر دے گا اور حیا جس چیز میں ہوگی اس میں خوبصورتی
پیدا کر دے گی۔ (ابن ماجہ، 4 / 461، حدیث: 4185)
2۔ ایک حدیث میں آقا ﷺ نے بے حیائی کی نحوست کے بارے
میں فرمایا: جب کسی قوم میں اعلانیہ طور پر بے حیائی فروغ پا جائے تو ان پر طاعون
کو مسلط کر دیا جاتا ہے اور ایسی بیماریوں میں انہیں مبتلا کر دیا جاتا ہے جن کا
پچھلی قوموں نے نام تک نہیں سنا ہوتا۔ (ابن ماجہ، 4/367، حدیث: 4019)
3۔ آقا ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ چار چیزیں سب انبیاء کرام
کی سنت ہے شرم اور عطر لگانا اور مسواک کرنا اور نکاح کرنا۔
4۔ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا حیا ایمان کا حصہ ہے ایمان
جنت میں لے جانے کا سبب ہے اور بے حیائی جفا ہے اور جفا دوزخ میں جانے کا سبب ہے۔ (ترمذی،
3/406، حدیث: 2016)
5۔ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا جو اللہ اور آخرت کے دن پر
ایمان رکھتا ہو وہ ہرگز کسی ایسی غیر محرم عورت کے ساتھ خلوت اختیار نہ کرے جس کے ساتھ
اس کا محرم نہ ہو کیونکہ ایسی صورت میں ان کے ساتھ اس شیطان ہوتا ہے۔
آج اسلام کے دشمنوں کی یہی سازش ہے کہ مسلمانوں سے کسی
طرح چادر حیا کھینچ لی جائے جب حیا ہی نہ رہے گی تو ایمان خود ہی رخصت ہو جائے گا۔
آج کل ہمارے معاشرے میں کیسی کیسی بے حیائیاں ہو رہی ہیں آئیے کچھ سنتے ہیں: بے حیائی
والی گفتگو کرنا، گالیاں دینا، بدن سے چپکا ہوا لباس پہننا، گانے باجے سننا، فلمیں
دیکھنا، بڑوں کی تعظیم نہ کرنا وغیرہ وغیرہ اس کے علاوہ اور بہت سی مثالیں ہیں۔ یاد
رکھیے حیا ایمان کا حصہ ہے
آقا ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس میں حیا نہ رہے وہ جو چاہے
کرے۔ (بخاری، 2/470، حدیث: 3484)
اللہ سے دعا ہے اللہ پاک ہمیں بے حیائی جیسی بڑی آفت
سے محفوظ رکھے اور ہمیں شرعی پردہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

دکھ، خوشی اور غصے کے اظہار کے طریقے انسانوں کے ساتھ
ساتھ جانوروں میں بھی پائے جاتے ہیں جبکہ شرم و حیا ایسا وصف ہے جو صرف انسان میں پایا
جاتا ہے اور یہ جانور اور انسان کے درمیان وجہ امتیاز اور ان دونوں میں فرق کی بنیادی
علامت ہے۔ اگر لب و لہجے،حرکات و سکنات اور عادات و اطوار سے شرم و حیا رخصت ہو جائے
تو باقی تمام اچھائیوں پر خود بخود پانی پھر جاتا ہے اور دیگر تمام نیک اوصاف کی موجودگی
کے باوجود اپنی وقعت کھو دیتے ہیں۔ جب تک انسان شرم وحیا کے حصار (دائرے) میں رہتا
ہے ذلت و رسوائی سے بچا رہتا ہے اور جب اس قلعے کو ڈھا دیتا ہے تو پھر گھٹیا و بدترین
کام بھی بڑی ڈھٹائی کے ساتھ کرتا چلا جاتا ہے۔رسول خدا ﷺ نے اسی لئے ارشاد فرمایا:
جب تجھ میں حیا نہ رہے تو جو چاہے کر۔ (بخاری، 2/470، حدیث: 3484) معلوم ہوا کہ کسی
بھی برے کام سے رکنے کا ایک سبب شرم و حیا بھی ہے۔ شرم وحیا کیا ہے؟ وہ کام جو اللہ
پاک اور اس کی مخلوق کے نزدیک ناپسند ہوں ان سے بچانے والے وصف کو شرم وحیا کہتے ہیں۔
(باحیا نوجوان، ص 7ماخوذاً)
