پردہ حجاب گویا اسلامی شہر کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ اسلام سے قبل عورت بے پردہ تھی اور اسلام نے اسے پردہ و حجاب کے زیور سے آراستہ کر کے عظمت و کردار کی بلندی عطا فرمائی جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے: وَ قَرْنَ فِیْ بُیُوْتِكُنَّ وَ لَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِیَّةِ الْاُوْلٰى (پ 22، الاحزاب: ) ترجمہ کنز الا یمان: اور اپنے گھروں میں ٹھہری رہو اوربے پردہ نہ رہو جیسے اگلی جاہلیت کی بے پردگی۔

خلیفہ اعلی حضرت صدر الافاضل حضرت علامہ مولانا سید محمد نعیم الدین مراد ابادی رحمۃ اللہ علیہ اس آیت مبارکہ کے تحت تفسیر حزائن العرفان میں فرماتے ہیں: اگلی جاہلیت سے مراد قبل اسلام کا زمانہ ہے اس زمانے میں عورتیں اتراتی نکلتی تھیں اپنی زینت و محاسن یعنی بناؤ سنگار اور جسم کی خوبیاں مثلا سینے کے ابھار وغیرہ کا اظہار کرتی تھیں کہ غیر مرد دیکھیں۔لباس ایسے پہنتی تھیں جن سے جسم کے اعضا اچھی طرح نہ ڈھکیں۔ افسوس موجودہ دور میں بھی زمانہ جاہلیت والی بے پردگی پائی جا رہی ہیں۔ یقینا جسے اس زمانے میں پردہ ضروری تھا ویسے ہی اب بھی ہے۔

شرم و حیا صرف بھلائی کا باعث بنتی ہے محسن انسانیت نے دوسرے ادیان کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ہر دین کی ایک پہچان ہوتی ہے اور ہمارے دین کی پہچان شرم و حیا ہے۔

حیا کی غیر موجودگی کے بارے میں پیارے آقا ﷺ نے فرمایا: جب تجھ میں حیا نہ رہے تو جو چاہے کرتا رہ۔ (بخاری، 2/470، حدیث: 3484)

حیا ایمان کا حصہ ہے اور ایمان جنت میں لے جانے کا سبب ہے بے حیائی جفا ہے اور جفا دوزخ میں لے جانے کا سبب ہے۔ (ترمذی، 3/406، حدیث: 2016)حیا ان صفات میں سے ہے جن کی وجہ سے انسان کے کردار میں خوبصورتی پیدا ہوتی ہے۔

با حیا انسان دوسروں کی نظر میں بھی ایک اچھا انسان ہوتا ہے اور خدا کے ہاں بھی اس کا شمار اس کے پسندیدہ بندوں میں ہوتا ہے۔ اس لیے ہمیں بے حیائی جیسی بری صفات کو چھوڑ کر ہمیشہ شرم و حیا کا پیکر اوڑھنا چاہیے کہ بے حیائی سے معاشرے میں کوئی عزت نہیں ہوتی جبکہ حیا و شرم سے معاشرے کے تمام افراد اس کی عزت کرتے ہیں۔