اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ
تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۙ-فِی
الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِؕ-وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(۱۹) (پ
18، النور: 19) ترجمہ کنز الایمان: وہ لوگ جو چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بُرا چرچا
پھیلے ان کے لیے دردناک عذاب ہے دنیا اور آخرت میں اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں
جانتے۔
دکھ خوشی اور غصے کےاظہار کا طریقے انسانوں کے ساتھ
ساتھ جانوروں میں بھی پائے جاتے ہیں جبکہ شرم و حیا اس وجہ صرف انسان میں پایا جاتا
ہے اور یہ جانور انسان کے درمیان وجہ امتیاز اور ان دونوں میں فرق کی بنیادی علامات
ہے اگر لب و لہجے حرکات و سکنات اور عادات و اطوار سے شرم و حیا رخصت ہو جائے تو باقی
تمام اچھائیوں پر جاتا ہے اور دیگر تمام نیک اوصاف کی موجودگی کے باوجود اپنی وقعت
کھو دیتے ہیں جب تک انسان شرم و حیا کے حصار یعنی دائرے میں رہتا ہے ذلت و رسوائی سے
بچا رہتا ہے اور جب اس کا ایک اور ڈھا دیتا ہے تو پھر گھٹیا اور بدترین کام بھی بھری
ڈھٹائی کے ساتھ کرتا ہے رسول خدا ﷺ نے ارشاد فرمایا جب تجھ میں حیا نہ رہے تو جو چاہے
کر۔ (بخاری، 2/470، حدیث: 3484)
حدیث پاک میں ہے: جس نے اسلام میں اچھا طریقہ رائج کیا
اس کے لیے اسے رائج کرنے اور اپنے بعد اس پر عمل کرنے والوں کا ثواب ہے اور ان عمل
کرنے والوں کے ثواب میں بھی کچھ کم نہ ہوگا اور جس نے اسلام میں برا طریقہ رائج کیا
اس پر اس طریقے کو رائج کرنے اور اس پر عمل کرنے والوں کا گناہ ہے۔
یاد رکھیں اگر انسان خود شرم و حیا کے تقاضوں پر عمل
پیرا ہوگا تبھی اس کی اولاد بھی ان صفات و خصائص کے حامل ہوگی اور اگر وہ خود شرم
و حیا کا خیال نہ رکھے گا تو اس کی اولاد بھی شرم و حیا سے خالی ہوگی، آج ضرورت اس
امر کی ہے کہ حیا کو متاثر کرنے والے تمام عوامل سے دور رہا جائے اور اپنے تشخص اور
روح ایمان کی حفاظت کی جائے۔
حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: خبردار کوئی شخص کسی اجنبی
عورت کے ساتھ تنہائی میں نہیں ہوتا مگر ان کے ساتھ تیسرا شیطان ہوتا ہے۔ (ترمذی، 4/67،
حدیث: 2172)