اسلام اور حیا کا آپس میں وہی تعلق ہے جو روح کا جسم
سے ہے۔ سرکار مدینہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:بے شک حیا اور ایمان آپس میں ملے ہوئے ہیں، جب
ایک اٹھ جاتا ہے تو دوسرا بھی اٹھا لیا جاتا ہے۔ (مستدرک للحاکم، 1/176، حدیث:66) اسی
لئے اسلام کے دشمن مسلمانوں کی حیا پر وار کرتے نظر آتے ہیں۔ ڈراموں، فلموں، اشتہارات
اور مارننگ شوز وغیرہ کے نام پر معاشرے میں شرم و حیا کے سائبان (شیڈ) میں چھید (سوراخ)
کرنا کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔
اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ
تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۙ-فِی
الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِؕ-وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(۱۹) (پ
18، النور: 19) ترجمہ کنز الایمان: وہ لوگ جو چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بُرا چرچا
پھیلے ان کے لیے دردناک عذاب ہے دنیا اور آخرت میں اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں
جانتے۔
1۔
حضرت امّ خلاد رضی اللہ عنہا کا بیٹا جنگ میں شہید ہوگیا۔ یہ اپنے بیٹے کے بارے میں
معلومات حاصل کرنے کیلئے نقاب ڈالے بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئیں تو اس پر کسی نے حیرت
سے کہا: اس وقت بھی باپردہ ہیں! کہنے لگیں: میں نے بیٹا ضرور کھویا ہے،حیا نہیں کھوئی۔
(ابو داؤد، 3/9، حدیث:2488 ملتقطاً)
2۔
حیا ایمان کا حصہ ہے اور اہل ایمان جنت میں ہوں گے، بے حیائی ظلم ہے اور ظالم جہنم
میں جائیں گے۔ (ترمذی، 3/406، حدیث: 2016)
3۔
رسول اللہﷺ کا فرمان ہے: جب کسی قوم میں اعلانیہ طور پر بے حیائی فروغ پا جائے تو
ان پر طاعون کو مسلط کر دیا جاتا ہے اور ایسی بیماریوں میں انہیں مبتلا کر دیا
جاتا ہے جن کا پچھلی قوموں نے نام تک نہیں سنا ہوتا۔ (ابن ماجہ، 4/367، حدیث: 4019)
4۔
اللہ سبحانہ و تعالی سے زیادہ اور کوئی غیرت مند نہیں ہے، اسی وجہ سے اللہ نے ظاہری
اور باطنی ہر قسم کی بے حیائی کو حرام کیا ہے۔ (بخاری، 3/225، حدیث: 4637)
5۔
آپ ﷺ نے فرمایا بے حیائی جس چیز میں بھی ہو اس کو عیب دار بنا دے گی، اور حیاء جس چیز
میں ہو اس کو خوبصورت بنا دے گی۔ (ابن ماجہ، 4 / 461، حدیث: 4185)

بے حیائی اللہ کے نزدیک بہت برا فعل ہے۔ اس سے بچنے
میں ہی عافیت ہے۔بے حیائی کے بارے میں آیت مبارکہ: اِنَّ
الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا
لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۙ-فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِؕ-وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ
اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(۱۹) (پ
18، النور: 19) ترجمہ کنز الایمان: وہ لوگ جو چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بُرا چرچا
پھیلے ان کے لیے دردناک عذاب ہے دنیا اور آخرت میں اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں
