فحش  فاحشہ، فواحش و فحشاء کے الفاظ عام طور بدر کاری اور عمل قوم لوط کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔

اللہ کا ارشاد ہے: اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۙ-فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِؕ-وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(۱۹) (پ 18، النور: 19) ترجمہ کنز الایمان: وہ لوگ جو چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بُرا چرچا پھیلے ان کے لیے دردناک عذاب ہے دنیا اور آخرت میں اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔

قُلْ اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّیَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَ مَا بَطَنَ (پ 8، الاعراف: 33) ترجمہ کنز الایمان: تم فرماؤ میرے رب نے تو بے حیائیاں حرام فرمائی ہیں (ف۴۹) جو ان میں کھلی ہیں اور جو چھپی۔

حدیث مبارکہ: ایمان اور حیا باہم پیوست ہیں۔ جب ان میں سے ایک اٹھ جائے تو دوسرا بھی جاتارہتا ہے۔ (مستدرک للحاکم، 1/176، حدیث:22)

نبی کریم علیہ السلام پردہ میں رہنے والی کنواری لڑکی سے بھی زیادہ حیاءوالے ہیں۔ (ابن ماجہ، 4 / 460، حدیث: 4180)

حیا ایمان کا حصہ ہے اور ایمان جنت میں پہنچاتا ہے۔ (ترمذی، 3/406، حدیث: 2016)

اخلاق باختگی اور حیا سوزی کی وبا بھی جسمانی وباؤں کے مقابلے میں کچھ کم ہلاکت نہیں ہے نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اس رب کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، یہ امت اس وقت تک فنا نہیں ہوگی جب تک وہ عورت سے اعلانیہ بدکاری کے ارتکاب کو نہ دیکھ لے اب اس میں بہتر لوگ وہ کہلائیں گے جو کہیں گے کاش تم نے یہ جرم پردے کے پیچھے کیا ہوتا۔

جب کسی قوم میں علانیہ طور پر بے حیائی فروغ پا جائے تو ان پر طاعون کو مسلط کر دیا جاتا ہے جن کا پچھلی قوموں نے نام تک نہیں سنا۔ (ابن ماجہ، 4/367، حدیث: 4019)

جب بے حیائی کسی انسان کو اپنے آہنی شکنجے میں جکڑ لیتی ہے تو اس کے نتیجے میں وہ کسی بھی قسم کے جرم کے ارتکاب میں پڑھنے سے شرم محسوس نہیں کرے گا۔ جب حیاء کا جذبہ تمہارے اندر ختم ہو جائے تو پھر تم جو چاہے کرتے پھرو، تمہیں کوئی روکنے والا نہیں۔ جہاں حیاء کے خاتمے سے انسان کا ضمیر مردہ ہو جاتا ہے وہاں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت بھی ختم ہو جاتی ہے انسان کے افعال اسکے کنٹرول سے باہر ہو جاتے ہیں۔ آخر تباہی و برباد ہی مقدر میں آتی ہے۔