وہ امور جو اللہ اور اسکی مخلوق کے نزدیک ناپسندیدہ
ہو بےحیائی کہلاتے ہیں۔ موجودہ دور میں ہمارے معاشرے میں بے حیائی عام ہو چکی ہے لڑکیاں
لڑکے اکٹھے پڑھتے اٹھتے بیٹھتے ہیں۔ عورتیں بے پردہ سڑکوں، بازاروں وغیرہ میں جاتی
ہیں پارکوں وغیرہ میں تو جیسے بے حیائی کا پہاڑ امڈ آیا ہو۔ عورتیں بغیر دوپٹہ ٹائٹس
اور جینز پہن کر پارکوں میں گھومتی پھرتی ہیں۔ مرد حضرات بھی اس بے حیائی میں پیچھے
نہیں رہتے۔ سڑکوں اور چونکوں وغیرہ میں بیٹھ کر بے حیائی کے بے شمار پہاڑ ا کٹھے کرتے
ہیں۔ عورتوں کو جاتے دیکھ کر ہنسا، قہقہہ لگانا۔ آوازیں کسنا و غیره شرم ناک امور کا بے جا تذکرہ کرنا وغیرہ اسی ضمن
میں ایک آیت مبارکہ ملاحظہ کرتی ہیں۔
چنانچہ قرآن پاک میں ہے۔ اِنَّ
الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا
لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۙ-فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِؕ-وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ
اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(۱۹) (پ
18، النور: 19) ترجمہ کنز الایمان: وہ لوگ جو چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بُرا چرچا
پھیلے ان کے لیے دردناک عذاب ہے دنیا اور آخرت میں اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں
جانتے۔
حدیث مبارکہ میں ہے: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے
کہا کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ شرم و حیا ایمان کا حصہ ہے اور ایمان والا جنت میں
جائے گا۔ بے حیائی و فحش گوئی برائی کا حصہ ہے اور برائی والا دوزخ میں جائے گا۔ (ترمذی،
3/406، حدیث: 2016)
نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: لوگوں نے گزشتہ انبیائے
کرام علیہ السلام کے کلام سے جو کچھ پایا ہے اس میں سے یہ بھی ہے کہ جب تجھ میں حیا
نہ رہے تو جو چاہے کر۔ (بخاری، 4/131، حدیث: 6125)
حدیث پاک میں ہے: حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: حیا اور کم
گوئی ایمان کے دو شعبے ہیں اور فحش بولنا (یعنی حیائی کی بات کرنا) اور زیادہ باتیں
کرنا نفاق کے دو شعبے ہیں۔ (ترمذی، 3/414، حدیث: 2034)
نوشیرواں کا قول ہے: چار قسم کی برائیاں چار قسم کے
افراد کے میں بہت بری ہوتی ہیں:1۔ بخل بادشاہوں میں 2۔ جھوٹ قاضیوں میں3۔ حسد علماء
میں 4۔ بے حیائی عورتوں میں۔
منقول ہے: جب تمہیں کسی کام سے خوف آئے تو اسے کر گزرو
کیونکہ اس سے بچنے کی برائی اس برائی سے بڑی ہے جس سے تم خوف کرتے ہو۔