جانتے۔
وَ لَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا
ظَهَرَ مِنْهَا وَ مَا بَطَنَۚ- (پ 8، الانعام: 151) ترجمہ: اور بے
حیائی کے قریب بھی نہ جاؤ، چاہے وہ کھلی ہو یا چھپی ہوئی۔
بے حیائی کے بارے میں احادیث مبارکہ:
اس شخص پر جنت حرام ہے جو بے حیائی کی بات سے کام لیتا
ہے۔ (جامع صغیر للسیوطی، ص 221، حدیث: 3648)
جب تم حیا نہ کرو تو جو چاہو کرو۔ (بخاری، 4/131، حدیث:
6125)
ایمان کی ساٹھ سے کچھ اوپر شاخیں ہیں اور حیا بھی ایمان
کی ایک شاخ ہے۔ (مسلم، ص 39، حدیث: 35)
بے حیائی جس چیز میں بھی ہو اسے عیب دار بنا دے گی اور
حیا جس چیز میں ہو اسے خوبصورت بنا دے گی۔ (ابن ماجہ، 4 / 461، حدیث: 4185)
حیا اور ایمان دونوں ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں ان میں
سے کوئی ایک بھی اٹھ جائے تو دوسرا خودبخود اٹھ جاتا ہے۔ (مستدرک للحاکم، 1/176، حدیث:22)
حیا ایمان کا حصہ ہے ایمان جنت میں پہنچاتا ہے جبکہ
بے حیائی بدکلامی سنگدلی اور سنگدلی جہنم میں پہنچاتی ہے۔ (ترمذی، 3/406، حدیث: 2016)
نبی کریم ﷺ پردہ میں رہنے والی کنوری لڑکی سے بھی زیادہ
حیا والے تھے۔ (ابن ماجہ، 4/460، حدیث:4180)
حیا ایمان کا ایک جزء ہے اور ایمان والے جنت میں جائیں
گے اور بے حیائی کا تعلق ظلم سے ہے اور ظالم جہنم میں جائیں گے۔ (ترمذی، 3/406، حدیث:
2016)
اللہ پاک ہمیں بے حیائی سے دور رہنے کی توفیق عطا فرمائےہم
پر سدا نظر رحمت فرمائےاور ہمیں ایمان پہ موت عطا فرمائے۔

بے حیائی بہت برا فعل ہے۔ معاشرے میں بے حیائی عام ہوتی
جارہی ہے۔ اللہ کے نزدیک سب سے برا کام بے حیائی ہے۔ اس سے بچنے میں ہی عافیت ہے۔
اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ
تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۙ-فِی الدُّنْیَا
وَ الْاٰخِرَةِؕ-وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(۱۹) (پ
18، النور: 19) ترجمہ کنز الایمان: وہ لوگ جو چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بُرا چرچا
پھیلے ان کے لیے دردناک عذاب ہے دنیا اور آخرت میں اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں
جانتے۔
وَ لَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا
ظَهَرَ مِنْهَا وَ مَا بَطَنَۚ- (پ 8، الانعام: 151) ترجمہ: اور بے
حیائی کے قریب بھی نہ جاؤ، چاہے وہ کھلی ہو یا چھپی ہوئی۔
پیارے آقا ﷺ نے فرمایا: اللہ سبحانہ و سے زیادہ اور
کوئی غیرت مند نہیں اسی وجہ سے الله نے ظاہری اور باطنی ہر قسم کی بےحیائی کو حرام
کیا ہے۔ (بخاری، 3/225، حدیث: 4637)
نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: حیاء ایمان کا حصہ ہے اور
ایمان جنت میں پہنچاتا ہے جبکہ بے حیائی و بدکلامی، جہنم میں پہنچاتی ہے۔ (ترمذی،
3/406، حدیث: 2016)
آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ہے حیائی جس چیز میں بھی ہو اس
کو عیب دار بنادے گی، اور حیاء جس چیز میں ہو اس کو خوبصورت بنا دے گی۔ (ابن ماجہ،
4 / 461، حدیث: 4185)
پیارے آقا ﷺ نے فرمایا: جب تجھ میں حیا نہ ہو، تو پھر
جو دل چاہے وہ کر۔ (بخاری، 4/131، حدیث: 6125)
پیارے آقا ﷺ نے ارشاد فرمایا: بے حیائی سے بچو بلا شبہ
اللہ فحش گو اور فحش گوئی دونوں کو پسند نہیں فرماتا۔
پیارے آقا ﷺ پر دے میں رہنے والی کنوری لڑکی سے بھی
زیادہ حیا والے تھے۔ (ابن ماجہ، 4/460، حدیث:4180)
الله پاک ہمیں بےحیائی سے دور رکھے اور ہمیں حیا والے
کام کرنے کی توفیق عطا کرے۔ بے حیائی سے ہمیشہ دور رکھے۔

وہ امور جو اللہ اور اسکی مخلوق کے نزدیک ناپسندیدہ
ہو بےحیائی کہلاتے ہیں۔ موجودہ دور میں ہمارے معاشرے میں بے حیائی عام ہو چکی ہے لڑکیاں
لڑکے اکٹھے پڑھتے اٹھتے بیٹھتے ہیں۔ عورتیں بے پردہ سڑکوں، بازاروں وغیرہ میں جاتی
ہیں پارکوں وغیرہ میں تو جیسے بے حیائی کا پہاڑ امڈ آیا ہو۔ عورتیں بغیر دوپٹہ ٹائٹس
اور جینز پہن کر پارکوں میں گھومتی پھرتی ہیں۔ مرد حضرات بھی اس بے حیائی میں پیچھے
نہیں رہتے۔ سڑکوں اور چونکوں وغیرہ میں بیٹھ کر بے حیائی کے بے شمار پہاڑ ا کٹھے کرتے
ہیں۔ عورتوں کو جاتے دیکھ کر ہنسا، قہقہہ لگانا۔ آوازیں کسنا و غیره شرم ناک امور کا بے جا تذکرہ کرنا وغیرہ اسی ضمن
میں ایک آیت مبارکہ ملاحظہ کرتی ہیں۔
چنانچہ قرآن پاک میں ہے۔ اِنَّ
الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا
لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۙ-فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِؕ-وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ
اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(۱۹) (پ
18، النور: 19) ترجمہ کنز الایمان: وہ لوگ جو چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بُرا چرچا
پھیلے ان کے لیے دردناک عذاب ہے دنیا اور آخرت میں اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں
جانتے۔
حدیث مبارکہ میں ہے: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے
کہا کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ شرم و حیا ایمان کا حصہ ہے اور ایمان والا جنت میں
جائے گا۔ بے حیائی و فحش گوئی برائی کا حصہ ہے اور برائی والا دوزخ میں جائے گا۔ (ترمذی،
3/406، حدیث: 2016)
نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: لوگوں نے گزشتہ انبیائے
کرام علیہ السلام کے کلام سے جو کچھ پایا ہے اس میں سے یہ بھی ہے کہ جب تجھ میں حیا
نہ رہے تو جو چاہے کر۔ (بخاری، 4/131، حدیث: 6125)
حدیث پاک میں ہے: حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: حیا اور کم
گوئی ایمان کے دو شعبے ہیں اور فحش بولنا (یعنی حیائی کی بات کرنا) اور زیادہ باتیں
کرنا نفاق کے دو شعبے ہیں۔ (ترمذی، 3/414، حدیث: 2034)
نوشیرواں کا قول ہے: چار قسم کی برائیاں چار قسم کے
افراد کے میں بہت بری ہوتی ہیں:1۔ بخل بادشاہوں میں 2۔ جھوٹ قاضیوں میں3۔ حسد علماء
میں 4۔ بے حیائی عورتوں میں۔
منقول ہے: جب تمہیں کسی کام سے خوف آئے تو اسے کر گزرو
کیونکہ اس سے بچنے کی برائی اس برائی سے بڑی ہے جس سے تم خوف کرتے ہو۔

آج کل لوگوں میں بے حیائی جیسا گناہ پایا جا رہا ہے،
بےحیائی کی تعریف کسی برے قول و فعل کو کرنے یا کہنے میں شرم محسوس نہ کرنا جو لوگوں
کے نزدیک ناپسندیدہ ہو بے حیائی کہلاتا ہے۔ اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے
وَ
لَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَ مَا بَطَنَۚ- (پ
8، الانعام: 151) ترجمہ: اور بے حیائی کے قریب بھی نہ جاؤ، چاہے وہ کھلی ہو یا
چھپی ہوئی۔
رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: مفہوم جہنمیوں کی دو جماعتیں
میں نے ابھی تک نہیں دیکھی ایک جماعت ان لوگوں کی ہوگی جن کے پاس بیل کی دم کی طرح
کوڑے ہوں گے اور وہ لوگوں کو ناحق ماریں گے دوسری جماعت ایسی عورتوں کی ہوگی جو لباس
پہننے ہوئے ہوں گے مگر اس کے باوجود بھی باریک یا تنگ لباس ہونے کی وجہ سے برہنہ ہوں
گی مردوں کو اپنی طرف مائل کرنے والی اور خود ان کی طرف مائل ہونے والی ہوں گی ان کے
سر بڑے بڑے اونٹوں کے کوہانوں کی طرح ہوں گے ایسی عورتیں جنت میں داخل ہونا تو درکنا
جنت کی خوشبو بھی نہیں سونگ گی پائیں گھی حالانکہ جنت کی خوشبو بہت دور سے سونگی جا
سکے گی۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا: مفہوم ترجمہ جب تم حیا نہ کرو
تو جو چاہو کرو (یعنی جب حیا ہی نہیں رہی تو سب برائیاں برابر ہیں)۔ (بخاری، 4/131،
حدیث: 6125)

کسی لغو یا بری بات بیان کرتے ہوئے شرم محسوس نہ کرنا
بے حیائی ہے۔ آجکل معاشرے میں بے حیائی بہت عام ہو چکی ہے اور معاذ اللہ ہمارے معاشرے
میں بے حیائی کو گناہ ہی نہیں سمجھا جانا۔ نوشیرواں کا قول ہے کہ چار برائیاں چار قسم
کے افراد میں بہت زیادہ بری ہوتی ہیں: بخل بادشاہوں میں، جھوٹ قاضیوں میں، حسد علماء
میں اور بے حیائی عورتوں میں اور جو بہادر ہوتا ہے اس کے کام آسان ہوتے ہیں اور جو
ڈر جاتا ہے وہ ناکام رہتا ہے۔ جب تمہیں کسی کام سے خوف آئے تو اسے کر گزرو کیونکہ اس
سے بچنے کی برائی اس برائی سے بڑی ہے جس سے تم خوف کرتے ہو۔
بے حیائی ایک بری صفت ہے اور الله پاک نے بے حیائی کی
مذمت فرمائی ہے۔ اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ
تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۙ-فِی
الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِؕ-وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(۱۹) (پ
18، النور: 19) ترجمہ کنز الایمان: وہ لوگ جو چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بُرا چرچا
پھیلے ان کے لیے دردناک عذاب ہے دنیا اور آخرت میں اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں
جانتے۔
بے حیا آدمی کو معاشرے میں حقیر جانا جاتا ہے۔ اور ہمارے
معاشرے میں جدید فیشن کا شوق اور مغربی تہذیب کو بہت پسند کیا جاتا ہے۔ جس میں لڑکیاں
اور لڑکے اس فیشن کو زیادہ اپنا رہے ہیں اور جو لباس لڑکے پہنتے ہیں وہی لباس لڑکیاں
پہن رہی ہیں جسطرح کا فیشن لڑکے کرتے ہیں لڑکیاں بھی اسی طرح کا فیشن اپنا رہی ہیں۔
ہمارے معاشرے میں بے حیائی عام ہو چکی ہے اور عورتیں
بے پردہ گلیوں بازاروں اور shopping سنٹر ز میں جانے سے حیا محسوس
نہیں کرتیں ملازموں، چوکیداروں، ڈرائیوروں سے بےتکلفی اور بے پردگی کرنے سے حیا نہیں
کرتی۔
نبی کریم کا فرمان ہے: لوگوں نے گزشتہ انبیاء اکرام
علیہم السلام کے کلام سے جو کچھ پایا ہے اس میں یہ بھی ہے۔ جب تجھ میں حیا نہ رہے تو
جو چاہے کر۔ (بخاری، 4/131، حدیث: 6125)
حدیث: نبی کریم ﷺ نے فرمایا: بے شک اللہ باحیا اور
پردہ کرنے والے کو پسند فرماتا ہے۔ (ابو داود، 4/56، حدیث: 4012)
نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: حیا اور کم گوئی ایمان
کے دو شعبے ہیں اور فحش بولنا (یعنی بے حیائی کی بات کرنا) اور زیادہ باتیں کرنا نفاق
کے دو شعبے ہیں۔ (ترمذی، 3/414، حدیث: 2034)

شرمناک امور گندے اور بوڑھے معاملات کا ذکر کرنا دوسروں
پر گندی نظریں جمانا۔
بے حیائی کا حکم: بےحیائی
حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے وہ لوگ جو مخلوط محفلوں جہاں مرد و عورت میں
بے پردگی ہوتی ہو مکمل بدن نہ ڈھانپنے والے لباس روشن خیالی اور مادر پدر آزادی کو
ترقی کا زینہ سمجھ کر انہیں فروغ دیتے ہیں۔ انہیں سوچنا چاہیے کہ ان میں نور ایمان
کتنا کم ہو گیا ہے ؟ حیا تو ایسا وصف ہے کہ جتنا زیادہ ہو خیر ہی بڑھاتا ہے اسی لیے
میرے آقا کریم ﷺ نے فرمایا حیا صرف خیر ہی لاتی ہے۔ (مسلم، ص 40، حدیث: 37)
معلوم ہوا کہ کسی بھی برے کام سے رکنے کا ایک سبب شرم
وحیا بھی ہے شرم و حیا کیا ہے ؟ وہ کام جو اللہ پاک اور اس کی مخلوق کے نزدیک ناپسند
ہوں ان سے بچانے والے وصف کو شرم و حیا کہتے ہیں (باحیا نوجوان، ص 7، ماخوذا)
صرف اسلام ہی ایسا مذہب ہے جو حقیقی حیا کو فروغ دیتا
ہے رسول خدا ﷺ نے ایسی تعلیمات عطا فرمائی ہیں جن پر عمل کرنا پورے معاشرے کو حیادار
بنا سکتا ہے۔ اسلامی تعلیمات فطرت انسانی میں موجود شرم و حیا کی صفت کو ابھارتی ہیں
اور پھر اس میں فکر و شور کے رنگ بھر کر ان سے انسان کا خوشنما لباس بنا دیتی ہیں رسول
خدا ﷺ کی شرم و حیا حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں مصطفے جان رحمت ﷺ کنواری
پردہ نشین لڑکی سے بھی زیادہ باحیا تھے۔ (ابن ماجہ، 4/460، حدیث:4180)
اسی لیے اسلام کے دشمن مسلمانوں کی حیا پروار کرتے نظر
آتے ہیں ڈراموں، فلموں، اشتہارات اور مارننگ شوز وغیرہ کے نام پر معاشرے میں شرم و
حیا کے سائبان (شیڑ) میں چھید(سوراخ) کرنا کسی سے پوشیدہ نہیں ہے بے شرمی اور بے حیائی
تباہی لاتے ہیں یہ ایک حقیقت ہے کہ مردوں کے اخلاق و عادات بگڑنے سے معاشرہ بگڑنے لگتا
ہے اور جب عورتوں میں یہ بیماری پھیل جائے تو نسلیں تباہ و برباد ہو جاتی ہیں لہذا
مرد ہو یا عورت اسلام دونوں کو حیا اپنانے کی تلقین کرتا ہے اور حیا کو تمام احلاقیات
کا سرچشمہ قرار دیتا ہے حدیث شریف میں ہے کہ بے شک ہر دین کا ایک خلق ہےاور اسلام کا
خلق حیا ہے۔ (ابن ماجہ، 4/460، حدیث: 4181)